حج پر جانے کے لیے مستطیع[1] ہونے کے بعد، ہر عاقل و بالغ مکلف پر لازم ہوتا ہے کہ اسے سفر حج کے مقدمات فراہم کرنے کے لیے اقدام کرنا چاہئیے[2]۔ مثال کے طور پر اگر حج پر جانا، نام لکھوانے سے ممکن ہو تو اسے اولین فرصت میں نام لکھوانا چاہئیے۔
لیکن مذکورہ سوال کو ہم نے مراجع تقلید کے دفاتر میں بھیجا اور اس کے موصولہ جوابات حسب ذیل ہیں:
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای{مدظلہ العالی}:
اگر پہلے اس حج پر مستقر ہوا ہے ، اور وہ خود حج کو انجام نہیں دے سکتا ہے اور صحت یاب ہونے کی امید بھی نہیں رکھتا ہے، تو اسے نائب مقرر کرنا چاہئیے تاکہ وہ اس کے لیے حج بجا لائے ، لیکن اگر پہلے سے حج مستقر نہیں ہوا ہے تو مذکورہ فرض کے مطابق اس پر حج واجب نہیں ہے اور اسے اپنے مال کو خرچ کرنے کا اختیار ہے۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی{مدظلہ العالی}:
حج واجب میں زندہ انسان کی نیابت صحیح نہیں ہے، مگر اس صورت میں کہ انسان پیری یا بیماری کی وجہ سے حج پر نہ جا سکے اور آخر عمر تک طاقت حاصل کرنے یا صحت یاب ہونے کی امید نہ رکھتا ہو۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی{مدظلہ العالی}:
اگر مالی استطاعت رکھتا ہو، لیکن استطاعت بدنی نہ رکھتا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ نائب مقرر کرے تاکہ وہ اس کی طرف سے حج بجا لائے اور ضروری نہیں کہ اس کا بڑا بیٹا نائب ہو۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی{مدظلہ العالی}:
اگر وہ بدنی اعتبار سے مستطیع نہ ہو اور اس استطاعت کو آخر عمر تک حاصل کرنے میں مایوس ہو تو، تو اسے نائب مقرر کرنا چاہئیے۔
حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی{دامت برکاتہ} کا جواب:
۱۔ واجب کو چند عمرہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔
۲۔ مسئلہ کے فرض پر، شخص کو چاہئیے کہ اپنی طرف سے کسی کو نائب کے عنوان سے حج پر بھیجے اور اس کے حج کا خرچہ ادا کرے اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ نائب، منوب عنہ کا بڑا بیٹا ہو۔
[1]استطاعت مالی{سفر کا خرچہ رکھتا ہو}، بدنی { جسمانی توانائی رکھتا ہو} اور راہ {راستہ کھلا ہو}.
[2]محمودى، محمد رضا، مناسك حج (محشّٰى)، ص16، نشر مشعر، تهران - ايران، ويرايشجديد، 1429 ه.