سائٹ کے کوڈ
fa36631
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
74551
گروپ
درایت حدیث,انسان و خدا,توکل
سوال کا خلاصہ
روایت میں آیا ہے کہ «و لا یدبّر العبد النفسه تدبیرا». کیا یہ روایت سفارش کرتی ہے کہ زندگی میں منصوبہ بندی نہ کی جائے؟
سوال
یہ جو عنوان بصری کی حدیث میں آیا ہے: «و لا یدبّر العبد النفسه تدبیرا» اس کے کیا معنی ہیں؟ زندگی میں عدم تدبیر کے کیا معنی ہیں؟
ایک مختصر
عنوان بصری کی حدیث میں جو جملہ آیا ہے کہ: «و لا یدبّر العبد النفسه تدبیرا».[1] اس کے معنی عدم تدبیر، بے نظمی اور زندگی میں منصوبہ بندی نہ کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان کو ایک ایسے مقام پر پہنچنا چاہئیے کہ اپنی تدبیر کو پروردگار عالم کی تدبیر کے سامنے حقیر سمجھے اور حقیقی تدبیر کو خداوند متعال کے اختیار میں پائے۔ اس حدیث میں امام (ع) سے عبودیت کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ عبودیت کی حقیقت کیا ہے؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: تین چیزوں سے اس حقیقت کو حاصل کیا جاسکتا ہے:
اول: یہ کہ جوکچھ خداوند متعال کی طرف سے بندوں کو ملا ہے اسے اپنی ملکیت نہ سمجھیں، کیونکہ خدا کے بندے مالک نہیں ہیں، ان کے پاس جوکچھ ہے خدا کی طرف سے ہے اور جہاں پر خداوند متعال حکم کرے وہیں پر خرچ کرنا چاہئے۔
دوم: بندہ اس نتیجہ پر پہنچ جائے کہ وہ ہرگز یہ طاقت نہیں رکھتا ہے کہ تنہا اپنی فکر و اندیشہ پر بھروسہ کرکے اپنے کام چلا سکتا ہے۔
سوم: اپنا تمام وقت خدا کے اوامر کو انجام دینے اور نواہی کو ترک کرنے میں صرف کرے۔
اس بنا پر، اگر بندہ، جو کچھ خدا نے اسے بخشا ہے اسے اپنی ملکیت نہ سمجھے، تو راہ خدا میں انفاق کرنا اس کے لئے آسان ہوگا، اگر کوئی بندہ اپنے امور کی تدبیر کو خداوند متعال پر چھوڑ دے اور سمجھ لے کہ اپنی عقل و تدبیر سے اپنے امور کو کماحقہ ادارہ نہیں کرسکتا ہے، تو دنیا کی گرفتاریاں اور مصائب و آلام اس کے لئے آسان و شیرین ہوں گے۔ اور اگر بندہ خداوند متعال کے امر و نہی کے سامنے سرتسلیم خم ہو جائے تو وہ کبھی لوگوں سے جدال نہیں کرے گا اور کبھی مغرور نہیں ہوگا۔
اگر خداوند متعال نے اپنے کسی بندہ کو یہ تین خصوصیات عطاکیں، تو دنیا، شیطان اور لوگ اس کی نظر میں خوار ہوتے ہیں، تو وہ شخص مال و فخر و مباہات کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کے پیچھے نہیں جاتا ہے، لوگوں سے عزت و مقام کا مطالبہ نہیں کرتا ہے، اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے اور یہ پرہیزگاروں کا پہلا درجہ ہے۔
ایک اور روایت ہے کہ، سوال میں موجود متن کے لئے ایک اور بیان پیش کرتی ہے اور وہ روایت حسب ذیل ہے: «عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ (ع) أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا قَامَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا ذَا عَرَفْتَ رَبَّكَ قَالَ بِفَسْخِ الْعَزْمِ وَ نَقْضِ الْهَمِّ لَمَّا هَمَمْتُ فَحِيلَ بَيْنِي وَ بَيْنَ هَمِّي وَ عَزَمْتُ فَخَالَفَ الْقَضَاءُ عَزْمِي عَلِمْتُ أَنَّ الْمُدَبِّرَ غَيْرِي...»؛[2]
امام محمد باقر علیہ السلام اپنے باپ سے، اپنے جد(ع) سے نقل کرتے ہیں ایک شخص ایک جلسہ میں کھڑا ہوا اور امام علی علیہ السلام سے سوال کیا: یا امیرالمومنین! آپ نے اپنے پروردگار کو کس چیز سے پہچانا ہے؟
حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: عزم و ارادہ کے فسخ سے، جس چیز کی دلبستگی کرچکا تھا وہ حاصل نہ ہوسکی، نقص سے بھی، جس چیز کی میں نے قصد و نیت کی تھی وہ درہم برہم ہوگئی۔ جب میں نے کسی چیز کا قصد کیا تو وہ چیز میرے اور میرے مقصود کے درمیان حائل بن گئی، کسی چیز کا عزم کیا تو قضا وقدر نے میرے عزم کی مخالفت کی، اس لئے میں نے سمجھا کہ تدبیر کرنے والا میرے علاوہ کوئی اور ہے۔
قابل غور بات ہے کہ امام (ع) نے نہیں فرمایا کہ میں تدبیر نہیں کرتا ہوں بلکہ فرمایا کہ کبھی میری تدبیر مطلوبہ نتیجہ تک نہیں پہنچتی ہے اور جوکچھ میں چاہتا ہوں وہ نتیجہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے میں اسی طریقہ سے درک کرتا ہوں کہ حقیقت میں تدبیر کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
مذکورہ وضاحتوں کے پیش نظر اس جملہ: «وَ لَا يُدَبِّرُ الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ تَدْبِيرا» کے معنی یہ ہیں کہ بندہ (انسان) اپنی زندگی میں کچھ منصوبہ بندیاں کرتا ہے، لیکن خداوند متعال تقدیر، قضا وقدر کو اعمال کرتا ہے، کبھی یہ قضا وقدر انسان کے منصوبہ کے مطابق قرار پاتے ہیں اور کبھی خداوند متعال کی مصلحت کچھ اور چیز ہوتی ہے اور اس طرح انسان کے منصوبہ کے مطابق قرار نہیں پاتے۔
اس موضوع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال نمبر: 8271عنوان" مراد از تدبیر بندہ و تقدیر اللہ" کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
اول: یہ کہ جوکچھ خداوند متعال کی طرف سے بندوں کو ملا ہے اسے اپنی ملکیت نہ سمجھیں، کیونکہ خدا کے بندے مالک نہیں ہیں، ان کے پاس جوکچھ ہے خدا کی طرف سے ہے اور جہاں پر خداوند متعال حکم کرے وہیں پر خرچ کرنا چاہئے۔
دوم: بندہ اس نتیجہ پر پہنچ جائے کہ وہ ہرگز یہ طاقت نہیں رکھتا ہے کہ تنہا اپنی فکر و اندیشہ پر بھروسہ کرکے اپنے کام چلا سکتا ہے۔
سوم: اپنا تمام وقت خدا کے اوامر کو انجام دینے اور نواہی کو ترک کرنے میں صرف کرے۔
اس بنا پر، اگر بندہ، جو کچھ خدا نے اسے بخشا ہے اسے اپنی ملکیت نہ سمجھے، تو راہ خدا میں انفاق کرنا اس کے لئے آسان ہوگا، اگر کوئی بندہ اپنے امور کی تدبیر کو خداوند متعال پر چھوڑ دے اور سمجھ لے کہ اپنی عقل و تدبیر سے اپنے امور کو کماحقہ ادارہ نہیں کرسکتا ہے، تو دنیا کی گرفتاریاں اور مصائب و آلام اس کے لئے آسان و شیرین ہوں گے۔ اور اگر بندہ خداوند متعال کے امر و نہی کے سامنے سرتسلیم خم ہو جائے تو وہ کبھی لوگوں سے جدال نہیں کرے گا اور کبھی مغرور نہیں ہوگا۔
اگر خداوند متعال نے اپنے کسی بندہ کو یہ تین خصوصیات عطاکیں، تو دنیا، شیطان اور لوگ اس کی نظر میں خوار ہوتے ہیں، تو وہ شخص مال و فخر و مباہات کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کے پیچھے نہیں جاتا ہے، لوگوں سے عزت و مقام کا مطالبہ نہیں کرتا ہے، اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے اور یہ پرہیزگاروں کا پہلا درجہ ہے۔
ایک اور روایت ہے کہ، سوال میں موجود متن کے لئے ایک اور بیان پیش کرتی ہے اور وہ روایت حسب ذیل ہے: «عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ (ع) أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا قَامَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا ذَا عَرَفْتَ رَبَّكَ قَالَ بِفَسْخِ الْعَزْمِ وَ نَقْضِ الْهَمِّ لَمَّا هَمَمْتُ فَحِيلَ بَيْنِي وَ بَيْنَ هَمِّي وَ عَزَمْتُ فَخَالَفَ الْقَضَاءُ عَزْمِي عَلِمْتُ أَنَّ الْمُدَبِّرَ غَيْرِي...»؛[2]
امام محمد باقر علیہ السلام اپنے باپ سے، اپنے جد(ع) سے نقل کرتے ہیں ایک شخص ایک جلسہ میں کھڑا ہوا اور امام علی علیہ السلام سے سوال کیا: یا امیرالمومنین! آپ نے اپنے پروردگار کو کس چیز سے پہچانا ہے؟
حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: عزم و ارادہ کے فسخ سے، جس چیز کی دلبستگی کرچکا تھا وہ حاصل نہ ہوسکی، نقص سے بھی، جس چیز کی میں نے قصد و نیت کی تھی وہ درہم برہم ہوگئی۔ جب میں نے کسی چیز کا قصد کیا تو وہ چیز میرے اور میرے مقصود کے درمیان حائل بن گئی، کسی چیز کا عزم کیا تو قضا وقدر نے میرے عزم کی مخالفت کی، اس لئے میں نے سمجھا کہ تدبیر کرنے والا میرے علاوہ کوئی اور ہے۔
قابل غور بات ہے کہ امام (ع) نے نہیں فرمایا کہ میں تدبیر نہیں کرتا ہوں بلکہ فرمایا کہ کبھی میری تدبیر مطلوبہ نتیجہ تک نہیں پہنچتی ہے اور جوکچھ میں چاہتا ہوں وہ نتیجہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے میں اسی طریقہ سے درک کرتا ہوں کہ حقیقت میں تدبیر کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
مذکورہ وضاحتوں کے پیش نظر اس جملہ: «وَ لَا يُدَبِّرُ الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ تَدْبِيرا» کے معنی یہ ہیں کہ بندہ (انسان) اپنی زندگی میں کچھ منصوبہ بندیاں کرتا ہے، لیکن خداوند متعال تقدیر، قضا وقدر کو اعمال کرتا ہے، کبھی یہ قضا وقدر انسان کے منصوبہ کے مطابق قرار پاتے ہیں اور کبھی خداوند متعال کی مصلحت کچھ اور چیز ہوتی ہے اور اس طرح انسان کے منصوبہ کے مطابق قرار نہیں پاتے۔
اس موضوع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال نمبر: 8271عنوان" مراد از تدبیر بندہ و تقدیر اللہ" کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔