سوره مبارکھ توحید کے مطابق، مسلمانوں کا عقیده یھ ھے کھ خداوند متعال نے نھ کسی کو جنم دیا ھے اور نھ کسی سے جنم پایا ھے۔ سب توحیدی ادیان کا یھی عقیده ھے اور حضرت عیسی مسیح علیھ السلام کا دین بھی اس سے مستثنی نھیں ھے۔ کیونکھ سب الھی ادیان عقل اور فطرت کی بنیادوں پر بنائے گئے ھیں اور عقل و فطرت اس بات کی گواھی دیتی ھے کھ خداوند متعال، کائنات کا خالق، ھر چیز سے بے نیاز اور غنی ھے۔ بدیھی ھے کھ اس طرح کے خالق کے لئے نھ والد اور نھ ھی اولاد ھوگی ۔ کیونکھ فرزند یا باپ کا ھونا جسم اور نیاز مندی کا لازمھ ھے اور حق تعالی ان صفات سے پاک و منزه ھے۔
لیکن جو کچھه آج کی عیسائیت کا دعوی ھے وه اس بات کی دلیل ھے کھ اس دین میں مختلف تحریفات واقع ھوئی ھیں اور وه اصلی عیسائیت سے کوسوں دور ھے۔
سوره توحید میں ارشاد ھے" خداوند صمد ھے (یعنی خدا وه ھے جس کی طرف سب نیازمند رجوع کرتے ھیں) [1] نھ کوئی اسکی اولاد ھے اور نھ والد۔ بعض مفسرین کرام ، آیھ شریفھ " لم یلد و لم یولد " کو کلمھ " صمد " کی تفسیر جانتے ھیں[2]۔ یعنی خداوند کے "صمد" ھونے کے یھ معنی ھیں کھ نھ کوئی اس سے جنم لے گا اور نھ ھی اس نے کسی سے جنم لیا ھے "
عقلی طور پر یھ ممکن نھیں کھ خداوندِ صمد ، جنم پانے یا جنم دینے کی صفت رکھتا ھو۔ کیونکھ ایک موجود کی دوسرے موجود سے ولادت اس چیز کی دلیل ھے کھ وه موجود تقسیم ھوتا ھے اور جو چیز تقسیم ھوتی ھے وه مرکب ھے۔ دوسرے الفاظ میں ، جو جنم پاتا ھے وه خود اجزا رکھتا ھے اور جو چیز بھی جز رکھتی ھو وه اپنے اجزاء کی محتاج ھے کیونکھ جب تک اجزا جمع نھ ھوجائیں اور ایک دوسرے کے ساتھه قرار نھ پائیں وه شیء موجود نھیں ھوگی ، پس خدا کی کوئی اولاد ھونا عقلی طور پر محال ھے اور اگر ھم اس کے قائل ھوجائیں تو ھم نے خدا کو محتاج کیا جو خدا کی ذات کے ساز گار نھیں ھے ۔ اور اس طرح کا اعتقاد اس بات کی حکایت کرتا ھے کھ ھم نے خدا کو پھچانا ھی نھیں ھے۔
خدا کسی سے جنم نھیں پایا ھے۔ اس کی دلیل یھ ھے کھ ایک موجود کا دوسرے موجود سے جنم پانا اس صورت میں ممکن ھے کھ وه دوسرے موجود کا محتاج ھو ، یعنی اگر نعوذ باللھ ، خدا نے جنم پایا ھوگا ، پس وه اس موجود کا محتاج ھے جس سے اس نے جنم پایا ھے۔ اور ھم نے یھ ثابت کیا کھ ممکن نھیں کھ جو واجب الوجود خداوند بعینھ غنی اور بے نیاز ھے کسی کا محتاج ھوگا ۔ پس خدا کا جنم پانا یا اس کا کسی چیز کو جنم دینا بے معنی ھے۔
پس اگر کسی دین کی تعلیمات میں ایسا کوئی مطلب پایا جائے کھ جو عقل کے حکم سے سو فی صد منافی ھو ، جیسے عقل کا یھ حکم کھ خدا ھر موجود سے بے نیاز ھے اور سب موجودات اس کے محتاج ھیں۔ تو یھ کھنا چاھئے کھ اس دین میں تحریف واقع ھوئی ھے اور یھ دین اپنی اصلی راه سے جو کھ توحید ھے خارج ھوگیا ھے۔
ھمارا یھ اعتقاد ھے کھ سب انبیاء الھی من جملھ حضرت عیسی مسیح علیھ السلام کا یھ عقیده تھا کھ وه " لم یلد ولم یولد " کے اصل کی ترویج کرتے تھے۔ قرآن کے مطابق حضرت عیسی مسیح نے اپنی حیات کے ابتدئی دنوں میں معجزاتی طور پر گھوارے سے اپنے دشمنوں کے جواب میں فرمایا: " میں اللھ کا بنده ھوں اس نے مجھے کتاب دی ھے اور مجھے نبی بنایا ھے۔"[3]
پس اگر کوئی اسے عقل کے حکم کے ، برخلاف ، خدا کا بیٹا جانے تو وه اس انحراف کی وجھ سے ھے جو اس دین میں پیدا ھوا ھے۔
محققین کا نقطھٔ نظر' یه ھے کھ عیسائیت میں یھ انحراف " پولس" نامی شخص کے ذریعے ھوا ھے۔
پولس ، خود یھودی تھا، وه فریسیان اور عیسائیوں کا سخت مخالف تھا، اور انھیں اذیت دینے اور قتل کرنے سے باز نھیں آتا تھا۔ اور اُس نے اسی زمانے میں عیسی کے دین میں داخل ھوکر اپنا نام "پولس" رکھا۔ پولس عیسائیت کی زبردست اور طاقتور ترویج کرنے والا ھے ، وه اپنے پیغام میں عیسائیت کی حقانیت کو ایسے بیان کرتا تھا جو عام لوگوں کے لئے قابل قبول ھو۔ اس نے تورات سے شواھد بیان کرکے یھودیت سے عیسائیت کی جانب جانے کی وضاحت کی ، پولس نے ۳۰ سال تک تبلیغ کی اور وه کئی سال تک عیسائیت کی احادیث اور روایات لکھنے میں مشغول رها۔
پولس کی اصلی تعلیمات اس طرح ھیں:
۱۔ دین مسیح عالمی دین ھے۔
۲۔ ثالوث الاھی اور اس کے بعد عیسی کی خدائ اور روح القدس۔
۳۔ خدا کا فرزند " عیسی" زمین پر آیا ھے تا کھ انسانوں کو گناه سے پاک کرے۔
۴۔ مردوں کے درمیان سے عیسی کا اٹھنا اور آسمان کی جانب جانا اور اپنے باپ کے پاس بیٹھنا اور حکم صادر کرنا۔
پولس پھلا آدمی ھے جس نے لوگوں کے درمیان حضرت عیسی کی الوھیت کی بنیادیں رکھیں ۔ وه کھتا تھا کھ : مسیح نجات دینے والا ھے وه الھی ملکوت کو زمین پر مستقر کرے گا۔ وه اپنے قیام کے بعد دوباره واپس لوٹے گا، پس عیسی اس دنیا اور اس دنیا کا نجات دینے والا ھے۔ وه خدا ھے، وه ایک ایسا موجود ھے جو ھر کسی اور ھر چیز سے پھلے تھا اور ھر چیز اسی سے وجود میں آئی ھے۔ [4]
پولس کے انحرافی عقاید بھت سارے عیسائیوں کے لئے ناقابل قبول تھے ،یھاں تک که حضرت عیسی کے بعض حواریوں نے اس عقیده کے خلاف لڑا ، اور "پولس " کی نفی کی ، ۔ عیسی کی خدا ئی ، اور خدا کا فرزند ھونے کا پولس کا دعویٰ اتنا بے جان ھے کھ موجوده مقدس کتاب [5] سے بھی، پولس کے اس خلاف عقل دعوٰی کو ثابت نھیں کیا جاسکتا ھے۔ جبکھ اس غیر عقلی عقیده کی رد بھی موجود کتاب مقدس سے ممکن ھے۔ [6]
عیسائیوں کی مقدس کتاب عھد عتیق اور عھد جدید پر مشتمل ھے۔ عھد عتیق وھی یھودیوں کی کتاب ھے کھ جس کا نام " توریت" ھے اور جو ۳۹ کتب پر مشتمل ھے اورعھد جدید وھی" انجیل" ھے۔
ان دو کتابوں یعنی عھد قدیم اور عھد جدید، کا نام مقدس کتاب ھے جو عیسائیوں کے درمیان مقدس ھے۔
عھد عتیق میں عیسی کے خدا کا بیٹے ھونے کی بحث نھیں ھے۔ البتھ عھد جدید میں جس کا دعوی عیسائی کرتے ھیں اور ان کے نزدیک مستنند ھے ، کھیں کھیں پر عیسی کے انسان ھونے ( خدا اور فرزند خدا ھونا اس سے نفی کیا گیا ھے ) اور کھیں عیسی کے بارے میں خدا یا خدا کا بیٹا ھونے کی جانب اشاره کیا گیا ھے۔
ھم ان میں سے بعض موارد کو نقل اور نقد و تبصره کرتے ھیں۔
الف : انسانی عیسی:
۱۔ " اب میرا بنده جس کو میں نے منتخب کیا ھے اور وه میرا حبیب جس سے میں راضی ھوں" [7]
۲۔ اعمال :( مقدس مسیحیوں کی کتاب ) میں آیا ھے: " ابراھیم ، اسحق ، اور یعقوب کے خدا، ھمارے اجداد کے خدا نے اپنے بندے، عیسی کو جلال عطا کیا " [8]
پس، موجوده (تحریف شده) مقدس کتاب کی عبارتیں اور بیانات واضح طورپر عیسی کو خدا کا بنده اور اس کا منتخب جانتے ھیں۔
ب : عیسی الاھی:
۱۔ انجیل مرقس میں ۱۶: ۳۷۔۔ ۳۹ میں آیا ھے : " حقیقت میں یھ آدمی ( عیسی) خدا کا فرزند تھا" [9]
اس تعبیر کا جواب یھ ھےکھ :
اولا : اگر یھاں پر فرزند خدا کی جانب اشاره کیا گیا ھے تو اس کے حقیقی معنی مراد نھیں ھے بلکھ ان موارد میں بیٹا یا باپ ھونے کے معنی مجازی ھیں کھ وھی یھاں پر مراد ھے۔
مثال کے طور پر عیسائیوں کی کتاب میں ایک جگھ ذکر ھوا ھے: " لیکن جن لوگوں نے اس کو قبول کیا انھیں طاقت عطا کی کھ وه خدا کے فرزند ھوجائیں ، یعنی جو بھی اس کے نام پر ایمان لایا ، نھ خون سے ، نھ جسم کی خواھش سے نھ لوگوں کی خواھش سے ، بلکھ وه خدا سے توّلد پایا ھے " [10]
یا دوسری جگھ پر آیا ھے : " اے حبیبو! ایک دوسرے سے هم محبت کریں گے ، کیونکھ محبت خدا کی طرف سے ھے اور جو بھی محبت کرے گا وه خدا سے توّلد ھوا ھے اور خدا کو پھچانتا ھے" [11]
پس اگر کوئی عیسائیوں کی کتاب کے ادب سے آگاه ھو تو وه دیکھے گا کھ سب مومن اورصالح افراد ، خدا کے بیٹے پھچنوائے گئے ھیں ، اور کسی نے آج تک یھ دعوی نھیں کیا ھے کھ مومن اور صالح خدا سے متولد ھیں !۔
اس عبارت اور ان عبارتوں میں جو عیسی کو خدا کا فرزند جانتے ھیں ، کیا فرق ھے؟ نھ صرف مومنوں کے لئے بلکھ خاص افراد کے لئے بھی والد یا فرزند کی عبارت استعمال ھوئی ھے۔
اسی طرح خداوند متعال حضرت سلیمان کے بارے میں فرماتا ھے" " میں اس کا والد ھوں گا اور وه میرا فرزند" [12]
جب کھ حضرت عیسی کے بارے میں اس طرح کا دعوی نھیں ھوا ھے۔
پس اگر موجوده انجیل حضرت مسیح کی انجیل ھوگی تو وه حضرت مسیح کے فرزند اور خدا کے والد ھونے پر کوئی دلالت نھیں کرتی بلکھ یھ ایک ایسا انحراف ھے جو بعد میں پیدا ھوا۔
ثانیا : مقدس کتاب میں بھت سے تناقضات ھیں جو اس کے آسمانی نھ ھونے پر دلالت کرتے ھیں۔ من جملھ یھ تناقض کھ بعض جگهوں پر عیسی کو خداکا بنده اور بعض موارد پر فرزند خدا جانا گیا ھے ( البتھ اگر خدا کا فرزند ھونے کو خدا سے جنم پانے کے معنی میں جانیں )
یھی تناقضات سبب بنے ھیں کھ عیسائیوں کے بعض بزرگوں نے اعتراض کیا ھے اور اس باطل عقیدے پر تنقید کی ھے۔ ان میں ایک کا نام " آریوس" ، لیبی کا اسقف اعظم ھے،جس نے سال ۳۲۵ میں اس عقیدے کی رد میں کھا: خدا کی خلقت مکمل طور پر الگ ھے پس ممکن نھیں ھے کھ جو مسیح زمین پر آیا ھے اور اس نے انسان کی طرح ولادت پائی ھے خدا کے ساتھه هم ایک ھی جانیں " [13]
یھ اعتراض سبب بنا کھ شھر " نیقیھ " میں ایک شوریٰ تشکیل پائے جو عقیده کو نظم دے اور سب کے لئے یھ عقیده لازمی ھو اور قانون کی صورت میں سامنے آئے۔
اگرچھ عیسی الوھی کا بنانے والا "پولس" تھا ، لیکن اس شوری نے پولس کے نظریه کو عقیده کے عنوان سے ثابت کیا اور یھ انحراف آج تک عیسائیوں کے درمیان رائج ھے۔
پس ادیان الھی کے درمیان تناقض موجود نھیں ھے۔ اور یھ آج کل کی عیسائیت ھے کھ افسوس! جو حضرت عیسی علیھ السلام کی تعلیمات سے دورھو گئ ھے۔ ۔ ورنھ عیسی علیھ السلام کی اصلی تعلیمات اسلام کی تعلیمات سے کسی طرح کا تناقض نھیں رکھتی ھے اور اسلام کامل دین کے عنوان سے، گزشتھ ادیان کو مکمل کرنے والا ھے۔
[1] سوره اخلاص ، / ۳ ، ترجمھ علامھ ذیشان حیدر جوادی۔
[2] ترجمھ المیزان ، جلد ۲۰ ، ص ۶۷۳، تفسیر نمونھ، ج ۲۷ ص ۴۳۹۔
[3] سوره مریم، / ۳۰، قال انی عبد اللھ اتانی الکتاب و جعلنی نبیاً"
[4] مبلغی آبادانی، عبداللھ ، تاریخ ادیان و مذاھب، ج ۲، شرح حال پوسل ، امام جواد علیھ السلام انٹرنٹ سینٹر۔
[5] اگرچھ ھمارا عقیده یھ ھے کھ موجود کتاب وه کتاب نھیں ھے جو حضرت عیسی پر نازل ھوئی ھے۔
[6] آشنایی و بررسی مسیحیت (تدریسی کتب کے مولیفین کی کمیٹی) تبلیغ حوزه۔ ص ۲۵۔
[7] انجیل متی ، ۱۲: ۱۸۔
[8] اعمال ۳:۱۲۔
[9] انجیل مرقس، ۱۶:۳۷، ۳۹۔
[10] یوحنا، ۱ :۱۲۔۔۱۳۔ کتاب مقدس کا ایک حصھ۔
[11] رسالھ اول یوحنا۔ ۴: ۷۔ کتاب مقدس کا ایک حصھ۔
[12] اول تواریخ۔ ۱۷: ۱۱۔۔۱۴۔ کتاب مقدس کا ایک حصھ۔
[13] تاریخ کلیسای قدیم۔