گوشھ نشینی کبھی دائمی (ھمیشگی) کے لئے ھے اور کبھی کچھه مدت کے لئے ھے۔
گوشھ نشینی اختیار کرنا مندرجھ ذیل دلائل کی وجھ سے اشکال رکھتی ھے۔
۱۔ یھ تدبیر اور سنت الھی کے خلاف ھے، کیوں کھ خداوند متعال کی سنت یھ ھے کھ انسان اختیار کی صورت میں، یعنی گمراھی کے اسباب فراھم ھونے کے باوجود بھی ھدایت اورکمال تک پھنچ جائے۔
۲۔ یھ الھی ادیان میں مورد نھی واقع ھوئی ھے اور ایک قسم کی بدعت تھی جو بعض لوگوں میں پیدا ھوئی تھی اسی لئے کبھی بھی ایسا دیکھنے میں نھیں آیا ھے کھ انبیاء الھی اور اوصیاء ھمیشھ کے لئے انسانی سماج سے الگ رھیں۔
۳۔ اس طرح کی گوشھ نشینی جس دلیل کی وجھ سے بھی ھو دینی اور انسانی تعلیمات جیسے مؤمن کا حق ادا کرنا ، ماں باپ کے ساتھه نیک سلوک کرنا، دینی بھائیوں کے ساتھه ملاقات، مومن کے حاجات کو روا کرنا ۔ لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا وغیره کے ساتھه منافی ھے۔
۴ . دینی دستور اور آداب پر عمل کرنا کسی بھی طرح سماجی زندگی سے منافی نھیں ھے اور انسان دینی احکام پر عمل کرنے کے ساتھه ساتھه لوگوں میں زندگی گزار سکتا ھے اور ان کی خدمت گزاری میں کوشش کرسکتا ھے اگرچھ آپ جیسا کوئی یھ سوچے کھ مفسدوں سے معاشره کا کونه کونه بھر گیا ھے ۔
اسلامی نقطھ نظر سے اس صورت میں معاشرے کے ماحول کو پاک کرنے کے لئے اور لوگوں کی زیاده خدمت کرنے کے سلسلے میں مومنوں کی ذمھ داری اور زیاده بڑھتی ھے۔
عزلت ، تنھائی ، یا رھبانیت ، کے معنی لوگوں سے کناره کشی اور گوشھ نشینی کرنے کے ھیں [1]
اس کی کئی قسمیں ھیں ۔
۱۔ کامل اور ھمیشه کے لئے گوشھ نشینی۔
۲۔ ناقص اور کچھه مدت کے لئے گوشھ نشینی۔
پھلی قسم کی گوشھ نشینی جائز نھیں ھے، لیکن کسی محدود مدت کے لئے مناجات اور خداکی بندگی کے لئے لوگوں سے الگ رھنے میں کوئی اشکال نھیں ھے۔
ھر پیغمبر یا اس کے وصی نے اپنی عمر کی ایک مدت لوگوں سے دور رھنے میں گزاردی ھے۔ [2] اور نماز اور خدا کے ساتھه راز و نیاز کرنے میں بسر کی ھے ۔
پھلی قسم کی گوشھ نشینی کی مذمت میں مندرجھ ذیل دلیلیں موجود ھیں۔
۱۔ حضرت موسی اور عیسی علیھما السلام کے بعض پیروکار جو اقلیت میں ره کر ظالموں کا نشانھ بن گئے تھے وه اپنی جان اور دین کے خوف سے لوگوں سے الگ ھوکرعبادت میں مشغول ھوئے [3]
مسلمانوں کی ایک جماعت نے اس گمان کے ساتھه کھ یھ ایک اچھا کام ھے گوشھ نشینی انتخاب کی لیکن پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے انھیں روکا ، آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی رحلت کے بعد بھی مسلمانوں کی ایک اور جماعت جس کا نام " صوفی " رکھا گیا، نے بھی گوشھ نشینی اختیار کی اور اس گوشھ نشینی کے لئے آداب بھی بیان کئے ، لیکن اھلبیت علیھم السلام نے اس کام کی تائید نھیں کی ھے۔ [4]
۔ انبیاء الھی اور ا ن کے اوصیاء علیھم السلام نے اگرچھ اپنی عمر میں محدود مدت کے لئے لوگوں سے دوری اختیاری کی ھے لیکن ان کی یھ دوری صرف احکام الھی کو بھتر حاصل کرنے کے لئے تھی تا کھ اسے لوگوں تک پھنچا دیں البتھ ان میں سے کسی ایک نے بھی دائمی گوشھ نشینی انتخاب نھیں کی ھے بلکھ انھوں نے حاکموں کے ظلم کے مقابلے میں قیام کیا اور لوگوں کے خوشی اور غم میں شریک رھے۔
۳۔ انسان کی زندگی کے بارے میں خداکی سنت اور تدبیر کچھه اس طرح ھے کھ گمراھی اورھدایت و بندگی دونوں کے اسباب فراھم ھونے چاھیئیں کیوں کھ انسان کا کمال ان سےگزرنے کے بعد حاصل ھوتا ھے۔
۴۔ رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسم نے فرمایا: میری امت کی رھبانیت ، ھجرت ، جھاد ، نماز اور حج وعمره میں ھے۔ [5]
اور امام صادق علیھ السلام اس کے بارے میں ارشاد کرتے ھیں که گوشھ نشینی اور صحرا میں جانا جو کھ لوگوں سے دوری کا سبب ھے اسلام میں موجودنھیں۔[6]
۵۔ لوگوں سے دائمی دوری ، دینی تعلیمات کی روح ، جیسے مومنوں کے حقوق اداکرنا، ماں، باپ کے ساتھه نیک سلوک کرنا، دینی بھائیوں کے ساتھه ملاقات، مؤمنوں کی حاجت روائی ، لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا ، مومن کو کھانا کھلانا ، مومن کی خیر خواھی ، مسلمانوں کے کاموں میں ھمت کرنا اور صلھ رحم کرنا وغیره کے منافی ھے۔[7]
آخر میں جس نکتھ کی جانب اشاره کرنا ھے وه یھ ھے کھ دینی دستور اور آداب کی رعایت کرنا، سماجی زندگی کے منافی نھیں ھے۔ بلکھ سماجی زندگی میں بھی گوشھ نشینی کے آداب پر عمل کیا جاسکتا ھے اور اس کے مقاصد کو بھی حاصل کیا جاسکتا ھے؛ کیوں کھ گوشھ نشینی کے اھم اھداف لوگوں سے دوری کرنے کے علاوه ھمیشھ وضو کی حالت میں رھنا ، قرآن کی تلاوت کرنا ، کم سونا، کم باتیں کرنا ، کم کھانا کھانا، اپنےآپ کو خداوند متعال کے حضور میںپانا وغیره[8]
کو شامل ھے، جن کی رعایت سماجی زندگی میں بھی کرسکتے ھیں اور اس کا اصلی مقصد دین کو بچانا، اپنے نفس کی اصلاح اور اس کا حساب کرنا نیز عمل میں خلوص پیدا کرنا ھے۔ ان میں سے ھر ایک دینی سماجی زندگی میں حاصل کرنے کے قابل ھے۔
اس کے علاوه لوگوں میں رھنا اور اجتماعی زندگی بسر کرنا گوشھ نشینی کے آفات سے بھی محفوظ ھے ، خلاصھ یھ کھ انسان ھر حال میں اور ھر کام میں خداوند متعال کی یاد کرسکتا ھے اور اپنے نفس کے حالات کو سدھارنے کی کوشش کرسکتا ھے۔
[1] التعریفات، سید شریف علی بن محمد جرجانی ، باب غین ، اصطلاحات الصوفیھ، کمال الدیں عبد الرزا کاشانی ، باب خاء؛ تفسیر المیزان ، ج ۱۹ ص ۱۷۳۔
[2] معراج السعادۃ ، ص ۵۶۹۔
[3] تفسیر المیزان ، ج ۱۹، ص ۱۷۸۔
[4] مصباح الھدایۃ ، ص ۱۱۵۔
[5] تفسیر المیزان ، ج ۱۹ ص ۱۷۸۔
[6] اصول کافی، کتاب ایمان و کفر، باب شرایع، ج ۱۔
[7] اصول کافی ، کتاب ایمان و کفر ، کتاب الدعا، کتاب معاشرت۔
[8] کیمیای سعادت ج ۱۔ س ۴۵۴۔ مصباح الھدایۃ ، س ۱۱۷۔ عوارف المعارف، ص ۲۱۳، ۳۲۰۔