رقص و موسیقى دو الگ الگ موضوع هیں که هر ایک کا اپنا خاص حکم هے، یعنى حرام رقص حرام موسیقى کے آپس میں جمع هونے کى صورت میں اس فعل کو انجام دینے والا انسان دو الگ الگ گناهوں کا مرتکب هوتا هے ـ
اکثر فقها، مطرب اور عیش پرستى کى مجلسوں کے مناسب موسیقى کو حرام جانتے هیں لیکن بعض فقها هر قسم کى موسیقى کو حرام جانتے هیں اور اس میں فرق کے قائل نهیں هیں ـ
رقص کے بارے میں قابل ذکر بات هے که رقص کى تعریف کے مختلف بنیادیں هیں، ایک گروه کا کهنا هے : رقص وه خاص قسم کى حرکتیں هیں جو لهو لعب کى غرض سے انجام پاتى هیں ـ اور ایک دوسرے گروه کا بیان هے که : هر وه عمل جسے عرف میں رقص کها جائے وه رقص کے حکم میں هے ـ
اس کے حکم کے بارے میں بھى کچھـ فقها رقص کو مطلقاً حرام جانتے هیں اور ایک دوسرا گروه اس کے مفسده یا فعل حرام کے همراه هونے کى صورت میں حرام جانتے هیں ـ
بهر حال اگر ورزشى حرکات پر رقص حرام یا استماع و موسیقى حرام کا حکم لاگو نه هو تو اس میں کوئى حرج نهیں هے اور اس قسم کے امور کے سلسله میں ضرورى هے که هر مکلف اپنے مرجع تقلید کى طرف رجوع کرے ـ
مذکوره سوال کا جواب دینے سے پهلے مناسب هے که، " طرب " ، " لهو " اور " لهولعب کى مجالس " جیسى اصطلاحات کو واضح کیا جائے، جو حرام موسیقى کى خصوصیات میں سے هیں:
1ـ طرب: اس کم عقلى کى حالت کو کهتے هیں، جو گانا یا موسیقى سننے کے نتیجه میں انسان کى نفسیات اور روح میں پیدا هوتى هے اور اسے اعتدال سے خارج کردیتى هے، یه امر صرف شادى کى حالت سے مخصوص نهیں هے بلکه ممکن هے غم و حزن آور ساز سے بھى یه حالت پیدا هو ـ[1]
2ـ لهو : لهو کے لفظ سے (فقها کا) مراد گانا گانے کى آواز اور ساز بجانے کى آواز کافساد وعیش و عشرت کى مجلسوں کے هم آهنگ هونا هے ـ یعنى ممکن هے ایک نغمه طرب انگیز نه هو لیکن ان نغموں میں سے هو جو فاسقوں اور نفسانى خواهشات کى مجلسوں میں رائج هوتا هے ـ[2]
3ـ لهولعب کى مجالس : اس سے وه مجلسیں مراد هے جو عیاشى، هوس پرستى، رقص و سرود کے لئے منعقد هوتى هیں اور ایسى مجلسیں مقدس انسانوں کے عرف میں گناه کى مجلسیں شمار هوتى هیں ـ[3]
اس مقدمه کے پیش نظر هم موسیقى سننے کے بارے میں بعض مراجع تقلید کے نظریات کى طرف اشاره کرتے هیں : اکثر فقها موسیقى کى اس قسم کو حرام جانتے هیں جو " لهو " هو، نه هر موسیقى، اور بعض غیر مطرب موسیقى کو سننا بھى حرام جانتے هیں ـ [4]
حضرت آیات عظام، امام خمینى رح، خامنه اى، سیستانىم فاضل لنکرانى رح ، اور مکارم شیرازى فرماتے هیں : " هر قسم کى مطرب موسیقى کو سننا یا بجانا جائز نهیں هے ـ (اور) حرام هونے میں موسیقى کا مسرور یا غمناک هونا معیار نهیں هے بلکه معیار موسیقى کا مطرب هونا یا نه هونا هے ـ[5]
گلپا یگانى: موسیقى سننا یا بجا نا مطلقاً (خواه لهوومطرب هو یا نه هو) حرام هے ـ[6]
صافى گلپایگانى : جسے لوگ عرف میں موسیقى جانتے هیں، اس کا سننا، تعمیر، سیکھنا، سکھانا اور اس کے آلات کا بیچنا (مطلقا) حرام هے ـ[7]
نورى همدانى : هر مطرب اور لهو اور گناه و عیاشى کى مجلسوں کے مناسب ساز کو سننا جائز نهیں هے ـ[8]
وحیدخراسانى : هر لهو اور گناه و عیاشى کى مجلسوں کے مناسب ساز کو سننا جائز نهیں هےـ [9]
بهجت : لهو سے مخصوص آلات کا غیر لهو کے لئے استعمال (بجانا)، احتیاط واجب کى بنا پرجائز نهیں هے اور ان کا لهو میں استعمال کرنا مطلقاً حرام هے اور مطرب موسیقى سننا بھى حرام هے ـ[10]
تبریزى : عیش و عشرت کى مجالس کے مناسب موسیقى، لهو هے اور اس کا بجانا اور سننا حرام هے ـ [11]
اس بنا پر مراجع کا اس پر اتفاق هے که اگر موسیقى، اس کے حرام اقسام میں سے هو، [12] تو اس کا محرک هونا یانه هونا، غمگین یا مسرور هونا، اس کو نشر کرنے کا مرکز ریڑیو ٹیلىویزن هو یا کوئى اور اداره، اس کے حرام هونے میں کوئى اثر نهیں ڈالتا هے ـ[13]
اس بنا پر، اگر چه ذاتى طور پر ورزش میں کوئى حرج نهیں هے، لیکن حرام موسیقى کو ورزش میں سننا بھى جائز نهیں هے، اگرچه ورزش کامقصد تندرستى وغیره هوـ
لیکن آپ کے سوال کے دوسرے حصه، یعنى ورزشى حرکات اور رقص کے بارے میں قابل ذکر بات هے که، اگر یه ورزشى حرکات ، رقص کے مصداق شمار هوں تو رقص کے حکم میں هیں اور موسیقى کا حرام هونا رقص کے حرام هونے سے الگ هے اور رقص کا اپنا خاص حکم هےـ
رقص کے بارے میں مراجع کى تعریف مختلف هے ـ
آیات عظام : امام خمینى رح ، بهجت، تبریزى، خامنه اى، سیستانى، فاضل لنکرانى اور گلپایگانى : هر وه عمل جس کو عرف میں رقص کها جاتا هے وه رقص کے حکم میں هےـ
مکارم شیرازى: رقص، مخصوص حرکات هیں جو لهو ولعب کے لئے انجام دى جاتى هیں[14]ـ اس بنا پر، اگر کسى جگه پر رقص صدق آئے تو مختلف مراجع تقلید کا اس کے بارے میں حکم حسب ذیل هے;
امام خمینى رح : احتیاط واجب کى بنا پر عورتوں کا رقص کرنا، جهاں پر بھى هو، من جمله عقد و عروسى کى مجلسوں میں یا ولادتوں پر، جائز نهیں هے، مگر یه که بیوى اپنے شوهر کے لئے رقص کرےـ [15]
حضرت آیت الله گلپایگانى : صرف بیوى کا اپنے شوهر کے لئے ناچنا جائز هے اور اس مورد کے علاوه حرام هے ـ[16]
حضرت آیت الله اراکى : رقص کرنے میں اشکال هے ـ[17]
حضرت آیت الله بهجت : رقص کرنے میں مطلقاً اشکال هےـ[18]
حضرت آیت الله صافى گلپایگانى : صرف بیوى کا اپنے شوهر کے لئے ناچنا جائز هے اور اس کے علاوه حرام هے ـ[19]
حضرت آیت الله وحید خراسانى: رقص کرنا ــــ هر قسم کے خلاف شرع اور دوسرے محرم عنوان کے نتیجه کے قطع نظر ــــ احتیاط واجب کى بنا پر جائز نهیں ـ [20]
حضرت آیت الله سیستانى: احتیاط واجب کى بنا پر جائز نهیں هے، بجز میاں بیوى کے، که ایک ایسى جگه پر جهاں کوئى اور نه هو ـ[21]
حضرت آیت الله مکارم شیرازى: صرف بیوى کا اپنے شوهر کے لئے رقص کرنا جائز هے اور بقیه (رقص) میں اشکال هے ـ [22]
رهبر معظم انقلاب حضرت الله خامنه اى : خود رقص کرنے میں کوئى حرج نهیں هے، مگر یه که فعل حرام کا مرتکب هونا لازم آئے (مانند حرام شهوت کا ابھرنا، موسیقى کا سننا وغیره) اور اس مسئله میں رقص کے اقسام کے درمیان کوئى فرق نهیں هے ـ[23]
معظم له فرماتے هیں: کلى طور پر اگر رقص اس طرح هو که شهوت کو ابھارنے کا سبب بنے یا فعل حرام یا کسى مفسده کا سبب بنے تو حرام هے ـ [24]
اگر بیوى کا شوهر کے لئے ناچنا یا برعکس، حرام کے مرتکب هونے کے همراه نه هو تو کوئى حرج نهیں هے ـ[25]
اس کے علاوه مراجع عظام کا اس سوال کے سلسله میں، که کیا مرد یا عورت دوسروں کى نگاهوں (حتى اپنے شریک حیات سے) سے دور ورزش کے لئے رقص کر سکتے هیں ؟ جواب حسب ذیل هے:
آیات عظام، امام خمینی رح، تبریزی، خامنه ای اور سیستانی: " کوئی حرج نهیں هے لیکن سزاوار هے که مومن لهو سے پرهیز کرے ـ [26]
آیات عظام، بهجت، فاضل لنکرانی، نوری همدانی اور وحید خراسانی: احتیاط واجب کی بناپر جائز نهیں هے ـ [27]
آیات عظام، صافی گلپایگانی اور ناصر مکارم شیرازی: حرام هے ـ [28]
نتیجه یه که اگر رقص کا عنوان[29]، یا حرام موسیقی کا سننا ورزشی حرکات پر صادق آئے تو اشکال هے، ورنه کوئی حرج نهیں هے اور ایسے امورمیں ضروری هے که هر مکلف اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرےـ
بهر حال آپ کا سوال مراجع تقلید کے دفاتر کو بھیجدیا گیا هے اور اس وقت تک مندرجه ذیل جوابات حاصل هوئے هیں:
دفتر حضرت آیت الله العظمی ناصر مکارم شیرازی (مد ظله العالی):
اگر موسیقی کی مجالس لهو اور فساد کے مناسب نه هوں تو کوئی حرج نهیں هے ـ
دفتر حضرت آیت الله العظمی خامنه ای (مد ظله العالی):
اگر موسیقی لهوی مطرب نه هو تو کوئی حرج نهیں هے اور اس کی تشخیص خود مکلف پر هے ـ
رقص اگر شهوت کو ابھارنے کا سبب یا اس کا لازمه حرام کام یا مفسده هو یا عورت نامحرم مردوں کے سامنے رقص کرے، تو حرام هے ـ
دفتر آیت الله العظمی صافی گلپایگانی (مدظله العالی):
بذات خود ورزش اچھی چیز هے لیکن اگر موسیقی کی وسائل کے همراه یا رقص کے لئے هو، تو جائز نهیں هےـ والله اعلم ـ
اس موضوع سے مربوط دوسرے عناوین:
1. عنوان: دلایل حرمت و حلیت موسیقی، سوال 3211 (سائٹ: 3483)
2. عنوان: راه شناسایی موسیقی حلال از حرام، سوال 3845 (سائٹ: 4114)
3. عنوان: فطرت و حرمت موسیقی، سوال 1078 (سائٹ: )
4. عنوان: دلایل و حرمت موسیقی، سوال 932 (سائٹ: 1004)
5. عنوان: حکم استماع موسیقی از رسانه ھا، سوال 1358 (سائٹ: 1381)
6. عنوان: حکم رقص با ھدف موسیقی، سوال 1645 (سائٹ: 2161)
7. عنوان: حرمت رقص در احادیق، سوال 3338 (سائٹ: 3606)
[1] "پرسش ھا و پاسخ ها دانشجویی" (احکام موسیقی)، سید مجتبی حسینی، ص 40.
[2] ایضاً، ص 41.
[3] ایضاً، ص 42.
[4] توضیح المسائل مراجع، ج 2، صص 813 و 913، مسائل جدید، ج 1، ص 47 به بعد.
[5] احکام روابط زن و مرد، سید مسعود معصومی، ص 227.
[6] ایضاً، ص 228.
[7] سید محسن محمودی، " مسائل جدید از دیدگاه علما و مراجع"، ص 54.
[8] "پرسش ھای دانشجویی (احکام موسیقی)"، سید مجتبی حسینی، ص 43.
[9] ایضاً.
[10] رساله توضیح المسائل، مسائل متفرقه، ص 3، مسئله 20.
[11] سید مسعود معصومی، " احکام روابط زن و مرد"، ص 228.
[12] البته جیسا که بیان کیا گیا بعض مراجع هر قسم کی موسیقی کو حرام جانتیں هیں.
[13] ملاحظه هو احکام روابط زن و مرد و احکام موسیقی.
[14] سید مجتبی حسینی، "پرسش ھا و پاسخ ھای دانشجویی (احکام موسیقی)"، ص 84.
[15] سید محسن محمودی، "مسائل جدید از دیدگاه علما و مراجع"، ص 203.
[16] ایضاً
[17] ایضاً
[18] ایضاً، ص 204.
[19] ایضاً
[20] ایضاً
[21] ایضاً
[22] ایضاً
[23] ملاحظه هو: سید مسعود معصومی، احکام روابط بین زن و مرد، ص 219.
[24] توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج 2، ص 970.
[25] ایضاً .
[26] سید مجتبی حسینی، پرسش ھا و پاسخ ھای دانشجویی (احکام موسیقی)، ص 84.
[27] ایضاً
[28] ایضاً
[29] اور حرام رقص بعض اصولوں کے مطابق