سجده کی حقیقت وهی خضوع،تزلیل، رجحان وغیره هے- سجده واجبات میں سے هے، کیونکه ارشاد الهیٰ هے: " اے ایمان والو؛ رکوع و سجود بجا لاو۔ ۔ ۔ ۔ "
یهاں پر ایک نکته پر توجه کرنا ضروری هے ، وه یه هے که شیعه خاک پر سجده کرتا هے نه خاک کے لئے، کیونکه شیعه علماء کا اس بات پر اتفاق هے که خدا کے علاوه کسی کے لئے سجده کرنا جائز نهیں هے بلکه شرک هے۔
بعض اوقات سوال کیا جاتا هے که صرف خاک پر کیوں سجده کرتے هو؟ اس کا جواب یه هے که هم اس مسئله میں پعغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت کی پیروی کرتے هیں، کیونکه اهل سنت کی قابل اعتبار کتابوں اور مصادر میں آیا هے که سجده خاک پر کرنا چاهئیے اس کے بعد ان چیزوں پر سجده کرنا چاهئیے جو خاک سے اگتی هیں- - - البته ان چیزوں کے علاوه جو عام طور پر پهننے اور کھانے میں استعمال هوتی هیں – لیکن اضطراری حالت میں لباس اور پهننے کی چیزوں پر بھی سجده کیا جا سکتا هے-
یهاں پر هم هر قسم کے لئے ایک ایک روایت بیان کرنے پر اکتفا کرتے هیں اور اس کی وضاحت، تفصیلی جواب پر چھوڑتے هیں-
۱۔ خاک پر سجده:
امام مسلم اپنی کتاب "صحیح مسلم " میں نقل کرتے هیں: " خداوند متعال نے تمام زمین کو همارے لئے سجده گاه اور اس کی خاک کو پانی دستیاب نه هونے کے وقت همارے لئے پاک کرنے والی چیز قرار دیا هے-"
۲۔ زمین سے اگنے والی چیزوں پر سجده:
امام بخاری اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں یوں نقل کرتے هیں: " ام سلیم نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی که ان کے گھر آکر وهاں پر نماز پڑھیں، تاکه وه اس جگه کو همیشه کے لئے نماز کی جگه قرار دے- رسول خدا (ص) نے ام سلیم کی درخواست کو منظور فرمایا اور ان کے گھر تشریف لائے، ان کے گھر میں موجود ایک چٹائی کو پانی سے تر کر کے اس پر نماز پڑھی، ام سلیم نے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور اس جگه کو اپنے لئے نماز کی جگه قرار دیا-
۳۔ اضطراری حالت میں لباس پر سجده:
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا هے که : " هم (مسلمان) پیغمبر (ص) کے ساتھ نماز پڑھ رهے تھے اور سجده کے جگه کے گرم هونے کی وجه سے اپنے پیراهن کے ایک حصه کو سجده کی جگه پر رکھ کر اس پر سجده کرتے تھے-"
اس بنا پر معلوم هوتا هے که شیعه، اهل سنت کی قابل اعتبار کتابوں میں درج سنت رسول الله (ص) پر عمل کرتے هیں-
جو سوال باقی رهتا هے وه یه هے که شیعه کیوں تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنے کی تاکید کرتا هے؟
اس سوال کے جواب میں کهنا چاهیئے: اولاً: امام حسین علیه السلام کی تربت اور خاک دوسری تربتوں کے مانند هے اور یه خاک دوسری خاکوں کی به نسبت من حیث خاک کوئی خصوصیت نهیں رکھتی هے-
ثانیاً : تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنا واجب نهیں هے، بلکه مستحب هے-
ثالثاً : اهل بیت علیهم السلام نے تاکید فرمائی هے که تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنے میں ثواب هیں-
رابعاً: امام حسین علیه السلام کی خاک اور تربت بهت سے اعتقادی، جهادی اور تاریخی مسائل کی علامت هے اور اس لحاظ سے اس سے استفاده کرنا سزاوار هے-
خاک پر سجده کرنے کے فلسفه کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت نقل کی گئی هے: "سجده خداوند متعال کے لئے خضوع هے، اس بنا پر مناسب نهیں هے که کھانے اور پهننے کی چیزوں پر سجده کیا جائے، کیونکه دنیا کے لوگ کھانے اور پهننے کی چیزوں کے بندے هوتے هیں، جبکه سجده کرنے والا سجده کی حالت میں خدا کی عبادت اور بندگی میں هوتا هے، اس لئے مناسب نهیں هے که خدا کے بنده کی پیشانی دنیا کے بندوں کے معبود پر پڑے- خاک پر سجده کرنے کی فضیلت زیاده هے، کیونکه اس قسم کا سجده خداوند متعال کے حضور تواضع اور خضوع کا مظاهره کرنے کے لئے بهتر و سزاوار تر هے-"
جهالت یا دشمنی کی وجه سے شیعوں کے خلاف دشمنوں کی طرف سے هونے والا ایک زبردست الزام اور پروپیگنڑا خاک پر سجده کرنے کا مسئله هے- جبکه اگر اس مسئله کے بارے میں ، حقیقت پسندانه، انصاف پر مبنی اور هر قسم کے تعصب سے بالاتر تحقیق کی جائے، تو اس کا نتیجه بالکل اس کے برعکس نکلے گا جس کا شیعوں پر الزام لگایا جاتا هے، کیونکه شیعه خاک پر سجده کرتے هیں ، نه خاک کے لئے- سجده دو قسم کا هوتا هے، ایک کسی چیز کے لئے سجده اور دوسرا کسی چیز پر سجده-
بیشک سجده کی پهلی قسم شرک کی حالات میں سے ایک حالت هے اور شیعه اس قسم کے سجده کو حرام جانتے هیں، کیونکه اس قسم کا سجده غیر خدا کے لئے هوتا هے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے زیاده برهان و دلیل کی ضرورت نهیں هے- اس سلسله میں هم آپ کو شیعه علماء کے فتاویٰ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے هیں-
مسئله اور موضوع کی حقیقت واضح هونے کے لئے هم اس پر آگے بحث و تحقیق کریں گے-
سجده کی تعریف:
لغت میں سجده کے معنیٰ فروتنی اور انکساری هے شرع مقد میں اس کے معنی اپنی پیشانی کے ایک حصه کو اس حالت میں زمین یا کسی چیز پر رکھنا هے که پیشانی اور اس چیز کے درمیان کوئی فاصله یا چیز حائل نه هو جس پر سجده کیا جاتا هے- اس کی دلیل ایک روایت هے، جس میں کها گیا هے که: " سجده کرتے وقت اپنی پیشانی کو زمین پر رکھنا چاهئیے اور تیزی کے ساتھ ( صرف کوے کی زمین پر چونچ مارنے کے مانند[1] ) زمین سے چھونے پر اکتفا نهیں کرنا چاهئیے-
اس کے علاوه اس سلسله میں روایت نقل کی گئی هے که: " هم نے رسول خدا (ص) کی خدمت میں اپنے هاتھ اور پیشانی کے بارے میں مکه اور مدینه کی زمین کی حرارت اور گرمی کے بارے میں شکایت کی اور رسول خدا (ص) نے هماری شکایت کا کوئی مثبت جواب نهیں دیا [2]–"
تمام فقها اور علماء کے مطابق سجده واجب هے، کیونکه خداوند متعال کا ارشاد هے: " ایمان والو؛ رکوع کرو، سجده کرو۔ ۔ ۔ ۔[3]"
مسئله کا فقهی هونا:
واضح هے که یه موضوع (سجده) فقهی مسائل میں سے هے اور یه کلامی مسائل میں سے نهیں هے، کیونکه سجده کا تعلق اور رابطه مکلف کے فعل سے هے- فقهی مسائل میں (شیعوں اور سنیوں کے هاں) بهت سے اختلاف پائے جاتے هیں- اس کی بهترین دلیل یه هے که خود مزهب اهل سنت چار مزاهب میں تقسیم هوتا هے اور یه چار مزاهب بهت سے فرعی اور فقهی مسائل میں آپس میں گونا گوں اختلاف رکھتے هیں[4]-
سجود کے باب کی روایات:
سجود کے باب میں نقل کی گئی روایتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا هے:
۱۔ وه روایتیں، جو زمین پر سجده کرنے کی تاکید کرتی هیں-
۲۔ وه روایتیں جو گھاس ، جیسے چٹائی وغیره پر سجده کرنے کی طرف اشاره کرتی هیں-
۳۔ وه روایتیں، جو پیراهن (کپڑے) روئی یا اون پر سجده کرنے کی طرف اشاره کرتی هیں[5]-
الف- زمین پر سجده کرنے کی تاکید کرنے والی روایتیں:
اس سلسله میں کافی روایتیں موجود هیں جو احادیث کی کتابوں میں مختلف عبارتوں میں نقل هوئی هیں- هم یهاں پر ان میں سے نمونه کے طور پر چند روایتوں کو پیش کرتے هیں:
۱۔ " جعلت لی الارض مسجدا و طھوراً " " زمین میرے لئے سجده گاه اور پاک کرنے والی چیز قرار دی گئی هے- یه روایت کتاب " مسلم" میں یوں نقل هوئی هے:
" پوری زمین همارے لئے سجده کرنے کی جگه قرار دی گئی هے اور اس کی خاک همارے لئے پاک کرنے والی چیز هے، جبکه پانی دستیاب نه هو-"
سنن ترمزی میں یوں آیا هے " تمام زمین میرے لئے مسجد اور طهور قرار دی گئی هے-"
بیهقی کے کلام میں یوں نقل کیا گیا هے: " زمین میرے لئے طهور( پاک کرنے والی) اور مسجد (سجده کرنے کی جگه) قرار دی گئی هے-"
بیهقی کے کلام میں یه عبارت بھی پائی جاتی هے : " زمین میرے لئے پاک اور مسجد قرار دی گئی هے، جهاں پر نماز کا وقت آئے میں نماز پڑھتا هوں، جس طرح بھی هو[6]-"
۲۔ ابوذر نقل کرتے هیں که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا: " زمین تیرے لئے سجده کرنے کی جگه هے- پس جهاں پر بھی نماز کا وقت پهنچے، نماز کو پڑھنا [7]-"
۳۔ ابن عباس کهتے هیں که : پیغمبر (ص) نے پتھر پر سجده کیا[8]-"
۴۔ ابو سید خدری نقل کرتے هیں: " میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی پیشانی اور بینی پر مٹی کے آثار تھے[9]-"
۵۔ جابر بن عبد الله کهتے هیں: " میں رسول خدا (ص) کے ساتھ ظهر کی نماز پڑھ رها تھا، گرمی اور حرارت کی شدت کی وجه سے میرے هاتھ میں پتھر کا ایک ٹکڑا تھا تاکه سرد هو جائے اور میں اس پر سجده کروں-"
۶۔ انس بن مالک کهتے هیں: " هم سخت گرمی میں پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ نماز پڑھ رهے تھے، هم میں سے هر ایک، ایک پتھر اٹھا کے هاتھ میں رکھتا تھا تاکه یه پتھر ٹھنڈا هو جائے، جب یه ٹھنڈا هوتا تھا، اس کو زمین پر رکھ کر اس پر سجده کرتے تھے[10]-"
۷۔ عمر بن خطاب کهتے هیں: " هم ایک برسات کی رات کو فجر کی نماز کے لئے گھر سے نکلے، چونکه زمین پر کیچڑ تھی، اس لئے هم میں سے هر ایک نے کچھ پتھر جمع کئے اور مسجد کے صحن میں رکھ کر ان پر نماز پڑھی، جب پیغمبر (ص) اس مسئله کے بارے میں متوجه هوئے تو آپ (ص) نے فرمایا: کیا اچھی چیز هے، اس کے بعد پتھر پر سجده کر کے نماز پڑھنا شروع هو گیا[11]-"
۸۔ عیاض بن عبد الله قرشی نقل کرتے هیں: " جب پیغمبر (ص) نے دیکھا که ایک شخص اپنے سر پر رکھے عمامه کے ساتھ سجده کر رها هے، آپ (ص) نے اس سے اشاره فرمایا که عمامه کو پیچھے هٹا کر پیشانی کو سجده کی جگه پر رکھیں[12]-"
یه ان بیشمار روایتوں سے چند نمونے هیں، جن میں خاک اور زمین پر سجده کرنے کی تاکید کی گئی هے[13]-
بیهقی کهتے هیں: " ۔ ۔ ۔ ۔ اگر سجده کپڑے اور لباس پر جائز هوتا، تو اس کی طرف روایتوں میں اشاره هوتا، کیونکه اس پر سجده کرنا، پتھر اٹھا کر اسے ٹھنڈا کرکے اس پر سجده کرنے کی به نسبت آسان تر تھا[14]-
ب- وه روایتیں، جو کسی عزر کے بغیر زمین کے علاوه دوسری چیزوں پر سجده کرنے کو جائز قرار دیتی هیں:
۱۔ انس بن مالک نقل کرتے هیں که ان کی جدّه (ملیکه) نے رسول خدا (ص) کے لئے ایک کھانا پکایا اور آپ (ص) کو دعوت دیدی- پیغمبر(ص) نے دعوت قبول فرمائی اور وه کھانا تناول فرمانے کے بعد فرمایا: " اٹھئے اور میرے ساتھ نماز پڑھئے-" انس بن مالک کهتے هیں : " میں اٹھا اور چٹائی، جو زمانه گزرنے کے ساتھ سیاه هو چکی تھی، پر پانی چھڑک کر اسے مرطوب کیا- پیغمبر (ص) اس پر کھڑے هوئے- میں آنحضرت (ص) کے پیچھے اور میرے پیچھے وه بوڑھی عورت (یعنی میری جده) نماز کے لئے کھڑی هو گئی[15]-
اس کے علاوه انس بن مالک سے ایک اور روایت اس مضمون سے نقل هوئی هے: " میری پھپھیوں میں سے ایک نے پیغمبر (ص) کے لئے کھانا پکایا اور آنحضرت (ص) کی طرف مخاطب هو کر کها: " میں چاهتی هوں که آپ میرے گھر میں کھانا تناول فرمائیے اور وهاں پر نماز پڑھیں؛ انس کهتے هیں: " پیغمبر (ص) تشریف لاے، همارے گھر میں ایک بڑی چٹائی تھی، آنحضرت (ص) نے حکم دیا اور هم نے اس چٹائی کو کمرے کے ایک کونے میں پھیلایا اور اس پر پانی چھڑکایا اور پھر جاڑو دے دیا، اس کے بعد پیغمبر (ص) اس پر نماز کے لئے کھڑے هوئے اور هم نے آپ (ص) کے پیچھے نماز پڑھی[16]-"
اس کے علاوه انس بن مالک نے روایت نقل کرتے هوئے کها هے: " ام سلیم نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی تاکه اس کے گھر تشریف لا کر نماز پڑھیں اور وه اس جگه کو همیشه کے لئے نماز پڑھنے کی جگه قرار دے؛ رسول خدا (ص) نے ام سلیمه کی دعوت قبول کی، اور اس کے گھر تشریف لائے، وهاں موجود ایک چٹائی کو پانی سے مرطوب کیا اور آنحضرت (ص) نے اس پر نماز پڑھی، ام سلیمه نے پیغمبر(ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور اس جگه کو اپنے لئے نماز کی جگه قرار دیا[17]-"
۲۔ ابن عباس نقل کرتے هیں: " رسول خدا (ص) ایک چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے[18]-"
۳۔ ابو سعید خدری کهتے هیں: " میں پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر هوا، دیکھا که آنحضرت (ص) چٹائی پر نماز پڑھتے تھے اور اسی چٹائی پر سجده کرتے تھے[19]-"
۴۔ پیغمبر(ص) کی بیوی میمونه نقل کرتی هیں: " رسول خدا(ص) نماز کی حالت میں تھے اور میں آپ(ص) کے پاس اس طرح تھی که آپ(ص) کا پیراهن مجھ سے لگ جاتا تھا، جب آپ(ص) سجده بجا لاتے تھے، چٹائی پر نماز پڑھتے تھے[20]-"
اس سلسله میں بهت سی روایتیں نقل کی گئی هیں، خلاصه کے پیش نظر هم ان هی روایتوں پر اکتفا کرتے هیں-
ج۔ وه روایتیں جو عزر کی حالت میں زمین کے علاوه دوسری چیزوں پر سجده کرنا جائز بتاتی هیں:
اس سلسله میں هم انس بن مالک کی صرف ایک حدیث بیان کرنے پر اکتفا کرتے هیں۔ انس کهتے هیں: " هم رسول خدا (ص) کے ساتھ نماز پڑھ رهے تھے- اگر هم میں سے کوئی گرمی کی شدت کی وجه سے اپنی پیشانی کو زمین پر نهیں رکھ سکتا تھا، تو هم اپنے پیراهن کو زمین پر پھیلاتے تھے اور اس پر سجده کرتے تھے-"
یه روایت اهل سنت کی مختلف کتابوں میں، من جمله صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ اور عبارتوں میں نقل هوئی هے[21]-"
هر محقق اور تلاش و کوشش کرنے والا ان احادیث کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد واضح طور پر یه نتیجه حاصل کر سکتا هے که یه تمام روایتیں اس مسئله پر متمرکز هیں که پهلے مرحله میں سجده خاک پر کیا جانا چاهئیے ، اس کے بعد زمین سے اگنے والی ان چیزوں پر کیا جانا چاهئیے جو کھا نے اور پینے میں استعمال نهیں هوتی هیں اور اس کے بعد (اضطرار اور عزر کی حالت میں) پیراهن (کپڑے) پر سجده کیا جا سکتا هے-
اس لئے ان روایات کے مطابق مکتب اهلبیت۴ کے شاگرد علماء اور فقها اهل بیت علیهم السلام کی روایتوں پر عمل کرتے هوئے کهتے هیں: " واجب هے که نماز کی حالت میں سجده کی جگه زمین یا زمین سے اگنے والی وه چیزیں هوں جو کھانے اور پهننے میں استعمال نهیں هوتی هیں[22]- "
لیکن یه که هم شیعه کیوں تھوڑی سی خاک و کیچڑ کو خشک کر کے اسے سجده گاه بنا کر اس پر سجده کرتے هیں؟ اس کی کچھه وجوهات هیں جن میں سے چند حسب ذیل هیں:
۱۔ پاک اور طاهر هونے کے سلسله میں اطمینان حاصل کرنے کے لئے هے، کیونکه سجده کرنے کی جگه کی شرائط میں سے ایک اس کا پاک هونا هے- اس کے علاوه اس کے مباح هونے کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لئے هے، کیونکه سجده کرنے کی جگه کی شرائط میں سے ایک اس کا مباح هونا هے-
۲۔ چونکه آج کل گھروں اور مسجد میں فرش بچھا هوا هوتا هے اور خاک مهیا نهیں هوتی هے، اس لئے هم سجده گاه پر سجده کرتے هیں-
تربت امام حسین۴ پر سجده کرنے کا فلسفه:
اس سوال کے سلسله میں که، شیعه کیوں تربت امام حسین۴ یعنی خاک کربلا پر سجده کرتے هیں؟ کهنا چاهئیے:
۱۔ شیعه فقها میں کسی فقیه کو نهیں پایا جا سکتا هے، جو اس بات کا قائل هو که خاک کربلا پر سجده کرنا واجب هے، بلکه وه کهتے هیں که هر پاک و مباح خاک پر سجده کرنا صحیح هے۔ جیسا که بیان هوا- البته وه کهتے هیں که خاک کربلا پر سجده کرنا مستحب هے[23]-
۲۔ تربت کربلا پر سجده کرنا، خاک پر سجده کرنے کا ایک نمونه هے اور خاک پر سجده کرنے کے صحیح هونے پر مسلمانوں کا بصورت اجماع اتفاق هے، لهٰزه خاک کربلا کو زمین اور خاک سے الگ کرنے کے لئے کوئی وجه باقی نهیں رهتی هے، تاکه یه کها جائے که شیعه کیوں تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنے کی بهت تاکید کرتے هیں- حضرت امام سجاد علیه السلام پهلے امام تھے، جنھوں نے تربت امام حسین۴ پر سجده کیا- تمام ائمه اطهار علیهم السلام تربت امام حسین۴ پر سجده کرتے تھے اور اس کے مستحب هونے کی تاکید فرماتے تھے- چناچه امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے هیں : " سید الشهدا ۴ کی تربت پر سجده کرنا ، سات پردوں کو هٹاتا هے[24]-"
۴۔ تربت سید الشهداء۴ پر سجده کرنے کے رحجان کی دلالت کے بارے میں بهت سی وجوهات هیں جو اهل علم سے پوشیده نهیں هیں- مثلاً:
الف- اعتقادی درس: عمر بن سعد نے، عاشور کے دن فجر کی نماز اپنے لشکر کے ساتھه با جماعت پڑھی لیکن اسی دن ظهر کو امام حسین علیه السلام کو شهید کر ڈالا- شیعه نماز میں تربت امام حسین۴ پر سجده کر کے اعلان کرتا هے که وه عمر بن سعد اور اس کے حاکم کی جیسی مرده اور بے روح نماز نهیں پڑھتا هے بلکه شیعه کی نماز، امام حسین۴،ان کے نانا اور باپ کے مانند هے- یه وهی چیز هے جو شیعوں میں اهل بیت۴ کی ولایت کے مفهوم کو مستحکم و پائدار بنا دیتی هے-
اس وجه سے ائمه اطهار۴ نے تربت امام حسین ۴ پر سجده کرنے کی تاکید فرمائی هے، یعنی تربت امام حسین۴ پر سجده کرنا وهی بارگاه الٰهی میں خدا کے لئے اس کے اولیاء کی پیروی کرتے هوئے تسلیم و خضوع هے-
ب۔ تاریخی درس: تاریخ گواه هے که بعض لوگوں نے انتھک کوشش کی هے تاکه غدیر کے سبق--- جس میں حضرت علی۴ کی، امام اور خلیفه کے عنوان سے بیعت کی گئی--- اور بنی امیه کے زمانه میں رونما هونے والے حادثه عاشورا کو نابود کر کے رکھه دیں-
تربت امام حسین۴ ، عاشور کے دن بنی امیه کے ظلم و بربریت کی ایک زنده تاریخی سند هے- جبکه ظالموں نے پوری تاریخ میں آج تک، سر توڑ کوشش کی هے تاکه غدیر اور عاشور کی تعلیمات اور درس کو نابود کر کے رکھدیں-
لیکن ائمه اطهار و اهل بیت علیهم السلام نے عاشورائے حسینی کے حادثه کو مرثیه خوانی، عزاداری، گریه و زاری اور زیارت وغیره کے ذریعه لوگوں کے دل و جان میں مستحکم و پائیدار بنا کر ان کے اور قیام عاشورا کے درمیان رابطه برقرار کیا هے- اس طرح تربت امام حسین۴ کے مسئله کی اهمیت اور تاکید واضح هو جاتی هے-
ج- جهاد و شهادت کا درس: تربت امام حسین۴ ایک ایسی چیز هے جو اکثر مسلمانوں میں انقلاب و جهاد کے جوش و جزبه کو ابھار سکتی هے اور یه وهی چیز هے، جس کی امت اسلامیه کو ضرورت هے- خاص کر آج کی دنیا میں، جس میں هم زندگی بسر کرتے هیں اور اسلامی معاشره مختلف جنگوں سے دوچار هے- تربت امام حسین۴ سے رابطه برقرار کرنا خاک کے ایک ٹکڑے سے رابطه نهیں هے بلکه ایک متحرک طاقت اور جهاد و انقلاب کے مفهوم سے واسطه اور رابطه برقرار کرنا هے-
اس کے علاوه تربت امام حسین۴ سے همیں گوناگوں اخلاقی، سیاسی، عقیدتی اور دینی سبق حاصل هوتے هیں- اس سلسله میں مفصل بحث و تحقیق کی گئی هے، جسے امام حسین علیه السلام کی تحریک اور قیام سے مربوط کتابوں میں پایا جا سکتا هے[25]-"
آخر پر هم کهتے هیں که: شیعه نے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی تعلیمات اور آپ (ص) کی سنت اور طریقه کار اور آپ (ص) کے قابل یقین افعال و کردار پر پابند رکھه کر اور دین میں مشکوک چیزوں، جیسے عزر کے بغیر پیراهن اور فرش پر سجده کرنے سے پرهیز کر کے کونسا گناه کیا هے؟
اس موضوع کے بارے میں بهت سی روایتیں نقل کی گئی هیں، جن میں کھانے اور پهننے کی چیزوں پر سجده کرنے کی ممانعت کے فلسفه کی طرف اشاره کیا گیا هے، ان میں سے ایک هشام بن حکم کی مندرجه ذیل روایت هے:
هشام کهتے هیں که: میں نے امام صادق۴ سے پوچھا: " مهربانی کر کے همیں ان چیزوں کے بارے میں مطلع فرمائیے، جن پر سجده کرنا جائز هے اور جن پر سجده کرنا جائز نهیں هے-" امام صادق۴ نے فرمایا: " زمین اور زمین سے اگنے والی چیزوں—جو کھانے اور پهننے میں استعمال نهیں هوتی هوں--- کے علاوه کسی چیز پر سجده جائز نهیں هے-"
هشام کهتے هیں: " میں نے عرض کی : میری جان آپ پر قربان هو، اس امر کی علت کیا هے؟ " امام۴ نے فرمایا: " کیونکه سجده خدا کے لئے خضوع هے، لهٰزا سزاوار نهیں هے که کھانے اور پهننے کی چیزوں پر سجده کیا جائے، کیونکه لوگ کھانے اور پهننے کی چیزوں کے بندے هوتے هیں، جبکه سجده کرنے والا اپنے سجده میں خدا کی عبادت اور بندگی میں مشغول هوتا هے، پس سزاوار نهیں هے که وه اپنی پیشانی کو دنیا کے مغرور بندوں کے مادی معبود پر رکھے- خاک پر سجده کرنے کی زیاده فضیلت هے، کیونکه اس قسم کا سجده خداوند متعال کے تواضع و خضوع کے لئے سزاوار تر هے[26]-
[1] ابن حبان، صحیحه، ج 1، ص 264.
[2] مسلم، صحیح، ج 3، ص 312؛ ابن ماجه سنن، ج 2، ص 360.
[3] حج، 77.
[4] مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاخطه هو: الفقه علی المذاهب الاربعة، الجزیری، عبدالرحمن.
[5] علامه امینی، السجود علی التربة الحسینیة، ص 13.
[6] صحیح البخاری، ج 1، ص 113؛ صحیح مسلم، ج 2، ص 64؛ صحیح النسائی، ج 2، ص 32؛ صحیح ابی داود، ج 2، ص 114؛ السنن الکبری، ج 2، 433، 435.
[7] صحیح النسائی، ج 2، ص 37.
[8] حاکم نے اپنی مستدرک میں اس روایت کو نقل کیا هے اور ذهبی نے اس کی تصحیح کی هے، ج 3، ص 473.
[9] صحیح البخاری، ج 1، ص 2، 198، 163، 253، 256، 258، 259؛ سنن ابی داود، ج 1، ص 143 – 144؛ السنن 10لکبری، ج 2، 106.
[10] السنن الکبری، ج 2، 106.
[11] سنن ابوداود؛ ج 1، ص 75؛ السنن الکبری، ج 2، ص 440.
[12] السنن الکبری، ج 2، ص 105.
[13] مزید معلومات حاصل کرنے حاصل کرنے کے لئے ملاخطه هو اس عنوان میں "ما هی فلسفة السجود علی التربة"؟ سؤال 508 عربی (سایت: 554).
[14] مسند احمد حنبل، ج 1، ص 321؛ السنن الکبری، ج 2، ص 105.
[15] بخاری، صحیحه، ج 1، ص 101؛ صحیح النسائی، ج 2، ص 57.
[16] ابن ماجه، سنن، ج 1، ص 255.
[17] صحیح النسائی، ج 2، ص 57.
[18] ترمذی، صحیح، ج 2، ص 126.
[19] صحیح مسلم، ج 2، ص 62، 126.
[20] بخاری، صحیح، ج 1، ص 101؛ مسلم، صحیح، ج 2، ص 128.
[21] بخاری، صحیح، ج 1، ص 101؛ مسلم، صحیح، ج 2، ص 109؛ ابن ماجه، السنن، ج 1، ص 321؛ ابوداود، السنن، ج 1، ص 106.
[22] ملاخطه هو: عروة الوثقی، ج 1، باب السجود، مایصح السجود علیه.
[23] ملاخطه هو: تحریر الوسیلة، امام خمینی، ج 1، باب مایصح السجود علیه.
[24] وسائل الشیعة، ج 6، ص 23.
[25] عبدالمنعم حسن، بنور فاطمة اهتدیت، ص 203 – 204؛ به نقل از الفریفی، سید عبدالله، التشیع، ص 206
[26] من لایحضره الفقیه، ج 1، ص 273.