سائٹ کے کوڈ
fa2755
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
7207
سوال کا خلاصہ
ارسطوئی منطق اور ڈیالیٹک منطق میں کیا فرق ہے؟
سوال
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ارسطوئی منطق اور ڈیالیٹک منطق کیا کہتی ہیں اور ان کے درمیان کس چیز میں تفاوت ہے؟
ایک مختصر
منطق٬ قوانین کا ایک مجموعہ ہے کہ ان کی رعایت کرنے سے ہم غور و فکر میں غلطی سے دوچار نہیں ہوتے ہیں ـ
منطق دان٬ منطق کی یوں تعریف کرتے ہیں: "منطق٬ قوانین کا ایک مجموعہ ہے٬ جن پر عمل کرنے سے انسان کا ذہن فکر میں غلطی کرنے سے محفوظ رہتا ہے[1] ـ بہ عبارت دیگر٬ منطق ہمیں صحیح فکر کرنے کے طریقہ کو سکھاتی ہے ـ
منطق کی کئی قسمیں ہیں ـ پہلی قسم: قدیمی منطق ہے٬ یہ وہی منطق ہے جسے ارسطو نے تدوین کیا ہے ـ اس کی دوسری قسم: جدید منطق ہے٬ اس کی بھی بذات خود کئی قسمیں ہیں٬ من جملہ منطق ریاضی٬ منطق پرگماٹزم اور منطق ڈیالیٹک[2] ـ
اجمالی طور پر جب لفظ منطق اور علم منطق٬ کسی قید کے بغیر استعمال ہوتے ہیں تو اس کا مراد وہی منطق ارسطوئی ہوتا ہے کہ یہ منطق ہمیں وہی صحیح فکر کرنے کے قوانین سکھاتی ہے منطق ارسطوئی دو حصوں پر مشتمل ہے٬ پہلا حصہ: منطق صوری ہے٬ اس حصہ میں فکر کا مضمون مد نظر نہیں ہوتا ہے٬ بلکہ جو کچھـ اہم ہے وہ صرف فکر کی صورت اور اس کا قالب ہے٬ ایک عمارت کا نقشہ٬ جو عمارت کی شکل ہمارے لئے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خارج میں ایک گھر بنانا چاہتے ہو تو اس صورت اور نقشہ کے مطابق عمل کرنا پڑے گا اور یہاں تک کہ اس عمارت میں استعمال ہوئے مصالح سے کوئی کام نہیں ہے ـ لہذا٬ اس قسم کی منطق کو٬ منطق صوری کہتے ہیں٬ یعنی صرف ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ایک استدلال سے صحیح نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی شرائط کی رعایت کرنی چاہئے٬ مثال کے طور پر اگر پہلی شکل قیاس ہو تو آپ کا پہلا مقدمہ٬ جو صغری ہے٬ موجبہ ہونا چاہئے اور دوسرا مقدمہ یعنی کبری٬ کلیہ ہونا چاہئے تا کہ ایک صحیح نتیجہ پر پہنچ سکو گے ـ منطق کا دوسرا حصہ قدیم ارسطوئی منطق٬ صناعات خمس کے نام سے مشہور ہے کہ اس میں قیاس اور استدلال کے مواد کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ـ
اس بناپر منطق صوری کے قوانین٬ مطلق٬ کلی اور تمام مواد پر قابل عمل اور قابل تطبیق ہیں٬ کیونکہ اس نے طبیعت٬ عقل اور اس کی ذاتی خاصیت سے نشات پائی ہے ـ[3]
اس منطق ( منطق صوری) میں مقصد٬ فکر کرنے کے صحیح طریقہ کو پہچاننا ہے اور تصور و تصدیق کو پہچاننا ہے[4] ـ
لیکن ڈیالیٹک منطق٬ عام اور مذکورہ منطق کے معنی سے فرق رکھتی ہے ـ لفظ ڈیالیٹک٬ بہت سی فلسفی اور علمی اصطلاحات کے مانند مختلف معانی پر مشتمل ہے ـ اور فلسفہ کی تاریخ میں اس میں خاص تبدیلیاں رو نما ہوتی رہی ہیں ـ مختصر کہا جا سکتا ہے کہ ڈیالیٹک منطق٬ ہیگل کے زمانہ سے پہلے ــ جو انیسویں صدی کا ایک جرمنی فلاسفر تھا ــ بحث و استدلال کی ایک روش کے عنوان سے پہچانی جاتی تھی کہ عالم عین اور خارج سے اس کا کوئی ربط نہیں ہوتا تھا٬ لیکن ہیگل نے اپنے اعتقاد کی بناپر عین و ذہن کی وحدت کی بحث کی اور عینی مظاہر کے بارے میں ڈیالیٹک سے بھی استفادہ کیا٬ اگر چہ ہیگل کی ڈیالیٹک٬ منطقی پہلو کی بہ نسبت زیادہ تر فلسفی پہلو رکھتی ہے٬ لیکن اسے ڈیالیٹک منطق کا بانی جاننا چاہئے ـ ہیگل کے فلسفی مجموعہ کا پہلا حصہ ڈیالیٹک منطق ہے[5] ـ
ڈیالیٹک کو ہیگل یوں معرفی کرتا ہے:
"اشیاء کے وجود او ذہن میں تناقضات کا سمجھوتہ[6]" اس روش کے تیں مرحلے ہیں: موضوع٬ مخالف موضوع اور ترکیب٬ بہ عبارت دیگر ڈیالیٹک منطق کی بنیاد تین چیزوں پر مشتمل ہے: تھیسز٬ انٹی تھیسز اور سن تھیسز[7] ـ
ہیگل کی ڈیالیٹک منطق میں ایک اہم مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کی فہم و عقل میں فرق جانتا ہے اور عقل کو فہم سے بالاتر جانتا ہے اور کہتا ہے کہ ضدین اور نقیضیں کی جمع اگر چہ فہم کے لئے ناممکن ہے لیکن عقل کے لئے نہ صرف ناممکن نہیں ہے٬ بلکہ ضروری بھی ہے ـ ڈیالیٹک منطق کی بنیاد پر اشیاء کے بارے میں ہماری شناخت ہمیشہ نسبتی اور ناپائدار ہوتی ہے٬ کیونکہ تمام چیزیں حرکت اور وجود میں آنے کی حالت میں ہوتی ہیں ـ اس بناپر ڈیالیٹک منطق کے اصولوں میں سے ایک اصل حرکت ہے٬ ڈیالیٹک کہتی ہے کہ اشیاء کا حرکت اور تحول کی حالت میں مطالعہ کرنا چاہئے[8] ـ
ڈیالیٹک منطق اشیاء کو ان کے باطن سے توجیہ کرتی ہے اور انھیں خارج میں موجود علت اور توجیہ کرنے والے کا محتاج نہیں جانتی ہے٬ بہ عبارت دیگر یہ منطق ارسطوئی نظر یہ کے محرک اول٬ کہ تمام حرکتیں اس پر منتہی ہوتی ہیں٬ کو خاتمہ بخشتی ہے[9] ـ
مختصر یہ کہ ڈیالیٹک منطق٬ ایک ایسی منطق ہے کہ اس کی بنا پر اشیاء کی ماہیت کے بارے میں ہماری شناخت ہمیشہ نسبتی اور ناپائدار ہوتی ہے ـ کیونکہ تمام چیزیں حرکت اور وجود میں آنے کی حالت میں ہوتی ہیں اور ہم اشیاء کے بارے میں حقیقی شناخت پیدا نہیں کرسکتے ہیں[10] ـ
لیکن ان دو منطق کے درمیان فرق یہ ہے کہ ارسطوئی منطق میں ہم کلی عقلی اصول سے واقف ہوتے ہیں کہ من جملہ ان میں سے یہ ہے کہ اجتماع نقیضیں محال ہے٬ لیکن ڈیالٹیک منطق میں اجتماع نقیضیں نہ صرف محال نہیں ہے بلکہ ضروری بھی ہے[11] ـ ان مقدمات سے کلی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صوری منطق ہمیں کہتی ہے کہ کس طرح فکر کریں تا کہ ایک صحیح نتیجہ پر پہنچیں٬ لیکن ڈیالٹیک منطق فکر کرنے کی روش کو ہمیں نہیں سکھاتی ہے اور کہتی ہے کہ ہماری شناخت نسبتی ہے ـ
بہ عبارت دیگر ڈیالٹیک منطق اور ارسطوئی منطق کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ ارسطوئی منطق اس باور پر مبنی ہے کہ ہمارے ذہن کے ماوراء میں ثابت حقیقت موجود ہے اور اگر انسان صحیح مواد کو صحیح طریقہ سے استعمال میں لائے تو یقینی طور پر حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اور یقین کا سب سے پہلا قضیہ جو تمام یقینی قضایا کا سرچشمہ ہے٬ وہ اجتماع نقیضیں کا محال ہوتا ہے٬ لیکن ڈیالٹیک منطق میں اجتماع نقیضیں قابل قبول ہے ـ
منطق دان٬ منطق کی یوں تعریف کرتے ہیں: "منطق٬ قوانین کا ایک مجموعہ ہے٬ جن پر عمل کرنے سے انسان کا ذہن فکر میں غلطی کرنے سے محفوظ رہتا ہے[1] ـ بہ عبارت دیگر٬ منطق ہمیں صحیح فکر کرنے کے طریقہ کو سکھاتی ہے ـ
منطق کی کئی قسمیں ہیں ـ پہلی قسم: قدیمی منطق ہے٬ یہ وہی منطق ہے جسے ارسطو نے تدوین کیا ہے ـ اس کی دوسری قسم: جدید منطق ہے٬ اس کی بھی بذات خود کئی قسمیں ہیں٬ من جملہ منطق ریاضی٬ منطق پرگماٹزم اور منطق ڈیالیٹک[2] ـ
اجمالی طور پر جب لفظ منطق اور علم منطق٬ کسی قید کے بغیر استعمال ہوتے ہیں تو اس کا مراد وہی منطق ارسطوئی ہوتا ہے کہ یہ منطق ہمیں وہی صحیح فکر کرنے کے قوانین سکھاتی ہے منطق ارسطوئی دو حصوں پر مشتمل ہے٬ پہلا حصہ: منطق صوری ہے٬ اس حصہ میں فکر کا مضمون مد نظر نہیں ہوتا ہے٬ بلکہ جو کچھـ اہم ہے وہ صرف فکر کی صورت اور اس کا قالب ہے٬ ایک عمارت کا نقشہ٬ جو عمارت کی شکل ہمارے لئے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خارج میں ایک گھر بنانا چاہتے ہو تو اس صورت اور نقشہ کے مطابق عمل کرنا پڑے گا اور یہاں تک کہ اس عمارت میں استعمال ہوئے مصالح سے کوئی کام نہیں ہے ـ لہذا٬ اس قسم کی منطق کو٬ منطق صوری کہتے ہیں٬ یعنی صرف ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ایک استدلال سے صحیح نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی شرائط کی رعایت کرنی چاہئے٬ مثال کے طور پر اگر پہلی شکل قیاس ہو تو آپ کا پہلا مقدمہ٬ جو صغری ہے٬ موجبہ ہونا چاہئے اور دوسرا مقدمہ یعنی کبری٬ کلیہ ہونا چاہئے تا کہ ایک صحیح نتیجہ پر پہنچ سکو گے ـ منطق کا دوسرا حصہ قدیم ارسطوئی منطق٬ صناعات خمس کے نام سے مشہور ہے کہ اس میں قیاس اور استدلال کے مواد کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ـ
اس بناپر منطق صوری کے قوانین٬ مطلق٬ کلی اور تمام مواد پر قابل عمل اور قابل تطبیق ہیں٬ کیونکہ اس نے طبیعت٬ عقل اور اس کی ذاتی خاصیت سے نشات پائی ہے ـ[3]
اس منطق ( منطق صوری) میں مقصد٬ فکر کرنے کے صحیح طریقہ کو پہچاننا ہے اور تصور و تصدیق کو پہچاننا ہے[4] ـ
لیکن ڈیالیٹک منطق٬ عام اور مذکورہ منطق کے معنی سے فرق رکھتی ہے ـ لفظ ڈیالیٹک٬ بہت سی فلسفی اور علمی اصطلاحات کے مانند مختلف معانی پر مشتمل ہے ـ اور فلسفہ کی تاریخ میں اس میں خاص تبدیلیاں رو نما ہوتی رہی ہیں ـ مختصر کہا جا سکتا ہے کہ ڈیالیٹک منطق٬ ہیگل کے زمانہ سے پہلے ــ جو انیسویں صدی کا ایک جرمنی فلاسفر تھا ــ بحث و استدلال کی ایک روش کے عنوان سے پہچانی جاتی تھی کہ عالم عین اور خارج سے اس کا کوئی ربط نہیں ہوتا تھا٬ لیکن ہیگل نے اپنے اعتقاد کی بناپر عین و ذہن کی وحدت کی بحث کی اور عینی مظاہر کے بارے میں ڈیالیٹک سے بھی استفادہ کیا٬ اگر چہ ہیگل کی ڈیالیٹک٬ منطقی پہلو کی بہ نسبت زیادہ تر فلسفی پہلو رکھتی ہے٬ لیکن اسے ڈیالیٹک منطق کا بانی جاننا چاہئے ـ ہیگل کے فلسفی مجموعہ کا پہلا حصہ ڈیالیٹک منطق ہے[5] ـ
ڈیالیٹک کو ہیگل یوں معرفی کرتا ہے:
"اشیاء کے وجود او ذہن میں تناقضات کا سمجھوتہ[6]" اس روش کے تیں مرحلے ہیں: موضوع٬ مخالف موضوع اور ترکیب٬ بہ عبارت دیگر ڈیالیٹک منطق کی بنیاد تین چیزوں پر مشتمل ہے: تھیسز٬ انٹی تھیسز اور سن تھیسز[7] ـ
ہیگل کی ڈیالیٹک منطق میں ایک اہم مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کی فہم و عقل میں فرق جانتا ہے اور عقل کو فہم سے بالاتر جانتا ہے اور کہتا ہے کہ ضدین اور نقیضیں کی جمع اگر چہ فہم کے لئے ناممکن ہے لیکن عقل کے لئے نہ صرف ناممکن نہیں ہے٬ بلکہ ضروری بھی ہے ـ ڈیالیٹک منطق کی بنیاد پر اشیاء کے بارے میں ہماری شناخت ہمیشہ نسبتی اور ناپائدار ہوتی ہے٬ کیونکہ تمام چیزیں حرکت اور وجود میں آنے کی حالت میں ہوتی ہیں ـ اس بناپر ڈیالیٹک منطق کے اصولوں میں سے ایک اصل حرکت ہے٬ ڈیالیٹک کہتی ہے کہ اشیاء کا حرکت اور تحول کی حالت میں مطالعہ کرنا چاہئے[8] ـ
ڈیالیٹک منطق اشیاء کو ان کے باطن سے توجیہ کرتی ہے اور انھیں خارج میں موجود علت اور توجیہ کرنے والے کا محتاج نہیں جانتی ہے٬ بہ عبارت دیگر یہ منطق ارسطوئی نظر یہ کے محرک اول٬ کہ تمام حرکتیں اس پر منتہی ہوتی ہیں٬ کو خاتمہ بخشتی ہے[9] ـ
مختصر یہ کہ ڈیالیٹک منطق٬ ایک ایسی منطق ہے کہ اس کی بنا پر اشیاء کی ماہیت کے بارے میں ہماری شناخت ہمیشہ نسبتی اور ناپائدار ہوتی ہے ـ کیونکہ تمام چیزیں حرکت اور وجود میں آنے کی حالت میں ہوتی ہیں اور ہم اشیاء کے بارے میں حقیقی شناخت پیدا نہیں کرسکتے ہیں[10] ـ
لیکن ان دو منطق کے درمیان فرق یہ ہے کہ ارسطوئی منطق میں ہم کلی عقلی اصول سے واقف ہوتے ہیں کہ من جملہ ان میں سے یہ ہے کہ اجتماع نقیضیں محال ہے٬ لیکن ڈیالٹیک منطق میں اجتماع نقیضیں نہ صرف محال نہیں ہے بلکہ ضروری بھی ہے[11] ـ ان مقدمات سے کلی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صوری منطق ہمیں کہتی ہے کہ کس طرح فکر کریں تا کہ ایک صحیح نتیجہ پر پہنچیں٬ لیکن ڈیالٹیک منطق فکر کرنے کی روش کو ہمیں نہیں سکھاتی ہے اور کہتی ہے کہ ہماری شناخت نسبتی ہے ـ
بہ عبارت دیگر ڈیالٹیک منطق اور ارسطوئی منطق کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ ارسطوئی منطق اس باور پر مبنی ہے کہ ہمارے ذہن کے ماوراء میں ثابت حقیقت موجود ہے اور اگر انسان صحیح مواد کو صحیح طریقہ سے استعمال میں لائے تو یقینی طور پر حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اور یقین کا سب سے پہلا قضیہ جو تمام یقینی قضایا کا سرچشمہ ہے٬ وہ اجتماع نقیضیں کا محال ہوتا ہے٬ لیکن ڈیالٹیک منطق میں اجتماع نقیضیں قابل قبول ہے ـ
[1] مظفر، محمدرضا، المنطق، ج 1، ص 5، طبع مؤسسه نشر اسماعیلیان، 1417 هـ ق، طبع هفتم.
[2] غرویان، محسن، آموزش منطق، ص 28، طبع یازدهم، انتشارات دارالعلم، قم، 1378.
[3] خوانساری، محمد، منطق صوری، ص 18، طبع بیست و پنجم، انتشارات آگاه، 1382.
[4] ابن سینا، منطق شفا، ج 1، ص 18، طبع کتابخانه آیت الله مرعشی نجفی، قم، 1405.
[5] غرویان، محسن، آموزش منطق، ص 28.
[6] مطهری، مرتضی، مقالات فلسفی، ج 1، ص 224، انتشارات صدرا، قم، طبع اول.
[7] غرویان، محسن، آموزش منطق، ص 27.
[8] ایضاً، ص 28.
[9] مطهری، مرتضی، نقدی بر مارکیسم، ص 28، انتشارات صدرا، قم، طبع اول.
[10] مطهری، مرتضی، اصول فلسفه و روش رئالیسم، ج 1، ص 52، طبع اول، انتشارات صدرا، قم.
[11] غرویان، محسن، آموزش منطق، ص 29.