محشر یا قیامت کی زمین، جو ہر وجودی کے لحاظ سے دنیا کی زمین سے مختلف ہے- کیونکہ قیامت کا وجودی مرتبہ عالم طبیعت اور دینا سے مختلف ہے اور دنیوی جسم میں موجود اجزاء قیامت کے وجودی مرتبہ کے منافی ہیں- اسی لئے جو لوگ جسمانی معاد کے قائل ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ چونکہ انسان کا عنصری بدن جو عالم طبیعت، یعنی دنیا میں اجزاء اور اضداد و اخلاط کثیفہ کا مرکب ھوتا ہے، اس لئے قیامت کے آغاز پر نورانی اور حی بالذات اور باقی رہنے والا اور فساد و امراض سے پاک صورت میں محشور ھوگا- یعنی انسان جو اصلی اور اضافی اور کثیف اجزاء کا مرکب ہے، صرف اصلی اجزاء کی صورت میں محشور ھوگا- اس سے ظاہر ھوتا ہے کہ جس زمین پر انسان محشور ھوتا ہے وہ اسی کے مطابق ھوگی، یعنی زمین نے بھی دوسری مخلوقات کے مانند اپنی خلقت کی ابتداء سے تکاملی سفر شروع کیا ھوگا ، یہاں تک کہ اس میں سے تمام متضاد کثافتیں جدا ھوکر ایک پاک اورصاف زمین میں تبدیل ھوگی اور قیامت کے دن تمام انسان اس پر محشور ھوں گے- بعض روایتوں کے مطابق قیامت کی زمین پر کوئی عمارت نہیں ھوگی جو انسان کے لئے پناہ گاہ بن جائے، یہ زمین پست و بلند نہیں ھوگی کہ دیکھنے کے لئے حائل بن جائے، یہ زمین چاندی کے مانند سفید ھوگی جس پر کسی قسم کا خون نہیں بہایا گیا ہوگا اور اس پر کوئی گناہ انجام نہیں پایا ہوگا-
آیہ کریمہ :" یوم نبدل الارض غیر الارض والسماوات- - -"{جس دن یہ زمین اس زمین و آسمان کے علاوہ دوسری زمین میں تبدیل ھوگی- - } کے مطابق قیامت کی زمین، دنیا کی زمین سے مختلف ہے- علامہ طباطبائی {رح} آیہ شریفہ:" " يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبارَها بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها"[1] { اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:" زمین اس وجہ سے کہ پروردگار نے اسے وحی کی ہے اور حکم دیا ہے تاکہ اس پر واقع ھونے والے حوادث کو بیان کرے، پس معلوم ھوتا ہے کہ زمین بھی اپنے لئے شعور رکھتی ہے، اور جو بھی عمل اس پر انجام پاتا ہے اسے سمجھتی ہے- اور اس کے خیر و شر کی تشخیص دیتی ہے، اور اسے شہادت دینے کے دن تک اٹھائے رکھتی ہے، یہاں تک کہ جس دن یعنی قیامت کے دن اسے اجازت دی جائے گی، کہ شہادت دیدے اور اس پر واقع ھونے والی خبروں کو بیان کرے- آیہ شریفہ:" وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَ لكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ"[2]، و نيز آيه" قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ"[3] پر غور کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ تمام مخلوقات میں حیات و شعور موجود ہے- اگر چہ ہم ان کی حیات کی کیفیت سے بے خبر ہیں-[4] ایک لحاظ سے کائنات میں تمام مخلوقات حرکت میں ہیں اور وہ اپنی اس حرکت کے دوران اپنا تکاملی سفر طے کر رہی ہیں تاکہ ایک دن مطلق کمال تک پہنچ جائیں- ھستی کے تمام اجزاء پر بالقوہ سے بالفعل کا تکاملی سفر جاری ہے، کہ من جملہ اس میں آسمان و زمین بھی شامل ہیں- اس مطلب اور مذکورہ مطلب سے یہ معلوم ھوتا ہے کہ زمین بھی اس تکاملی سفر پر گامزن ہے –
معاد جسمانی کے ثابت ھونے کے مطابق، قیامت کے دن انسان اسی جسم کے ساتھ محشور ھوگا، لیکن چونکہ انسان کا عنصری بدن جو عالم طبیعت، یعنی دنیا میں اجزاء اور اضداد و اخلاط کثیفہ کا مرکب ھوتا ہے، اس لئے قیامت کے آغاز پر نورانی اور حی بالذات اور باقی رہنے والا اور فساد و امراض سے پاک صورت میں محشور ھوگا-[5] یعنی انسان جو اصلی اور اضافی اور کثیف اجزاء کا مرکب ہے، صرف اصلی اجزاء کی صورت میں محشور ھوگا- اس سے ظاہر ھوتا ہے کہ جس زمین پر انسان محشور ھوتا ہے وہ اسی کے مطابق ھوگی، یعنی زمین نے بھی دوسری مخلوقات کے مانند اپنی خلقت کی ابتداء سے تکاملی سفر شروع کیا ھوگا [6]، یہاں تک کہ اس میں سے تمام متضاد کثافتیں جدا ھوکر ایک پاک اورصاف زمین پر تبدیل ھوگی- اور آیہ شریفہ کے مطابق انسانوں کے اعمال کے بارے میں شہادت دے گی- اس جگہ کا نام قیامت ہے، اپنے وجود کے مراتب کے سفر پر بلند ترین وجودی مرتبہ پر پہنچ چکی ھوگی، کہ اضافی اور کثیف اجزاء کا وجود اس کے وجودی مرتبہ کے منافی ہے- اور آخر کار قیامت کا عالم ،عالم طبیعت کے وجودی کمال کا عالم اور نظام ھوگا- بہ الفاظ دیگر ہر ایک کا جوہری وجود ایک دوسرے کے مباین ھوتا ہے اس لئے کہ عالم طبیعت اور دنیا ایک شگوفہ کے مانند ہے، اور عالم آخرت ایک میوہ کے مانند ہے کہ ایک نیا موجود ہے، جو حیات و ادراک کا مالک ھوگا-[7]
پیغمبر خدا {ص} نے فرمایا ہے:" لوگ قیامت کے دن ایک سفید اور خالص زمین پر محشور ھوں گے، جو ایک قرص نان کے مانند پاک و پاکیزہ ھوگی اس پر کسی[8] کے لئے کوئی نشانی نہیں ہے" یعنی اس پر کوئی عمارت نہیں ہے جو لوگوں کے لئے پناہ گاہ ہو اور اس پر پستی اور بلندی نہیں ہے کہ نظروں کے لئے رکاوٹ بنے- ایسا خیال نہ کرنا کہ وہ زمین دنیا کی زمین کے مانند ہے بلکہ صرف نام سے اس کے مشابہ ہے- ابن عباس نے فرمایا ہے:" اس میں درخت اور پہاڑ، اور درے نہیں ھوں گے اور وہ عکاظ کے مانند مسطح ھوگی – یہ ایک ایسی زمین ہے جو سفید چاندی کے مانند ہے اور اس پر کسی قسم کا خون نہیں بہایا گیا ہے اور اس پر کوئی گناہ انجام نہیں پایا ہے، پس آسمان سورج، چاند اور ستاروں کے ساتھ نابود ھوں گے- [9]
[1] سوره الزلزلة، آیه 4.
[2] " اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ھو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ھو-" سوره اسراء، آيه 44.
[3] انہوں نے کہا اسی نے ہمیں زبان دی ہے جس نے ہر چیز کو زبان دی ہے - سوره حم سجده، آيه 21
[4] علامه طباطبایی(ره)، تفسیر المیزان، ج20، ص342، دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم، قم، ۱۴۱۷ھ
[5] ملاحظہ ھو: سوال 22451 معاد جسمانی و عدم اعاده اجزاء فضلیة.
[6] محمد شجاعی، معاد یا بازگشت به سوی خدا، ص72، شرکت سهامی انتظار، 1362.ھ ش
[7] سيد محمد حسينى همدانى، درخشان پرتوى از اصول كافى، ج4، ص 7، چاپخانه علميه قم، قم، 1363 ش
[8] صحيح مسلم، ج 8، ص 127 بخارى، ج 8، ص 135، به نقل از ملا محسن فيض كاشانى، الم
حجة البيضاء في تهذيب الإحياء، تصحيح و تعليق على اكبر غفارى، جلد8، ص 322، مؤسسه انتشارات اسلامى جامعه مدرسين، قم، طبع چهارم، 1417 هجرى قمرى. صحيح مسلم، ج 8، ص 127 بخارى، ج 8، ص 135، به نقل از ملا محسن فيض كاشانى، المحجة البيضاء في تهذيب الإحياء، تصحيح و تعليق على اكبر غفارى، جلد8، ص 322، مؤسسه انتشارات اسلامى جامعه مدرسين، قم، طبع چهارم، 1417 هجرى قمرى.
[9]ملا محسن فيض كاشانى، المحجة البيضاء في تهذيب الإحياء، تصحيح و تعليق على اكبر غفارى، جلد8، ص 322، مؤسسه انتشارات اسلامى جامعه مدرسين، قم، طبع چهارم، 1417 هجرى قمرى.