اگر ہم قرآن کی طرف رجوع کریں اور اس سے پوچھیں کہ ہم کس لئے خلق ہوئے ہیں ؟ تو قرآن کا جواب ہے ’’ وَما خَلَقتُ الجنّ والانس الّا لیعبدون ‘‘ ہم نے جن و انسان کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ عبادت کا کیا مطلب ؟ عبادت یعنی خدا کی بندگی ۔ یعنی یہی کام جو ہم انجام دے رہے ہیں حتی زندگی کے بہت ہی معمولی اور روزمرہ کے کام جیسے کھانا ، پینا ، یہ سب خدائی ہو سکتے ہیں ۔ خدائی زندگی یہ ہے کہ انسان جو کام انجام دیتا ہے ، ان ہی روزانہ کے کاموں کو صحیح نیت اور دین کے قوانین کے تحت انجام دے ۔
اگر ہم قرآن کی طرف رجوع کریں اور اس سے پوچھیں کہ ہم کس لئے خلق ہوئے ہیں تو قرآن کا جواب ہے ’’ وَما خَلَقتُ الجنّ والانسَ الّا لِیعبدونَ ‘‘ [1] یعنی جن و انسان عبادت ہی کے لئے خلق ہوئے ہیں ۔ عبادت کا کیا مطلب ہے ؟ اکثر ہم عبادت کو بہت ہی محدود زاویہ سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ عبادت فقط کچھ خاص اعمال مثلا : نماز ، روزہ ، حج و ۔ ۔ ۔ ۔ میں ہی محدود ہے ۔ البتہ یہ چیزیں قطعاً عبادت ہیں لیکن کیا انسان صرف ان ہی چند اعمال کے لئے خلق ہوا ہے ؟ ممکن ہے یہ تصور کیا جائے کہ ایسی زندگی تو بہت محدود اور تنگ ہوگی ، لیکن اگر ہم عبادت کے بارے میں زیادہ تحقیق کریں تو نظر آئے گا کہ عبادت یعنی خدا کی بندگی اور اسفار میں صدر المتألہین (ملاصدرا) کی تعبیر میں ہر شخص کی عبادت خدا سے اس معرفت کے بقدر ہے ، یعنی عبادت اور خدا کی معرفت براہ راست ایک رابطہ پایا جاتا ہے ۔ جس قدر خدا کی معرفت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے انسان کی عبادت گہری اور وسیع ہوتی جاتی ہے ، یہاں تک کہ اس کی عبادت ایسی ہوجاتی ہے جیسی اسلام اس سے چاہتا ہے ۔
اسلام نے ہم سے کیا چاہا ہے ؟ کیا یہ چاہا ہے کہ ہم ایک خشک اور خالی و بے روح زندگی بسر کریں ؟! صرف نماز پڑھیں ، روزہ رکھیں ، ذکر کریں ، دعا پڑھیں ، کیا اسلام نے فقط یہی چیزیں ہم سے چاہی ہیں ؟ اور ہم کوئی دوسرا کام نہ کریں ؟
قطعی ایسا نہیں ہے ۔ کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کی زندگانیاں ایسی ہی تھیں ؟! کیا حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام صبح سے شب تک صرف دعائیں پڑھتے تھے ؟! فقط نماز پڑھتے تھے ؟! فقط ذکر ہی کرتے تھے ؟! اور کوئی دوسرا کام نہیں کرتے تھے ؟ ایسا نہیں ہے ؛ حضرت علی علیہ السلام اہل سیاست ہیں ، اہل جنگ ہیں ، مرد علم ہیں اور اہل کار ہیں ،جو شخص اس قدر کام کرتا ہے ، کنوئیں کھوتا ہے ، زمین کے اندر پانی کی سرنگیں بناتا ہے ، صرف ذکر خدا ہی نہیں کرتا ہے ، پس علی علیہ السلام کی عبادت کیا ہے ؟ کیا علی علیہ السلام کی عبادت ان ہی لمحوں تک محدود ہے جب وہ دعائے کمیل پڑھتے ہیں ؟علی علیہ السلام کی عبادت اتنی ہی ہے جب وہ مثلا نماز پڑھتے ہیں ؟ وہ بھی وہ نماز جس میں وہ خدا کی طرف اس قدر متوجہ ہوتے ہیں کہ تیر ان کے پاؤں سے نکال لیا جاتا ہے اور ان کو خبر نہیں ہوتی ۔ حضرت علی علیہ السلام کنواں کھودتے وقت بھی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں ، جنگ کے دوران بھی عبادت میں ہوتے ہیں ’’ لضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین ‘‘ [2] یہ کوئی یوں ہی سی بات نہیں ہے حضرت علی علیہ السلام کی ضربت جن و انس کی عبادت سے بالاتر ہے ، اس لئے کہ وہ خود عبادت ہیں ، یعنی انسان کی پوری زندگی عبادت ہوجاتی ہے ۔ لہذا اگر ہم دوبارہ اس سوال کی طرف واپس پلٹیں کہ واقعاً خدائی زندگی کیسی زندگی ہے ؟ تو جواب یہ ہے کہ یہی جو کام کرتے ہیں حتی بہت معمولی اور روزمرہ کے کام مثلا کھانا ، پینا و غیرہ یہ سب بھی خدائی اور عبادت ہو سکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ پوچھا جائے کیسے ؟ جواب یہ ہے کہ جب آپ کھانا چاہتے ہیں تو کھانے کے آداب و دستور پر توجہ کریں ، کیونکہ پر چیز کھائی نہیں جا سکتی ۔ حرام مال نہیں کھانا چاہئے ۔ اگر ان سے پرہیز کیا جائے اور آپ نے کوشش کہ مال حلال ہو اور جو کھانا کھارہے ہیں اس نیت سے کھائیں کہ کام کرنے کی طاقت پیدا کریں اور کام اس لئے ہو کہ اس سے لوگوں کی مشکلیں آسان ہوں اور آپ اپنے بھائی ، بہن ، اولاد، زوجہ ، ساتھی اور دوست کی مدد کریں تا کہ وہ روحانی طور سے ترقی کرے ۔ کام کریں یا کہ اپنے فریضہ پر عمل کر سکیں تو یہی کھانا عبادت ہے ، سونا عبادت ہے اور در اصل زندگی ایک دوسرا ہی مفہوم پیدا کر لے گی ۔
واقعہ ہے کہ جب پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں فرمایا کہ اگر تم لوگ جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتے ہو تو پہلا شخص جو دروازہ سے مسجد میں داخل ہوگا وہ جنتی ہے ۔ ایک جوان وہاں تھا ، اسے شوق پیدا ہوا کہ جنتی انسان کے خصوصیات کیا ہیں ۔اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا مسجد میں داخل ہوا ۔ اس نے بغور دیکھا اسے اس میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی ۔ اس نے سوچا یہ بوڑھا یقیناً اپنے گھر میں کوئی خاص عمل کرتا ہے جبھی جنتی ہوا ہے ۔ جوان اس بوڑھے کے پیچھے چل پڑا اور اس کے گھر تک پہنچا بوڑھا گھر میں داخل ہوگیا ۔ جوان نے دیکھا کہ اس طرح اس کے گھر کے حالات سے آگاہ نہیں ہو سکتا ، اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ میں مسافر ہوں آج کی شب آپ کے گھر رکنا چاہتا ہوں ، بوڑھے نے سے گھر میں دعوت دی ۔ جوان اسی طرح اس بوڑھے کے حرکات و سکنات دیکھتا رہا ، اس نے دیکھا کہ بوڑھا کوئی خاص کام انجام نہیں دے رہا ہے ۔ جوان نے سوچا کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا ہے توضرور اس نے کوئی کام کیا ہے ۔ سونے کا وقت ہوا ، جوان نے سوچا وہ آدھی رات میں اٹھ کرضرور کوئی خاص عبادت انجام دیتا ہے ، اس نے دیکھا کہ بوڑھا سوگیا اور صبح کی نماز کے لئے بیدار ہوا۔ جوان بہانہ سے دو تین روز بوڑھے کے ساتھ رہا ، آخر کار اس نے بوڑھے سے پوچھ ہی لیا ۔ جناب میرے آپ کے ساتھ رہنے کا اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے بارے میں یہ فرمایا تھا اور میں آپ کے پیچھے ہولیا کہ دیکھوں آپ کیا کرتے ہیں کہ جنتی ہیں لیکن میں نے آپ کو کوئی خاص عمل کرتے نہیں دیکھا ، آپ کی اکرتے ہیں ؟ بورھے نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ جنتی ہوں یا نہیں ، میں کوئی خاص کام انجام نہیں دیتا فقط جو کام انجام دیتا ہوں اللہ کے لئے انجام دیتا ہوں اور جو کام کرتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ خدا کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔
واقعاً یہی ہے ، حضرت نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے اس کی وجہ یہی ہے ۔ اسی لئے خدائی زندگی یہ ہے کہ انسان جو کام انجام دے ، یہی روزانہ کے کام صحیح نیت اور دین کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ، پھر دیکھے کہ زندگی کیسی بدل جاتی ہے ، زندگی کے آثار بدل جاتے ہیں ، زندگی با برکت ہوجاتی ہے اور آیۃ اللہ العظمیٰ بہاء الدینی کے بقول : ان مسائل کا تجربہ کرو تا کہ علم حاصل کرو اور علامہ طباطبائی (رہ) کے بقول آپ لوگ اس روایت : ’’ من اخلصَ اللہ اربعینَ یوماً فجرّ اللہ ینابیع الحکمۃ من قلبہ علیٰ لسانہ ‘‘[3] پس عمل کیجئے ، چالیس روز خدا کے لئے کوئی کام انجام دیجئے اگر زندگی میں برکت نہ ہو[4] تو مجھ پر لعنت کیجئے یعنی مجھے اس بات پر اس قدر یقین ہے کہ آپ یہ عمل انجام دیجئے لہذا ہم بھی تجربہ کریں اور زندگی میں تبدیلی لائیں انشاء اللہ
ذاریات /۵۶[1]
سید بن طاووس ، اقبال الاعمال ، ص ۴۶۷ ، دارالکتب الاسلامیۃ ۔ تہران ، ۱۳۶۷ [2]
’’ جو شخص چالیس دن خالص خدا کے لئے عمل کرے خدا حکمت کے چشموں کو اس کے دل سے زبان پر جاری کردیتا ہے ‘‘ مجلسی ،[3]
محمد باقر ، بحار الانوار ، ج ۶۷ ، ص ۲۴۹ ، مؤسسہ الوفاء ، بیروت ، لبنان ، ۱۴۵۴ ھ ۔ ق ۔
حضرت آیت اللہ امینی کے بقول جو علامہ طباطبائی سے نقل کر رہے تھے ۔[4]