اعلی درجے کی تلاش
کا
6628
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2009/04/16
 
سائٹ کے کوڈ fa571 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 4727
سوال کا خلاصہ
برئے مهربانی (مجتهدین کے نزدیک ) فتویٰ صادر کرنے کی بنیادوں سے متعلق مختصر توضیح دیجئے ۔
سوال
برئے مهربانی (مجتهدین کے نزدیک ) فتویٰ صادر کرنے کی بنیادوں سے متعلق مختصر توضیح دیجئے ۔
ایک مختصر

اجتهاد کے معنی لغت میں سختیوں کو تحمل کرنا، یا قدرت اور طاقت هے اور فقها کی اصلاح میں شرعی منابع اور ان کے دلائل کے ذریعه شرعی احکام کے استنباط میں نهایت درجه علمی جد جهدکرناهے شیعه فقه میں فتوےکی بنیاد پر چند اجتهاد کے منابع (قرآن ، سنت ،عقل اور اجماع) پر استوار هین لیکن ان منابع سے استنباط اور استفاده کرنے کے لئے دوسرے بهت سے علم جیسے ادبیات عرب معصوم (ع) کے زمانے مین رائج عام محاوروں سے آگاهی منابع اجتهاد کے تصدیقی و تصوری مقدمات سے واقفیت ، منطق ،اصول فقه ، علم رجال اور قرآن واحادیث وغیره سے آگاه هونے کی ضرورت هے هر فقیه کے لئے ان علوم سے آگاه هونے کے علاوه ان کے جمله مسائل میں صاحب نظر هونا ضروری هے تاکه منابع اجتهاد سے استفاده کرتے وقت ان علوم سے استفاده کر سکے ۔

تفصیلی جوابات

اجتهادی اصل میں جهد ، جیم پر زبر [1]سےهے لغت میں اس کے معنی میں سختیوں کو تحمل کرنا هے اسی طرح اگراصل میں جهد جیم پرپیش هے[2] تو طاقت وقدرت کے معنی میں هے ، اور فقهاء کی اصطلاح میں اس کا مطلب شرعی منابع کے ذریعه شرعی احکام کے استنباط اور حصول کے سلسله میں نهایت درجه علمی جد جهد کرنا هے ۔

شیعه فقه میں فتوے کی بنیاد پر چند اجتهادی منابع (قرآن ، سنت ، عقل اور اجماع) پر استوار هے لیکن ان منابع سے استنباط اور استفاده کرنے کے لئے دوسرے بهت سے علوم جیسے: ادبیات عرب ،معصوم (ع) کے زمانے میں رائج محاوروں سےآشنائی منابع اجھتهاد کی تصدیقی وتصوری بنیادوں کسے واقفیت،منطق ،اصول فقه،رجال اور قرآن واحادیث وغیره سے آگاه هونے کی ضرورت هے [3] جهاں هر فقیه کے لئے ان علوم سے واقف هونے کے علاوه ان کے جمله مسائل میں صاحب نظر هونا ضروری هے تاکه منابع اجتهاد سے استفاده کرتے وقت ان علوم سے بهرمند هوسکے ۔ مثال کے طور پر یه بات ممکن هے که ایک مجتهد علم رجال میں اپنے منتخب نظر یه کے مطابق روایات واحادیث سے استفاده کرتے وقت ایک روایت کو سند کے لحاظ سے غیر معتبر سمجھتے اور اس کی طرف استناد کرنے اور اس مسئله میں اس روایت کے سواکوئی دوسری روایت بھی نه هو تو ایسے میں یه مجتهد اس مسئله میں فتویٰ نهیں دے سکتا، جب که دوسرے مجتهد اسی روایت کی سند کو صحیح سمجھتے هوئے اس کی طرف نسبت دے کر فتویٰ دیتے هیں ، البته هر مجتهد کی صلاحیت اور تجزیه وتحلیل کی قدرت برابر نهیں هوتی اسی وجه سے ممکن هے که هر مجتهد آیات وروایات سے الگ اور مختلف نتیجه نکالے ، اسی طرح ممکن هے که ایک مجتهد کسی معین چیز کو ایک حکم کا موضوع اور مصداق قرار دے جب که دوسرا مجتهد یه نظریه نه رکھتا هو ۔

 

اب هم مزید تفصیل کی خاطر مجتهدین کے نزدیک فتویٰ دینے کے اصلی منابع [4] کتاب، سنت ، اجماع اور عقل اس کے علاوه ان میں سے هر ایک کے بعض مقدمه ( جس میں هر مجتهد کا صاحب نظرهونا ضروری هے ) کی طرف اشاره کرتے هیں:

 

۱۔ کتاب ( قرآن مجید): قرآن مجید اسلامی قوانین واحکام کا سب سے پهلا منبع هے جسے هر مسلمان قبول کرتا هے ، لیکن قرآن مجید سے احکام اور فتوے کا استنباط اس امر پر مبنی هے که ایک مجتهد اس کے تصدیقی مبادی ( مقدمه ) جیسے وحی کے اعلیٰ مفاهیم همارے لئے قابل درک و فهم هیں یا نهیں ؟ یا کلام وحی میں تغیر و تبدیلی هوئی هے یانهیں ؟ کے سلسله میں صاحب رائے و نظر هو[5]

۲۔ سنت ( معصوم (ع) کا قول ، عمل اور اس کی تائید ): واضح سی بات هے که سنت رسول خدا (ص) ( قول ، فعل اور تقریر ) کے اعتبار اور حجیت کو ثابت کرنے کی ضرورت هے لیکن قرآن مجید کے نصوص کے هوتے هوئے اس کاثابت کرنا کوئی مشکل کام نهیں هے اور نه هی بهت زیاده تحقیق کی ضرورت هے ، اسی وجه سے علماءئے اسلام نے آسانی سے اسے قبول کر لیا هے [6]اسی طرح ائمه اطهار (ع) کے قول ، عمل اور تائیدات سنت هیں اور شیعه علماء ک عقیده هے که : جس راه حل کو پیغمبر اکرم (ص) نے امت کے لئے فراهم کیا هے اور بارها اس کی وضاحت کی هے وه " معصوم اماموں (ع) کی سنت کا حجت هونا" هے [7] جیسا که آنحضرت (ص) نے فرمایا هے میں"دو گرانقدر چیزیں اپنے بعد تم لوگوں کے لئے چھوڑے جا رها هوں جو الله کی کتاب اور میری عترت هے اور جب تک تم ان دونوں سے متمسک رهوگے هرگز گمراه نه هوگے" [8] پس اگر یه ثابت هوجائے که رسول خدا (ص) ائمه (ع) کسی شرعی فریضے کو ایک مخصوص انداز میں انجام دیتے تھے یا یه که دوسرے افراد ان حضرات کی موجودگی میں کوئی کام انجام دیتے تھے اور ان حضرات کی طرف سے اس کی عملی تائید هوتی تھی یعنی یه حضرات اپنی خاموشی کے ذریعه اسے صحیح قرار دیتے تھے تو ایک فقیه کے لئے کافی هے که اس کی طرف استناد کرے ۔[9]

اس کی بحثیں جیسے :

الف: کی سنت قرآن مجید کو مقید یا مخصوص [10] کرسکتی هے ؟

ب: کیا " موقع ومحل " سنت میں اثر انداز هو سکتاهے ؟ یه وه مقدمات هیں جن کے سلسله میں ایک مجتهد کو صاحب رائے ونظر هونا چاهئے تاکه سنت کے ذریعه احکام شرعی کا استنباط کر سکے ۔

۳۔ اجماع ( ایک مسئله میں جمله فقهاکا متفق هونا )شیعه علماء کے نظریئے کے مطابق اجماع اس وقت حجت هے جب وه کاشف قول پیغمبر (ص) یا امام معصوم (ع) هو، مثال کے طور پر اگر یه معلوم هو جائے که پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں هر مسلمان کا ایک هی عقیده اور نظریه تھا اورایک هی طریقهٔ کار تھا تویه اس بات کی دلیل هے که انھوں نے رسول خدا (ص) سے حاصل کیا هے یا اگر کسی معصوم امام کے تمام صحابه ایک مسئله میں متفق تھے تو یه اس بات کی دلیل هے که انھوں نے اسے اپنے امام سے سیکھا هے یقیناً ایسا اجماع حجت هے لیکن اس لئے نهیں که خود اجماع حجت هے بلکه اس لحاظ سے که یه قول معصوم کا ضامن اور کاشف هے ۔[11]

۴۔ عقل : اسلام کی ترقی یافته تعلیمات میں جس قدر عقل کی تعریف کی گئ هے بهت هی کم چیز وں کی اس طرح تعریف هوئی هے یه تعریف اس طرح هے جس میں مختلف اعتقادی عبادی ، فردی اور اجتماعی پهلو سے صحیح کو غلط سے جدا کرنے واقعیتوں کے پهنچاننے میں عقل کی کارکردگی اور اثر اندازی کو مد نظر قرار دیا گیا هے اور ان تمام تعریفوں سے یه نتیجه نکالا جا سکتا هے که عقل اعتبار واهمیت اور ذاتی حجیت کی حامل هے جس کی تصریح خود شریعت نے بھی کی هے ۔[12] اسی وجه سے قدیم زمانے سے شیعه علماء کے درمیان عقل کی حجیت اور اعتبار احکام شرعی کی شناخت کے اصول کے عنوان سے رائج تھا [13] پس شیعه نظریئے کے مطابق عقل کی حجیت کے معنی یه هیں که اگر کسی مقام پر عقل ایک قطعی حکم دی تو وه حکم اس لحاظ سے که یقینی اور قطعی هے حجت هے ۔[14]

خلاصه ٔ کلام یه که ایک فقیه یا مجتهد ان چار منابع کے بنیاد پر اپنے اجتهادی اصول کے پیش نظر فتویٰ دیتا هے ۔

البته اس امر کی طرف توجه ضروری هے که اجتهادی اصول کی بحث بیان کرده مطالب میں هی منحصر نهیں هے ۔

مزید معلومات کے لئے آپ کو استاد هادوی تهرانی کے جزوات " تأملات دراصول فقه" کے مطالعه کی سفارش کرتے هیں ۔



[1] النهایه ،ج1، ص319۔

[2] همان ۔

[3] دیکھئے هادوی تھرانی ، مبانی کلامی اجتهاد ، ص 19- 20۔

[4] ان منابع کو فقهاء کی اصلاح میں ادله کهتے هیں ۔

[5] جنتی ، محمد ابراهیم ، منابع اجتهاد ، ج1، ص76 مزید معلومات کے لئے دیکھئے هادوی تھرانی ، مهدی ، فلسفهٔ علم اصول فقه ، دفتر چهارم ، مبادی صدوری قرآن کریم ۔

[6] البته بعض افراد نے اس سے انکار کیا هے که کتاب الام تالیف محمد بن ادریس شافعی ج7، ص 250 میں اشاره کیا گیا هے گزشته حواله ص 77۔

[7] گذشته حواله ص 86۔

[8] بحار الانوار ج23 ص 118۔

[9] مزید معلومات کے لئے دیکھئے : فلسفه علم اصول فقه، دفتر پجنم ،مبادی صدوری ولالی سنت ۔

[10] گذشته حواله ص 75۔

[11] ابو القاسم گرجی ، تاریخ فقه وفقها ،ص 68۔

[12] منابع اجتهاد ، ج1 ،ص 243۔

[13] وهی حواله ، 224۔

[14] شهید مطهری ، آشنائی با علوم اسلامی ج3، ص 19۔

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا