سائٹ کے کوڈ
id21849
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
47265
سوال کا خلاصہ
عائشہ کس طرح وفات پاگئیں؟
سوال
شیعہ وسنی منابع کے مطابق عائشہ نے کس طرح وفات پائی ہے؟
ایک مختصر
عائشہ کی وفات کی کیفیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ منابع اہل سنت ان کی موت کو فطری جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سنہ۵۸ ھ میں عائشہ نے وفات پائی اور ابوہریرہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ لیکن اس سے پہلے لکھا ہے کہ ابوہریرہ بھی اسی سال اس دنیا سے چلے گئے۔[1] عائشہ کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔
لیکن بعض منابع شیعہ، معاویہ کو عائشہ کی موت کا عامل جانتے ہیں۔ سید بن طاؤس نے اس سلسلہ میں کتاب“ اوائل الاشتباہ” تالیف ابو عروبہ ﴿ وفات ۳١۸ھ﴾[2] سے دوروایتیں نقل کی ہیں۔
ابو عروبہ نے اپنی پہلی روایت میں یوں لکھا ہےکہ: “ معاویہ مدینہ میں پیغمبر ﴿ص﴾ کے منبر پر یزید کے لئے بیعت لینے میں مشغول تھا، کہ عائشہ نے اپنے کمرے سے آواز بلند کی:“ خاموش ھو جاؤ! خاموش ھوجاؤ! کیا یہی رسم ہے کہ بزرگ افراد اپنے بیٹے کے حق میں بیعت لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں؟ معاویہ نے جواب میں کہا: نہیں۔ عائشہ نے کہا: پس اس کام میں تم نے کس کی اقتداء کی ہے اور کس کی سنت کی پیروی کرتے ھو؟ معاویہ شرم کے مارے شرمندہ ھوکر منبر سے نیچے اترا اور ایک چاہ کھودا اور مکر و فریب سے عائشہ کو اس چاہ میں گرا دیا اور اسی وجہ سے عائشہ کی موت واقع ھوئی۔
لیکن ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ:“ عائشہ ایک گدھے پر سوار ھوکر معاویہ کے گھر گئیں۔ عائشہ نے معاویہ کا احترام نہیں کیا اور گدھے پر سوار حللت میں فرش پر چلیں اور گدھے نے فرش پر پیشاب کیا۔ معاویہ نے عائشہ کے اس کام کے سلسلہ میں مروان کے پاس شکایت کی اور کہا: میں اس عورت کو برداشت نہیں کرسکتا ھوں۔ معاویہ کی اجازت سے مروان نے اس مشکل کو حل کرنے کی ذمہ داری لے لی۔ اس نے ایک چاہ کھودا اور ایک ایسا کام کیا کہ عائشہ اس چاہ میں گرگئیں، یہ حادثہ ذی الحجہ کی آخری تاریخ کو پیش آیا۔”[3]
کتاب “ الصرط المستقیم” کے مولف نے، پہلی روایت کو نقل کرنے کے بعد، ابی العاص سے بھی ایک روایت نقل کی ہے۔[4] اس کتاب کا مولف اس داستان کو جاری رکھتے ھوئے اعمش سے نقل کرتا ہے کہ: جب معاویہ کوفہ آگیا تو اس نے کوفیوں سے مخاطب ھوکر کہا کہ“ میں نے تم لوگوں سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ تم نماز پڑھوگے یا روزہ رکھو گے، بلکہ میں نے اس لئے جنگ کی ہے کہ تم لوگوں پر حکومت کروں“۔ اس کے بعد اعمش کہتا ہے : کیا آپ نے اس ﴿ معاویہ﴾ سے بے حیا تر کسی کو دیکھا ہے اس نے ستر ہزار افراد کو قتل کیا، جن میں عمار، خزیمہ، حجر، عمرو بن حمق، محمد بن ابو بکر، مالک اشتر، اویس قرنی، ابن صوحان، ابن تیہان، عائشہ اور ابن حسان بھی شامل تھے۔“[5]
لیکن بعض منابع شیعہ، معاویہ کو عائشہ کی موت کا عامل جانتے ہیں۔ سید بن طاؤس نے اس سلسلہ میں کتاب“ اوائل الاشتباہ” تالیف ابو عروبہ ﴿ وفات ۳١۸ھ﴾[2] سے دوروایتیں نقل کی ہیں۔
ابو عروبہ نے اپنی پہلی روایت میں یوں لکھا ہےکہ: “ معاویہ مدینہ میں پیغمبر ﴿ص﴾ کے منبر پر یزید کے لئے بیعت لینے میں مشغول تھا، کہ عائشہ نے اپنے کمرے سے آواز بلند کی:“ خاموش ھو جاؤ! خاموش ھوجاؤ! کیا یہی رسم ہے کہ بزرگ افراد اپنے بیٹے کے حق میں بیعت لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں؟ معاویہ نے جواب میں کہا: نہیں۔ عائشہ نے کہا: پس اس کام میں تم نے کس کی اقتداء کی ہے اور کس کی سنت کی پیروی کرتے ھو؟ معاویہ شرم کے مارے شرمندہ ھوکر منبر سے نیچے اترا اور ایک چاہ کھودا اور مکر و فریب سے عائشہ کو اس چاہ میں گرا دیا اور اسی وجہ سے عائشہ کی موت واقع ھوئی۔
لیکن ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ:“ عائشہ ایک گدھے پر سوار ھوکر معاویہ کے گھر گئیں۔ عائشہ نے معاویہ کا احترام نہیں کیا اور گدھے پر سوار حللت میں فرش پر چلیں اور گدھے نے فرش پر پیشاب کیا۔ معاویہ نے عائشہ کے اس کام کے سلسلہ میں مروان کے پاس شکایت کی اور کہا: میں اس عورت کو برداشت نہیں کرسکتا ھوں۔ معاویہ کی اجازت سے مروان نے اس مشکل کو حل کرنے کی ذمہ داری لے لی۔ اس نے ایک چاہ کھودا اور ایک ایسا کام کیا کہ عائشہ اس چاہ میں گرگئیں، یہ حادثہ ذی الحجہ کی آخری تاریخ کو پیش آیا۔”[3]
کتاب “ الصرط المستقیم” کے مولف نے، پہلی روایت کو نقل کرنے کے بعد، ابی العاص سے بھی ایک روایت نقل کی ہے۔[4] اس کتاب کا مولف اس داستان کو جاری رکھتے ھوئے اعمش سے نقل کرتا ہے کہ: جب معاویہ کوفہ آگیا تو اس نے کوفیوں سے مخاطب ھوکر کہا کہ“ میں نے تم لوگوں سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ تم نماز پڑھوگے یا روزہ رکھو گے، بلکہ میں نے اس لئے جنگ کی ہے کہ تم لوگوں پر حکومت کروں“۔ اس کے بعد اعمش کہتا ہے : کیا آپ نے اس ﴿ معاویہ﴾ سے بے حیا تر کسی کو دیکھا ہے اس نے ستر ہزار افراد کو قتل کیا، جن میں عمار، خزیمہ، حجر، عمرو بن حمق، محمد بن ابو بکر، مالک اشتر، اویس قرنی، ابن صوحان، ابن تیہان، عائشہ اور ابن حسان بھی شامل تھے۔“[5]
[1] ۔ ذهبى، محمد بن احمد، تاریخ اسلام، تحقیق: تدمرى، عمر عبد السلام، ج 4، ص 164، دار الكتاب العربى، بيروت، طبع دوم، 1413ق؛ ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 520، دار صادر، بیروت، 1385ق.
[2] ۔ ابو عروبہ ، حسین بن محمد، بن ابی معشر مودود ابن حماد السلمی الحرانی ملا حظہ ھو: امین عاملی، سیدمحسن، اعیانالشیعة، ج 6، ص 166 – 167، دارالتعارفللمطبوعات، بیروت، 1406ق.
[3] ۔ سید بن طاوس، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، ج 2، ص 503، الخیام، قم، طبع اول، 1399ق.
[4]۔ عاملی نباطی، علی من محمد، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، محقق و مصحح: رمضان، میخائیل، ج 3، ص 45، المکتبة الحیدریة، نجف، طبع اول، 1384ق.
[5]۴۸۔ ۔ ایضا، ص