سوال کا خلاصہ
کیا ایسے مریض پر روزہ واجب ہے جسکے لئے روزہ مضر ہے ؟
سوال
میرا ایک دوست ہے کہ جو مسلمان ہونا چاہتا ہے وہ اسلام کے چار ارکان کو پسند کرتا ہے ، لیکن اس نے ماہ رمضان میں مجھ سے ایک سوال کیا ( وہ فقط ایک ملک میں رہتا ہے اور اس کے ملک کے تمام طبیبوں نے اس کو ہر روز ایک لیٹر پانی پینے کی تاکید کی ہیں ) کیا اس کے لئے واجب ہے کہ روزہ رکھے ؟
ایک مختصر
علماء اسلام اور مراجع تقلید کے فتوؤں کے مطابق ایسے شخص پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے کہ جس کے لئے روزہ رکھنا واقعی نقصان دہ ہو[1] ۔
قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے : " جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو اسے چاہئے کہ اسی تعداد میں دوسرے دنوں میں روزہ رکھے[2] "
لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ وہ مریض جس کا مرض چند سال طول کھینچتا ہے اور کچھ سالوں میں ٹھیک ہوجاتا ہے اسے چاہئے کہ جن سالوں میں اسے روزہ نہیں رکھا ہے ہر روزہ کے عوض ایک مد غذا(گندم یا جو یا ان جسی چیزوں) کو جو تقریباً ۷۵۰ گرام ہوتی ہے فقراء کو دے [3] ۔
ہاں ؛ اگر کوئی شخص ایسا مریض ہو کہ اسے زیادہ پیاس کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنی پیاس کو برداشت نہیں کر سکتا یا مشقت محسوس کرتا ہے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ایسی صورت میں کہ جب روزہ رکھنا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر روزہ کے عوض ایک مد طعام دے ، لیکن اس صورت میں کہ جب روزہ سختی اور مشقت کے ساتھ روزہ رکھنا اس کے لئے ممکن ہو اور نہ رکھے تو کفارہ دینا ضروری ہے [4]۔
دوسرے لفظوں میں : اگر کوئی انسان ایسا مریض ہو کہ اسے زیادہ پیاس محسوس ہوتی ہے اور روزہ رکھنا اس کے لئے قابل برداشت نہیں ہے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے [5] لیکن دوسری صورت میں[6]چاہئے کہ ہر دن کے عوض ایک مد گیہوں یا جو یا پھر ان کے مثل چیزیں فقیر کو دیں[7] اور احتیاط واجب[8] یہ ہے کہ جتنے پانی کی اسے ضرورت ہے اس سے زیادہ پانی نہ پئے اور اگر وہ بعد میں روزہ بھی رکھ سکتا ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر جتنے روزے اس نے نہیں رکھتے ہیں ان کی قضا بجا لائے [9]۔
قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے : " جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو اسے چاہئے کہ اسی تعداد میں دوسرے دنوں میں روزہ رکھے[2] "
لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ وہ مریض جس کا مرض چند سال طول کھینچتا ہے اور کچھ سالوں میں ٹھیک ہوجاتا ہے اسے چاہئے کہ جن سالوں میں اسے روزہ نہیں رکھا ہے ہر روزہ کے عوض ایک مد غذا(گندم یا جو یا ان جسی چیزوں) کو جو تقریباً ۷۵۰ گرام ہوتی ہے فقراء کو دے [3] ۔
ہاں ؛ اگر کوئی شخص ایسا مریض ہو کہ اسے زیادہ پیاس کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنی پیاس کو برداشت نہیں کر سکتا یا مشقت محسوس کرتا ہے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ایسی صورت میں کہ جب روزہ رکھنا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر روزہ کے عوض ایک مد طعام دے ، لیکن اس صورت میں کہ جب روزہ سختی اور مشقت کے ساتھ روزہ رکھنا اس کے لئے ممکن ہو اور نہ رکھے تو کفارہ دینا ضروری ہے [4]۔
دوسرے لفظوں میں : اگر کوئی انسان ایسا مریض ہو کہ اسے زیادہ پیاس محسوس ہوتی ہے اور روزہ رکھنا اس کے لئے قابل برداشت نہیں ہے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے [5] لیکن دوسری صورت میں[6]چاہئے کہ ہر دن کے عوض ایک مد گیہوں یا جو یا پھر ان کے مثل چیزیں فقیر کو دیں[7] اور احتیاط واجب[8] یہ ہے کہ جتنے پانی کی اسے ضرورت ہے اس سے زیادہ پانی نہ پئے اور اگر وہ بعد میں روزہ بھی رکھ سکتا ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر جتنے روزے اس نے نہیں رکھتے ہیں ان کی قضا بجا لائے [9]۔