جنگ صفین واقع ہونے کا سب سے اہم سبب ، معاویہ کا حضرت علی{ع} کے عثمان کے قتل میں ملوث ہونے کے بہانہ سے حضرت{ع} کی بیعت سے انکار تھا۔ یہ جنگ حضرت علی{ع} کی مکمل فتحیابی کے قریب پہنچتے ہی، عمروعاص کی حیلہ گری سے ختم ہوئی اور امام علی{ع} ضرورت اور دباو کے پیش نظر اپنے بعض مطالبات سے عارضی طور پر دست بردار ہوگئے۔ امام علی{ع} کے بعض سپاہی{خوارج} ، جن کا امام علی{ع} کو جنگ بندی قبول کرانے میں کلیدی رول تھا، بعد میں اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت علی{ع} سے، معاویہ سے کیے گیے معاہدہ کو توڑنے کا مطالبہ کیا اور امام{ع} کی طرف سے ان کے اس مطالبہ کو قبول نہ کرنے پر جنگ نہروان واقع ہوئی۔
حضرت علی{ع} نے اپنی خلافت کی پانچ سالہ مختصر مدت کے دوران تین گروہوں سے جنگ کی ہے۔ پہلی جنگ ، جنگ جمل تھی اور یہ جنگ امیرالمومنین{ع} کے حق میں ختم ہوئی، لیکن اس فتحیابی سے امام{ع} کو ہمیشہ کے لیے سکون و آرام نہیں ملا، بلکہ آپ{ع} کا ایک اور رقیب اور مدعی معاویہ بن ابی سفیان کے نام سے شام میں تھا اور خلیفہ دوم ، عمر کی خلافت کے زمانہ سے وہاں کا گورنر تھا، پہلے سے ہی اس علاقہ کی حکومت پر قابض رہنے کی لالچ رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ عمر بھر وہاں کا آزاد حاکم رہے، اس لیے حضرت علی{ع} اس بھاری ذمہ داری کے پیش نظر کہ اسلامی معاشرہ کو گمراہیوں سے بچائے، مجبور ہوئے کہ اس حیلہ باز اور ا س کے پیرووں کے فتنہ کو ختم کردیں، جو قاسطین کے نام سے مشہور تھے۔
حضرت علی{ع} مدینہ میں خلافت کے لیے منتخب ہونے کے بعد اسلامی معاشرہ میں نظم و انتظام اور امن و سلامتی برقرار کرنے کے لیے شام کے فتنہ کو خاتمہ بخشنا چاہتے تھے کہ اچانک بصرہ میں جنگ جمل کے فتنہ سے دوچار ہوئے اور عہد شکنوں نے بصرہ میں آپ{ع} کے نمائندہ کو نکال باہر کیا اور بدامنی پھیلائی۔ اس لیے امام علی{ع} اپنے فیصلہ سے عارضی طور پر دست بردار ہوئے اور بصرہ کی طرف رخ کیا۔ امام{ع} کے شام کی طرف جانے کا سبب یہ تھا کہ معاویہ نے امام{ع} کے خط کے جواب میں نہ صرف بیعت سے انکار کیا تھا بلکہ اصحاب جمل کے مانند علی{ع} پر عثمان کے قتل کا الزام بھی لگایا تھا اور عثمان کے قاتلوں سے خونخواہی اور انتقام لینے کو اپنے لیے بہانہ اور دستاویز بنا چکا تھا[1]۔
اس مسئلہ کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ: ان دنوں عثمان کے قتل کی خونخواہی ہر ظالم کے لیے فتنہ برپا کرنے کا ایک بہانہ بن چکی تھی اور تعجب کی بات ہے کہ عثمان کے ہی قاتل خونخواہی کا دعویٰ کر رہے تھے اور ایک ایسے شخص کو اس سلسلہ میں ملزم ٹھہراتے تھے ، جس کا نہ صرف عثمان کے قتل میں کوئی عمل دخل نہ تھا، بلکہ خیرخواہی پر مبنی ان کی نصیحت بھی کی تھی اور ان کے گھر کے محاصرہ کے دوران ان کی پیاس بجھانے کے لیے امام حسن{ع} کے ہاتھوں پانی بھی بھیج چکے تھے[2]۔؛
امام علی{ع} نے معاویہ کے خط کا ان الفاظ میں جواب لکھا: " میری بیعت ایک عام بیعت ہے اور اس میں تمام مسلمان شامل ہیں، من جملہ بیعت کے وقت جو لوگ مدینہ میں موجود تھے یا وہ لوگ جو بصرہ ، شام اور دوسرے شہروں میں موجود ہیں اور تم نے خیال کیا ہے کہ مجھ پر عثمان کے قتل کا الزام لگا کر میری بیعت سے نافرمانی کر سکتے ہو اور سب لوگ جانتے ہیں اسے میں نے قتل نہیں کیا ہے کہ مجھ پر اس کا قصاص لازم آئے، عثمان کے وارث اس کی خونخواہی کا مطالبہ کرنے میں تم سے زیادہ حقدار ہیں اور تم خود ان لوگوں میں سے ہو جو عثمان کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے اور جب عثمان نے تم سے مدد مانگی تو تم نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، یہاں تک کہ وہ قتل کیے گیے۔[3]"
حضرت علی{ع} نے بہت سے مواقع پر لوگوں کو حقائق سے آگاہ کر کے معاویہ کی فریب کاریوں کو طشت از بام کیا ہے۔
اس موضوع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے نہج البلاغہ اور اس موضوع پر تالیف کی گئی دوسری کتابوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
تیسرا گروہ جس سے امام علی{ع} نے جنگ کی، وہ خوارج تھے، وہ لوگ علی{ع} کے پیروکاروں میں سے تھے، جو جنگ صفین میں حکمیت کے سلسلہ میں حضرت علی{ع} سے اختلاف کر کے آپ{ع} سے جدا ہوئے تھے اور حضرت{ع} کی نافرمانی کر کے آپ{ع} کے خلاف بغاوت {اور اعلان جنگ} کر چکے تھے اس لحاظ سے انہیں مارقین بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت علی{ع} کی ، خوارج سے جنگ کے اسباب جاننے کے لیے ہماری اسی سائٹ کا سوال: 7299{سائٹ:7555}، عنوان: "علی{ع} و تردید برای خاموش کردن آتش فتنہ معاویہ و انحراف خوارج" اور سوال: 1587 { سائٹ:2440} ، عنوان: " کفر معاویہ و صلح امام حسن{ع}" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
[1]ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج 3، ص 88، کتابخانۀ آیت الله مرعشی، قم، 1404 ھ.
[2]مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارة، ص 228، کنگرۀ شیخ مفید، قم، 1413 ھ.
[3]شرح نهج البلاغة، ج 3، ص 89.