اعلی درجے کی تلاش
کا
6927
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2006/10/11
سوال کا خلاصہ
کیا خلیفہ دوم نے ام کلثوم سے ازدواج کی ہے؟
سوال
کیا خلیفہ دوم نے ام کلثوم سے ازدواج کی ہے؟
ایک مختصر
عمر بن خطاب کی ام کلثوم سے ازدواج کا موضوع اگرچہ بظاہر ایک دینی اور شرعی مسئلہ ہے، لیکن پوری تاریخ میں یہ مسئلہ امام علی (ع) کی عمر بن خطاب کی خلافت کی تائید کے طور پر ایک سیاسی وسیلہ کے عنوان سے استعمال ہوا ہے، اس لئے یہ قضیہ دوسرے بہت سے تاریخی قضایا کے مانند سیاست دانوں کے استفادہ سے محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔
عمر بن خطاب کی ام کلثوم سے ازدواج کا مسئلہ ایک معرکہ آرا مسئلہ ہے، بعض نے اس مسئلہ کو مسترد کیا ہے، بعض نے اصل ازدواج کو قبول کیا ہے، لیکن ان کا اعتقاد ہے کہ چونکہ اس ازدواج کے وقت ام کلثوم بچی تھیں، اور زفاف سے پہلے عمر قتل کئے گئے۔ اس کے علاوہ ام کلثوم سے عمر بن خطاب کی ازدواج سے متعلق روایات کے سلسلہ میں متن و سند کے لحاظ سے اختلافات اس قدر ہیں کہ ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
تفصیلی جوابات
عمر بن خطاب کی ام کلثوم سے ازدواج کا موضوع اگرچہ بظاہر ایک دینی اور شرعی مسئلہ ہے، لیکن پوری تاریخ میں یہ مسئلہ، امام علی (ع) کی عمر بن خطاب کی خلافت کی تائید کے طور پر ایک سیاسی وسیلہ کے عنوان سے استعمال ہوا ہے[1]، اس لئے یہ قضیہ دوسرے بہت سے تاریخی قضایا کے مانند سیاست دانوں کے استفادہ سے محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔
عمر بن خطاب کی ام کلثوم سے ازدواج کے موضوع کے بارے میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں:
اولاً: بعض نے اصل ازدواج کو قبول کیا ہے، لیکن ان کا اعتقاد ہے کہ، چونکہ اس ازدواج کے وقت ام لثوم ایک چھوٹی بچی تھیں اور عمر ام کلثوم کے بالغ ہونے سے پہلے قتل کئے گئے اور اس طرح زفاف انجام نہیں پایا ہے۔[2]
ثانیا: بعض یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ام کلثوم کے عمر بن خطاب سے زید اور رقیہ نام کی دو اولاد تھیں۔[3]
ثالثاً: بعض نے اس مسئلہ کو بنیاد سے ہی مسترد کیا ہے اور ان کا اعتقاد ہے کہ اصلاً یہ ازدواج واقع نہیں ہوئی ہے۔[4]
یہاں پر ہم ان نظریات کے بارے میں بعض روایتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ ھشام بن سالم امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت(ع) نے فرمایا: جس وقت عمر بن خطاب نے ام کلثوم کے بارے میں خواستگاری کی، امیرالمومنین (ع) نے ان سے فرمایا: ام کلثوم ابھی چھوٹی (نابالغ) ہے۔ اس کے بعد عمر نے عباس سے ملاقات کی اور ان سے کہا: میں کیسا ہوں؟ کیا مجھ میں کوئی مشکل ہے؟ عباس نے کہا : تجھے کیا ہوا ہے؟ عمر نے کہا: میں نے آپ کے بھتیجے سے ان کی بیٹی کے بارے میں خواستگاری کی تھی اور انھوں نے انکار کیا، خدا کی قسم میں چشمہ زم زم کو بھردوں گا، آپ کے لئے کوئی فضیلت باقی نہیں رکھوں گا، مگر یہ کہ تمام فضیلتوں کو نیست و نابود کرکے رکھ دوں گا، دو گواہ آمادہ کروں گا کہ انھوں نے چوری کی ہے اور پھر ہاتھ کاٹ دوں گا۔ عباس امام علی (ع) کے پاس آگئے اور انھیں اس قضیہ سے آگاہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ اس سلسلہ میں فیصلہ ان کے ذمہ ڈال دیں، حضرت علی (ع) نے بھی اس ازدواج کا مسئلہ عباس کے سپرد کیا۔"[5] اور عمر بن خطاب کی موت کے بعد حضرت علی (ع) اسے اپنے گھر لے آئے۔[6] اس کے علاوہ اہل سنت کے بعض منابع میں آیا ہے کہ جب امام علی (ع) نے فرمایا:" ام کلثوم چھوٹی ہے" عمر نے ان سے کہا:" خدا کی قسم یہ تمھارا بہانہ  ہے اور میں خود جانتا ہوں کہ تجھے کیا تکلیف ہے"[7] عمر نے خواستگاری کے ضمن میں یہ جملہ کہکر امام علی (ع) کی بے احترامی اور توہین کی۔
2۔ علامہ مجلسی کہتے ہیں:" شیعوں کے قدیمی ( غیبت صغرا کے زمانہ کے) عالم دین نوبختی، کہتے ہیں: ام کلثوم، عمر سے ازدواج کے وقت نا بالغ اور بچی تھیں اور بالغ ہونے سے پہلے عمر فوت ہوگئے"۔[8]
اس کے علاوہ اہل سنت عالم زرقانی مالکی( متوفی1122ھ ق) کہتے ہیں:" ام کلثوم، عمر بن خطاب کی ہمسر تھیں، بالغ ہونے سے پہلے عمر فوت ہوگئے۔"[9]
3۔ ابن سعد زید اور رقیہ نام کی، عمر کی اولاد کی خبر دیتے ہیں کہ ان کی ماں ام کلثوم بن علی بن ابیطالب ہیں۔[10]
امام باقر(ع) سے نقل کیا گیا ہے کہ" ام کلثوم بن علی (ع) اور ان کا بیٹا زید بن عمر بن خطاب ایک ایسے وقت میں فوت ہوئے کہ واضح نہیں ہوا کہ ان دو میں سے کس نے پہلے رحلت کی ہے، ان دو میں سے کسی نے ایک دوسرے سے وراثت نہیں لے لی اور دونوں پر ایک ساتھ نماز پڑھی گئی۔"[11]
اس روایت کو شیعوں کے بعض اصول سے اختلاف کی وجہ سے ضعیف شمار کیا گیا ہے۔[12]
4۔ عمر کی ام کلثوم سے ازدواج کا قضیہ، صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل، مسند بزاز اور معاجم طبران( معجم کبیر، اوسط و صغیر) میں نہیں آیا ہے۔
5۔ عمر کی ام کلثوم سے ازدواج کی روایتوں کے درمیان اس قدر اختلاف ہے کہ انسان شک و شبہہ میں پڑتا ہےکہ: مثال کے طور پر بعض روایتیں کہتی ہیں:" ام کلثوم نے عمر کے لئے صرف زید کو جنم دیا۔"[13] اور بعض رقیہ کو بھی اضافہ کرتے ہیں۔[14]، بعض فاطمہ بنت عمر سے ام کلثوم کی خبر دیتے ہیں۔[15] باوجودیکہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب عمر بن خطاب نے امام علی (ع) سے ام کلثوم کے بارے میں خواستگاری کی، علی (ع) نے ان کے بچپن کا بہانہ کیا اور بعض روایتوں میں آیا ہے کہ علی بن ابیطالب (ع) نے فرمایا: میں نے اسے اپنے بھائی جعفر کے فرزندوں( میں سے ایک) کے لئے رکھا ہے[16]
6۔ ان روایتوں کے بعض متون میں آیا ہے کہ عمر نے مہاجرین سے کہا: "فئونی" یعنی مجھے مبارک کہو۔ یہ اس حالت میں ہے کہ پیغمبر(ص) نے اس کی ممانعت کی تھی، مسند احمد میں آیا ہے کہ: سالم بن عبداللہ نے کہا: عقیل بن ابیطالب نے ایک عورت سے ازدواج کی اور جب ہمارے پاس آگیا ہم نے اسے " الرفاء والبنین" کے کلمہ سے مبارکباد کہا۔ عقیل نے کہا: خاموش رہئے، " بالرقاء والبنین" نہ کہئےکہ یہ جاہلیت کی رسم ہے و رسول خدا (ص) نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اور فرمایا ہے: اس کے بجائے " بارک اللہ فیک و بارک لک فیھا" کہنا چاہئے۔"[17]
7۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ام کلثوم معاویہ کے زمانہ میں اپنے بیٹے زید کے ساتھ ایک ہی دن فوت ہوگئیں!"[18] جبکہ بعض تاریخی منابع اور مقاتل میں آیاہے کہ ام کلثوم بنت علی (ع) یزید کے زمانہ میں کربلا کے واقعہ میں حاضر تھیں اور اسیروں میں شامل تھیں۔[19] اور انھوں نے ایک خطبہ بھی پڑھا ہے۔[20]
8۔ اہل سنت کے بعض منابع میں آیا ہے کہ:" ام کلثم نے عمر کے بعد عون بن جعفر بن ابیطالب سے ازدواج کی اور ان کے بعد محمد بن جعفر سے اور ان کے بعد عبداللہ بن جعفر سے ازدواج کی ہے!"[21] جبکہ بعض دوسرے منابع میں نقل کیا گیا ہے کہ: عون بن جعفر اور محمد بن جعفر عمر کے زمانہ مین تستر (شوشتر) میں شہید ہوئے ہیں[22] البتہ اگر جنگ تستر وہی جنگ ہو کہ عمر کے زمانہ میں واقع ہوئی ہے۔
اس بنا پر عمر کی ام کلثوم سے ازدواج کو قطعی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ان روایتوں کے راویوں پر بھی جھوٹے اور ضعیف اور جعلی ساز ہونے کا الزام ہے اور متن کے لحاظ سے بھی ان روایتوں میں اشکالات پائے جاتے ہیں۔
 
[1] ۔ملاحظہ ھو: آمدى‏، سيف الدين، أبكار الأفكار فی أصول الدين، تحقيق: محمد مهدى، احمد، ج ‏5، ص 72، دار الكتب، قاهره، 1423ق‏.
[2] ۔ ابن شهر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب علیهم السلام، ج 3، ص 304، انتشارات علامه، قم، طبع اول، 1379ق
[3]۔: بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: زکار، سهیل، زرکلی، ریاض، ج 2، ص 190، دار الفکر، بیروت، طبع اول، 1417ق؛ ابن حبان تمیمی ، محمد بن حبان، الثقات، تحت مراقبت: خان(مدير دائرة المعارف عثمانية)، محمد عبد المعيد، ج 2، ص 144، دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد هند، چاپ اول، 1393ق؛ عبد الجبار، قاضی، تثبيت دلائل النبوة، ج 1، ص 246، دار المصطفى‏، شبرا، قاهره، بی‌تا؛ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عبد الموجود، عادل احمد، معوض، علی محمد، ج 8، ص 465، دار الکتب العلمیة، بیروت، طبع اول، 1415ق.   
[4] ۔ شبّر، جواد، ادب الطف أو شعراء الحسین (علیه السلام‏)، ج 1، ص 76، دار المرتضی‏، بیروت، طبع اول، 1409ق؛
[5] ۔ملاحظہ ھو: کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 5، ص 346، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407ق؛
[6] ۔ایضاً، ج 6، ص 115.
[7] ۔«فقال: إنك و الله ما بك ذلك و لكن قد علمنا ما بك»؛ ‏ ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبری‏، تحقیق: عطا، محمد عبد القادر، ج 8، ص 339، دار الکتب العلمیة، بیروت، طبع اول، 1410ق.
[8] ۔ بحار الانوار، ج 42، ص 91.
[9] ۔ شرح المواھب اللدنیة، ج 7، ص 9
[10] ۔ الطبقات واهب اللدنیّة، ج 7، ص 9.
[11] ۔ هذيب ‏الأحكام، ج 9، ص 362 – 363.
[12] ۔ اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدة و البرهان فی شرح إرشاد الأذهان، محقق و مصحح: عراقی، آقا مجتبی،  اشتهاردی، علی‌پناه، یزدی اصفهانی، آقا حسین، ‌ج 11، ص 530، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع اول، 1403ق.
[13] ۔«و قد تزوج عمر بن الخطاب في أيام ولايته بأم كلثوم بنت على بن أبى طالب من فاطمة ... فولدت له زيد ابن عمر بن الخطاب»؛ ابن کثیر دمشقی‏، أبو الفداء اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج 5، ص 309، دار الفکر، بیروت، 1407ق.
[14] ۔ نساب الاشراف، ج 2، ص 190؛ الثقات، ج 2، ص 144؛ تثبيت دلائل النبوة، ج 1، ص 246؛ الاصابة فی تمییز الصحابة، ج 8، ص 465.
[15]۔ملاحظہ ھو: انساب الاشراف، ج 1، ص 428.  
[16]۔ الطبقات ‏الكبرى، ج 8، ص 338.
[17] ۔ شیبانی، أبو عبد الله أحمد بن محمد، مسند احمد، تحقیق: الأرنؤوط، شعیب، مرشد، عادل و دیگران، اشراف: ترکی، عبد الله بن عبد المحسن، ج 3، ص 260، مؤسسة الرسالة، بیروت، طبع اول، 1421ق.
[18] ۔ انساب الاشراف، ج 1، ص 402؛ ابن اثیر جزری، علي بن أبي الكرم، أسد الغابة في معرفة الصحابة، محقق: معوض، علي محمد، عبد الموجود، عادل أحمد، ج 7، ص 377، دار الكتب العلمية، طبع اول، 1415ق.
[19] ۔ مغربی، قاضى نعمان‏، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار(ع‏)، ج 3، ص 198، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع اول، 1409ق؛
 
[20] ، سید بن طاوس، اللهوف فی قتلی الطفوف، ص 154، نشر جهان، تهران، طبع اول، 1348ش؛ ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الأحزان، ص 88، مدرسه امام مهدی، قم، طبع سوم، 1406ق.
[21] ۔ انساب الاشراف، ج 2، ص 190؛ ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقيق: تدمرى، عمر عبد السلام، ج 3، ص 45، دار الکتاب العربی، بیروت، طبع دوم، 1409ق.
[22] ۔ ابن عبدالبر، یوسف بن عبد الله‏، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق: البجاوی، علی محمد، ج 3، ص 1247، دار الجیل، بیروت، طبع اول، 1412ق؛ ابن اثیر،أبو الحسن علی بن محمد، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج 4، ص 14، دار الفکر، بیروت، 1409ق؛ الاصابة فی تمییز الصحابة، ج 4، ص 619.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا