ایمان انسان کا ان معنوی امور کی جانب دل کی گهرائیوں کے ساتھ میلان هے جنھیں وه مقدس سمجھتا هے اور ان سے متعلق عشق و محبت اور شجاعت کا اظهار کرتا هے ۔
قرآن مجید کے مطابق ایمان کے دو بال و پر هیں : علم اور عقل ، تنها علم کفر کے ساتھ جمع هو سکتا هے اور تنها عمل منافقت سے بغل گیر هو سکتا هے ۔
ایمان کی واقعیت اور حقیقت کے سلسله میں متکلمین اسلام کے درمیان تین نظریه موجود هیں :
1- اشاعره کی نظر میں ایمان کا مطلب ، خداوند اور پیغمبروں کے وجود الله کے امر و نهی کی تصدیق کرنا هے ۔
2- معتزله کی نظر میں ایمان کا مطلب ، خدا کے بتائے هوئے فرائض و احکام پر عمل کرنا هے ۔
3- فلاسفه متکلمین کی نظر میں ایمان ، یعنی کائنات عالم کی واقعیت اور حقیقت سے علم و آگاهی اور اس کے ذریعه نفس کو کمال تک پهنچانا ؛ اور عرفاء کی نظر میں ایمان کا مطلب ، خد اسے لؤ لگا کر خدا کے علاوه تمام چیزوں سے روگردانی کرنا هے ۔
مغرب ( یورپ) اور عیسائیت میں ایمان سے وابستگی دو نئے طریقه سے شکل پاتی هے ۔
1- افراط کی بنیاد پر ایمان سے وابستگی ، جهاں عقل کو بالائے طاق رکھ کر ، دینی تعلیمات اور خدا و ماورائے طبیعت پر ایمان کے سلسله میں عقل کا سد باب کردیا گیا هے ۔
2- اعتدال کی بنیاد پر ایمان سے وابستگی ، ج کسی حد تک ایمان اور اصول دین کی تقویت کے سلسله میں عقل و استدلال کے قائل هیں جب که ایمان کو عقل پر مقدم سمجھتے هیں ۔
مفکرین اسلام کے درمیان بعض عرفاء اور اخباریوں کا نظریه افراط کی بنیاد پر ایمان سے وابسته رهنے والوں کے مشابه هے جب که امام غزالی اور مولوی کو کسی حس تک اعتدال کی بنیاد پر ایمان سے وابسته رهنے والوں میں شمار کیا جا سکتا هے ۔
محسوس یه هو رها هے که بے سر و پا اور خشک پیچیده فلسفی استدلال نے نئے طرز کے ایمان سے وابستگی کی زمین هموار کی هے ۔
هر جاندار کے دل میں کوئی نه کوئی آرزو و تمنا هوتی هے جس سے وه دلچسبی رکھتا هے ؛ انسان بھی مادی دلچسبی کے علاوه کچھ معنوی چیزوں جیسے ، علم و معرفت ، خوبصورتی و غیره سے دلچسبی رکھتا هے ، ایمان بھی انسان کی ایک قسم کی آخری آرزو کی طرح هے جهاں دیگر تمام دعوے تحت الشعاع قرار پاتے هیں ۔ ایمان کا دائره هر انسان کے لئے ایک مقدس دائره هے ، یعنی انسان کی آخری آرزو آخرکار ایک مقدس امر میں بدل جاتی هے اور وهیں سے شجاعت ، عشق و محبت کا جذبه پیدا هوتا هے۔
ایمان کا تعلق همیشه ایک معین امر سے هے ، اسی لئے مومن کو چاهئے که اس کا علم رکھے [1] ۔
لفظ ایمان کی مختلف مذهب و مسلک کی بنیاد پر متعدد تعریفیں کی گئی هیں علامه طباطبائی ایک شیعه فلسفی اور مفسر قرآن کے عنوان سے ایمان کے یه معنی بیان کرتے هیں :
ایمان تنها علم و معرفت کا نام نهیں هے اس لئے که بهت سی آیتیں ایسے افراد کے بارے میں مرتد هونے کی خبر سیتی هیں جو علم وآگاهی کے باوجود منحرف اور مرتد هوئے هیں ، بلکه مومن کو چاهئے که علم کے ساتھ ساتھ اپنے علم کے تقاضوں پر بھی عمل کرے اور علمی تقاضوں کے تحت دل لگائے تا که آثار علم اس سے نمایاں هوں ، لهذا اگر کسی شخص کو یه علم هے که الله کے سوا کوئی اور معبود نهیں اور وه اپنے اس علم کے مطابق عمل بھی کر رها هے تو اس کا مطلب یه هے که خد اکی عبادت کی انجام دهی میں تسلیم هے اور ایسا هی شخص مومن هے [2] ۔
چونکه قرآن مجید میں انسانوں سے خدا کا تقاضا ایمان کی بنیاد پر هے اور سیکڑوں آیتوں میں مختلف طور پر تاکید کے ساتھ مخاطب کیا گیا هے که ایمان کے ذریعه اپنی نجات کا راسته مهیا کرو[3] ۔
اسی لئے علمائے اسلام کے لئے ایمان کے معنی کی خاص اهمیت هے ۔
ایمان کی حقیقت و واقعیت کے سلسله میں متکلمین اسلام کے درمیان تین بڑے نظرئیے موجود هیں :
1- اشاعره کی نظر میں حقیقی ایمان سے مراد : خدا اور رسولوں کے وجود کی تصدیق اور انبیاء کے ذریعه خدا کے بیان شده امرو نهی کی دل سے تصدیق کے ساتھ زبان سے ان کا اقرار کرنا هے ۔ یعنی نمایاں و آشکار حقیقتوں کو قبول کر کے ان کی گواهی دینا ۔ یه حالت ایک طرف خضوع اور تسلیم هونا(قلبی لگاؤ) هے تو دوسری طرف تصدیق و شهادت کے موضوع سے فعال رابطه هے [4] ۔
2- معتزله کے نزدیک ایمان سے مراد : واجبات و احکام پر عمل کرنا اور انجام دینا هے ۔
خدا اور رسولوں کی تصدیق خود ایک قسم کا وظیفه پر عمل کرنا اور دیگر فرائض واجبات کو انجام دینا اور محرمات کو ترک کرنا هے جو شخص اپنے تمام فرائض پر عمل کرتا هے وه مومن شمار هوتا هے ، معتزله کی نظر میں ایمان عمل سے وجود پاتا هے نه که نظریه سے [5] ۔
3- اکثر و بیشتر فلسفیوں کے نزدیک حقیقی ایمان سے مراد : کائنات عالم کی حقیقت و واقعیت سے متعلق فلسفیانه علم و آگهی هے ۔
دوسرے لفظوں میں ، نفس انسانی کا نظریات کے اعتبار سے کمال کی طرف سیر کرنا حقیقی ایمان کو شکل دیتا هے لهذاواجبات کو انجام دینا اور محرمات کو ترک کرنا (جو عملی اعتبار سے کمال کی جانب سیر هے) اسی علم و معرفت کا ظاهری اثر هے ۔اور جتنا هی زیاده ایک مومن کا عقیده حقائق عالم سے مطابقت کرے گا اسی قدر اس کا ایمان کامل هوگا [6] ۔
جیسا که صدر المتالهین اسفار اربعه کے پهلے سفر کے شروع میں الٰهیات بالمعنی الاخص کی بحث کرتے وقت لکھتے هیں : " ثم اعلم ان ھذا القسم من الحکمۃ التی حاولنا الشروع فیھا ھو افضل اجزائھا و ھو الایمان الحقیقی بالله وآیاته والیوم الآخر المشار الیه فی قوله تعالیٰ [ و المؤمنون کل امن بالله و ملائکته و کتبه و رسله ]و قوله : [ ومن یکفر بالله و ملائکته و رسله و الیوم آخر فقد ضل ضلالاً بعید] وھو مشتمل علی علمین شریفین : احد ھما العلم بالبداء و ثانھا العلم بالمعاد ، و یندرج فی العلم بالمبدء معرفۃ الله و صفاته و افعالۃ و آثاره و فی العلم بالمعاد معرفۃ النفس و القیام و علم النبوت "[7] ۔
" جان لو که حکمت کی یه قسم جس میں هم نے شروعات کی هے ، حکمت کاسب سے افضل جزو هے اور وه الله ، اس کی آیات اور روز قیامت پر حقیقی ایمان هے ، جیسا که الله کے اس قول میں اشاره هوا هے " اور مومنین سارے کے سارے الله اس کے ملائکه ، رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لائے هیں " اور خدا کا یه قول " جو بھی الله اس کے ملائکه ، رسولوں اور روز قیامت سے انکار کرے گا وه کھلی هوئی گمراهی میں مبتلا هوا "اور یه (ایمان) دو شریف علم پر مشتمل هے ایک مبداء کا علم ، دوسرے معاد کا علم ، مبداء کے علم کے تحت، الله ، اس کے صفات ، افعال اور آثار کی معرفت هے اور معاد کے علم کے تحت ، نفس ، قیام اور نبوتوں کا علم هے ” ۔
اس نظریه میں خدا اور رسولوں کی تصدیق ایک منطقی تصدیق کے معنی میں بیان کی گئی هے ، جو ایک ظاهری حقیقت سے مربوط هے اور کائنات علم کی معرفت کا ایک حصه هے اور وظیفه پر عمل کرنے کا مفهوم ، ایمان کے مفهوم سے خارج هے ۔
مگر هاں ! عارفوں کی نظر میں ایمان نه علم کا نام هے نه عمل کا اور نه هی شهادت کا نام هے بلکه ایمان کا جوهر غیروں سے روگرداں هو کر خدا کی جانب متوجه هونا هے : " الایمان ھو الّذی یجمعک الی الله و یجمعک بالله و الحق واحد و المومن متوحد و من وافق الاشیاء فره الاھواء ومن تفرق عن اله بھواه واتبع شھوته وما یھواه فاته الحق "، " ایمان وه چیز هے جو تمهیں خدا کی طرف متوجه کردے اور خدا کے نام پر ایک جا کردے ، یعنی خدا پر ایمان لانے کا مطلب خدا ئے بر حق کی جانب متوجه هونا هے اور یه اس وقت تک صحیح نهیں هو سکتا جب تک که خدائے بر حق کے علاوه غیروں سے منه نه موڑیں ، لهذا غیروں کی طرف جس قدر جھکے گا اسی قدر خدائے برحق سے منه موڑے گا اور اسی مقدار میں ایمان بھی کم هوگا ، اس لئے که خدا کی طرف متوجه هونا ایمان هے اور اس سے روگردانی کرنا اس کی ضد ( والضدان لا یجتمعان) دو ضد آپس میں ایک جگه جمع نهیں هو سکتیں [8] ۔
عیسائی متکلمین نے بھی ایمان کی تعریف میں زیاده عارفوں کا طریقه کار اپنایا هے ۔
ایان باربر لکھتا هے :
تییلخ نے کها هے که دین همیشه آخری تمنا سے مربوط مسائل سے تعلق رکھتا هے جس کی تین خصوصیات هیں :
اول : آخری تمنا کا هونا ؛ یعنی بے قید و پیمان ، بیعت و تسلیم هونا ۔ یه موضوع زندگی و موت کا عنوان رکھتا هے ، کیونکه زندگی کے معنی مد نظر هیں جب که انسان اپنی زندگی کو اس انداز میں بسر کرتا هے که یا وعده پورا کرے یا اس کام کے لئے اپنی جان دے دے ۔
دوم : آخری تمنا ایسی قدر و قیمت وجود میں لاتی هے جس کے مطابق تمام تر آرزوئیں نظم پاتی هیں ۔
سوم : آخری تمنا اپنے اندر ایک کامل اور جامع نظریه اور زندگی کی راه چھپائے هوئے هے ، کیونکه یه انسان کے وجود اور زندگی کے هر موڑ سے تعلق رکھتی هے [9] ۔
دوسرے مقام پر وه "رچرڈسن" کے قول کو نقل کرتا هے :
" لفظ ایمان سے کتاب مقدس یا الٰهیات اهل کتاب کی مراد کیا هے، یه سمجھنے کے لئے اس نکته کو سمجھنا ضروری هے که ایمان کا مطلب ، دلیل و برهان کے ذریعه ایک فکر یا نظریه کے الهام سے کم نهیں هے ، یه مسئله یقین کرنے کا هے نه که ثابت کرنے کا "[10] ۔
اس نظریه کا مقصد ایمان کو علم و معرفت اور برهان سے بلند و برتر سمجھنے کے علاوه یه بھی هے که وه یه سمجھانا چاهتا هے که ایمان نه عقل کے منافی هے اور نه هی اندھی تقلید هے ۔
هم عهد جدید کی بهت سی آیتوں اور عبارتوں میں ایمان کو اضطراب و خوف کے مد مقابل پاتے هیں ؛ ایمان یعنی اراده کی هدایت اور راسته کا ملنا ، جوکه ایک انسان کے اندر کسی قضیه کی سچائی یا صحت پر یقین هونے سے زیاده اس پر اعتقاد پید اکرنا اعتماد و بھروسه سے پیدا هوتا هے جو خدا ، اس کی بخشش اور لطف و کرم پر توکل کے نتیجه میں وجود پاتا هے ، بهر حال بھروسه کرنا بھی انسانیت کا کام هے اس لئے که خدا پر اعتماد کرنے سے انسان اپنی طاقت کو بھول جاتا هے ، خداکی جانب متوجه هونے کا مطلب یه هے که انسان اس سے پهلے جن چیزوں پر اعتماد و بھروسه کرتا تھا اس سے بیزار هوجائے اور ان سے منه موڑلے ، ایمان کا لازمه ، ایمانداری ، توکل ، بیعت اور اطاعت هے [11] ۔
ایمان سے وابستگی (fideism) [12]
ایمان سے وابستگی کے لفظ کو (fideism) کے مترادف استعمال کیا جاتا هے یه لفظ عقل سے وابستگی کے مقابله میں هے جو اپنے کلامی معنی میں هے ، ایمان سے وابستگی کے نظریه کے مطابق دین کی حقیقت ایمان پر مبنی هے ، عقل و استدلال کے ذریعه حقائق تک نهیں پهنچاجا سکتا ، اس دعوے کی تاریخ بڑی طویل هے جو " پولس قدیس" کے زمانه تک پهنچتی هے ، لیکن اس کا دبدبه اور بول بالا انیسویں صدی سے آج تک مغرب اور عیسائیت میں زیاده نظر آرهاهے ۔
ایمان سے وابستگی کے دو قسمیں هیں ، افراطی اور معتدل ۔
1- افراط کی بنیاد پر ایمان سے وابستگی یا عقل سے دشمنی :
" شستوف" ایمان سے افراطی وابستگی رکھنے والا ایک شخص کهتا هے : " عقل کے تمام تر معیار کو رد کرنا سچے ایمان کا ایک جزو هے "
اس کا عقیده هے که مثال کے طور پر انسان اگر دینی تعلیمات کی بنیاد پر کسی عقلی دلیل کے بغیر یه ایمان لائے که (5=2+2) هوتا هے تو اس طرح کا ایمان اور یقین سچے ایمان کا ایک نمونه هے [13] ۔
" کی یرک گور" اور سبھی افراط پسندوں کا عقیده یه هے که دینی حقائق کی ماهیت کسی بھی طرح کی عقلی دلیل سے سازگار نهیں هے اور دینی حقائق فقط ایمان کی بنیاد پر قابل قبول هیں ، اصول دین نه صرف عقل سے بالا تر نهیں بلکه عقل کے مخالف هیں [14] ۔
2- ایمان سے معتدل وابستگی یا غیر عقلی ایمان سے وابستگی : اس طرح کا ایمان عیسائی سنت "اگو سینی" کے اندر موجود هے ۔
اس نظریه میں ایمان عقل پر مقدم هے ۔ هاں عقل و استدلال دینی حقائق کی جستجو اور انھیں سمجھنے میں کسی حد تک کردار اد اکر سکتے هیں [15] ۔
اسلام کی نظر میں ایمان سے وابستگی
هر چند افراط کی بنیاد پر ایمان سے وابستگی کی ضروت اور زمین سازی (جس طرح عیسائیت اور مغرب دنیا میں هے) اسلامی نقطه نظر کے مطابق موجود نهیں هے لیکن پھر بھی اسلامی مفکرین کے آثار کے کچھ نمونے مغربی دنیا کے ایمان سے وابستگی کے مشابه هیں ؛ مثال کے طور پر اخباری ، گروهی اور جمودی رجحان نے ایمان کے نام پر دین میں دلیل و برهان ، استدلال اور تعقل و تفکر کو ترک کر رکھا هے ۔
اسی طرح بعض اسلامی عارفوں کے کلام میں جیسے ( محی الدین عربی) کی کتاب " فتوحات مکیه" میں افراطی ایمان کی جھلکیاں نظراتی هیں موصوف کی نظر میں اگر کوئی شخص عقل و فکر کی بنیاد پر ایمان لائے تو حقیقت میں وه ایمان هی نهیں لایا ، اس لئے که سچا ایمان وه هے جو وحی کی بنیاد پر هو جب که یه ایمان عقل پر مبنی هے [16] ۔
امام غزالی کو اعتدال کی بنیاد پر ایمان سے وابسته رهنے والوں میں شمار کیا جا سکتاهے ، موصوف کا عقیده هے که استاد کا کلام ایمان نهیں پیدا کر سکتا ان کی نظر میں ایمان تک تعقل و تفکر کے ذریعه رسائی نهیں هو سکتی ، ایمان ایسا نور هے جو روشنی دیتا هے اور خداوند عالم لطف کے طور پر اپنے بندوں میں جسے چاهتا هے مفت عطا کر دیتا هے ۔
" مولوی " نے بھی صرف عقل سے وابستگی اور برهان پر اعتماد کرنے کو مصنوعی لکڑی کے پیر پر چلنے سے تعبیر کیا هے اور عقل کو عشق و ایمان سے پست قرار دیا هے ان کے نزدیک برهان و مفاهیم کے ذریعه حاصل هونے والا ایمان همه وقت پاش پاش هونے کے قریب هوتا هے [17] ۔
توجه:
اسلام اور عیسائیت میں ایمان سے وابستگی کے اسباب میں سے ایک سبب عقل سے وابسته لوگوں کا حد سے تجاوز کرنا اور ایمان کے جوهر کو استدلال و فلسفی مسائل کی پیچیده گیوں میں گرفتار کرنا هے ۔
اسی طرح ماوارائے طبیعت کے دعووں کے اثبات میں عیسائی فلسفه کی ناتوانی نے اس فکر کو شدت بخشی هے ۔
حقیقت میں بهت سے عیسائی مفکرین نے یه چاها که دین و ایمان کے جوهر کو بے روح اور سرد ، عقلی و کلامی بحثوں سے نجات دیں [18] ۔
[1]پل تییلخ ، پویا ئی ایمان ، ترجمه حسین نوروزی ، ص 16-17 انتشارات حکمت ، تهران 1375 ھ ۔ ش۔
[2] طباطبایى، سید محمد حسین، ترجمه، تفسیر المیزان، ج18، ص 411 - 412، بنیاد علمى و فکرى علامه طباطبایى، 1363 هش.
[3] مانند سوره ی و العصر: بسم الله الرحمن الرحیم، والعصر. ان الانسان لفى خسر،الاّ الذین آمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر.
[4] ملاحظه هو: مقالات الاسلامیین، ابوالحسن اشعرى، ج 1، ص 347، مصر، 1969م؛ اللمع، ص 75، چاپ مدینه، 1975 م؛ تقتازانى، شرح المقاصد، ج2، ص 184، چاپ عثمانى، 1305 هق، به نقل از محمد مجتهد شبسترى، ایمان و آزادى، ص 12، طرح نو، تهران، سوم 79 ش.
[5]معتزله کے عقائد کے بارے میں ملاحظه هو: احمد امین ، فخر الاسلام وضحیٰ الاسلام مبحث معتزله ۔
[6] شهید ثانى، حقایق الایمان، ص 16، 17، 18.
[7] صدر الدین، محمد شیرازى، الحکمة المتعالیه فى الاسفار العقلیه الاربعة، ج6، ص 7، دار احیاء التراث العربى، بیروت، لبنان، چهارم، 1990 م.
[8] خلاصه ی شرح التعریف، از متون عرفانى قرن پنجم، ص 227، انتشارات بنیاد فرهنگ ایران.
[9] ایان باربور، علم و دین، ترجمه، بهاء الدین خرمشاهى، ص 257، مرکز نشر دانشگاهى تهران، 62.
[10] ایضاً ، ص 259
Alam Riehardson, cd. A Theological Work book of the bible ) london, SCM press, 1951 pb)
[11] ایضاً ، ص 260.
[12] بحث ایمان گرایى، اقتباس از کتاب "فرهنگ واژهها" نوشته ی عبدالرسول بیات و دیگران.
[13] ایضاً
[14] ایضاً
[15] ایضاً
[16] ایضاً
[17] ایضاً
[18] ایضاً