لفظ "فرج" {"ف" اور "ر" پر زبر کے ساتھ} لغت میں، غم و اندوہ سے رہائی اور آرام و آسائش کے معنی میں ہے[1]، اور احادیث کی کتابوں میں فرج اور آرام و آسائش حاصل کرنے کے لیے جو دعائیں اور اعمال ذکر کیے گیے ہیں، ان ہی لغوی معنی کے پیش نظر ہیں۔
ہم یہاں پر "دعائے فرج" اور "نماز فرج" کے بارے میں صرف تین موارد کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱ پیغمبراکرم{ص} سے ایک دعا نقل کی گئی ہے اور اسے "دعائے فرج" بھی کہتے ہیں: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ يَا مَنْ عَلَا فَقَهَرَ..."[2]
۲۔ وہ دعا، جو "دعائے فرج امام زمانہ عج" کے نام سے مشہور ہے اور اس میں " فرجاً عاجلاً"[3] کی عبارت آئی ہے اور "أللٌهُمَ (إلهِی) عَظُمَ البَلاءُ وَبَرِحَ الخَفَاءُ..." سے شروع ہوتی ہے[4]۔
۳۔ امام علی{ع} سے نقل کی گئی ایک نماز کا نام "نماز فرج" ہے[5]۔
لیکن "اللھم کن لولیک الفرج"۔ ۔ ۔ نام کی دعا ، اس کے معنی کے پیش نظر، دعائے فرج نہیں ہے، بلکہ ان دعاوں میں سے ہے جسے شیعہ حضرت امام زمانہ{عج} کے لیے پڑھتے ہیں اور رمضان المبارک کی ۲۳ ویں شب کے اعمال میں شمار ہوتی ہے۔ البتہ جب بھی امام زمانہ{عج} کی یاد آئے اس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے[6]۔
[1]. ابن منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، ج 2، ص 343، واژۀ «الفَرَج»، نشر دار صادر، بیروت، طبع سوم، 1414ھ؛ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، محقق و مصحح: حسینی، سید احمد، ج 2، ص 322، نشر کتابفروشی مرتضوی، تهران، طبع سوم، 1416ھ.
[2].ابن طاووس، علی بن موسی،مهج الدعوات و منهج العبادات،ص 90، دار الذخائر، قم،طبع اول، 1411ھ.
[3]. البتہ، دوسری جگہ پر دعا ، تھوڑے سے فرق کے ساتھ آئی ہے کہ " نماز امام زمانہ{عج} کے بعد پڑھی جاتی ہے؛ (ملاحظہ ہو: شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه،ج 8، ص 18، مؤسسه آل البیت (ع)، قم، طبع اول، 1409ھ.).
[4]. عاملى كفعمى، ابراهيم بن على، المصباح - جنة الأمان الواقية و جنة الإيمان الباقية، ص 176، نشر دار الرضی، قم، طبع دوم، 1405ھ.
[5].طبرسی، حسن بن فضل،مکارم الاخلاق ،ص329، شریف رضی، قم،طبع چهارم، 1412ھ.
[6].شیخ طوسی، محمد بن الحسن، تهذیب الاحکام، محقق و مصحح: خرسان، حسن الموسوی، ج3، ص103، دار الکتب الاسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407ھ؛ مفاتیح الجنان، اعمال ماه مبارک رمضان، دعای شب بیست و سوم.