اس موضوع کے بارے میں مراجع تقلید کے نظریات میں فرق پایا جاتا ہے۔ آپ پہلے اپنے مرجع تقلید کو معین کیجئیے تاکہ اس کا دقیق تر جواب دیا جائے۔ بہرحال ہم چند مراجع محترم تقلید کے نظریات کو ذیل میں بیان کرتے ہیں:
حضرات آیات: امام خمینی، بہجت اور خامنہ ای: اگر انجکشن غذائی یا تقویتی ہو، تو احتیاط واجب کی بنا پر اس انجکشن کو لگانے سے پرہیز کرنا چاہئِے لیکن اگر صرف دوائی کا پہلو رکھتا ہو یا عضو کو بے ہوش کرتا ہو تو یہ انجکشن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فاضل: اگر انجکشن غذائی اور تقویتی ہو، تو اس انجکشن کو لگانے سے اجتناب کرنا چاہئیے لیکن اگر انجکشن دوائی یا عضو کو بے ہوش کرتا ہو تو یہ انجکشن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تبریزی، سیستانی، صافی، نوری، وحید: انجکشن کرنا روزہ کو باطل کرتا ہے، خواہ غذائی انجکشن ہو یا تقویتی یا دوائی وغیرہ ہو[1]۔
آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی {دامت برکاتہ} کا جواب:
انجکشن اور ڈرپ لگانا، کھانا پینا شمار نہیں ہوتا ہے اور روزہ کو باطل نہیں کرتا ہے، اگرچہ بہتر ہے تقویتی اور غذائی انجکشن اور ڈرپ لگانے سے اجتناب کیا جائے۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو:
۱۔ عنوان: " روزہ و مصرف دارو" سوال نمبر:2986 {سائٹ:3479}
۲۔ عنوان: "استفادہ از سپری درحال روزہ" سوال 19901{سائٹ: 19169}
[1]توضیح المسائل مراجع،ج1، ص 892، م 1576؛آیت الله خامنه ای، اجوبة الاستفتاءات،سؤال 767،آیت الله وحید خراسانی،توضیح المسائل، م 4851.