قرآن مجید کی بعض آیات پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کولو گوں کے ایمان کا مسئول نهیں جانتی هیں اور اس کے یه معنی هیں که لوگوں کا ایمان لانا پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ذمه نهیں هے ، کیو نکه ایمان ایک قلبی امر هے اور امور قلبی جبراً نھیں هو تے هیں ، بلکه ان کے متحقق هو نے کے لئے چند مقد مات کی ضرورت هو تی هے اور ان مقد مات کے بعد هی انسان ایمان یا کفر کو اختیار کر نے کا فیصله کرسکتا هے-
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ان مقد مات کو فراهم کر نے کے ذمه دار تھے- آپ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات کی طرف دعوت دینے اور ایمان کے لئے ضروری اور مناسب ماحول پیدا کر نے کے ذمه دار تھے تاکه ایمان نه لانے والوں پر حجت تمام هو جائے اور خدا اور اس کے رسول(ص) کی طرف سے اس سلسله میں کسی قسم کی کوتاهی نه هو-
اسلام میں امر بالمعروف اور نهی المنکر اور ابتدائی جهاد بھی ، تبلیغ و هدایت اور اسلامی تعلیمات کو نافذ کر نے کے سلسله میں بیان هوئے هیں ، نه که لو گوں کو ایمان لانے پر مجبور کر نے کے لئے-
اسلام میںجهاد، دفاعی ماهیت کا حامل هے اور اس کی تمام صورتوں میں حدود شکنی کی مذمت کی گئی هے – لیکن بعض اوقات دفاع ذاتی حقوق کے زمرے میں آتا هے اور کبھی قومی اور کبھی انسانی حقوق کے دائره میں آتاهے. همارا اعتقاد هے که ایمان، توحید اور صراط مستقیم پر لوگوں کا گامزن هونا تیسری قسم یعنی انسانی حقوق سے متعلق هے. اس لئے توحید کے پھیلاو میں رکاوٹ ڈالنے والوں سےجنگ کی جاسکتی هے اور یه حقیقت میں دفاع هے نه که جارحیت. لیکن چونکه جبر و اکراه سے نھیں لیای جاتا ھے ، اس لئے یه جنگ تبلیغ و دعوت کی راه کے موانع کو دور کرنے کے لئے هے، نه که توحید کو ٹھونسنے کے لئے - امر بالمعروف ونهی عن المنکر بھی اسی روشنی میں هے.
اس قسم کے سوال کا جواب دینا مسئله ایمان، امربالمعروف ونهی عن المنکر اور ابتدائی جهاد کی معرفت اور صحیح تصور کی روشنی میں ممکن هے. ایمان دو ارکان کا مرکب هے. ایک طرف اسے فکر و عقل قبول کرنی چاهئے اور دوسری طرف دل کو اس کی طرف رجحان پیدا کرنا چاهئے اور ان میں سے کوئی بھی ایک زور وزبردستی کے قلمرو میں نهیں آتاهے. نه جبر سے کسی چیز کی محبت پیدا کی جاسکتی هے اور نه جبر سے کسی فکر و عقیده کو قبول کیا جاسکتا هے[1] . اس لئے قرآن مجید فرماتاهے: لا اکراه فی الدین[2] یا خداوند متعال اپنے پیغمبر سے یوں خطاب کرتاهے: قل الحق من ربکم فمن شا ء فلیومن ومن شا فلیکفر[3] اور یا یه که آنحضرت (ص)کو چاهئے که لوگوں کو ایمان کے انتخاب کے سلسله میں آزاد چھوڑدیں[4] اور لوگوں کے ایمان نه لانے پر حد سے زیاده پریشان نه هوں اوراپنے اوپر زیاده دباٶ نه ڈالیں. اس سلسله میں قرآن مجید فرماتا هے: "اے پیغمبر تو کیا آپ شدت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطره میں ڈال دیں گے اگر یه لوگ اس بات پر ایمان نه لائیں؟"
مذکوره تمام آیات واضح طور پربیان کرتی هیں که اعتقاد اور دین و ایمان قلبی امور سے متعلق هیں اور اس سلسله میں جبر واکراه کار آمد نهیں هوسکتاهے. اور اگر خداوند متعال اپنے پیغمبر(ص) سے یوں خطاب فرماتا هے که : "فذکر انما انت مذکر لست علیهم بمصیطر"[5] تو یه بالکل اسی سلسله میں هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم لوگون کو صرف خدا کی طرف دعوت کردینے پر مامور تھے اور وه بھی حکمت، منطق، برهان اور موعظه حسنه کے ذریعه[6].
دوسرے الفاظ میں، ایمان کے تحقق کے لئے چند مقدمات کی ضرورت هے اور انسان ان مقدمات کے فراهم هونے کے بعد هی ایمان و کفر میں سے کسی ایک کو منتخب کرتاهے اور پیغمبر عظیم الشان اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ان مقدمات کو فراهم کرنے کے ذمه دار تھے. آپ(ص) لوگوں کو اسلامی تعلیمات کی طرف دعوت کردینے کے ذمه دار تھے تا که لوگوں کے ایمان لانے کا ضروری اور مناسب ماحول فراهم کریں،اس طرح که ایمان نه لانے والوں کے لئے حجت تمام هو جائے اور خدا ورسول(ص) کی طرف سے اس سلسله میں کسی قسم کی کو تا هی نه هو ئی هو-
اسلام میں امر بالمعروف و نهی عن المنکر اور ابتدائی جهاد بھی ، تبلیغ و هدایت اور اسلامی تعلیمات کو نافذ کر نے کے سلسله میں بیان هو ئے هیں ، نه که لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر نے کے لئے – جارحیت کو سب برا سمجھتے هیں لیکن هر جنگ جارحیت نهیں هوتی هے اور جو جنگ اپنے ، ملت یا لوگوں کے دفاع میں لڑی جائے، وه نه صرف بری نهیں هے، بلکه مقدس شمار هو تی هے-
قرآن مجید میں بھی اس قسم کی جنگ کے بارے میں جهاد کها گیا هے-[7] لیکن قابل توجه بات هے که کبھی حقوق ذاتی اور یا ایک ملت سے محدود هو تے هیں ، اور کبھی ایک شخص و ملت کی محدودیت سے بالاتر تمام انسانوں سے متعلق هو تے هیں مثال کے طور پر آزادی کا حق ، کسی خاص ملت یا شخص سے مخصوص نهیں هو تا هے ، بلکه تمام انسانوں کا حق هے که اس نعمت سے بهره مند هو جائیں اور اس قسم کے حق کے دفاع میں حتی که مدد کی درخواست کی بھی ضرورت نهیں هے –
دوسرے الفاظ میں ، ممکن هے اسیر اور زنجیروں میں جکڑا هوا کو ئی شخص خود متوجه نه هو اور مدد کی درخواست بھی نه کرے ، لیکن اگر کوئی شخص اس امر سے آگاه هو جائے اور اسے آزاد کر انے کی توانائی رکھتا هو، اور اس صورت میں اگر وه اس کی نجات کے لئے اقدام کر ے ، تو اس قسم کے کام کی تمام لوگ " جائز دفاع" کے عنوان سے ستائش کرتے هیں چونکه اس امر کا شخصی وقومی پهلو نهیں هے بلکه انسان پهلو سے متعلق هے اس لئے اسے بیشتر مقدس جانتے هیں -[8]
امر بالمعروف ونهی عن المنکر بھی حقوق انسانی کے دفاع کا مصداق هے- امر بالمعروف و نهی عن المنکر میں معنوی قدروں کا دفاع کیا جاتا هے اور یه کسی قوم و ملت سے مخصوص نهیں هے – اور حقیقت میں یه حکم اس وجه سے هے که انسان کو خدا کی طرف دعوت دی جاتی هے ، اگر چه امر بالمعروف و نهی عن المنکر کے بعض مراتب عملی جبر پر منتج هو تے هیں ، لیکن یه اعمال اس لئے نهیں هیں که لوگ جبراً ایمان لائیں ، بلکه اس لئے هیں که معاشره میں لوگوں کی هدایت کے لئے ماحول فراهم هو جائے اور معاشره سے رکاوٹیں دور کی جائیں تاکه مقصد تک پهنچنا آسان بن جائے-
ایمان اور توحید بھی حقوق انسانی کا حصه شمار هو تے هیں ، کیو نکه دین و توحید ، صراط مستقیم هے-[9] اور عام انسانوں کی سعادت اس سے وابسته هے، اس لئے اسے ایک ذاتی امر شمار نهیں کیا جاسکتا هے. اس لحاظ سے توحید کو قبول کرانے کے لئے کسی سے جنگ نهیں کی جاسکتی هے، کیونکه توحید کے لئے جبر نهیں هے، بلکه یه جنگ اس لئے کی جاتی هے که دعوت کی تبلیغ کی راه سے رکاوٹیں دور کی جائیں. اس لئے کها جاسکتا هے که هم فکر کی آزادی کے حامی هیں نه که عقیده کی آزادی کے، کیونکه فکر استدلال ومنطق کے معنی میں هے اور عقیده تنگ نظری کے معنی میں، ممکن هے ایسے عقائد بھی هوں، جو کسی فکری بنیاد پر قائم نه هوں یعنی صرف تقلید اور عادت کی بنیاد پر هوں اور اس قسم کے عقائد انسان کو اسیر کرڈالتے هیں اور... اس صورت میں منطقی توجیه نه رکھنے والے عقائد سے جنگ کرنا انسان کو اندھی تقلید کی قید وبند سے رهائی بخشنے کی جنگ شمار هوتی هے اور حقیقت میں یه انسان کی آزادی کا دفاع هے نه که انسان کی آزادی کے خلاف جارحیت[10].
ایمان و توحید کے انسانی فطرت کا مسلم حق اور حقوق انسانی کا جزو هونے کارازیه هے که ایمان و توحید فرد اور معاشره کا سرمایه حیات هے. اسی لئے امیر المومنین حضرت علی علیه السلام فرماتے هیں: التوحید حیاه النفس[11] اور قرآن مجید بھی کافر کو توحید سے اس کی محرومیت کی وجه سے، مرده جانتا هے اور اس کا "زنده" کے مقابل میں ذکر کرتاهے: "لینذر من کان حیا ویحق القول وعلی الکافرین[12]."
پس تمام آیات و روایات سے معلوم هوتا هے:
پهلے یه که توحید فرد اور انسانی معاشره کا سرمایه حیات هے. دوسرے یه که یه سرمایه حیات تمام انسانوں کا مسلم حق هے اور تمام انسان اس سے استفاده کرنے کا حق رکھتے هیں. اس کے علاوه، چونکه حیات ایک ایسا حق هے که خالق کائنات نے اسے هبه کیا هے، اس لئے نه صرف یھی نھیں که کسی کو اس حق سے محروم نهیں کیا جاسکتا هے بلکه انسان خود کو بھی اس سے محروم نهیں کرسکتاهے.
اس لئے انسانوں کے فطری حق کا دفاع کرنا اور کفر وشرک کے عامل سے مبارزه کرنا ضروری هے، یعنی جس طرح اگر کوئی فرد یا گروه کسی فرد یا معاشره کی حیات کو چوٹ پهنچا نا اور اسے نابود کرنا چاهتے هوں تو ان کے مقابل میں دفاع کرنا ضروری هے، اس طرح اگر کوئی فرد یا گروه کسی فرد یا معاشره کو صدمه پهنچا کر انھیں کافر بنائے یا ان کے اسلام(و ایمان) کی راه میں رکاوٹ بنے، تو دفاع ضروری هوگا.
چونکه جنگ و جهاد بهی اهم ترین دینی واسلامی پروگرام شمار هوتے هیں، اس لئے ضروری هے که ان کی بنیادی خصوصیا ت یعنی رحمت اور حقوق انسانی کے احیا اور سعادت و حیات معنوی کی راه میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے بھی اس کو مد نظر رکهنا چاهئے."لولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لفسدت الارض ولکن الله ذوفضل علی العالمین"[13]. "لو لا دفع الله الناس بعضهم ببعض، لهدمت صوامع و بیع و صلوات ومساجد یذکر فیها اسم الله کثیرا"[14] زمین کو تباهی سے بچانا اوردینی مراکز کو ویران هونے محفوظ کرنا، ایک ایسی رحمت هے که حمله آور کے مقابل میں دفاع کرنے اور رکاوٹوں کو دور کئے بغیر حاصل هونا ممکن نهیں هے. اس لئے اس قسم کے موانع اور رکاوٹوں کو هٹانا اور اس راه کے ڈاکوٶں پر حمله کرکے تیراندازی کرنا کار خیر اور رحمت الهی کے واضح مصادیق میں سے شمار هوتے هیں[15].
خلاصه یه که پیغمبر عظیم الشان اسلام صلی الله علیه وآله وسلم لوگوں کے ایمان کے مسٶل نهیں هیں، آپ(ص) کی صرف یه ذمه داری تھی که لوگوں کی طرف سے اختیار کے ساتھـ ایمان کو قبول کرنے کے لئے مناسب فضا اور ماحول فراهم کریں. اور اسلام میں امر بالمعروف ونهی عن المنکر اور ابتدائی جهاد بھی اسی سلسله کی کڑی کے طورپرپیش( تشریع) هوئے هیں[16].
[1] ملاحظه هو: عنوان :" دین میں جبر و اکراه"
[2] بقره.٢٦٥دین میں کسی طرح کا جبر نهیں هے
[3] سوره کهف٢٩" اور کهدو که حق تمهارے پروردگار کی طرف سے هے اب جس کا جی چاهے ایمان لےایے اورجس کا جی چاهے کافر هوجائے"
[4] سوره یونس /٩٩ "اور اگر خدا چاهتا تو روئے زمین پر رهنے والے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے که سب مومن هوجائیں؟ "
[5] سوره غاشیه ٢١،٢٢: "لهذا تم نصیحت کرتے رهو که تم صرف نصیحت کرنے والے هو تم ان پر مسلط اور ان کے ذمه درا نهیں هو "ملا حظه هو: المیزان،ج٦،ص١٦٢-١٦٥
[6] - " ادع الی سبیل ربک بالحکمھ والموعظه الحسنھ وجادلهم بالتی احسن"، (نحل،١٢٥)-
[7] -"قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم "، (بقره،١٩٠) ،اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا ..." (حج، ٤١-٣٨)" وقاتلوا المشرکین کافھ کما یقاتلو نکم کافھ" (توبه،٣٦)-
[8] - قرآن مجید میں آیا هے : ومالکم لا تقاتلون فی سبیل الله والمستضعفین ... (سوره نسا، ٧٥)" اور آخر تمهیں کیا هو گیا هے که تم الله کی راه میں اور ان کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے لئے جهاد نهیں کرتے هو جنھیں کمزور بناکر رکھا گیا هے ... "لهذا مظلومین کو ظالموں کے چنگل سے آزاد کر انے کے لئے جنگ کر نی چاهئے اور اس قسم کی جنگ انسانی حقوق کا دفاع شمار هو تی هے اور اسلام میں صرف دفاعی جنگ کو جائز قراردیا گیا هے – لیکن دفاعی جنگ کا مفهوم ایک وسیع مفهوم هے ( ابتدائی جنگ و جهاد کی اصطلاح بھی دفاعی ماهیت رکھتی هے)
[9] - بهر حال، ایک اصل اور کلی پر سب متفق هیں که جنگ دفاع کے عنوان سے هو نی چاهئے، اختلاف صرف اس بات پر هے که کونسے جنگ دفاعی هیں ، یعنی اختلاف صغری میں هے-
[10] - ملاحظه هو: جهاد و موارد مشروعیت آن در قرآن ، شهید مطهری ،ص٥-٧٠-
[11] - شرح غرر الحکم ،ج١،ص١٤٥-
[12] سوره یس/٤٠( مقصد یه هے که زنده لوگوں کو ڈرائے اور کافرون پر حجت تمام هوجائے اور
ذاب کا فرمان ان پر مسلم هوجائے)، ( تفسیر نمونه،ج١,ص٤٣٨)
[13] سوره بقره؟٢٥١ "... اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نه روکتا رهتا تو ساری زمین میں فساد پهیل جاتا لیکن خدا عالمین پربڑا فضل کرنے والاهے"
[14] سوره حج/٤٠"... اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعه نه روکتا تو تمام گرجے اور یهودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منهدم کردی جاتیں"
[15] - ملاحظه هو : جوادی آملی، عبدالله، حماسه وعر فان،ص٢٣-٢٧-
[16] - مزید تفصیلات کے لئے ملاحظه هو: تفسیر المیزان،ج٢،ص١٦-٧١،ج٢،ص٣٤٢-٣٤٣،ج٦
ص١٦٢- ١٦٥-