سائٹ کے کوڈ
fa19368
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
50963
گروپ
درایت حدیث,کلام قدیم
سوال کا خلاصہ
کیا انسانوں کی سعادت و شقاوت ذاتی ھوتی ہے؟
سوال
کیا انسانوں کی سعادت و شقاوت ذاتی ھوتی ہے؟ حدیث: “الشقی شقی فی بطن امہ” کے کیا معنی ہیں؟
ایک مختصر
شیعوں کے اعتقادات پر حاکم اصول، انسان کا اپنی سعادت و شقاوت کے بارے میں مختار اور مسئول ھونا ہے۔ مذکورہ روایت صرف اس واقعہ کی خبر دیتی ہے کہ جو شخص اس وقت شقی ہے ، وہ اپنی ماں کے شکم سے ہی شقی متولد ھوا تھا او اس نے خود اپنے اعمال سے اس شقاوت کی تصدیق کی ہے۔ البتہ یہ شقاوت انسان کے ارادہ سے خارج نہیں ہے۔
تفصیلی جوابات
شیعوں کے اعتقادات پر حاکم اصول، انسان کا اپنی سعادت و شقاوت کے بارے میں مختار اور مسئول ھونا ہے۔ اس بنا پر، جو شخص شقاوت کو ذاتی جانتا ہے، یعنی اپنے یا دوسروں کے شقی ھونے میں خدا کو سبب جانتا ہے، وہ ایک باطل اور غلط عقیدہ سے دوچار ھوا ہے۔ جس طرح شیطان اپنی گمراہی کی علت، خدا کو جانتا تھا،[1] اس بنا پر کوئی شخص ذاتی طور پر خداوند متعال کی طرف سے شقی پیدا نہیں کیاگیا ہے، بلکہ خداوند متعال نے انسانوں کو یہ اختیار دیا ہے اور بعض انسان خود شقاوت کو منتخب کرتے ہیں۔
بہت سی آیات و روایات اختیار کی دلالت کرتی ہیں، کہ ان کو اپنی جگہ پر ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کے مقابلے میں “ اہل جبر” نے کچھ دوسری آیات و روایات سے استناد کیا ہے، کہ اس فکر کے غلط مبانی پر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے۔
بہر حال، ہم ذیل میں شقاوت و سعادت کے ذاتی ھونے کے سلسلہ میں استناد کی جانے والی آیات و روایات میں سے واضح تر ایک روایت اور آیت پر بحث و تحقیق کرتے ہیں:
روایت:
«الشَّقِی مَنْ شَقِیَ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَ السَّعِیدُ مَنْ سَعِدَ فِی بَطْنِ أُمِّهِ»؛[2] “ شقی اپنی ماں کے شکم میں شقی ہے اور سعادتمند، اپنی ماں کے شکم میں سعادتمند ہے”۔
دو مسلم اصول﴿ خدا کی طرف سے شقاوت کا صادرنہ ھونا اور انسان کے مختا اور مسئول ھونے﴾ کے پیش نظر اس روایت کے معنی اور وضاحت یوں ہے:
جو شخص اس وقت شقی ہے وہ اپنی ماں کے شکم سے شقی پیدا ھوا تھا اور خود اس نے بھی اپنے برے اعمال سے اس شقاوت کی تصدیق کی ہے۔ اس بنا پر،“ ماں کے شکم میں” شقاوت و سعادت، جس کی طرف روایت میں اشارہ کیا گیا ہے، اس مسئلہ پر تاکید ہے کہ سعادت و شقاوت جیسے امور ماں باپ کے ذریعہ جسمانی وراثت کے طور پر قابل انتقال و اضافہ ہیں، نہ یہ کہ خداوند متعال نے ازلی تخلیق اور ذاتی طور پر کسی کو شقی پیدا کیا ھو۔ اگر چہ سر انجام، تمام افعال کا فاعل خداوند متعال ہے، لیکن یہ ایک دوسری بحث ہے کہ جس میں مقام توحید کی طرف اشارہ ہے، نہ اختیار و مسئولیت کی بحث، یعنی خداوند متعال انسانوں کی برائیوں کا مسئول نہیں ہے، اگر چہ انسان کے ذریعہ برائی اختیار کرنے کے بعد، خداوند متعال نے اسے یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس برائی کو متحقق کرے، اور اولاد بھی ماں باپ کے افعال میں سے ایک ہے۔ اس سلسلہ میں مزید بحث کو ہم دوسرے مقالات پر چھوڑتے ہیں۔ اور اس بارے میں کہ کیا شقاوت قطعی طور پر وراثت میں منتقل ھوتی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اجمالی طور پر منفی ہے۔ البتہ اس قسم کی سعادت کے لئے موروثی برائیوں سے ہجرت کرنے کی ایک بر تر مجاہدت کی ضرورت ھوتی ہے۔ جیسا کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تاریخ میں بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
آیت:
«وَ لَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثیراً مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ»؛[3] “ اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے”۔
اس آیہ شریفہ میں لفظ“ ذراء” سے استفادہ کیا گیا ہے، اس کے معنی پیدا کرنے کے علاوہ ہیں۔ . «ذرأ الارض» یعنی زمین میں تخم افشانی کی گئی۔ پس “ ذراء” یعنی کاشت کرنا، بیج بونا، پھیلانا اور پیداوار کرنا۔[4] یہ سب انسانی جسم کی ماں کےشکم میں تخلیق سے متعلق، یعنی وہی وراثت ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وراثت خداوند متعال کے توسط سے براہ راست ایجاد نہیں کی جاتی ہے، بلکہ صرف خدا کے توسط سے انسان مین آشکار ھوتی ہے، اور وراثت اور جینز کے لحاظ سے اولاد، ماں باپ کے کمال کا سلسلہ ھوتی ہے اور اپنی اولاد کی ابتدائی جسمانی پیدائش میں شقاوت سعادت کے سلسلہ میں ماں باپ کی مسئولیت کے یہی معنی ہیں اور اس سلسلہ میں کافی روایتیں بھی نقل کی گئی ہیں۔” [5] اس بنا پر موروثی سعادت و شقاوت بھی ﴿ اپنے اثر کے دائرے میں﴾ انسان کے اختیار کی طرف پلٹتی ہے، نہ خداوند متعال کے ذاتی ارادہ کی طرف۔
پس حدیث شریف: “الشقی من شقی فی بطن امه و السعید من سعد فی بطن امه” آیہ مذکورہ کے مانند قابل تفسیر ہے کہ خداوند متعال انسان کو ازل سے ہی سعادت کی استعداد کے ساتھ پیدا کرتا ہے، لیکن انسان اپنے اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھا کر شقاوت کی راہ کو چن لیتا ہے اور شقی بن جاتا ہے اور اس کے بعد اس شقاوت کو مادی دنیا میں زاد و ولد کے ذریعہ پھیلاتا ہے۔ اگر چہ یہ پھیلاؤ علت تامہ نہیں ہے، لیکن شقاوت کے لئے زمینہ ہے۔ جیسا کہ ہم ایک دوسری آیہ شریفہ میں حضرت نوح﴿ع﴾ کی زبان سے پڑھتے ہیں:
“پروردگار! اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا، کہ اگر تو انھیں چھوڑ دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی پیدا نہیں کریں گے”۔[6]
اب انسان کے ارادہ کی قدرت کے بارے میں ایک دقیق نکتہ بیان کیا جاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ وراثتی شقاوت و سعادت بھی “ اختیار” سے قابل تعبیر ہے، جو وراثت و نسل سے برتر ہے لیکن ایک وراثت سے ماورا میں داخل ھونے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب جو شخص ایمانی وراثت کا مالک ھوتا ہے، وہ نا مناسب ماحول میں اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر شقی بن سکتا ہے۔ اس بنا پر مذکورہ آیہ شریفہ و روایت ایک فطری اور وراثتی واقعہ کو خبر دیتی ہیں، نہ یہ کہ اسے علت تامہ اور سعادت و شقاوت کو نا قابل تغییر جانتی ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اکثر انسان اپنے الہی اختیارات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی ہیں اور وراثت، اثر اور ماحول کی حد سے نہیں بڑھتے ہیں۔
بہت سی آیات و روایات اختیار کی دلالت کرتی ہیں، کہ ان کو اپنی جگہ پر ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کے مقابلے میں “ اہل جبر” نے کچھ دوسری آیات و روایات سے استناد کیا ہے، کہ اس فکر کے غلط مبانی پر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے۔
بہر حال، ہم ذیل میں شقاوت و سعادت کے ذاتی ھونے کے سلسلہ میں استناد کی جانے والی آیات و روایات میں سے واضح تر ایک روایت اور آیت پر بحث و تحقیق کرتے ہیں:
روایت:
«الشَّقِی مَنْ شَقِیَ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَ السَّعِیدُ مَنْ سَعِدَ فِی بَطْنِ أُمِّهِ»؛[2] “ شقی اپنی ماں کے شکم میں شقی ہے اور سعادتمند، اپنی ماں کے شکم میں سعادتمند ہے”۔
دو مسلم اصول﴿ خدا کی طرف سے شقاوت کا صادرنہ ھونا اور انسان کے مختا اور مسئول ھونے﴾ کے پیش نظر اس روایت کے معنی اور وضاحت یوں ہے:
جو شخص اس وقت شقی ہے وہ اپنی ماں کے شکم سے شقی پیدا ھوا تھا اور خود اس نے بھی اپنے برے اعمال سے اس شقاوت کی تصدیق کی ہے۔ اس بنا پر،“ ماں کے شکم میں” شقاوت و سعادت، جس کی طرف روایت میں اشارہ کیا گیا ہے، اس مسئلہ پر تاکید ہے کہ سعادت و شقاوت جیسے امور ماں باپ کے ذریعہ جسمانی وراثت کے طور پر قابل انتقال و اضافہ ہیں، نہ یہ کہ خداوند متعال نے ازلی تخلیق اور ذاتی طور پر کسی کو شقی پیدا کیا ھو۔ اگر چہ سر انجام، تمام افعال کا فاعل خداوند متعال ہے، لیکن یہ ایک دوسری بحث ہے کہ جس میں مقام توحید کی طرف اشارہ ہے، نہ اختیار و مسئولیت کی بحث، یعنی خداوند متعال انسانوں کی برائیوں کا مسئول نہیں ہے، اگر چہ انسان کے ذریعہ برائی اختیار کرنے کے بعد، خداوند متعال نے اسے یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس برائی کو متحقق کرے، اور اولاد بھی ماں باپ کے افعال میں سے ایک ہے۔ اس سلسلہ میں مزید بحث کو ہم دوسرے مقالات پر چھوڑتے ہیں۔ اور اس بارے میں کہ کیا شقاوت قطعی طور پر وراثت میں منتقل ھوتی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اجمالی طور پر منفی ہے۔ البتہ اس قسم کی سعادت کے لئے موروثی برائیوں سے ہجرت کرنے کی ایک بر تر مجاہدت کی ضرورت ھوتی ہے۔ جیسا کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تاریخ میں بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
آیت:
«وَ لَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثیراً مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ»؛[3] “ اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے”۔
اس آیہ شریفہ میں لفظ“ ذراء” سے استفادہ کیا گیا ہے، اس کے معنی پیدا کرنے کے علاوہ ہیں۔ . «ذرأ الارض» یعنی زمین میں تخم افشانی کی گئی۔ پس “ ذراء” یعنی کاشت کرنا، بیج بونا، پھیلانا اور پیداوار کرنا۔[4] یہ سب انسانی جسم کی ماں کےشکم میں تخلیق سے متعلق، یعنی وہی وراثت ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وراثت خداوند متعال کے توسط سے براہ راست ایجاد نہیں کی جاتی ہے، بلکہ صرف خدا کے توسط سے انسان مین آشکار ھوتی ہے، اور وراثت اور جینز کے لحاظ سے اولاد، ماں باپ کے کمال کا سلسلہ ھوتی ہے اور اپنی اولاد کی ابتدائی جسمانی پیدائش میں شقاوت سعادت کے سلسلہ میں ماں باپ کی مسئولیت کے یہی معنی ہیں اور اس سلسلہ میں کافی روایتیں بھی نقل کی گئی ہیں۔” [5] اس بنا پر موروثی سعادت و شقاوت بھی ﴿ اپنے اثر کے دائرے میں﴾ انسان کے اختیار کی طرف پلٹتی ہے، نہ خداوند متعال کے ذاتی ارادہ کی طرف۔
پس حدیث شریف: “الشقی من شقی فی بطن امه و السعید من سعد فی بطن امه” آیہ مذکورہ کے مانند قابل تفسیر ہے کہ خداوند متعال انسان کو ازل سے ہی سعادت کی استعداد کے ساتھ پیدا کرتا ہے، لیکن انسان اپنے اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھا کر شقاوت کی راہ کو چن لیتا ہے اور شقی بن جاتا ہے اور اس کے بعد اس شقاوت کو مادی دنیا میں زاد و ولد کے ذریعہ پھیلاتا ہے۔ اگر چہ یہ پھیلاؤ علت تامہ نہیں ہے، لیکن شقاوت کے لئے زمینہ ہے۔ جیسا کہ ہم ایک دوسری آیہ شریفہ میں حضرت نوح﴿ع﴾ کی زبان سے پڑھتے ہیں:
“پروردگار! اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا، کہ اگر تو انھیں چھوڑ دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی پیدا نہیں کریں گے”۔[6]
اب انسان کے ارادہ کی قدرت کے بارے میں ایک دقیق نکتہ بیان کیا جاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ وراثتی شقاوت و سعادت بھی “ اختیار” سے قابل تعبیر ہے، جو وراثت و نسل سے برتر ہے لیکن ایک وراثت سے ماورا میں داخل ھونے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب جو شخص ایمانی وراثت کا مالک ھوتا ہے، وہ نا مناسب ماحول میں اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر شقی بن سکتا ہے۔ اس بنا پر مذکورہ آیہ شریفہ و روایت ایک فطری اور وراثتی واقعہ کو خبر دیتی ہیں، نہ یہ کہ اسے علت تامہ اور سعادت و شقاوت کو نا قابل تغییر جانتی ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اکثر انسان اپنے الہی اختیارات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی ہیں اور وراثت، اثر اور ماحول کی حد سے نہیں بڑھتے ہیں۔
[1] ۔ شیطان نے کہا کہ پروردگار! جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا۔ حجر، ۳۹۔
[2] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 5، ص 9، موسسه الوفاء، بیروت، 1404ق.
[3] اعراف، 179.
[4] ۔ راغب کہتے ہیں: ذرہ وہ ہے کہ خداوند متعال اپنی مخلوق کو آشکار کرتا ہے۔“ ذرء اللہ الخلق ” یعنی اشخاص کو آشکار کیا۔ لغت میں اسے خلقت و تکثیر وغیرہ کہا گیا ہے۔ صحاح کی بات بھی اسی کے مانند ہے۔ قاموس قرآن، ج 3، ص 4. « ذَرَأَ-- ذَرْءاً [ذرأ] اللّهُ ...- الشيءَ: اس چیز کی تعداد کو برھایا۔ الارض۔ زمین میں بیج بویا۔ مهيار، رضا، فرهنگ ابجدی عربی-فارسی، ص407.بی تا، بی جا.
[5] ۔ برای مثال: «مجالس الصدوق، و العلل، عن أبي سعيد الخدري في وصية النبي ص لعلي ع قال يا علي إذا حملت امرأتك فلا تجامعها إلا و أنت على وضوء فإنه إن قضي بينكما ولد يكون أعمى القلب بخيل اليد»، شیخ صدوق، الفقیه، ج 3، ص 533، جامعه مدرسین، قم، 1413ق.
[6] ۔«إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبادَكَ وَ لا يَلِدُوا إِلاَّ فاجِراً كَفَّاراً»؛ نوح، 27.