سائٹ کے کوڈ
fa24241
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
72104
سوال کا خلاصہ
" خداوند متعال ممکن ہے اپنے حق کے بارے میں چشم پوشی کرے لیکن حق الناس کو معاف نہیں کرتا ہے۔" اس کلام کا دقیق منبع کیا ہے؟
سوال
سلام علیکم، میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ اس کلام:" خداوند متعال ممکن ہے اپنے حق کے بارے میں چشم پوشی کرے لیکن حق الناس کو معاف نہیں کرتا ہے۔" کا منبع کہاں ہے؟ کیا یہ قرآن مجید کی کوئی آیت ہے یا روایت؟
ایک مختصر
"حق الناس" اسلام میں ایک عالی ترین قانونی مفاہیم میں سے ہے۔ جس چیز میں لوگوں کا کوئی حق ہو، وہ حق الناس کے دائرے میں قرار پاتی ہے۔[1] اگر کوئی گناہگار اپنے گزشتہ گناہوں کے بارے میں بارگاہ الہی میں توبہ کرے، جب تک لوگوں کے ضائع کئے گئے حقوق کو ادا نہ کرے، اس کا توبہ قبول نہیں ہوتا ہے۔ یعنی خداوند متعال کوتاہیوں اور قصور و تقصیر میں اپنے حق کو فرد میں حقیقی ندامت آشکار ہونے کی صورت میں بخشتا ہے، لیکن لوگوں کے حق کو نہیں بخشے گا، مگر یہ کہ حتی الامکان ان کی تلافی اور رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
مذکورہ کلام، حق الناس کے بارے میں موجود بہت سی روایتوں سے لیا گیا ہے کہ اس کا دائرہ وسیع ہے۔ یہاں پر ہم ان میں سے دونمونوں کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں:" ظلم تین قسم کا ہے: ایک وہ ظلم جسے خدامعاف نہیں کرتا ہے، ایک وہ ظلم ہے جسے خدا معاف کرتا ہے اور ایک وہ ظلم جس کے بارے میں خداوند متعال پوچھ تاچھ کرے گا۔ اور جس ظلم کو خداوند متعال معاف نہیں کرے گا، وہ خدا کا شریک ٹھہرانا ہے اور جس ظلم کو خدامعاف کرے گا شخص کا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے جوخود شخص اور خدا کے درمیان ہے اور جس ظلم کے بارے میں خداوند متعال پوچھ تاچھ کرے گا، وہ لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ظلم ہے۔[2]
2۔ شہید کا زمین پر گرنے والے خون کا پہلا قطرہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے، لیکن اگر لوگوں کا مقروض ہوتو اس کا حقدار کو حق پہنچانے کے علاوہ کوئی کفارہ نہیں ہے۔"[3]
قابل ذکر ہے کہ، گناہ کے بارے میں حسرت اور ندامت کے لئے ضروری ہے کہ اسے ترک کردے، یعنی اگر ترک نماز و روزہ و حج کے مانند حق اللہ تھا، تو اس کی قضا بجا لائے اور اگر حق الناس اور مالی حقوق سے متعلق ہے، تو حقدار کوحق پہنچا دے اور اگر وہ مرگیا تو اس کے وارثوں کو ادا کرے اور اگر عرض (آبرو سے متعلق) حق ہوتو اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کرے تاکہ اس کا قصاص کیا جائے یا دیہ حاصل کریں یا اسے بخش دیں۔ پس انشا ءاللہ اس صورت میں تمام گناہ، خواہ حق اللہ ہوں یا حق الناس بخش دئے جائیں گے بشرطیکہ حقیقی توبہ بجا لایا جائے اور ہرگناہ کی اس کے تناسب سے تلافی کی جائے۔[4]
مذکورہ کلام، حق الناس کے بارے میں موجود بہت سی روایتوں سے لیا گیا ہے کہ اس کا دائرہ وسیع ہے۔ یہاں پر ہم ان میں سے دونمونوں کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں:" ظلم تین قسم کا ہے: ایک وہ ظلم جسے خدامعاف نہیں کرتا ہے، ایک وہ ظلم ہے جسے خدا معاف کرتا ہے اور ایک وہ ظلم جس کے بارے میں خداوند متعال پوچھ تاچھ کرے گا۔ اور جس ظلم کو خداوند متعال معاف نہیں کرے گا، وہ خدا کا شریک ٹھہرانا ہے اور جس ظلم کو خدامعاف کرے گا شخص کا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے جوخود شخص اور خدا کے درمیان ہے اور جس ظلم کے بارے میں خداوند متعال پوچھ تاچھ کرے گا، وہ لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ظلم ہے۔[2]
2۔ شہید کا زمین پر گرنے والے خون کا پہلا قطرہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے، لیکن اگر لوگوں کا مقروض ہوتو اس کا حقدار کو حق پہنچانے کے علاوہ کوئی کفارہ نہیں ہے۔"[3]
قابل ذکر ہے کہ، گناہ کے بارے میں حسرت اور ندامت کے لئے ضروری ہے کہ اسے ترک کردے، یعنی اگر ترک نماز و روزہ و حج کے مانند حق اللہ تھا، تو اس کی قضا بجا لائے اور اگر حق الناس اور مالی حقوق سے متعلق ہے، تو حقدار کوحق پہنچا دے اور اگر وہ مرگیا تو اس کے وارثوں کو ادا کرے اور اگر عرض (آبرو سے متعلق) حق ہوتو اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کرے تاکہ اس کا قصاص کیا جائے یا دیہ حاصل کریں یا اسے بخش دیں۔ پس انشا ءاللہ اس صورت میں تمام گناہ، خواہ حق اللہ ہوں یا حق الناس بخش دئے جائیں گے بشرطیکہ حقیقی توبہ بجا لایا جائے اور ہرگناہ کی اس کے تناسب سے تلافی کی جائے۔[4]
[2]۔ ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه و آله، محقق و مصحح: غفارى، على اكبر، ص 293، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع دوم، 1404ق.
[3]۔ شیخ صدوق، من لا يحضره الفقيه، محقق و مصحح: غفارى، على اكبر، ج 3، ص 183، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع دوم، 1413ق.
[4]۔ عنوان «آمرزش گناه کبیره»، سؤال 843. کا اقتباس۔