شیعوں کے عقیده اور اس کے معارف کا ماخذ قرآن مجید ھے ۔
قرآن مجید اپنی ظاھری آیات کے علاوه رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کےگفتار و کردار بلکھ سکوت و کلام کو حجت جانتے ھوئے اس کے تابع ، ائمھ اطھار علیھم السلام کے گفتار ، رفتار اور بیانات کو بھی حجت جانتا ھے۔
اس کے علاوه قرآن مجید نے استدلال عقلی کی حجیت کو بیان کرکے کشف و شھود کے طریقھ کی بھی تائید کی ھے۔
اس قسم کے عقیده کا ماحصل مندرجھ ذیل مطالب میں خلاصھ ھوتا ھے:
۱۔ خداوند متعال کی وحدانیت اور خدا کی ذات کا صفات نقص سے منزه ھونے اور صفات کمال سے آراستھ ھونے کا اعتقا د۔
۲۔ حسن و قبح عقلی اور یھ کھ عقل ادراک کرتی ھے کھ خداوند متعال کی ذات اقدس افعال قبیح انجام دینے سے منزه ھے ، کا اعتقاد ۔
۳۔ انبیائے الھی کی عصمت اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی خاتمیت کا اعتقاد۔
۴۔ اس امر کا اعتقاد کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی جانشینی کی تشخیص و تعیین صرف خداوند متعال کی طرف سے اورپیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے ذریعھ یا پھلے والے امام کے ذریعھ ممکن و میسر ھے اورپیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے جانشینوں کی تعداد باره ھے ، ان میں سے پهلے حضرت علی ابن ابیطالب علیھ السلام اور آخری حضرت مھدی عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف ھیں آخری اور بارھویں امام اس وقت زنده ھیں اور خداوند متعال کے حکم کے منتظر ھیں۔
5 ـ انسان کے مرنے کے بعد پھر سے زنده ھونے اور اپنے اعمال کی جزا یا سزا پانے کا اعتقاد۔
اس سوال کے تفصیلی جواب کے لئے کئی جلد کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت ھے ۔ لیکن ھم یھاں پر خلاصھ کے طور پر چند اھم نکات کی طرف اشاره کرنے پر اکتفا کرتےھیں:
۱۔ حصول معارف کےلئے مذھب شیعھ کا تنھا مآخذ:
مذھب شیعھ جس تنھا ماخذ بر بھروسا کرتا ھے ، بیشک وه قرآن مجید ھے قرآن مجید ، پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی عام اور لافانی نبوت کی قطعی سند ھے اور اس کا محمول دعوت اسلام ھے ، البتھ قرآن مجید کا تنھا مآخذ ھونا دوسری حجتوں اور مآخذ سے انکار کے معنی میں نھیں ھے ، بلکھ ھم اس بات کی وضاحت کریں گے کھ قرآن مجید خود دوسرے مآخذ کو بیان کرنے والا ھے۔
۲۔ مذھبی غور وفکر کے لئے پیش کی گئیں قرآن مجید کی راھیں۔
قرآن مجید نے اپنی تعلیمات میں ، دینی مقاصد اور اسلامی معارف تک پھنچنے اور انھیں ادراک کرنے کے لئے اپنے پیرؤں کے سامنے تین راھیں رکھی ھیں:
الف : دینی ظواھر:
ھم دیکھتے ھیں کھ قرآن مجید اپنے بیان میں ، تمام لوگوں کو مخاطب قرار دیتا ھے ، بغیر اس کے کھ اپنے بیان میںکوئی حجت قائم کرے ، بلکھ صرف اپنی خدائی فرماں روائی پر اکتفا کرکے اصول عقائد ، جیسے توحید ، نبوت و معاد اور عملی احکام ، جیسے نماز روزه وغیره کو قبول کرنے کا حکم دیتا ھے اور بعض اعمال کی ممانعت کرتا ھے اور اگر ان احکام کو حجت قرار نھ دیتا تو لوگوں سے کبھی قبول کرنے اور فرمانبرداری کا مطالبھ نھیں کرتا ۔
البتھ دینی ظواھر قرآن مجید کی آیات تک ھی محدود نھیں ھیں ، بلکھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے بیانات ، رفتار و گفتار اور سکوت، انھی قرآنی آیات کے ظواھر کے مطابق حجت ھیں : " لقد کان لکم فی رسول اللھ اسوۃ حسنۃ "[1] بیشک پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم آپ کے لئے اچھا نمونھ عمل ھیں"۔
اس کے علاوه رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم سے قطعی تواتر کی صورت میں نقل ھوا ھے کھ آپ کے اھل بیت علیھم السلام کی گفتار ، رفتار ، اور سکوت بھی رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی گفتار ، رفتار اور سکوت کے مانند اور اسکے برابر ھے۔
لیکن جو احادیث صحابھ سے نقل ھوتی ھیں ، اگر پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے قول و فعل کے مطابق ھوں اور اھل بیت علیھم السلام سے تضاد نھ رکھتے ھوں ، تو قابل قبول ھیں اور اگر صحابی کے شخصی نظریھ پر مشتمل ھوں تو وه حجت نھیں ھیں ، اورصحابھ کا حکم دوسرے تمام مسلمانوں کے مانند ھے ، اس امر میں ھمارا گواه یھ ھے کھ خود صحابھ بھی صحابھ سے ایسا ھی برتاؤ کرتے تھے۔
ب ۔ عقلی استدال
قرآن مجید ، بھت سی آیات میں عقلی استدلال کی طرف انسان کی رھبری کرتا ھے اور لوگوں کو آفاق و انفس نشانیوں پر غور و فکر او تدبر کرنے کی دعوت دیتا ھے اور خود بھی حقائق کے ساتھه انصاف کرنے کےلئے عقلی استدلال پیش کرتا ھے۔ قرآن مجید یھ نھیں کھتا ھے کھ اول معارف اسلامی کی حقانیت کو قبول کریں، اس کے بعد عقلی استدلال کے ذریعھ مذکوره معارف اس سے حاصل کریں ، بلکھ حقائق پر مکمل اعتماد رکھتے ھوئے کھتا ھے: عقلی استدلال کے ذریعھ مذکوره معارف کو اس سے حاصل کیجئے اور اسے قبول کیجئے نھ یھ کھ پھلے ایمان لائیں پھر اس کے بعد اس کی قید و شرط کے مطابق دلیل پیش کریں۔
انسان کے عقلی استدلال ، جن کے ذریعھ وه اپنی خداداد فطرت کی بنیاد پر اپنے نظریات کو ثابت کرتا ھے ، دو قسم کے ھیں ؛ "برھان " اور "جدل"
"برھان " وه استدلال ھے ، جس کے مقدمات حقیقی ھوں ، دوسرے الفاظ میں ایسے قضایا جنھیں انسان اپنے خداد داد شعور سے ادراک اور تصدیق کرے ، چنانچھ ھم جانتے ھیں تین کا عدد چار سے چھوٹا ھے ، اس قسم کی فکر ، عقلی فکر ھے اور جب عالم ھستی کے کلیات میں انجام پاتا ھے ، جیسے مبدا تخلیق و سرانجام عالم اور عالم کی مخلوقات کے بارے میں غور و فکر ، تو اسے فلسفی فکر کها جاتا ھے ۔
"جدل" ایک ایسا استدالال ھے جس کے بعض مقدمات کو مسلّمات سے لیا جائے ،چنانچھ ادیان اور مذاھب کے درمیان بالعموم یھ رسم ھے کھ ، اپنے مذھبی نظریات کو اس مذھب کے مسلم اصول کے ذریعھ ثابت کرتے ھیں قرآن مجید نے دونوں طریقوں کا ذکر کیا ھے اور ان دونوں طریقوں کے بارے میں قرآن مجید میں بھت سی آیات موجود ھیں۔
اولا : قرآن مجید ، عالم کے کلی نظام اور خاص نظاموں جیسے آسمان ، ستاروں ،شب ، روز ، زمین ، نباتات ، حیونات اور انسان وغیره کے نظام میں عالم ھستی کے کلیات کے بارے میں آزاد غور و فکر کا امر کرتا ھے اور واضح ترین بیان میں آزاد اور معقول جستجو کی ستائش کرتا ھے۔
ثانیا: معقول جدل غور و فکر، جسے عام طورپر کلامی بحث کھاجاتا ھے ، کو اس شرط پر کھ بھترین صورت میں (اظھار حق کے لئے اخلاق کے ساتھه اور ھٹ دھرمی کے بغیر انجام پائے[2] )، امر کرتا ھے۔
اسلام کی فلسفی و کلافی فکر میں شیعوں کی پیش قدمی :
جو لوگ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے کارناموں اور آثار کےبارے میں آگاھی رکھتےھیں ، وه بخوبی جانتےھیں کھ ، اصحاب کی طرف سے جو بھی آثار ( کارنامے ) ھم تک پھنچے ھیں ، ان میں ایک بھی ایسا کارنامھ نقل نھییں ھوا ھے جو فلسفی تفکر پر مشتمل ھو ، اس کے بر عکس امیر المؤمنین حضرت علی علیھ السلام کے بیانا ت میں الھیات کے بارے میں عمیق اسلامی فکر پائی جاتی ھے۔
صحابھ ، تابعین اور اس کے بعدکے زمانھ کے عرب آزاد فلسفی فکر کے بارے میں کوئی واقفیت نھیں رکھتے تھے اور ابتدائی دو صدی ھجری کے دانشوروں کے بیانات میں فلسفیانھ تجسس کا شائبھ تک نھیں ملتا ھے صرف شیعوں کے پیشواؤں، خاص کر شیعوں کے پھلے امام اور آٹھویں امام کے بیانات میں فلسفی افکارکے خزانے پائے جاتے ھیں۔ اور یھی بزرگ شخصیتیں تھیں ،جنھوں نے اپنےشاگردوں کی ایک بڑی تعداد کو اس طرز تفکر سے آگاه فرمایا ۔
اگرچھ عام مسلمانوں کے درمیان فلسفی فکر تیسری صدی ھجری کے آغاز سے ، یونانی کتابوں کے ترجمھ کے نتیجھ سے رائج ھوئی ۔ لیکن اکثر اھل تسنن میں ساتویں صدی ھجری سے آگے جاری نھ ره سکی اور ابن رشد اندلسی کی وفات کے ساتھه ھی فلسفھ بھی ان میں مفقود ھوگیا ، لیکن فلسفھ شیعوں میں ھرگز ختم نھیں ھوا اور شیعوں کے درمیان اس طرز تفکر کی بقا کا مؤثر عامل ، وھی علمی خزانھ ھے جو شیعوں کے پیشواؤں نے یادگار کے طورپرچھوڑا ھے۔ مطلب کو واضح کرنے کے لئے کافی ھے کھ ھم اھل بیت علیھم السلام کے علمی ذخائر کو اب گزرتی تاریخ میں تالیف کی گئی فلسفی کتابوں کی روشنی میں پرکھیں کیونکھ اس طرح ھم واضح طور پر مشاھده کریں گے کھ فلسفھ روز بروز اھل بیت علیھم السلام کے علمی ذخائر کے نزدیک تر ھوتا گیا ھے یهاں تک کھ گیارھویں صدی ھجری میں دونوں تقریبا آپس میں منطبق ھوگئے اور ان کے درمیان تعبیر و تفسیر کے اختلاف کے علاوه کوئی فاصلھ باقی نھیں رھا ۔
ج: کشف و شھود:
قرآن مجید ایک دلچسپ بیان سےواضح کرتا ھے کھ تمام حقیقی معارف کا سرچشمھ واقعی توحید اور خدا کی معرفت ھے اور خد اکی معرفت کے کمال تک وه لوگ پھنچ سکتے ھیں جنھوں نے تمام چیزوں کو بھول کر اپنی تمام توانائیوں کو معرفت الھی کی طرف مرکوز کردیا ھے اور خلوص و بندگی سے اپنی نظروں کو پروردگار عالم کے نور سے پاک اور منور کیا ھے اور حقیقت بین آنکھوں سے اشیاء و ملکوت ، آسمان و زمین کو دیکھا ھے ، کیوں کھ وه "خلوص وبندگی" کے نتیجھ میں یقین کی منزل پر پھنچے ھیں اور اس یقین کے نتیجھ میں ان پر ، ملکوت ، آسمان ،زمین ، جادواں زندگی اور ابدی عالم ،منکشف ھوگیا ھے۔
قرآن مجید کی مندرجھ ذیل آیات پر توجھ کرنے سے یھ مطلب مکمل طورپر واضح ھوتا ھے:
" واعبد ربک حتی یاتیک الیقین " [3]
' کلا لو تعلمون علم الیقین لترون الجحیم " [4]
" فمن کان یرجوا لقاء ربھ فلیعمل عملا صالحا و لا یشرک بعبادۃ ربھ احدا" [5]
شیعی عرفان :
اولا : اسلام میں عرفان کے ظھور و پیدائش کا سرچشمھ ، عرفانی حقائق اور حیات معنوی کے مراحل کے باب میں امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیھ السلام کے فصیح و بلیغ بیانات ھیں۔ آپ(ع) نے ان معارف کے بے انتھا ذخائر کو انسانی معاشره کے اختیار میںقرار دیا ھے۔
ثانیا: سیر و سلوک میں شرعی حدود کی رعایت و اور سیر و سلوک کو شریعت کےقواعد و ضوابط کے مطابق قرار دینا ، شیعی عرفان کو فکری اور اخلاقی انحرافت سے بچانے کا اھم ترین عامل ھے۔ [6]
۳۔ حلقھ اعتقاد میں شیعی تفکر کی سوغات
جو کچھه ھم نے یھاں تک مختصرا بیان کیا وه شیعوں کے تفکر کی بنیاد ھے لیکن عمل و یقین کے حلقھ میں اس قسم کے تفکر کی سوغات کافی وسیع ھے ، یھاں تک کھ اگر ھم صرف عناوین کی فھرست لکھنے بیٹھیں تو وه بھی کافی طولانی ھوگی ، اس لئے ھم یھاں اعتقاد (کلام ) کے موضوع پر چند ابواب کی طرف صرف اشاره کرکے شیعھ عقیده کے کلام و فقھ کے دو موضوعات کو کسی دوسرے مناسبت وقت کے لئے چھوڑتے ھیں۔
خداکے وجود پر اعتقاد ، تمام ادیان الھی کا مشترک اصول ھے اور مختلف طریقوں سے اس اصول پا استدلال کیا جاتا ھے۔
توحید کا پھلا مرتبھ ، توحید ذاتی ھے اور اس کے ضمن میں توحید صفاتی اور توحید افعالی ھیں ، یعنی خدوند متعال یکتا ھے اور اسکے برابر کوئی نھیں ھے، اس کی ذات بسیط ھے مرکب نھیں ھے ، اور اس کے وجود میں عقلی اور خارجی ترکیب کی کوئی گنجائش نھیں ھے ، خداوند متعال کی ذات تمام صفات کمال سے آراستھ ھے اور تمام صفات نقص سے پاک و منزه ھے ، اس کی صفات اس کی ذات سےالگ نھیں ھیں اور وه اپنے کام انجام دینے میں کسی شخص اور چیز کا محتاج نھیں ھے اور کوئی مخلوق اس کی کسی قسم کی مدد نھیں کرسکتی ھے۔[7]
کائنات کا خداوند متعال کے سوا کوئی پروردگار اور مدبر نھیں ھے اور دوسرے منتظمیں ، مثلا ، فرشتے ، اسی کے اذن اور حکیمانھ مشیت سے اپنا فریضھ انجام دیتے ھیں۔
عبادت میں توحید ، تمام آسمانی شریعتوں کا مشترک اصول ھے اور بعثت انبیاء کا مقصد اس اصول کا تذکره اور تاکید کرنا ھے۔
شفاعت و توسل کا اعتقاد اور یھ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق یھ دو چیزیں توحید سے تضاد نھیں رکھتی ھیں اور شرک شمار نھیں ھوتی ھیں۔
حسن و قبح عقلی کا اعتقاد ، یعنی عقل ادراک کرتی ھے کھ خداوند متعال کی ذات اقدس قبیح افعال انجام دینے سے منزه ھے اور خداوند متعال کی ذات ھر قسم کا ظلم کرنے سے بھی منزه ھے [8]
حسن و قبح عقلی کے بھت سے فائدے ھیں اور ان فوائد میں سے ایک عدالت کااعتقاد ھے ، اور عالت کی بذات خود متعدد فروع اور شاخیں ھیں ، مثلا : خداوند متعال کی عدالت ، ( خداوند متعال کی عدالت کے اعتقاد نے ھمارے لئے معارف کے وسیع ابوب کھولے ھیں ، جس کے نتیجھ میں بھت سے اعتقادی مشکلات حل ھوئے ھیں) ۔ مجتھد ، حکام ، سیاسی وسماجی رھبروں امام جماعت اور عدلیھ میں گواھوں وغیره کے عادل ھونے کی ضرورت۔
جبر و اختیار کے مقولھ میں " امر بین الامرین " کا اعتقاد [9]
حکیمانھ مشیت الھی کا تقاضا ھے کھ کمال کی راه کو طے کرنے کےلئے ، انبیاء علیھم السلام کو انسانوں کےلئے بھیجے اور خلقت کے بلند مقاصد کی طرف ھدایت کرنے کےلئے ، صرف عقلی ھدایتوں پر اکتفا نھ کرے۔
انبیائے الھی علیھم السلام ، وحی الھی کو قبول کرنے اور اس کے تحفظ اور پھنچانے کے سلسلھ میں ھر قسم کی سھو و خطا سے محفوظ ھیں۔
انبیاء علیھم السلام ھر قسم کے گناه اور برے کاموں سےمحفوظ ھیں۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد بں عبدا للھ صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم انبیاء الھی کے سلسلے کی آخری کڑی ھیں۔
آپ نے ایک لافانی معجزه (قرآن مجید ) کے چیلینج کے ساتھه اپنی نبوت کا آغاز کیا۔
دین اسلام ایک عام اور آفاقی دین ھے، نھ یک خاص علاقھ ، نسل اور قوم کا دین۔
پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ و سلم خاتم الانبیاء ، آپ کی کتاب (قرآن مجید) تمام آسمانی کتابوں کی آخری کتاب اور آپ کی شریعت ، تمام آسمانی شریعتوں کو خاتمھ بخشنے والی شریعت ھے۔
ھم مسلمانوں کی آسمانی کتاب (قرآن مجید ) ھر قسم کی تحریف سے محفوظ ھے، اس میں نھ کسی چیز کا اضافھ ھوا ھے اور نھ کوئی چیز کم ھوئی ھے۔
خداوند متعال کی حکیمانھ مشیت کا تقاضا ھے کھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ آولھ وسلم اپنے بعد والے امام و رھبر کو پھچنوائیں اور آپ نے بھی علی ابن ابیطالب علھم السلام کو اپنے بعد خلیفھ کے عنوان سے معین کرکے مختلف مواقع پر اس عظیم ذمھ داری کو عملی جامھ پھنایا ھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی رحلت کے بعد امام کی حسب ذیل ذمھ داریاں ھیں:
قرآنی مفاھیم کو بیان کرنا ۔
شرعی احکام کو بیان کرنا۔
معاشره کو ھر قسم کے انحراف سے بچانا ،
دینی ، اعتقادی سوالات کا جواب دینا۔
معاشره میں عدل و انصاف کا نفاذ کرنا، اور دشمنوں کے مقابل اسلامی سرحدون کی حفاظت کرنا۔
پیغمبر کے جانشین اور امام پر علمی اور اخلاقی لحاظ سے خداوند متعال کی خاص عنایت ھونی چاھئے اور وه غیبی تربیت کے سائے میں قرار پانا چاھئے، یعنی اسے پیغمبر (ص) کے مانند ھر قسم کے سھو و خطا سے محفوظ ھونا چاھئے اور ھر گناه و خطا سےمعصوم ھونا چاھئے ، اسی لئے امام کی تشخیص اور تعیین صرف خداکی جانب سے اور پیغمبر (ص) کے ذریعھ یا پھلے والے امام کے ذریعھ ھی ممکن و میسر ھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے جانشین باره افراد ھیں اور " اثنا عشر خلیفھ" کی تعبیر فریقین (شیعھ و سنی ) کی کتابوں میں آئی ھے۔ ان کے پھلے علی ابن ابیطالب علیھ السلام اورآخری امام حضرت امام عسکری کے فرزند حضرت مهدی موعود (عج) ھیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے جانشین اور ائمھ اطھار علیھم السلام کے اسمائے گرامی حسب ذیل ھیں:
۱۔ علی ابن ابیطالب علیھ السلام۔
۲۔حسن بن علی علیھ السلام
۳۔ حسین بن علی علیھ السلام
۴۔ علی بن حسین علیھ السلام
۵۔ محمد بن علی علیھ السلام
۶۔ جعفر بن محمد علیھ السلام
۷۔ موسی بن جعفر علیھ السلام
۸۔ علی بن موسی علیھ السلام
۹۔ محمد بن علی علیھ السلام
۱۰ علی بن محمد علیھ السلام
۱۱۔ حسن بن علی علیھ السلام
۱۲۔م ح م د بن حسن ( امام مھدی ) علیھ السلام
بارھویں امام حضرت مھدی موعود بن امام حسن عسکری علیھما السلام ۲۵۵ھ میں سامرا کے مقام پر پیدا ھوئے ھیں اور آج تک زنده اور انقلاب و قیام کے لئے خداوند متعال کےحکم کے منتظر ھیں۔ حضرت مھدی (عج) کی غیبت کے زمانھ میںولی فقیھ منصب رھبری کے عھده دار اور اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ھوتے ھیں۔[10]
شیعھ عقائد کی خصوصیات میں سے ایک باب اجتھاد کا کھلا ھونا ھے ، یعنی فقھ اور عملی احکام کے دائرے میں جزئی مسائل کی کلی اصول سے تطبیق اور دینی کتابوں سے شرعی احکام کا استنباط کرنا ھے اور اسے اسی تک محدود نھیں جانتے ھیں ، جسے اسلاف نے سمجھا تھا۔
آخر زمانھ میں عدل و انصاف کو نافذ کرنے کےلئے اور انسان کو حقیقی کمال تک پھنچانے کےلئے ، خاندان پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے ایک شخص کا ظھور کرنا ، اسلام کے مسلم عقائد میں سے ھے، کھ شیعھ و سنی احادیث اس کی گواھی دیتی ھیں ، بلکھ نجات دھنده کا ظھور موجوده دنیا کے مختلف مذاھب جیسے: عیسائیت ، یھودیت ، اور زردتشت وغیره کے عقاید میںسے ایک عقیده ھے۔[11]
رجعت ، یعنی کچھه لوگوں کے ، مرنے کے بعد ، آخرت سے پھلے دنیا میں لوٹ کے آنے کا اعتقاد۔ [12]
مرنے کے بعد زندگی ، اور انسانکے اپنے اعمال کا قیامت کے دن جزا یا سزا پانے اور موت کا زندگی کا خاتمھ نھ ھونے کا اعتقاد ، اور یھ کھ انسان مرنے کے بعدایک دوسری دنیا میں منتقل ھوتا ھے اور دنیا و آخرت کے درمیان ، برزخ نام کی ایک اور سرائے ھے کھ جس کی اپنی خاص حیات ، نعمت اور عذاب ھے۔[13]
[1] سوره احزاب / ۲۱۔
[2] سوره نحل / ۱۲۵۔
[3] اور اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رھئے جب تک کھ موت نه آجائے ۔ سوره حجر / ۹۹۔
[4] دیکھو اگر تمھیں یقین علم ھوجاتا کھ تم جهنم کو ضرور دیکھو گے۔ "۔سوره تکاثر /۵۔۔۶
[5] ۔ " جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ھے اسے چاھئے کھ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت مین شریک نھ بنائے۔ سوره کهف /۱۱۰۔
[6] مزید مطالعھ کے لئے ملاحظه ھو :شیعه در اسلام ، علامه طباطبائی ، ص ۷۵۔۔۔۱۱۴
[7] مزید مطالعھ کے لئے ملاحظه ھو ، آموزش عقائد ، علامھ محمد تقی مصباح یزدی ص ۱۳۶۔۔۔۱۳۷۔
[8] مزید مطالعھ کے لئے ملاحظه ھو۔ آموزش عقائد ، علامھ محمد تقی مصباح یزیدی ، ص۱۶۲، ۱۶۷۔
[9] مزید مطالعھ کے لئے ملاحظه ھو ،امر بین الامرین ، سوال ۵۸، (سایت ۲۹۴)
[10] شیعه مذهب کے سیاسی نظریه کے لئے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظھ ھو اسی سائٹ پر ولایت فقیھ سے متعلق مقالات۔
[11] مزید مطالعھ کے لئے ملاحظه ھو، عنواں امام مھدی (عج) از نطر شیعھ ، سوال 2416 ، (سائت 2561)
[12] مزید مطالعھ کے لئے ملاحظه ھو عنوان مفھوم رجعت و جزئیات آن ، سوال ۲۴۸(سائٹ ، ۱۱۱۲)
[13] مزید مطالعھ کے لئے ملاحظه ھو، منشور عقاید امامیھ ، جعفر سبحانی۔