لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان رابطہ ایک نازک اور حساس مسئلہ ہے، اگر اس میں شرعی اور اخلاقی حدود کی رعایت نہ کی جائے تو ممکن ہے کہ ایسے افراد مشکلات سے دوچار ہوجائیں گے- اس لئے اسلام کے شرعی اور اخلاقی دستور اس اصول پر مبنی ہیں کہ نامحرم مرد اور عورت کے درمیان کم ترین رابطہ برقرار ہونا چاہئے کیونکہ ایسے رابطہ میں گناہ کے مرتکب ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں اور کافی حد تک لغزش کے مواقع فراہم ہوتے ہیں، خاص کر اگر یہ رابطہ صمیمی اور خاص صورت میں ہو- اس بناپر فہمائش کی جاتی ہے کہ کام اور تعلیم کے سلسلہ میں بهی جنس مخالف کے ساتھ کم از کم رابطہ برقرار کرنےپر اکتفا کرنا چاہئیے اور غیر ضروری مواقع پر عادی رابطہ بر قرار کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہئے-
جوانوں کو پیش آنے والے اکثر اخلاقی مفاسد ان ہی روابط کا نتیجہ ھوتے ہیں، لیکن ابتداء میں یہ رابطہ کسی خاص اہمیت کا نہیں لگتا ہے اور انسان تصور نہیں کرتا ہے کہ کوئی خطرہ در پیش ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں جذبات ابھر جائیں گے، لیکن ان روابط کے گہرے اور صمیمی ھونے کے بعد ، روحی لطائف اور معنوی حساسیتیں رفتہ رفتہ کم ھوتی ہیں اور عارضی جذبات اور دل لگی اور محبت عمل میں آتی ہے اور اس وقت ان روابط کے برے اثرات رونما ھوسکتے ہیں- البتہ ممکن ہے بعض افراد اس قدر خود اعتمادی کے مالک ھوں کہ ایسے مواقع پر ہرگز مشکلات سے دوچار نہ ھوں، لیکن یہ ایک استثناء ہے-
اس کے علاوہ اس لڑکے کے ساتھ رابطہ کی کیا ضرورت ہے جسے اپ جاری رکهنا چاہتی ہیں- اگر حقیقت میں آپ دونوں کے درمیان کوئی صمیمیت نہیں پائی جاتی ہے تو ایک دوسرے سے جدائی آپ دونوں کے لئے کیوں اس قدر تکلیف دہ ہے؟ یہ جو آپ کہتی ہیں کہ فون پر رابطہ کے دوران آپ دونوں نے آپس میں محبت کا اظہار نہیں کیا ہے، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ آپس میں محبت اور وابستگی نہیں رکهتے ہیں- آپ کو اس بات پر توجہ کرنی چاہئے کہ بڑے گناہ ابتدا میں چهوٹی چیزوں سے شروع ہوتے ہیں جنھیں عام طور پر کوئی خاص چیز شمار نہیں کیا جاتا ہے-
ازدواج سے پہلے روابط جس قدر سالم اور پاک تر ہوں، آپ کی آئندہ زندگی کے لئے مفید ہیں، حتی کہ اگر آپ اسی لڑکے سے شادی بهی کریں، تب بھی آپ کی طرف سے روابط کو منقطع کرنے کے عمل کو ہم اسی زاویہ سے دیکهتے ہیں-
اس قسم کی احتیاط اچهی اور معقول ہے- امیرالمومنین حضرت علی {ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ جوان عورتوں کو سلام کرنے میں پہل نہیں کرتے تهے اور فرماتے تهے: "میں ڈرتاہوں کہ کہیں ان کی طرف سے سلام کا جواب سننے کے سبب میرے دل میں کوئی ایسی چیز داخل ہوجائے جس کا نقصان سلام کا جواب دینے کے ثواب سے زیادہ ہو-[1] حضرت موسی {ع} کی سرگزشت میں آیا ہے کہ جب حضرت شعیب {ع} کی بیٹی حضرت موسی{ع} کی اپنے گهر کی طرف راہنمائی کرتی تهیں، تو وہ حضرت موسی{ع} کے آکے آگے چل رہی تهیں اور حضرت موسی {ع} ان کے پیچھے جارہے تهے، لیکن جب اس لڑکی کے لباس سے ہوا ٹکرانے لگی، تو حضرت موسی {ع} نے لڑکی سے کہا کہ: میں آگے چلوں گا اور دوراہوں پر میری راہنمائی کرنا-[2] اس طرح حضرت موسی {ع} نے اپنی عفت اور شرم و حیا کا مظاہرہ کیا- اس بنا پر جن مواقع پر اولیائے الہی اس طرح احتیاط سے کام لیتے ہیں تو دوسرے لوگوں کا بھی فریضہ ظاہر ہے- اس بناپر نامحرم کی آواز سننا بهی ممکن ہے انسان کے دل میں منفی اثر ڈالے- البتہ ممکن ہے کہ انسان اپنے لئے ایسے مواقع پر کچھ توجیہات پیش کرے، مثال کے طور پر کوئی ضروری کام ہے اور یا اس قسم کا رابطہ، فطری اور انسانی ہے وغیرہ، لیکن توجہ کی جانی چاہئے کہ یہ ایسی توجیہات ہیں جنهیں انسان کا نفس امارہ اور شیطان فرائض سے فرار کرنے کے لئے پیش کرتا ہے اور اس سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے- نامحرم لڑکے اور لڑکی کے درمیان رابطہ جس قدر زیادہ ہو اور ان کی ایک دوسرے سے محبت جس قدر عمیق تر ہو اس سے اجتماعی اور خاندانی روابط پر زیادہ منفی اثرات پڑتے ہیں اور خدا کی محبت اور تقرب حاصل کرنا مشکل تر ہوجاتا ہے اوراس قسم کی ناپائدار لذتیں انسان کو پائدار لذتوں سے محروم کردیتی ہیں-
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین حسب ذیل ہیں:
سؤال 1044 (سایت: 1110) (اسلام و ارتباط سالم بین پسر و دختر).
سؤال 3184 (سایت: 3430) (ارتباط با دوست دختر قبل از ازدواج).
سؤال 6086 (سایت: 6278) (ارتباط قبل از ازدواج)
[1] کلینی، اصول كافى، ج 2، ص 648، ح 1، باب التسليم على النساء.
[2] مکارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 16، ص 59، دار الكتب الإسلامية، ٰطبع تهران، طبع اول، 1374 ش؛ فخرالدين رازى، ابوعبدالله محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج 24، ص 590، دار احياء التراث العربى، بيروت، طبع سوم، 1420 هجری.