دین و تهذیب کی حقیقت، ان کے مقاصد اور ان کی اهمیت کو سمجھنے کے بعد هی ان دونوں کے باهمی رابطه کو سمجھا جاسکتا هے۔
بعض لوگ دین و تهذیب کے درمیان کسی قسم کے رابطه کو نهیں مانتے هیں لیکن یه سوچ صحیح نهیں هے۔ البته یه بات بالکل واضح هے که ﻜﭽﮭ تهذیبیں چونکه الٰهی ادیان کے اعلی مقاصد سے ٹکراتی هیں لهٰذا وه دین سے سازگار نهیں هیں اسی وجه سے دین نے انھیں نه قبول کیا اور نه کرے گا، لیکن بهت سی تهذیبیں دین کے ساﭡﮭ سازگار هیں لهٰذا فطری طور پر انھیں دین کی تائید حاصل هے۔ دوسری طرف بهت سی تهذیبیں، دینی قدروں کے ماحول کے اندر وجود میں آئی هیں۔
لغت میں دین کے متعدد معانی هیں۔ جیسے: جزا، اطاعت، عادت، قضاوت۔ دین کے مختلف معانی هونے کے باجود لغت اور تفسیر کے مطابق، قرآن میں یه لفظ مذکوره معانی میں سے صرف دو معنوں میں استعمال هوا هے اور وه هیں: اطاعت اور جزا، البته کهیں کهیں قرض، حساب اور حکم کے لئے بھی استعمال هوا هے۔[1]
اطاعت کے معنی میں جیسے: ‹لا اکراه فی الدین›[2]؛ دین میں جبر نهیں هے۔ جزا کے معنی میں جیسے: ‹مالک یوم الدین›[3]؛ روز جزا کا مالک۔
راغب اصفهانی کے بقول اصطلاح کے لحاظ سے یه شریعت کے استعارے کے طور پر هے۔[4] فاضل مقداد کے بقول طریقت اور شریعت هے، یعنی راه و قانون۔[5] اور وه ایساعهد الهی هے جو عهد کرنے والوں کو ان احکام قبول کرنے کی دعوت دیتا هے جو پیغمبر اسلام(صل الله علیه و آله وسلم) تک پهنچے اور آپ کے پاس هیں۔ یه دین کے عام معنی هے جو پیغمبر(صل الله علیه و آله وسلم) کے ذریعه انسانوں تک پهنچنے والے تمام الهی اور آسمانی قوانین کے لئے استعمال هوتا هے۔[6]
ایک دوسری تعبیر: عقائد، اخلاق اور احکام کا نام دین هے۔[7]
لیکن دین یا پسندیده و برحق دین سے مراد، اسلام هے۔ ‹ان الدین عند الله الاسلام۔۔۔›[8] بے شک الله کے نزدیک پسندیده دین اسلام هے۔
سماجی علوم میں تهذیب ایک وسیع و عریض مفهوم هے جس کی بهت سی تعریفیں کی گئی هیں۔
تهذیب و ثقافت کو فارسی میں ‹فرهنگ› کهتے هیں۔ اور یه فارسی لغت میں ادب، علم، اور معرفت کے معنی میں هے۔[9]
سماجی علوم میں کها گیا هے: فرهنگ یعنی علم و ادب، آداب و سنن، هر قوم کے درمیان رائج ایسے امور (علوم، رسوم اور آداب و سنن سب کو شامل هے) جن پر اس قوم کے لوگ عمل کرنے کے پابند هوں۔[10] یا یه که علوم، فنون، افکار، عقائد، اخلاقیات، قوانین اور آداب و رسوم پر مشتمل مجموعه کا نام فرهنگ(تهذیب) هے۔[11]
کیا دین و تهذیب میں کوئی رابطه هے اور اگر هے تو کیا، یه دونوں آپس میں ایک هی هیں یا یه که دین هر قوم کی تهذیب کا جز بن جاتا هے یا خود دین تهذیب کو وجود میں لاتا هے۔ یه سب باتیں اس کی مختلف تعریفوں کے پیش نظر، اختلاف کا شکار هیں۔
بعض لوگوں کا کهنا هے که دین و تهذیب کے درمیان کوئی ربط هی نهیں هے؛ کیونکه تهذیب اجتماعی میراث هے اور قومی پهلو رکھتی هے جو که سماج کے فطری اور تدریجی کمال کے ساﭡﮭ وجود میں آتی هے اور قدرتی اور جغرافیائی حالات بھی تهذیب میں دخیل هوتے هیں۔ مزید واضح لفظوں میں: قدرتی اور جغرافیائی اور شاید تاریخی حالات کے پیش نظر جس چیز کو سماج انسانوں کے حوالے کرتا هے اسے تهذیب کهتے هیں۔ لیکن دین ایک اجتماعی میراث نهیں هے یعنی ادیان انسانوں کے پیدا کرده نهیں هیں؛ متکلمین کے بقول: دین، الهی نظام هے۔ اس فرض کی بنیاد پر دین تهذیب سے جدا هے لیکن اس کے ساﭡﮭ سازگار هے۔[12]
کچھ لوگوں کا کهنا هے که دین اور تهذیب کی باهمی نسبت کو سلب کرنا دشوار هے؛ کیونکه بهت سے دینی پیغام، تهذیب هی کے پیغام هیں۔ اگر دین میں اخلاق و عقائد سے بحث هوتی هے تو تهذیب کی روح بھی یهی هے اور اگر آداب و رسوم، تهذیب کا جز هیں تو دینی شریعت بھی آداب و رسوم بیان کرتی هے[13]۔
البته یه هے که جغرافیائی تقاضوں کے مد نظر تهذیبیں ایک طرح کی نهیں هیں بلکه ان میں فرق هے اور بهت سی تهذیبوں سے دین کا کوئی ربط نهیں هے مثلا لڑکیوں کو زنده دفن کرنا جو که زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ثقافت اور تهذیب بن گئی؛ بعض ثقافتوں اور تهذیبوں کو دین ﻜﭽﮭ کاٹ چھانٹ کے بعد قبول کرلیتا هے؛ اور بعض جگه پر خود دین کسی تهذیب اور ثقافت کا بانی هوتا هے۔
ادیان کی تاریخ بتاتی هے که دین اس وقت ظهور پذیر هوتا هے جب گذشته دین کامنظم نظام، فساد و فحشا اور اخلاقی و اجتماعی انحرافات کا شکار هواجائے۔ بهر حال جب دین ظهور پذیر هوتا هے تو عام طور سے سماج کے اقدار اور نظام میں نمایاں تبدلیلی وجود میں لاتا هے جس کے سبب خود ثقافت و تهذیب کے قلمرو میں بھی اچھا خاصا زلزله سا آجاتا هے اور اس کی کچھ دیواریں گرجاتی هیں اور نئے اقدار کے مطابق ﻜﭽﮭ نئی دیواریں کھڑی کی جاتی هیں، اس طرح دین خود بھی تهذیب اور ثقافت کا بانی هوجاتا هے۔
البته ایسا نهیں هے که هر دین اپنے ساﭡﮭ ایک تهذیب لاتا هو بلکه هر دین کچھ اقدارپیش کرتا هے۔ یه اقدار: اولاً: تهذیبی شکل میں اس پرانی تهذیب و ثقافت کو اکھاڑ پھینکتے هیں جو ان سے میل نه کھاتی هوں؛ مثلا اسلام نے لڑکیوں کے زنده دفن کرنے کی رسم کو ختم کیا۔ ثانیاً: وه ثقافتی شکلیں جن کی جڑیں کھوکھلی تھیں اور نئے اقدار کے منافی تھیں لیکن اس کے باوجود نئی قدروں سے ان میں نئی زندگی ڈالی جاسکتی تھی ان کو فساد و فحشا سے باهر نکالا اور انھیں نئی قدروں کا ایک ذریعه بنایا۔ مثلا حج، اسلام کے ظهور کے وقت شرک و الحاد سے بھرا هوا تھا، اسلام نے اسے ختم نهیں کیا بلکه انھیں آداب و رسوم کو باقی رکھا لیکن اس میں نئے معانی پیدا کئے۔ لهٰذا نئی تهذیب میں یه آداب و رسوم مضبوط هوئے اور باقی رهے۔
در حقیقت نیا دین، نئی تهذیب نهیں لاتا بلکه نئی قدریں پیش کرتا هے اور سماج ان قدروں کے سائے میں نئی تهذیب و ثقافت بناتا هے۔ دین کی بنیاد پر نئی تهذیب کی عمارت کھڑی هونے کے بعد، دین اس سماج کی ثقافت کا جز بن جاتا هے۔[14]
قابل توجه نکته یه هے که مختلف اقوام و ملل میں واحد دین کے ورود سے یکساں قدروں کی بنیادوں پر مختلف ثقافت کے ظهور کی راه هموار هوتی هے۔ یه تصور صحیح نهیں هے که دین جهاں جاتا هے وهاں ایک هی طرح کی تهذیب وجود میں لاتا هے؛ بلکه دین مختلف سرزمینوں میں ایک طرح کی قدروں کو قائم تو کرتا هے، لیکن مختلف قدیم تهذیبوں کے سبب، مختلف اور الگ الگ تهذیبیں وجود میں آتی هیں؛ اس لئے که پیرایوں کی ساخت در اصل جغرافیائی اور معاشی حالات پر موقوف هوتی هیں۔[15]
[1] دائرۃ المعارف تشیع، ج7، لفظ ‹دین›
[2] بقره/256
[3] حمد/4
[4] راغب اصفهانی، مفراد الفاظ قرآن، ص177، لفظ ‹دین›
[5] فاضل مقداد، شرح باب حادی عشر، ص2
[6] دائرۃ المعارف تشیع، ج7، لفظ ‹دین›
[7] جوادی آملی، عبد الله، فطرت در قرآن، ج12، ص145
[8] آل عمران/19
[9] معین، محمد، فرهنگ معین، ج2، لفظ ‹فرهنگ›
[10] حسینی دشتی، سید مصطفی، معارف و معاریف، ج8، لفظ ‹فرهنگ›
[11] سعیدیان، عبد الحسین، دائرۃ المعارف نو، ج4، لفظ ‹فرهنگ›
[12] ‹سلام› اخبار1371/7/15، ص۱۰
[13] ایضا
[14] ‹جهان اسلام› اخبار،1373/2/1، ص10
[15] ایضا