اس سوال کا جواب خاص طور پر دو اعتبار سے قابل بحث هے:
اول یه که دنیوی زندگی اور عمر، اجمالی طور پر تمام دنیوی نعمتیں ، دو پهلو رکھتی هیں! اس معنی میں که اگر انسان کی زندگی ایمان، قرآن مجید اور عترت کی هدایت کے مطابق قرار پائے ، تو قابل قدر وباسعادت هے اور اگر الهی قدروں سے محروم هو تو گناه ومصیبت بن جاتی هے-
اس لئے معنوی سر بلندی کے لئے دنیوی مواقع اور فر صتوں میں سے کوئی بھی، ایک مقد مه سے زیاده نهیں هے اور اس طرح نهیں هے که ان کا حامل هو نا ، عین رشد و بالیدگی هو ، بلکه ممکن هے که نعمت، حقیقتاً بدبختی اور گناهوں کے برے نتائج میں تبدیل هو جائے اور ممکن هے عمر دراز کے مالک اپنی پوری عمر کے دوران اپنے لئے آتش جهنم فراهم کریں-
دوسری جانب زیاده مواقع اور فرصتوں کا فقدان بھی عین بد بختی اور محرومیت نهیں هے، کیو نکه خدا وند متعال کے هاں کیفیت معیار هے نه که کمیت- اس کے ضن میں محاسبه و اعمال ، نعمتوں اور امکانات کے مطابق افراد کے اختیار میں قرار پاتے هیں-
اس کے علاوه هاتھـ نه آنے والے مواقع اور فر صتوں کی تلافی کے سلسله میں نیت کے بنیادی اور غیر معمولی رول سے صرف نظر نهیں کیا جاسکتا هے ، کیو نکه ممکن هے کسی شخص نے ایک چھوٹی عمر گزاری هو اور اپنی پاک و بلند نیت کی وجه سے سب پر سبقت حاصل کرلے-
دوسرامحور یه هے که، همیں کبھی اپنے نیک اعمال پر بھروسه کر کے فوراً نتیجه نهیں نکالنا چاهئے که جس قدر عمرزیاده هو گی نیک اعمال بھی زیاده هوں گے اور حتمی طور پر انسانیت کے بلند مقامات تک پهنچ جائیں گے –همیں اس بات کو نهیں بھولنا چاهئے که بهشت، همارے نیک اعمال کی قیمت نهیں هے ، بلکه بهشت کے درجے فضل الهی کے مطابق هو تے هیں اگر قرار هو که همارے ساتھـ عدل سے برتاٶ کیا جائےگا تو هم کسی بهی اجر کے مستحق نهیں هیں-
حقیقت یه هے که هماری زندگی میں ، دانسته یا نادانسته اور جانے یا انجانے طور پر، گناه و ثواب باھم ملے جلے هیں اور ممکن هے کھ کبھی خرمن ثواب میں گناه کی ایک چنگاری سے آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں-
اس کے علاوه ، اگر خداکی مهر بانیاں شامل حال نه هو تیں ، تو همارے نیک اعمال خدا وند متعال کی نعمتوں کے مقابل میں ناچیز هیں، اور بنیادی طور پر هماری معرفت اس حد میں نهیں هے که جس پرستش کا خداوند متعال مستحق هے ، هم اسے انجام دے پائیں ، چنانچه فرزندان آدم کے سردار ، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم نے اس بات کا اعتراف کرتے هو ئے فر مایا هے: "خدا وندا! جس معرفت کا تومستحق تھا ، میں نے تجھے نهیں پهچانا اور جس بندگی کا تو سزاوار تھا ، میں نے تیری عبادت نهیں کی هے-"
لهذا همیں خداوند متعال کے لطف و کرم پر بھروسا کر نا چاهئے نه کھ اپنے اعمال پر، اب جبکه ایسا هے تو، زیاده یا کم عمل میں، لیکن مورد نظر وعنایت حق تعالی ، کوئی فرق نهیں هے ، اصل میں اهمیت اس بات میں هے که خداوند متعال همارے کس عمل کو پسند کرتا هے، لیکن خدا کی عنایتیں اس شخص کے شامل حال رهتی هیں جو اپنی تمام عمر میں ، کم هو یازیاده ، مخلصانه طور پر اس کی اطاعت و بندگی کرے-
عمر دنیوی نعمتوں میں سے صرف ایک نعمت هے اور اس کے علاوه دنیا میں اور بھی نعمتیں هیں ، جن میں بهت سی نعمتیں عمر کی نعمت سے برتر هیں اور ان میں سے هر ایک نعمت اپنی جگه پر انسان کے عقلی ومعنوی تکامل کے لئے ایک وسیله هو سکتی هے اور اس سے صحیح استفاده کر نے کی صورت میں ، انسان کو لافانی سعادت کی طرف رهنمائی مل سکتی هے-
آپ کے سوال کو دوسری نعمتوں تک توسیع دے کر اس طرح پیش کیا جاسکتا هے : کچھـ لوگ ، ، طاعت وبندگی اور حق تعالی کی رحمت کو اپنی طرف متوجه کر نے کے سلسله میں دوسروں کی نسبت زیاده نعمتوں اور فرصتوں کے حامل کیوں هوتے هیں ؟ اس سوال کے جواب میں هم مندرجه ذیل چند نکات کی طرف اشاره کر نا ضروری سمجھتے هیں :
١- ممکن هے آیات و روایات پر ایک سرسری اور سطحی نظر ڈالنےسے دنیا اور اس کی چیزوں ،من جمله عمر کے بارے میں دو متضاد تصور پیدا هو جائیں:
الف: پهلاتصور : دنیا ایک اچھی جگه هے ، کیو نکه آخرت کی کھیتی[1] اور فائده بخش تجارت کی جگه هے[2]- جیسے امیرالمو منین علی علیه السلام نے ، دنیا کی مذمت کرنے والے ایک شخص سے مخاطب هو کر فر مایا: "اے دنیا کی خدمت کر نے والے ، خود اس کے فریفته هو گئے هو!اس کے ساتھـ سچائی سےپیش آنے والے کے لئے ،دنیا سچائی کا گھر هے ، اس کو سمجھنے والے کے لئے سلامتی کا گھر هے ،اس سے زاد راه حاصل کر نے والے کےلئے ضرورتوں کا گھر هے ،موعظه کو قبول کر نے والے کے لئے نصیحتوں کا گھر هے – دنیا اولیائے خدا کی مسجد اور فرشتوں کے لئے مصلی هے، نزول وحی کی جگه اور اولیائے الهی کے لئے تجارت کی جگه هے-[3]
ب: دوسراتصور:دنیا شر[4] وفتنه[5] کی کهیتی هے اور سر گر می کے لئے ایک کهلونے[6] سے زیاده کوئی چیز نهیں هے – دنیا مو من[7] کازندان اور بیهوده[8] آرزٶں کا گھر هے اور جو اس پر بھروسا کرتا هے، اسے دهوکه دیتی هے-[9]
اس کی شیرنی تلخ اور سفیدی تاریک ھے [10]، اس کی ابتدا میں ناله وشیون اورآخر پر تباھی ونابودی هے [11]، اس کی مثال اس سانپ کی جیسی هے ،جس پر اگر هاتھـ پھیرا لیا جائے تو نرم لگتاهے لیکن اس کا زهر مهلک هے ، اس لئے اس کی خوشحا لیوں سے اجتناب کر نا چاهئے-[12]
چنانچه حضرت امیرالمومنین علی علیه السلام نےفر مایا هے : "واحذرکم الدنیا فانها دار شخوص ومحله تنغیص ساکنها ظاعن و فاطنها بائن تمید باهلها میدان السفینه تقصفها العواصف-"[13]
قابل ذکر بات هے که دنیا کے بارے میں مذکوره دونوں تصورات ،جن میں سے ایک دنیا کی پسندیده عکاسی کرتا هے اور دوسرا نا پسندیدگی کی ، اپنی جگه پر ناقص هیں ،اور صرف دنیا اور اس کی چیزوں کے بارے میں حقیقت کا ایک رخ دکھاتے هیں – حقیقت کو ان دونوں تصورات کے درمیان پانا چاهئے ،یا اس معنی میں که اگر دنیا میں عمر اور دوسری نعمتوں سے ،خدا کی اطاعت و بندگی اور علم و معرفت حاصل کر نے اورخدا کے بندوں کی خد مت کر نے اور زمین کو آباد کر نے کے لئے استفاده کیا جائے ، تو دنیا کی ایک بامقصد ، بامعنی، زیبائیوں اور خوبیوں سے سر شار زندگی کا مظاهره هو گا ، اس میں موجود نظام وعظمت جو حق کے مظهر هیں ، میں خدائے مهر بان کا مشاهده کیا جاسکتا هے ، وه دنیا جس میں خدا وند متعال کی محبت آباد هے اور جهاں پر پاک زندگی کے لئے امید و نشاط موج زن هے –
اس کے بر عکس ، اگر عمر اور خداداد مادی و معنوی سر مایه کو گناه اور خدا وند متعال کی نافر مانی کی راه میں صرف کیا جائے ، تو اس صوت میں انسان کی عمر کا ماحصل تباهی و تاریکی کے سوا کچھـ نهیں هو گا –
لهذا ، مومنانه زندگی ، قابل قدر اورآخرت کو آباد کر نے والی زندگی هے اور حیوانی اور پست زندگی ابدی نقصان کا سبب هے-
٢- اس لحاظ سے که دنیا پرور دگار عالم کی مخلوق هے، یقیناً وه خدا وند متعال کی ایک آیت ونشانی هے، لیکن یهاں پر اس پر بحث نهیں هے ، بلکه بحث تاثیر کے لحاظ سے هے جو انسان کے رشد و سر بلندی سے متعلق هے – اس لحاظ سے، دنیا بذات خود نه پسند یده هے اور نه نا پسند هے ، بلکه جس حالت میں هے، اس سے استفاده کیا جائے ، تو قابل ستائش هے اور اگر جس کی سزاوار نهیں هے ، اس سے استفاده کیا جائے ، تو قابل مذ مت ھے – یهاں پر معلوم هو تا هے که صرف طول عمر اور دنیاکی دوسری نعمتوں ، اور هستی کے امکانات کا حامل هو نا ، انسان کے سرمایه وجود کی ترقی وسر بلندی کے لئے کافی نهیں هے ، بلکه اس میں اراده و ایمان کا عنصر هے جو اسے ایک بالفعل نعمت میں تبدیل کر تا هے، اس لئے عمر اور زندگی کے دوسرے مواقع صرف رشد و بالیدگی کے لئے مقدمه هو سکتے هیں نه که بذات خود رشد و بالید گی-
ممکن هے کچھـ افراد طولانی عمر اور فراوان نعمتوں کے حامل هوں، لیکن بدترین زندگی سے دو چار هوں ، اس کے بر عکس ، تاریخ میں همیشه ایسے افراد موجود تھے اور هیں جو اپنی ایک مختصر عمر سے بهت کم استفاده کر کے دوسروں کے لئے مثالی کردار کے مالک بن جاتے هیں اور انسانی کمال کے اعلی ترین مقامات پر فائز هو کر دوسروں کے لئے غبطه کا سبب بن جاتے هیں – قرآن مجید اور معصو مین علیهم السلام کی روایتوں میں اس قسم کے نمو نے زیاده ملتے هیں-
٣-هماری اس بحث کی فضا سے باهر ایک تلخ حقیقت یه هے که، اکثریت ایسے لوگوں کی هے که جن کی روز مره زندگی کے اعمال نامه میں گناه وثواب دونوں چیزیں پائی جاتی هیں ، بلکه گناه کا پلڑا ، ثواب کے پلڑے کی به نسبت بھاری هو تا هے ، خاص کر یه که بهت سے گناه غفلت یاجهالت کی وجه سے هو تے هیں اور هم لاشعوری طورپر ایسے گناهوں کے مرتکب هو تے هیں- لهذا اگر خداوند متعال کا فضل و کرم اور عنایت شامل حال نه هو تو انسان کی عمر کے دوران اعمال نیک کا مطلوب معتدل نتیجه نهیں هو گا – گو یا که همیں همیشه خداوند متعال کے لطف وکرم کا امید وار رهنا چاهئے، کیو نکه خداو ند متعال نے وعده کیا هے که وی نیکیوں کو بڑھا دے گا اور توبه کر نے والوں کے گناه کو پاک کرے گا – طولانی عمر اور نعمت کی فرا وانی همیشه خدا کی طرف سے لطف و مهر بانی کے معنی میں نهیں هے-
ایک دن پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کو کسی نے کها نے پر دعوت دی ، جب آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم میزبان کے گھر تشریف لے گئے ، تو دیکها که ایک مرغی نے دیوار پر انڈا دیا هے ، اس کے بعد انڈا دیوار سے گر کرایک میخ ٹھھرگیا ، نه زمین پر گرا اور نه ٹوٹا - پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اس منظر کو دیکھـ کر تعجب کیا میزبان نےعرض کی: کیا آپ اس انڈے کو دیکهـ کر تعجب کرتے هیں ؟ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو پیغمبری پرمبعوث فر مایا هے، میں نے کبھی کوئی بلا نهیں دیکھی هے- یه سن کر رسول خدا صلی الله علیه وآ له وسلم اٹھے اور اس کا کهانا نهیں کهایا اور فر مایا: جو بلا کو نه دیکهے ، خدا وند متعال اس پر لطف و عنایت نهیں کر تا هے-[14]
اس بناپر ممکن هے نعمتوں کی فراوانی ، گناهگار انسان کے لئے گناه و برائی کے دلدل میں پھنسنے کا سبب هو تاکه وه اپنے اعمال کی سزا کو پاسکے –
لهذا مناسب هے که انسان کو اس سلسله میں همیشه ڈرتے میں رهنا چاهئے که کیا اس کے اختیار میں آئی نعمتیں حقیقت میں خداوند کریم کے لطف و کرم کی وجه سے هیں یا اس کے لئے آزمائش وامتحان هیں – لهذا هم دعای مکارم اخلاق میں خدا وند متعال کی طرف مخاطب هو کر عرض کرتے هیں : " اللهم عمرنی ماکان عمری بذله فی طاعتک فاذا کان عمری مرتعاً للشیطان فاقبضنی الیک قبل ان سبق مقتد الی اولیستحکم غضبک علی-" " خدا وندا! مجھے اس وقت تک عمر عطاکر ، که تری اطاعت و بندگی کی راه پر هو – پس اگر میری عمر شیطان کی چرا گاه بن گئی تو میری جان لے لینا ، اس سے پهلے که تیری ناراضگی میری طرف متوجه هو جائے اور تیرا غضب مجھـ پر حاکم هو جائے –"
٥- بعض نیک کام ، جیسے ، صدقه دینا اور صله رحم یعنی رشته داروں ، خاص کر والدین ، کی ملاقات اور ان سے نیک برتاٶ کر نا، عمر کے طولانی هو نے کا سبب بن جاتا هے ، اور اسی طرح بعض گناه عمر کے کم هو نے کا سبب بن جاتے هیں-
لهذا ان اعمال صالح کو انجام دینے اور گناهوں کو ترک کر کے عمر کے طولانی
هو نے کا سبب فراهم کیا جاسکتا هے –چناں چه حضرت امام رضا علیه السلام نے فر مایا : " جس شخص کی زندگی کے صرف تین سال باقی بچے هوں ، اگر صله رحم انجام دے تو خدا وند متعال اس کی عمر کو تیس سال تک بڑها دے گا اور خدا وند متعال جو چاهتا هے انجام دیتا هے-[15]
مادی دنیا میں کوئی بھی چیز همیشه رهنے والی نهیں هے – دنیا اور اس میں جو کچھـ هے ، من جمله انسان ، اجل اور ایک معین مهلت اور مقدر رکھتے هیں که اس سے آگے نهیں بڑھتے هیں اور کم و بیش نهیں هوتے هیں – هر چیز کی اجل اور اس کا مقدر کچھـ مصلحتوں پر مبنی هو تا هے، جو صرف خداوند متعال کو معلوم هے – اسی حالت میں اجل مقدر کے علاوه ، جس کا فطری نتیجه موت هے، انسان کے لئے اجل معلق بھی هے جو کم و بیش هو نے کی قابلیت رکھتی هے-
لیکن جیسا که بیان هوا : هر ایک کی فطری عمر کن مصلحتوں کی بناپر مقدر هو تی هے هم اس کے بارے میں کچھـ نهیں جانتے اور صرف خدا وند متعال کو اس کا علم هے لیکن اهم نکته یه هے که بهت سے مواقع پر نهیں سمجھا جاسکتا هے که شخص اپنی طبیعی موت سے مر گیا هے یا اجل معلق کی وجه سے-
٧- بعض روایات سے معلوم هو تا هے که موت سے تکامل کا سلسله ختم نهیں هوتا هے، بلکه عالم برزخ میں بهی انسان کے تکامل کا سلسله بدستور جاری رهتا هے – لیکن وهاں پر معنوی رشد اس راه کے تابع هے، جسے انسان نے اس دنیا میں اپنے لئے معین کیا هے –لهذا اگر کوئی شخص روحانی کمالات کی راه پر موت سے دو چار هو جائے ، تو عالم برزخ میں اپنی ترقی ورشد کی راه پر گامزن رهتا هے-
٨- انسان کی عمر کے بهترین اور قابل قدر اوقات جوانی اور اوائل عمر کے دوران
هو تےهیں ، کیو نکه یه زمانه شوق وجذبه اور جوانی کے عزم واراده کا دور هو تا هے اور خداوند متعال جوانوں کی عبادت کے سلسله میں فرشتوں پر فخر ومباهات کر تا هے اور انهیں اضافی اجر عطا کرتا هے اور اس کے عوض ان کی خطاٶں سے چشم پوشی کرتا هے اور انهیں توبه کی توفیق عطا کرتا هے –
لیکن بوڑهاپے میں بدن کی کمزوری اور ضعف کے سبب بهت سی عبادتیں بجالانا ممکن نهیں هوتا هے – اسی طرح گناه کا مرتکب هو نا بھی اس عمر میں بدتر اور خطر ناک تر هو تا هے ، کیو نکه اس عمر میں توبه کی توفیق کم حاصل هوتی هے-
اس کے علاوه ،بوڑهاپے میں عام طور پر کوئی نیا اتفاق واقع نهیں هوتا هے، اور انسان کے حقیقی اور جوشیلے ایام وهی هیں جو وه جوانی میں طے کرتا هے- لهذا انسان کی زندگی کا اهم دور جوانی کا هوتا هے اور یه دور قابل هدایت دور هوتا هے اور اس زمانه میں انسان فیض معنوی کو حاصل کر نے کی بهتر اور مناسب قابلیت رکھتا هے-
لهذا جیسا که تاریخ سے معلوم هو تا هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے اکثر اصحاب جوان تھے اور آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے اکثر شدید دشمن بوڑهے تھے-
هم اس زمانے میں بھی ایسے جوانوں کو جانتے هین ، جو نفسانی خواهشات پر کنڑول کر کے ایک رات کے اندر سلوک الی الله کی سو ساله راه کو طے کر چکے هیں اور بهت سے بوڑھوں کے آگے نکل گئے هیں –
٩- عدل الهی کے مطابق ، خداوند متعال کے هاں ،هر ایک شخص کے لئے اس کے اختیار میں قرارپائی ھوئی نعمتوں کے مطابق تکلیف معین هوتی هے اور اس کے اعمال کے مطابق ثواب و عقاب مقرر هو تے هیں – لهذا ، مثال کے طور پر جو جاهل قاصر هے، یعنی کسی قصور کے بغیر شرعی احکام کے بارے میں جاهل هے، تو اس پر کوئی تکلیف نهیں هوتی هے-
اسی طرح محاسبه اور پوچھـ گچھه بھی ان نعمتوں کے مطابق هو تی هے جو انسان کے اختیار میں هوتی هیں- اس لئے روایتوں میں آیا هے که برزخ اور قیامت میں دانشوروں ، دولتمندوں اور مقام و منزلت والوں سے حساب و کتاب عام لوگوں کی نسبت کئی گنا زیاده اور سخت هو گا –
اس بناپر جس نے اپنی عمر اور مادی امکانات سے کم استفاده کیا هو اس کے اعمال کا اسی تناسب سے تجزیه کیا جائے گا اور اسی قدر اس کے ساتھـ نرمی اور مهر بانی کا برتاٶ کیا جائے گا- چنانچه حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے فر مایا هے: " جب قیامت کا دن آئے گا کچھـ تو لوگ کهڑے هوں گے یهاں تک بهشت میں داخل هو ں گے – ان سے پوچھا جائے گا : تم کون لوگ هو؟ وه جواب دیں گے : هم فقرا هیں- پو چھا جائے گا : کیاحساب کے بغیر بهشت میں داخل هو نا چاهتے هو؟ وه جواب میں کهیں گے همیں تو کوئی چیز نهیں دی گئی هے جس کا هم سے حساب لیا جائے گا – خداوند متعال فر مائے گا یه لوگ سچ کهتے هیں ، انهیں بهشت میں داخل هونے دیجئے-"[16]
١٠- اهم نکته یه هے که خداوند متعال کے حضور اعمال کی کیفیت مدنظر هے، نه که کمیت – چنانچه نقل کیا گیا هے که امیرالمومنین علیه السلام همیشه فر ماتے تھے: جو عمل تقوا کے ساتھـ هو (اگر چه کم هو) کم نهیں هے – یه عمل کیسے کم هو گا جبکه خد کی طرف سے قبول کیا گیا هے-[17]
لهذا ممکن هے که کوئی بیس بار سفر حج پر جائے لیکن کسی نتیجه پر نه پهنچ سکے لیکن ایک شخص صرف ایک بار حج پر جائے اور بهشت کی کلید اسے مل جائے- اس لئے اهل بیت علیهم السلام کی روایتوں میں آیا هے که اگر انسان کا صرف ایک عمل اس کی مختصر زندگی میں قبول هو جائے ، تو اس کی آخروی زندگی میں فائده بخش واقع هو گا ، جبکه ممکن هے که بهت سے انجام پائے ھوئے کام بعض دلائل کے سبب بظاھر اھم ھوں ، جیسے عجب وریا و عدم وتقوی، ، بار گاه الهی میں قبول نه هو پائیں اور ان کا کوئی فائده نهیں هو گا – لهذا همیشه کم عمل لیکن یا کیفیت بهتر هے زیاده اعمال سے جو بے کیفیت هوں-[18]
١١- مومن کی نیت ،همیشه اس کے عمل سے بهتر هے [19]اور بار گاه الهی میں عمل کے قبول هو نے کی بنیادی شرط بھی یهی نیت میں اخلاص اور عمل کا صرف خدا کے لئے هو ناهے – [20]
لهذا جو شخص نیک اعمال انجام دینے کی نیت کر تا هے لیکن بعض دلائل کی وجه ، سے ،اسے انجام دینے میں کامیاب نهیں هوتا هے ، خداوند متعال اسے اس عمل کو انجام دینے والوں کا اجر عطا کرے گا- [21]
اس لئے نیک کام انجام دینے والے انسان کو همیشه نیک نیت رکھنی چاهئے اور خدا وند متعال سے طلب کر نا چاهئے که اسے تمام نیک کام انجام دینے کی توفیق عطا کرے ، تاکه اس کی عمر کافی نه هو نے کی صورت میں اس کی نیت کے سبب اسے ان کا ثواب ملے اور یه ثواب اس کے اعمال نامه میں درج هو جائے – امام جعفر صادق علیه السلام نے فر مایا : "اهل دوزخ اس لئے همیشه کے لئے جهنم میں هوں گے ، کیونکه وه نیت رکھتے تھے که همیشه خدا کی نافر مانی کریں گے اور اهل بهشت اس لئے همیشه بهشت میں هوں گے کیونکه وه نیت رکهتے تھے که اگر دنیا میں زنده رهیں گے تو همیشه خدا کی اطاعت کریں گے –پس دونوں گروه اپنی نیتوں کے سبب جاوداں هوں گے ، کیونکه وه اپنی نیتوں کے مطابق عمل کر نا چاهتے تھے-[22]
١٢- آخری نکته یه که:
تو بندگی چوگدایان به شرط مز مکن که خواجه خودرسم بنده پروری داند
مناسب هے خدا کا بنده فریضه کی تشخیص کے بعد اپنی تمام کوششوں اور همت کو بندگی اور الهی فریضه انجام دینے کے لئے بروئے کار لائے- خداوند متعال هر گز کسی کا حق ضائع نهیں کرے گا اور ضرور اس کی مدد کرے گا-
[1] - الدنیا مزرعه الآخره-
[2] - تجاره مریحه یسد ها لهم ربهم (خطبه متقین نهج البلاغه)-
[3] - نهج البلاغه ،ح١٣١،صبحی صالح-
[4] - الدنیا مزرعه الشر ،غرر الحکم ،ص١٤٢-
[5] - ابتلی الناس بها فتنه ، نهج البلاغه ، خ٦٣، ص٩٤، صبحی ،صالح-
[6] - انما ا لحیاه الدنیا لعب و لهو ،جدید ٢٠-
[7] - الد نیا سجن المٶ من ،کافی، ج٢،ص٢٥٠-
[8] - دار منی ،نهج البلاغه ،خ٤٥،ص٨٥، صبحی-
[9]ان الدنیا تعز المٶمن بها، نهج البلاغه ،خ ١٧٨،ص٢٥٧،صبحی-
[10] - وقد امر فیها ماکان حلواً وکدر منا ماکان صفواً ، نهج البلاغه ،خ٥٢،ص٨٩،صبحی-
[11] - بما اصف من دار اولها غنا وآخر ها فنا ،نهج البلاغه،خ٨٢،ص١٠٦
[12] - نهج الکتاب ،خ٦٨،ص٤٥٨-
[13] نهج البلاغه ،ظخ ١١٦،ص٣١٠-
[14] - اصول کافی ،کتاب الایمان، باب ابتلا المو من،ح ٢٠-
[15] - اصول کافی ، کتاب الایمان ، باب صله ی رحم ، ح٣-
[16] - الکافی،ج٢،ص٢٦٤،باب فضل فقرا المسلمین-
[17] - اصول کافی ، کتاب الایمان ، باب الطاعه ،ح٥، کان امیرالمومنین (ع) یقول : کایقل عمل مع تقورا وکیف یوبل مایتقبل-
[18] - ایضاً ،ح٧-
[19] - اصول کافی نیه المومن خیر من عمله کتاب الایمان والکفر ، باب النیه ،ح٢-
[20] - ایضاً ح١-
[21] - ایضاً ،ح٣-
[22] - ایضاً ،ح٥،" کل یعمل علی شا کلته "،اسرار،٨٢-