سائٹ کے کوڈ
fa53108
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
74552
گروپ
قرآنی علوم
سوال کا خلاصہ
قرآن مجید کے بعض الفاظ کیوں غلط لکھے گئے ہیں؟
سوال
سورہ یوسف کی آیت نمبر 32 میں، لفظ "لیکوناً" میں نون تاکید تنوین سے لکھا گیا ہے،مہربانی کرکے اس کی وجہ بیان فرمائیے۔
ایک مختصر
قرآن مجید کے مفاہیم اور الفاظ آسمانی اور الہی ہیں جو خداوند متعال کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوتے ہیں۔ اور آنحضرت (ص) لوگوں کے لئے قرائت فرماتے تھے۔ لیکن اس شفاہی الفاظ و عبارتوں کو لکھنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر چھوڑدی گئی، جو افراد"کتّاب وحی" کے عنوان سے ملقب ہوئے اور ان کے سر فہرست امام علی (ع) تھے۔
جو کچھ قرآن مجید کی کتابت میں، مختلف نظریات بیان کرنے کا سبب بنا ہے، قرآن مجید کے بعض الفاظ کا تحریر کے قواعد سے مختلف ہوتا ہے۔ بہت سے الفاظ کو شاہد کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے، جیسے: «سَأُوریکُم»،[1] «الئَیکَةِ»[2] و «امرَأتُ».[3] اگر چہ تحریر میں اختلاف، تلفظ میں اختلاف پیدا نہیں کرتا ہے، لیکن اس قسم کی تحریر موجود ہونے کی علت کے بارے میں دونظریات پائے جاتے ہیں:
1۔ تحریر کی غلطی ( املاء کی غلطی)، چونکہ عرب، پیغمبر(ص) کے زمانہ میں تازہ لکھنا شروع کرچکے تھے اور ان کا خط ابتدائی مرحلہ میں تھا، وہ تحریر کی ہنر سے آگاہ نہیں تھے اورصحیح تحریر وتالیف کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس لحاظ سےاکثر مواقع پر تلفظ کے برعکس الفاظ لکھے جاتے تھے، مثال کے طور پر نون کو تنوین کی صورت میں لکھتے تھے، مثلاً " لسفعاً" یا حرف یاء کو لفظ سے جدا لکھتے تھے، مثلاً "یستحی ی"[4]
2۔ ان تحریروں میں اسرار کا پوشیدہ ہونا: بعض کا کہنا ہے کہ تحریر میں ان اختلافات کے اپنے خاص اسرار ہیں، مثال کے طور پر اگر لفظ " یایید" دو"یاء" سے لکھا جاتا ہے، وہ اس لئے ہے کہ یہ لفظ جو پروردگار کی قدرت دکھانے والا ہے، انسان کے مادی ہاتھوں یکسان مدنظر نہ رکھا جائے اور اگر لفظ " یدع الانسان" اور " یمح اللہ" میں حرف " واو" حذف ہوا ہے، تو یہ اس فعل کے فوری واقع ہونے اور اس کام کا فاعل کے لئے آسان ہونے اور فعل کے منفعل (مفعول) کے توسط سے شدت کے ساتھ قبول کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علمائے اسلام نے خط عثمانی میں تغییر دینا حرام جانا ہے۔[5]
چونکہ اس اختلاف کی علت کے بارے میں علماء کا نظریہ متفاوت ہے، اس لئے ان الفاظ کے صحیح طور پر لکھنے کے بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض کا اعتقاد ہے ان غلطیوں کی اصلاح کی جانی چاہئے اور اپنے آپ کو اس رسم الخط کے مقید نہیں بنانا چاہئے۔ بعض دوسرے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسی رسم الخط کے مقید ہونا چاہئے اور اس میں تغییر ایجاد کرنے سے پرہیز کرنی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں: قرآن مجید کا ظاہر اسی صورت میں باقی رہنا چاہئے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں لکھا گیا ہے، تاکہ کسی قسم کی تحریف کا خطرہ اس میں اثر رسوخ پیدا نہ کرسکے، حتی طرز تحریر کے بارے میں بھی یہاں تک کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تحریر بھی شعائر دینی کا حصہ ہے اور اس کا تحفظ واجب ہے اور اس میں تغییر انجام دینا حرام ہے۔[6]
جو افعال تنوین سے لکھے گئے ہیں، قابل ذکر ہے کہ کل قرآن مجید میں صرف دو فعل "لیکونن" اور" لنسفعن" کو تنوین کی صورت میں "لیکوناً"[7] اور "لنسفعاً"[8] لکھا گیا ہے۔ ان دو افعال کے آخر پر جوحرف "نون" ہے، وہ نون تاکید خفیفہ ہے کہ صرف ان دو افعال میں استعمال ہوا ہے۔ ( اس کے برخلاف نون تاکید نقلیہ، قرآن مجید میں کافی استعمال ہوا ہے)۔ ان دو افعال کو تنوین کی صورت میں لکھنے سے ان دو افعال کے تلفظ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہے، کیونکہ احکام نون تاکید خفیفہ ما قبل مفتوح، احکام نون نصف کے مانند ہیں، یعنی وصل کے وقت، "نون" ساکن کی صورت میں ما قبل مفتوح پڑھا جاتا ہے اور وقف کے وقت"الف" میں تبدیل ہوتا ہے۔[9] ان دو افعال کو تنوین میں لکھنے سے ان کا تلفظ آسان ہوتا ہے اور قرآن سیکھنے والے نون تاکید خفیفہ کے احکام سیکھنے سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ یہ دو الفاظ، قرآن مجید کے تمام مصحفوں (نسخوں) میں اسی صورت میں لکھے گئے ہیں۔[10]
جو کچھ قرآن مجید کی کتابت میں، مختلف نظریات بیان کرنے کا سبب بنا ہے، قرآن مجید کے بعض الفاظ کا تحریر کے قواعد سے مختلف ہوتا ہے۔ بہت سے الفاظ کو شاہد کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے، جیسے: «سَأُوریکُم»،[1] «الئَیکَةِ»[2] و «امرَأتُ».[3] اگر چہ تحریر میں اختلاف، تلفظ میں اختلاف پیدا نہیں کرتا ہے، لیکن اس قسم کی تحریر موجود ہونے کی علت کے بارے میں دونظریات پائے جاتے ہیں:
1۔ تحریر کی غلطی ( املاء کی غلطی)، چونکہ عرب، پیغمبر(ص) کے زمانہ میں تازہ لکھنا شروع کرچکے تھے اور ان کا خط ابتدائی مرحلہ میں تھا، وہ تحریر کی ہنر سے آگاہ نہیں تھے اورصحیح تحریر وتالیف کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس لحاظ سےاکثر مواقع پر تلفظ کے برعکس الفاظ لکھے جاتے تھے، مثال کے طور پر نون کو تنوین کی صورت میں لکھتے تھے، مثلاً " لسفعاً" یا حرف یاء کو لفظ سے جدا لکھتے تھے، مثلاً "یستحی ی"[4]
2۔ ان تحریروں میں اسرار کا پوشیدہ ہونا: بعض کا کہنا ہے کہ تحریر میں ان اختلافات کے اپنے خاص اسرار ہیں، مثال کے طور پر اگر لفظ " یایید" دو"یاء" سے لکھا جاتا ہے، وہ اس لئے ہے کہ یہ لفظ جو پروردگار کی قدرت دکھانے والا ہے، انسان کے مادی ہاتھوں یکسان مدنظر نہ رکھا جائے اور اگر لفظ " یدع الانسان" اور " یمح اللہ" میں حرف " واو" حذف ہوا ہے، تو یہ اس فعل کے فوری واقع ہونے اور اس کام کا فاعل کے لئے آسان ہونے اور فعل کے منفعل (مفعول) کے توسط سے شدت کے ساتھ قبول کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علمائے اسلام نے خط عثمانی میں تغییر دینا حرام جانا ہے۔[5]
چونکہ اس اختلاف کی علت کے بارے میں علماء کا نظریہ متفاوت ہے، اس لئے ان الفاظ کے صحیح طور پر لکھنے کے بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض کا اعتقاد ہے ان غلطیوں کی اصلاح کی جانی چاہئے اور اپنے آپ کو اس رسم الخط کے مقید نہیں بنانا چاہئے۔ بعض دوسرے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسی رسم الخط کے مقید ہونا چاہئے اور اس میں تغییر ایجاد کرنے سے پرہیز کرنی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں: قرآن مجید کا ظاہر اسی صورت میں باقی رہنا چاہئے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں لکھا گیا ہے، تاکہ کسی قسم کی تحریف کا خطرہ اس میں اثر رسوخ پیدا نہ کرسکے، حتی طرز تحریر کے بارے میں بھی یہاں تک کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تحریر بھی شعائر دینی کا حصہ ہے اور اس کا تحفظ واجب ہے اور اس میں تغییر انجام دینا حرام ہے۔[6]
جو افعال تنوین سے لکھے گئے ہیں، قابل ذکر ہے کہ کل قرآن مجید میں صرف دو فعل "لیکونن" اور" لنسفعن" کو تنوین کی صورت میں "لیکوناً"[7] اور "لنسفعاً"[8] لکھا گیا ہے۔ ان دو افعال کے آخر پر جوحرف "نون" ہے، وہ نون تاکید خفیفہ ہے کہ صرف ان دو افعال میں استعمال ہوا ہے۔ ( اس کے برخلاف نون تاکید نقلیہ، قرآن مجید میں کافی استعمال ہوا ہے)۔ ان دو افعال کو تنوین کی صورت میں لکھنے سے ان دو افعال کے تلفظ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہے، کیونکہ احکام نون تاکید خفیفہ ما قبل مفتوح، احکام نون نصف کے مانند ہیں، یعنی وصل کے وقت، "نون" ساکن کی صورت میں ما قبل مفتوح پڑھا جاتا ہے اور وقف کے وقت"الف" میں تبدیل ہوتا ہے۔[9] ان دو افعال کو تنوین میں لکھنے سے ان کا تلفظ آسان ہوتا ہے اور قرآن سیکھنے والے نون تاکید خفیفہ کے احکام سیکھنے سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ یہ دو الفاظ، قرآن مجید کے تمام مصحفوں (نسخوں) میں اسی صورت میں لکھے گئے ہیں۔[10]
[1]. انبیاء، 37.
[2]. کهف، 2.
[3]. آل عمران، 34.
[4] ۔ معرفت، محمد هادی، التمهید، ج 2، ص 14 – 15، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، طبع دوم، 1415ق.
[5] ۔ اسماعیل شلبی، عبدالفتاح، رسم المصحف العثمانی، ص 104، قاهره، مکتبه وهبه، طبع چهارم، 1419ق.
[6] ۔ حسن زاده آملی، حسن، قرآن هرگز تحریف نشده، ص 70 - 71، قم، قیام، طبع سوم، 1376ش.
[7] ۔ یوسف، 32.
[8] ۔ علق، 15.
[9]۔ عباس حسن، النحو الوافی، ج 4، ص 182، دارالمعارف، طبع پانزدهم.
[10] ۔ غانم قدوری الحمد، رسم المصحف، ص 221، عمان، دار عمار، طبع اول، 1425ق.