علمائے رجال کے کلام کے مطابق، کتاب کے متعارف معنی، اصل و تصنیف پر بھی مشتمل ہیں، یعنی وہی چیز جو امام معصوم{ع} کے صحابیوں کے توسط سے حدیث نقل کرنے کے لیے تالیف و تدوین ہوئی ہے۔
بعض علماء کا اعتقاد ہے کہ صاحب کتاب، اصل یا تصنیف ہونا ، راوی کی توثیق و مدح کی دلیل ہے، جیسے: علامہ مجلسی، سید بحرالعلوم اور شیخ صدوق وغیرہ۔
لیکن بہت سے علماء ، من جملہ امام خمینی{رح} فرماتے ہیں کہ صاحب تصنیف کتاب، یا اصول ہونا راوی کے لیے وثاقت و مدح کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ مطلب عام تر ہے، ممکن ہے کوئی صاحب کتاب و اصل ہو، لیکن ثقہ نہ ہو اور اس پر اعتماد نہ کیا جائے۔
احادیث کی، رجال سے متعلق کتابوں میں اس مطلب کا ایک باب مخصوص ہے کہ اگر حدیث کا راوی ، صاحب کتاب یا اصل اور یا تصنیف ہو، تو یہ اس کے موثق ہونے کی دلیل بن سکتی ہے یا نہیں؟
سوال کا جواب دینے سے پہلے ، ضروری ہے کہ علم رجال میں رائج ان الفاط کی وضاحت کی جائے۔
۱۔ کتاب: علمائے رجال کے کلام میں ، کتاب کے متعارف معنی، اصل و تصنیف پر مشتمل ہیں[1]، یعنی وہی چیز جو امام معصوم{ع} کے توسط سے حدیث نقل کرنے کے لیے تالیف و تدوین ہوئی ہو[2]۔
۲۔ اصول: وہ کتاب ہے جس کے لکھنے والے نے روایات کے ایک مجموعہ کو امام معصوم{ع} یا ان کے راوی سے سن کر اس میں جمع کیا ہو[3]۔ اصول اربعہ ان ہی میں سے ہے، جیسے اصل زید زراد، امام صادق{ع} کے اصحاب میں سے تھے۔ البتہ بعض علماء نے اصل[4] کے لیے کچھ دوسرے معنی بھی بیان کیے ہیں۔
۳۔ تصنیف{مصنف}: اس سے مراد، وہ کتاب ہے، جسے ائمہ معصومین{ع} کے اصحاب نے، احادیث کو جمع کرنے کے علاوہ کسی خاص مقصد کے لیے تالیف کیا ہو، اگرچہ بعض اوقات اس لفظ کا مطلق کتاب پر بھی اطلاق ہوتا ہے[5]۔
ذکر شدہ معنی کے پیش نظر کتاب، تصنیفات اور اصول سے عام تر ہے، اور ہر تصنیف اور اصول اس کی دوسری قسم ہے[6]۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ: اصل، کتاب یا تصنیف کی ایک خاص قسم ہے[7]۔
البتہ کتاب و اصل کے درمیان کچھ فرق پائے جاتے ہیں، کہ ہم ذیل میں ان مین سے اہم ترین کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف۔ اصل میں راوی، وہ احادیث ہیں ، جن کو راوی نے معصوم{ع} یا ان کے راوی سے سن کر جمع کیا ہے، لیکن کتاب اور تصنیف میں موجود معتبر احادیث، غالباً اصل سے نقل کی جاتی ہیں۔
ب۔ اصل، ایک موثق مجموعہ ہے کہ اس کی احادیث دوسری کتاب سے نقل نہیں کی گئی ہیں[8]۔
اب ، کتاب، اصل اور تصنیف کی تعریف بیان کرنے کے بعد ، اگر ایک راوی کتاب، اصل یا تصنیف کا مالک ہو، تو کیا یہ اس کی توثیق کی دلیل ہو سکتی ہے؟ اس سلسلہ میں ہم ذیل میں بعض علماء کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
اول: بعض علماء کا عقیدہ ہے کہ صاحب کتاب، اصل یا تصنیف ہونا راوی کی مدح و توثیق کی دلیل ہے، جیسے:
۱۔ علامہ مجلسی، بعض ان روایتوں کے بارے میں کہ جن کی کوئی توثیق نہیں ہوئی ہے اور ان کی کوئی مدح بھی نہیں کی گئی ہے، لیکن اسی قدر آیا ہے کہ ان کا راوی صاحب اصل ہے، کہتے ہیں: بعید نہیں ہے کہ یہ جملہ ، کم از کم راوی کے حسن و مدح کی دلیل پیش کرے[9]۔
۲۔ سید بحرالعلوم، اصل کو ، راوی کے حسن حال اور کتاب کے قابل اعتبار ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں[10]۔
۳۔ شیخ صدوق{رح} ، صاحب کتاب راویوں پر اعتماد کرتے ہیں[11]۔
دوم: امام خمینی{رح}[12]، خوئی{رح}[13]، تبریزی{رح}[14] اور سبحانی وغیرہ جیسے بعض علماء کہتے ہیں کہ صاحب کتاب، اصل یا تصنیف ہونا راوی کی توثیق و مدح کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ مطلب عام ہے، ممکن ہے کوئی صاحب کتاب و اصل ہو، لیکن ثقہ نہ ہو اور اس پر اعتماد نہ کیا جائے، جیسے، واقفی اور فطحی مذہب سے تعلق رکھنے والے، راوی اگرچہ ان کی کتابیں قابل اعتماد ہیں، اور وہ اس لیے کہ قدیم علماء کی نظر میں "صحیح" کی اصطلاح متاخر علماء کی نظر میں اصطلاح کے علاوہ تھی اور اس اصطلاح کے مطابق قدیم علماء کے نزدیک راوی کی وثاقت پیش نہیں کرتی ہے[15]۔
امام خمینی{رح} اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ: علمائے رجال جو یہ کہتے ہیں کہ "إنّ له اصلاً"، اس اصل اور صاحب اصل پر اعتماد کی دلیل نہیں ہے۔
علم رجال اور علم دریا کی بحث کے بارے میں مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو:
«حدیث مرفوع، مرسل، مقطوع و موقوف»، سؤال 10825{سائٹ:10754}
«ملاک حدیث متواتر لفظی، معنوی و اجمالی»، سؤال 2412سائٹ{2529}
[1]. امام خمینی،کتاب الطهارة (طبع قدیم)، ج 3، ص 265، ؛ سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، ص 474، دفتر نشر اسلامی، قم، طبع پنجم، 1423ھ.
[2]. کلیات فی علم الرجال، ص 477.
[3]. کلیات فی علم الرجال، ص 475؛ کتاب الطهارة، ج 3، ص 266.
[4]. جیسے یہ کہ سید بحرالعلوم نے اپنی کتاب "الفائد الرجالیہ" میں "زید نرسی" کی توثیق ثابت کرنے کے لیے چار دلیلوں کا سہارا لیا ہے کہ من جملہ ، یہ ہے کہ شیخ طوسی نے "زید نرسی" کو صاحب اصل متعارف کیا ہے اس کے بعد اصل کی تعریف میں کہا ہے کہ: ہمارے اصحاب کی اصطلاح میں ، اصل، قابل اعتماد کتاب کے معنی میں ہے، وہ کتاب جو دوسری کسی کتاب کی نقل نہ ہو (بروجردی، سید مهدی بحرالعلوم، الفوائد الرجالیه، ج 2، ص 367، محقق، مصحح: محمد صادق بحرالعلوم و حسین بحرالعلوم، نشر مکتبة الصادق، تهران، طبع اول، 1405ق). اگرچہ حضرت امام خمینی {رح} نے بحرالعلوم کے کلام کو عصر "زیسی" کی بحث میں "زید نرسی سے نقل کی گئی روایت کے بارے میں ذکر کیا ہے اور اس کے بعد تفصیل سے اس کی تنقید کی ہے اور اصل، کتاب و تصنیف کے معنی و مفہوم کے بارے میں وسیع تحقیق پیش کی ہے۔(ملاحظہ ہو: کتاب الطهارة، ج 3، ص 243 و 244 و 258- 262).
[5]. کتاب الطهارة، ج 3، ص 266؛ و نک: کلیات فی علم الرجال، ص 476 و 477.
[6]. کتاب الطهارة، ج 3، ص 265.
[7]. کلیات فی علم الرجال، ص 477.
[8]. جمعی از پژوهشگران زیر نظر هاشمی شاهرودی، سید محمود، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بيت (ع)، ج 1، ص 535، مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهل بیت (ع)، قم، طبع اول، 1426ھ.
[9]. مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، ج 1، ص 108 و ج 10، ص 124، محقق/مصحح: سید هاشم رسولی، دارالکتب الاسلامیة، تهران، طبع دوم، 1404ھ.
[10]. الفوائد الرجالیة، ج 2، ص 367.
[11]. به عنوان نمونه دربارۀ عبدالله بن بکیر می گوید:« «عبد اللّٰه بن بكير فطحى مذهب است ولى توثيق شده و داراى كتاب است» (شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 428، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع دوم، 1413ھ).
[12]. کتاب الطهارة، ج 3، ص 268.
[13]. موسوی خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرجال، ج 1، ص 76، و ج 8، ص 335،
[14]. کلیات فی علم الرجال، ص 485 و 486.
[15]. کلیات فی علم الرجال، ص 485 و 486.