دینی تعلیمات میں، جو شخص دوسروں کو برا سمجھتا ہے،اسے بدگمان کہتے ہیں، پس جو کچھ اس سلسلہ مِن اسلامی تعلیمات میں آیا ہے، ہم اس پر بحث کرتے ہیں۔
بدگمانی، کسی کے بارے میں بدظنی،بدنیتی اور برا خیال رکھنے کے معنی میں ہے۔ بہ الفاظ دیگر، بدگمانی، وہ ہے کہ انسان، دوسروں کے کردار و گفتار کے بارے میں ناروا افکار و خیالات سے دوچار ہو جائے اور اپنے ان افکار کو عملی جامہ پہنائے اور اپنے اس ناروا خیال کو حقیقت کی صورت میں دیکھے۔
بدگمانی کی قلمرو: خدا سے بدگمانی، لوگوں سے بدگمانی اور اپنے آپ سے بدگمانی ہے۔
بدگمانی کی پہلی دو قسمیں برے اوصاف اور گناہان کبیرہ شمار ہوتی ہیں اور اسلام نے ان کی سرزنش اور مذمت کی ہے۔
بدظنی کے اسباب: ایسی جگہوں پر نشست و برخواست کرنا جہاں پر تہمت لگائی جاتی ہو اور برے اور شرپسند افراد سے ہم نشینی بدظنی کے اسباب ہیں۔ بدظن فرد وہ ہے جس میں باطنی ضعف و بیقراری، جلدبازی اور بے ایمانی پائی جاتی ہے۔
اسلام کے نظریہ کے مطابق فکر و اندیشہ کے مرحلہ میں انسانوں کے اجتماعی روابط "خیرخواہی" کے اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں، اس معنی میں کہ مسلمان کو اپنے دینی بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں نیک نیت ہونا چاہئیے، ان کے بارے میں دل میں خیرخواہی، نصیحت، دوستی اور سعادت کا جذبہ رکھتا ہو اور ان کے خلاف سازشیں کرنے سے پرہیز کرے۔
جو کچھ سوال میں پیش کیا گیا ہے، اسے دینی تعلیمات میں بدگمانی کہا جاتا ہے، ہم اس مسئلہ پر چند حصوں میں بحث کرتے ہیں:
۱۔ بدگمانی کے معنی:
بدگمانی، لغت میں بدظنی ، بدخیالی اور دوسروں کے بارے میں غلط سوچنے کے معنی میں آئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر،بدگمانی، وہ ہے کہ انسان دوسروں کے کردار و گفتار کے بارے میں ناروا خیالات سے دوچار ہو اور اپنے ان افکار کو عملی جامہ پہنائے اور اپنے اس ناروا خیال کو حقیقت کی صورت میں دیکھے۔ مثال کے طور پر ایک عورت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جائے اور ذہن میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات ہیں، ان کی گفتگو عاشقانہ ہے اور نتیجہ کے طور پر اس شخص کے ساتھ ایک بدکردار، بدعمل اور بری نظر رکھنے والے انسان کا برتاو کیا جائے۔ ایسی حالت کو بدگمانی اور دوسروں کے بارے میں اس قسم کا برا نظریہ رکھنے والے کو بدخواہ ، بدگمان اور بداندیش کہا جاتا ہے۔
۲۔ بدگمانی کی قلمرو:
الف۔ خدا کے بارےمیں بدگمانی: خدا کے بارے میں بدگمانی وہی خدا کی وسیع رحمت سے یاس و نا امیدی ہونا ہے، یہ بہت بڑے گناہوں میں شمار ہوتی ہے۔
پیغمبراکرم{ص} فرماتے ہیں: " سب سے بڑا گناہ ، خدا کے بارے میں بدگمانی ہے۔[1]" انسان کو عذاب الہٰی سے ڈرنا چاہیے، لیکن اسے رحمت الہٰی سے ناامید نہیں ہونا چاہئیے، اسے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں، مخلص ہونا چاہئیے، گناہوں سے ڈرنا چاہئیے اور اس کے ساتھ پروردگارعالم کے عفو و بخشش کی امید رکھنی چاہئیے۔
امام رضا{ع} فرماتے ہیں: خدا کے بارے میں اپنے گمان کو صحیح کرو، کیونکہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے: میں اپنے بارے میں مومن کے گمان کے پاس ہوں، اگر میرے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو، تو میں اس کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور اگر میرے بارے میں بدگمان تھا، تو اس کے ساتھ بُرا برتاو کروں گا۔[2]"
ب۔ لوگوں کے بارے میں بدگمانی: لوگوں کے بارے میں بدگمانی، یعنی،انسان معاشرہ کے افراد کے بارے میں ، بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی ناشائستہ کام انجام دیا ہو، غلط سوچے اور بدگمانی کوعملی جامہ پہنائے، اس قسم کی بدگمانی، پہلی قسم {خدا کے بارے مِں بدگمانی} کے مانند بری صفت اور گناہ کبیرہ شمار ہوتی ہے۔ حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " نیکوکار{انسان} کے بارے میں بدگمانی بدترین گناہ اور سب سے بڑا ظلم ہے[3]۔
ج۔اپنے بارے میں بدگمانی: اپنے بارے میں بدگمانی، یعنی، انسان ہمیشہ اپنے آپ کو، خدا اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے میں قصوروار جانے۔بدگمانی کی یہ قسم ، پہلی اور دوسری قسم کے برخلاف، نہ صرف گناہ نہیں ہے، بلکہ برجستہ اوصاف اور مخلص مومنین کی خصوصیات میں سے ہے، کیونکہ یہ بدگمانی خدا کی اطاعت و عبادت کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش و تلاش کرنے کا سبب بن جاتی ہے اور انسان کو غرور و غفلت سے محفوظ رکھتی ہے۔
امام علی{ع} فرماتے ہیں: اے خدا کے بندو؛ جان لو کہ مومن صبح کو شام تک اور رات کو صبح تک نہیں پہنچاتا ہے، مگر یہ کہ اپنے نفس کے بارے میں بدگمان ہو اور مسلسل اس کے بارے میں عیب جوئی کرتا ہے اور اس سے زیادہ کام انجام دینے کی توقع رکھتا ہے۔[4]"
۳۔ اسلام میں بدگمانی کی مذمت اور سرزنش:
بدگمانی،ایک خطرناک اخلاقی بیماری ہے۔ جس کے دل کے آئینہ پر بدگمانی کی گرد بیٹھی ہو، وہ دوسروں کو اس میں خوبصورت نہیں دیکھتا ہے اور حقائق کو ادراک کرنے میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ اسلام نے اپنے پیرووں کو اس بُری صفت کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: "اے ایمان والو؛ اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں۔[5]"
اسی طرح ایک دوسری جگہ پر ارشاد فرماتا ہے: " اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے{ظن و گمان سے} اس کے پیچھے مت جانا کہ روز قیامت، سماعت، بصارت اور قوت قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔[6]"
پیغمبراکرم{ص} فرماتے ہیں: " بیشک خداوندمتعال نے جان و مال کے خلاف جارحیت کو حرام قرار دیا ہے اور مسلمان کے بارے میں بدگمانی کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔[7]"
حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کو اپنے سے دور کرو، کیونکہ خداوندمتعال نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔[8]"
حضرت{ع} ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں: " ظلم نہ کرنے والے کے بارے میں بدگمانی کرنا پستی اور نکما پن ہے۔[9]"
۴۔ بدگمانی کے اسباب:
کون سے کام، دوسروں سے بدگمانی کا سبب بن جاتے ہیں؟ بہ الفاظ دیگر، دوسروں کے بارے میں بدگمانی کے اسباب کیا ہیں؟
اس سوال کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ : بدگمانی کے اسباب دو قسم کے ہیں: کبھی بدگمانی کرنے والے کے بارے میں اور کبھی اس شخص کے بارے میں جس کی بدگمانی کی جاتی ہے:
لیکن جو چیزیں کسی شخص کے لیے بدگمانی کا سبب بنتی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
الف۔ بدگمان انسان کا خاص قسم کے ضعف و بیقراری سے دوچار ہونا، اسے دوسروں کے بارے میں بدظنی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " شرپسند انسان دوسروں کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتا ہے،کیونکہ وہ دوسروں کو بھی اپنا ہی جیسا سمجھتا ہے[10]۔
ب۔ بے ایمانی یا ایمان کی کمزوری بھی بدگمانی کا سبب بنتی ہیں، چنانچہ، اس سلسلہ میں حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " بدگمان، بے دین ہوتا ہے۔[11]" حضرت {ع} مزید فرماتے ہیں: "ایمان اور بدگمانی ایک ساتھ نہیں ہوتے ہیں۔[12]"
ج۔ باطنی پستی، نیک اخلاق اور انسانی شخصیت سے عاری ہونا،بدظنی کے اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں امام علی{ع} فرماتے ہیں: " ظلم نہ کرنے والے کے بارے میں بدگمانی کرنا پستی اور نکماپن ہے۔[13]"
لیکن جو مسائل طرف مقابل{مظنون} میں لوگوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے کے سبب کو فراہم کرتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
الف۔ تہمت کے مقام پر قرار پانا: بعض اوقات کچھ لوگ لوگوں کے ذہنوں میں بدگمانی پیدا ہونے کے مواقع دیتے ہیں، یعنی ایسے کام انجام دیتے ہیں کہ، جو بھی دیکھے، ان کے بارے میں بدگمان ہوتا ہے، اسلام کی نظر میں یہ کام انجام دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسی حالت میں، انسان اپنے ارادہ سے ، دوسروں کو اپنے بارے میں بدگمان بنا دیتا ہے اور اس کے لیے امکانات فراہم کرتا ہے۔
امیرالمومنین{ع} فرماتے ہیں: " جو شخص بری جگہوں میں داخل ہو جائے، وہ متہم ہوتا ہے۔ جو اپنے آپ کو تہمت کی جگہ پر قرار دیتا ہے ، اسے اس شخص کی ملامت نہیں کرنی چاہئیے جو اس کے بارے میں بدگمانی کرے۔[14]"
روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک دن رسول خدا{ص} ، صفیہ بنت "حی بن اخطب" نامی اپنی شریک حیات کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھے، انصار میں سے ایک شخص وہاں سے گزر رہا تھا، رسول خدا{ص} نے اسے بلا کر فرمایا: " اے شخص یہ عورت میری بیوی صفیہ ہے۔" { یعنی ایسا نہ ہو کہ ذہن میں بدظنی پیدا ہو جائے}۔
شخص انصاری نے کہا: اے رسول خدا{ص} کیا ہم آپ{ص} کے بارے میں حسن ظن کے علاوہ کوئی اور تصور رکھ سکتے ہیں؟ انحضرت{ص} نے فرمایا: " شیطان ، خون کے مانند انسان کے بدن میں جاری ہے اور میں ڈر گیا کہ تجھ میں داخل ہو جائے{یعنی تجھ میں میرے بارے میں بدظنی پیدا ہو جائے}[15]۔
ب۔ شرپسنوں کے ساتھ ہم نشینی: عام طور پر، بدکردار اور شرپسند افراد، نیک اور صالح انسانوں کے بارے میں خاموش نہیں بیٹھتے ہیں، بلکہ ان کی عیب جوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان میں تھوڑی سی کمزوری پائیں، تو ، اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور اگر ان میں کسی قسم کی کمزوری نہ پائیں، تو جعل سازی کرتے ہیں۔
اس قسم کے افراد کے ساتھ ہم نشینی اس امر کا سبب بن جاتی ہے کہ انسان شائستہ اور نیک افراد کے بارے میں بدگمان ہو جائے اور ان کے رفتار و کردار کو الٹا کر کے ان کا تجزیہ کرے اور ان کے نیک اعمال کو برے بنا کر پیش کرے۔
امیرالمومنین حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " برے افراد کے ساتھ ہم نشینی، نیک انسانوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتی ہے[16]۔"
۵۔ بدگمانیوں کے نقصانات:
انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بدگمانی کے مختلف برے اثرات ہوتے ہیں، کہ ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
الف۔ انفرادی اثرات:
۱۔ لوگوں سے بھاگنا: اجتماعی زندگی انسانوں کے درمیان انس و محبت اور الفت اور متقابل اعتماد پر ہوتی ہے، ، اگر انسان ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان ہو جائیں، تو ایک دوسرے پر اعتماد خدشہ سے بھرا ہوتا ہے اور محبت، نفرت اور ایک دوسرے سے دوری میں تبدیل ہو جاتی ہے اور بدگمان فرد دوسروں سے بھاگتا ہے، ان سے دوری اختیار کرتا ہے اور الگ تھلگ ہو کر رہ جاتا ہے۔
حضرت علی{ع} نے فرمایا ہے: " جو شخص اپنے گمان کو نیک نہ بنائے، وہ ہر شخص سے ڈرتا ہے۔[17]"
۲۔ عبادت کی بربادی: دوسروں کے بارے میں بدگمانی اور اس کو عملی جامہ پہنانا، انسان کی عبادت کو برباد کرنے کا سبب بن جاتا ہے اور بدگمانی انسان کو گناہوں کے بوجھ تلے دفن کردیتی ہے۔
حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: "بدگمانی سے پرہیز کرو کیونکہ بدگمانی ، عبادت کو برباد اور گناہ کو بڑھاتی ہے۔[18]"
اس کی وضاحت یوں ہے کہ: جب انسان دوسروں کے بارے میں بدگمان ہوتا ہےتو ان کے بارے میں غلط فیصلہ کرتا ہے اور ان کی بدگوئی اور عیب جوئی کرنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر جانتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر یہ بدگوئی، عیب جوئی اور خودخواہی ایک طرف اس کی عبادت کو تباہ کردیتی ہے اور دوسری جانب خود یہ برے اعمال ، رذیل صفات، بدگمانی کے گناہ کے ساتھ قرار پاتے ہیں اور بدگمانی انسان کے گناہوں کے بوجھ کو بھاری کردیتی ہے۔
۳۔ ہلاکت: یہ بدگمانی ایک خطرناک نفسیاتی بیماری ہے اور بدبین و بدگمان انسان، ہمیشہ نفسیاتی عذاب میں رہتا ہے اور باطل افکار و خیالات کے نتیجہ میں اس کے دل کا آئینہ مکدر ہوجاتا ہے اور اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ اپنی صحت و سلامتی کو بھی کھو دیتا ہے اور بدگمانی کی وجہ سے پیدا ہوئی یاس و ناامیدی کے نتیجہ میں اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت علی{ع} فرماتے ہیں؛ " بدگمانی، بدگمان شخص کو ہلاک کر دیتی ہے اور اس سے دوری اختیار کرنے والا نجات پاتا ہے۔[19]"
ب۔ اجتماعی اثرات:
۱۔ مدمقابل کا عدم اعتماد: بدگمانی، اجتماعی اعتماد کے جذبہ کو خدشہ سے بھر دیتی ہے، اور اجتماعی امن و سلامتی کو اس طرح برباد کر دیتی ہے، کہ کوئی کسی پر اعتماد اور بھروسا نہیں کرتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو خائن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے بھاگتے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی{ع} نے فرمایا ہے: " بدترین شخص وہ ہے، جو بدگمانی کی وجہ سے لوگوں پر اعتماد نہیں کرتا ہے اور اس کی بدکرداری کی وجہ سے لوگوں میں سے بھی کوئی اس پر اعتماد نہیں کرتا ہے[20]۔"
۲۔ کام کی تباہی اور دوسروں کو شرارت پر اکسانا: بدگمانی کے اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ نیک اور شائستہ کام تباہی سے دوچار ہوتے ہیں، کیونکہ بدگمانی، بے اعتقادی پیدا ہونے کا سبب بن جاتی ہے، اور بے اعتمادی دوسروں میں منفی ردعمل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے اور بے اعتماد افراد ہمدردی سے کام انجام دینے کے بجائے، اعتماد حاصل کرنے کے لیے ظاہری اور دکھاوے کا برتاو کرتے ہیں یا کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، بدگمانی ، قابل اعتماد اور صحیح انسانوں کو غلط طریقے استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " بدگمانی، کاموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے اور انسان کو برائی کی طرف کھینچتی ہے۔[21]"
۳۔ دوستانہ تعلقات کا درہم برہم ہونا: اپنے دوستوں کے بارے میں بدگمانی ، روابط کو درہم برہم کر کے دوستی اور خلوص کو نیست و نابود کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " جس کے دل پر بدگمانی مسلط ہو جائے، اس کے اور اس کے دوست کے درمیان صلح و صفائی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے[22]۔"
۴۔ بدگمانی سے مقابلہ کرنے کے طریقے:
بدگمانی کو دور کرنے کے کچھ طریقے ہیں ، جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
الف۔ اصلاح نفس: آلودہ ، شرپسند اور بدفطرت انسانوں میں بدگمانی پائی جاتی ہے۔ یعنی فاسد اور آلودہ افراد، دوسروں کا اپنے ساتھ موازنہ کرتے ہیں اور اپنے رذائل کے انعکاس کو ان میں دیکھتے ہیں، اس لحاظ سے سب کو اپنا جیسے سمجھتے ہیں اور ان میں بھی اپنی ہی خصلتیں پاتے ہیں اور ایسا تصور کرتے ہیں کہ سب ان کے مانند ہیں۔ بدگمان شخص کو اپنی اس حالت سے مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے عیبوں کا علاج اور اصلاح کرنے کا اقدام کرنا چاہئیے، تاکہ اگر دوسروں کا اپنے ساتھ موازنہ کرے تو بدگمانی سے دوچار نہ ہو۔ دوسری جانب، توجہ کرنی چاہئیے کہ دوسروں کو اپنا جیسا فرض نہ کرے، کیونکہ ممکن ہے ان کے اعمال ان سے بہتر و عالی تر ہوں۔ اس لحاظ سے، مناسب نہیں ہے کہ اپنی برائیوں کو معیار قرار دے کر اپنے دینی بھائیوں کے بارے میں نامناسب ذہنیت پیدا کرے۔ پس بدگمانی سے مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ اپنے عیبوں کی اصلاح کرنا ہے۔
اس سلسلہ مِن حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " مبارک ہو اس کو جس کی اپنی برائی لوگوں کی برائی سے چشم پوشی کرنے کا سبب بنے۔[23]"
ب۔ مسلمان کے کام کو صحیح جاننا: مسلمانوں کے بارے میں بنیادی اور کلی قاعدہ یہ ہے کہ ایک ظاہرالصلاح مسلمان، بدگمان نہیں ہوتا ہے اور بُرے کام انجام نہیں دیتا ہے اور غلط راہ پر قدم نہیں رکھتا ہے اور اسلام کے حکم سے بہت سے رذیل اور بُرے کاموں سے پاک ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے جب مسلمان ایک دوسرے کے کام کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو حتی الامکان قابل قبول توجیہ کرتے ہیں، انہیں اس کے صحیح ہونے کا احتمال دینا چاہئیے اور ایک دوسرے کے اعمال کے بارے میں برے ہونے کا احتمال دینے سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ یہ بدگمانی سے مقابلہ کرنے کا ایک اور طریقہ ہے۔
حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " اپنے {دینی} بھائی کے کام کو بہترین صورت میں قرار دینا، تاکہ اس کا کام تمہارے لیے توجیہ کرنے کی راہ کو بند کردے اور کبھی اپنے بھائی کی زبان سے نکلے ہوئے کلام کے بارے میں بدگمانی نہ کرنا جبکہ تم اپنے بھائی کے کلام کے بارے میں نیک تفسیر کر سکتے ہو۔[24]"
ج جلدبازی سے پرہیز: بدگمانی سے مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر انسان اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں کوئی خبر سنے تو اسے فوراً فیصلہ کر کے اقدام نہیں کرنا چاہئیے، بلکہ صبر کرنا چاہئیے تاکہ اس خبر کی تائید حاصل ہو جائے یا اس کو جھٹلایا جایے۔ جب قابل اطمینان حد تک اس کی تائید ہو جائے تو اقدام کرنا چاہئیے۔
پیغمبراسلام{ص} نے فرمایا ہے: " اگر تم میں بدگمانی پیدا ہوئی {اسے ایک ثابت اور محقق شدہ مطلب نہ سمجھنا اور جلدبازی میں} فیصلہ نہ کرنا۔[25]"
حضرت علی{ع} نے بھی فرمایا ہے: " اے لوگو؛ جس شخص نے اپنے {دینی} بھائی کو پہچانا اور جان لیا کہ وہ دین کے امور میں مستحکم اور پائیدار ہے اور اپنے کردار و گفتار میں صحیح قدم اٹھاتا ہے، تو اس کے بارے میں لوگوں کی بُری باتوں کو نہیں سننا چاہئیے۔ ۔ [26]"
د۔ بدگمانی کے نقصانات کے بارے میں غور و فکر کرنا: بدگمانی سے مقابلہ کرنے کا ایک اور طریقہ ، اس کے انفرادی اور اجتماعی نقصانات کے بارے میں غور و فکر کرنا ہے۔
۷۔ بدگمانی کے جائز ہونے کے مواقع:
کیا بدگمان ہمیشہ قابل مذمت ہے؟
ممکن ہے یہ سوال کسی کے ذہن میں پیدا ہو جائے کہ ایک بدگمانی ہر جگہ پر اور ہر شخص کے بارے میں بُری ہے یا اس کا انحصار زمانہ کے حالات اور مختلف افراد پر ہے؟
اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ : جو کچھ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ بعض مواقع پر بدگمانی، جائز، بلکہ ضروری ہے اور ذیل میں ہم ان مواقع میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف۔ فساد کا غلبہ ہونے کا زمانہ: جس ماحول کے اکثر افراد، فساد و آلودگی سے دوچار ہیں، خوش گمانی ، ایک منطقی اور صحیح کام نہیں ہے اور ممکن ہے انسان کو دھوکا لگنے اور نقصان اٹھانے کا سبب بنے۔
حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " اگر فساد اور برائیاں زمانہ اور باشندوں پر مسلط ہو جائیں، اور ان حالات میں ایک انسان دوسرے پر خوش بین ہو، تو اس نے دھوکا کھایا ہے اور بیوقوفی کی ہے۔[27]"
روایت نقل کی گئی ہے کہ چھٹے امام {ع} کے بیٹے اسماعیل ایک {شراب خور} شخص کو کچھ پیسے دینا چاہتے تھے تاکہ ان کے لیے تجارت کرے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے باپ سے صلاح و مشورہ کیا۔ امام {ع} نے فرمایا: " میرے بیٹے؛ کیا تم نے سنا ہے کہ یہ شخص شراب پیتا ہے؟" عرض کی: لوگ ایسا ہی کہتے ہیں۔ حضرت{ع} نے فرمایا: یہ کام نہ کرنا {اپنے پیسے اسے نہ دینا}۔ اسماعیل نے اپنے باپ کی نصیحت کو قبول نہیں کیا اور اپنا سرمایہ اسے دیدیا اور وہ شخص بھی تجارت کے لیے یمن چلا گیا۔ واپس لوٹنے کے بعد اس نے نہ صرف یہ کہ اسماعیل کو کوئی منافع نہیں دیا ، بلکہ اصلی سرمایہ بھی واپس نہیں کیا۔[28]
قابل ذکر بات ہے کہ ایسے ماحول میں انسان کو اپنی بدگمانیوں کے بارے مین، احتیاطی مواقع کے علاوہ اقدام نہیں کرنا چاہئیے،یعنی ضروری احتیاط کی رعایت کے علاوہ ، افراد کے بارے مِن بدگمانی اور بے اعتمادی کے احتمال پر اقدام کرنے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ بہ الفاظ دیگر، ایسے مواقع پر ہوشیاری سے کام لینا چاہئیے اور ضروری احتیاط کی رعایت کرنی چاہئیے تاکہ دھوکا نہ کھاے۔
ب۔ دشمن سے صلح کرنے کے بعد: دشمن سے صلح کرنے کے بعد اس کے بارے میں حسن ظن اور خوش بینی رکھنا، ناتجربہ کاری کی علامت ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئیے اور دشمنوں کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئیے، کیونکہ ممکن ہے ان کی صلح، کوئی نیا حیلہ ہو تاکہ مسلمانوں کو غفلت سے دوچار کر کے پھر سے ان پر مسلط ہو جائیں۔
اس سلسلہ میں حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " اپنے دشمن سے صلح کرنے کے بعد انتہائی ہوشیار رہنا، کیونکہ ممکن ہے دشمن تمہارے قریب آکر تم کو غفلت سے دوچار کر کے دھوکا دے۔ پس احتیاط اور استحکام کو اپنا شیوہ بنانا اور ایسے مواقع پر خوش بینی سے کام نہ لینا۔[29]"
قابل ذکر ہے کہ قاعدہ کے مطابق، فاسق کے بارے میں خوش گمانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس فاسق کے بارے میں جو کھلم کھلا فسق کا مرتکب ہوتا ہے، کیونکہ جو شخص خدا کی مخالفت کو جسارت و جرائت سے انجام دیتا ہے، ایسے شخص کے بارے میں اعتماد کرنا بھی بے تجربہ ہونے کی علامت ہے[30]۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو: عنوان: " انسان و بدنیتی" سوال : 19482{سائٹ: 18842}
[1] پاینده، ابو القاسم، نهج الفصاحة، ص 236، دنیای دانش، تهران، 1382 ھ ش.
[2] صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، ج 2، ص 20، انتشارات جهان، 1378 ھ.
[3] آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم و درر الکلم، ص 263، انتشارات دفتر تبلیغات، قم، 1366ھ ش.
[4]ایضاً، ص 90.
[5]حجرات، 12.
[6] اسراء، 36.
[7]مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 72، ص 201، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ.
[8]ایضاً، ص 174 ح 4.
[9] غرر الحکم و درر الکلم، ص 263.
[10]ایضآً، ص 105.
[11]ایضآً، 264.
[12]ایضآً.
[13]ایضآً، ص 263.
[14] بحار الأنوار، ج 75، ص 93.
[15] نراقی، ملا مهدی، جامع السعادات، ج 1، ص 319.
[16]بحار الأنوار، ج 71، ص 191.
[17] غرر الحکم و درر الکلم، ص 254.
[18]ایضآً، 263.
[19]ایضآً.
[20]ایضآً.
[21]ایضآً.
[22]ایضآً، ص 264.
[23] نهج البلاغة، ص 256، انتشارات دار الهجرة، قم.
[24] بحار الأنوار، ج 72، ص 196.
[25]ایضآً، ج 74، ص 155.
[26]ایضآً، ج 72، ص 197.
[27]ایضآً.
[28] کلینی، کافی، ج 5، ص 299، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش.
[29] بحار الأنوار، ج 33، ص 610.
[30]سافٹ ویر " زمزم اخلاق" کا اقتباس؛ تولید مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی (نور)،(خلاصہ اور اصلاح کے بعد).