نعمت کا شکر بجا لانا ایسے موضوعات میں سے ہے جو ہمارے منابع میں خاص اہمیت کے عامل ہیں[1]۔ مومن اور موحد انسان ، اپنے پروردگار اور خداوندمتعال کے بارے میں رکھنے والی صحیح معرفت اور شناخت کے پیش نظر، جو کچھ اسے اپنے پروردگار کی طرف سے ملتا ہے، اس کا شکرگزار ہوتا ہے، کیونکہ اس قسم کا انسان ، ہمیشہ اپنے فریضہ الہٰی کو بجا لاتا ہے اور حوادث، اچھے ہوں یا ناگوار، تسلیم کرتا ہے اور انہیں کمال اور سیر الی اللہ کی راہ میں شمار کرتا ہے۔
امام حسین{ع} عصر عاشورا میں، اپنے اصحاب کے درمیان اچھائی اور برائی کی ہر حالت میں حمد و ستائش بجا لاتے ہیں: " احمدہ علی السراء والضراء[2]" " میں مناسب اور اچھی حالت اور نامناسب حالت میں، خداوندمتعال کا شکر و ثنا بجا لاتا ہوں۔" حضرت{ع} کے اصحاب بھی حمد و ستائش الہٰی کو بجا لاتے تھے، کیونکہ انہیں اپنے امام{ع} کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ شہید ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی: "الحمد للّه الذی أکرمنا بنصرک وشرّفنا بالقتل معک" [3] " شکر اور ثنا اس خداوندمتعال کی جس نے ہمیں آپ{ع} کی نصرت اور مدد کرنے کی توفیق عطا کی اور آپ {ع} کے ساتھ شہید ہونا نصیب کیا۔"
اگرچہ کربلا کی خونین تحریک ایک زاویہ سے المناک مصیبت تھی، لیکن ایک دوسرے زاویہ سے اسلام و مسلمین کے لیے ایک عظیم نعمت تھی، کیونکہ سیدالشہداء {ع} اور آپ{ع} کے اصحاب کے خون کی برکت سے ، اسلام نے تباہ ہونے سے نجات پائی۔ اسلام بنی امیہ و آل ابو سفیان ، خاص کر یزید کے ہاتھوں اپنی ڈگر سے ہٹ رہا تھا اور یزید اور یزید کے حامی دین کے نام پر جو کچھ لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے وہی انجام دیتے تھے، امام حسین{ع} نے اسلام کو ایک بڑی گمراہی سے بچایا اور یہ شکر کا مقام ہے۔
اس بنا پر، ہماری نظر میں، مصیبت ایک نعمت ہے جو خدا کی طرف سے انسان کو ملی ہے، اور اس لحاظ سے قیام کربلا مسلمانوں، خاص کر شیعوں کے لیے خداوندمتعال کی ایک بڑی نعمت اور مہربانی ہے کہ ان کی زندگی کی راہ اور حق کا دفاع اور دشمن سے مبارزہ کرنے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے، اس لحاظ سے اس نعمت کا شکر بجا لانا چاہئیے۔
[1]ملاحظہ ہو : کلینی، کافی، ج 2، ص 94، باب الشکر، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365ھ ش.
[2]. مقرم، عبد الرزاق، مقتل الحسین(ع)، ص 212، مؤسسة الخرسان للمطبوعات، بیروت، 1426ھ ش.
[3]. ایضاً، ص 215.