ناپسند طبیعی حوادث ، جیسے ، سیلاب ، زلزلھ ، اور طوفان کے ونما ھونے کا مقصد صرف عذاب کرنا نھیں ھے ، بلکھ اس کے متعدد آثار ھیں ، جیسے الھی نعمتوں کی یاد دھانی ، خواب غفلت سے بیداری ، استعدادوں کی کشادگی ، روئے زمیں پر حیات کا جاری رھنا ، اور من جملھ ظالموں اور غنڈوں وغیره کا عذاب ھیں۔ یھ سب چیزیں طبیعی حوادث رونما ھونے کے مقاصد شمار ھوسکتے ھیں ، اس کے علاوه اس میں کوئی ممانعت نھیں ھے کھ ایک وقوعھ ایک مادی علت کا مظھر بھی ھو اور اس کے ساتھه عذاب الھی بھی ھو ، کیونکھ الھی عذاب بھی سنت الھی اور نظام اسباب و مسببات کی بنیا پر نازل ھوتے ھیں۔
دوسرے الفاظ میں عالم ھستی میں جو ظھور ھوتا ھے وه اراده و مشیت الھی کی بنیاد پر ھوتا ھے اور خداوند متعال بھی اپنے اراده کو قانون اسباب و علل کی بنیاد پر عملی جامھ پھناتا ھے۔ مادی علتیں اراده کا ایک حصھ ھیں جو مشیت الھی کے تحت ھوتی ھیں ۔ پس جس طرح طبیعی حوادث کا وقوع طبیعی اسباب کی وجھ سے اراده الھی کے نظام کی بنیاد پر ھے ، اسی طرح اں حوادث کے وقوع کو روکنا یا اسکے تخریبی آثار کو کم کرنا بھی مادی قوانین کی بنیاد پر مشیت الھی کے نطام کے تحت ھوتا ھے ، ان حوادث کے وقوع کو روکنے کے امکان کے ساتھه بھی کسی قسم کا تضاد نھیں ھے کھ اس کا مقصد کچھه افراد یا اقوام کے لئے عذاب ھو۔
انسان کو درپیش آنے والی مصیبتیں اور بلائیں بھی دو قسم کی ھوتی ھیں : طبیعی بلائیں اور اخلاقی بلائیں (بیرونی اور اندرونی) اور یھ اپنی جگھ پر ثابت ھوچکا ھے کھ اخلاقی برائیاں ، جو کھ مھلک بلائیں ھیں ، انسان کی جان میں طبیعی بلاؤں کا سرچشمھ ھوسکتی ھیں اور کلی طورپر دونوں مل کر ، عذاب کا پھلو بن سکتی ھیں اس لئےاس میں توجھ کی جانی چاھئے کھ عذاب الھی آرام و آسائش اور دنیوی امکانات کا حامل ھونے کے ساتھه اکٹھا ھوسکتا ھے اور عذاب الھی کی اقسام کو کسی سیلاب ، زلزلھ ، وغیره میں ھی محدودنھیں کیا جانا چاھئے۔
ناپسند طبیعی حوادث عذاب الھی ھیں یا نھیں؟ اس مسئلھ تک پھونچنے کے لئے چند نکات کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے:
الف ) انسان کی تخلیق کا انتھائی مقصد یھ نھیں ھے کھ وه دنیا میں تن آسانی اور آرام طلبی میں مشغول رھے ، بلکھ اس کا اصلی اور انتھائی مقصد ، حقیقی سعادت تک پھنچنا ھے جو خداوند متعال کی عبادت اور قرب الھی حاصل کئے بغیر حاصل نھیں ھوسکتی ھے۔
ب) طبیعی حوادث بھی کئی پھلو سے مفید آثار رکھتے ھیں اور انساں کو آخری مقصد تک پھنچنے میں مدد کرتے ھیں ، کیونکھ اس میں کسی قسم کا شک و شبھھ نھیں ھے کھ ان ناپسند حوادث کی برائی نسبتی ھے ، یعنی ھم ان حوادث کو نقصان سے دوچار ھوئے انسانوں کی بھ نسبت برائی جانتے ھیں ، مثال کے طورپر سانپ کا زھر انسان اور دوسرے موجودات کے لئے بری چیز ھے ، لیکن سانپ کے لئے برا نھیں ھے ، مولانا روم کھتے ھیں:
زھر ما آن ما را با شد حیات لیک آن مرا آدمی را شد ممات
پس بد مطلق نباشد در جھان بھ بد نسبت باشد این راھم بدان [1]
لیکن یھی حوادث پورے نظام اور انسان کی مجموعی زندگی کی بھ نسبت گران قدر آثار رکھتے ھیں۔
ذیل میں ھم بعض مفید آثار کی طرف اشاره کرتے ھیں:
استعداد کا جوھر کھلنا
انسان کی فطرت اور عالم فطرت کی حالت اس طرح ھے کھ انسان کی مادی اور معنوی صلاحتیں مشکلات اور سختیوں کے ساتھه مقابلھ کئے بغیر نھیں کھلتی ھیں۔ جس طرح ایک ورزش کرنے والے کے بدن کے اعضاء صرف سخت اور ناقابل برداشت مشق کے نتیجھ میں مضبوط ھوتے ھیں ، انسان کی روحانی اور معنوی قابلیتین بھی مصائب و مشکلات اور زندگی کی دشواریوں پر قابو پانے کی کوششوں سے کشادگی اور ظھور پیدا کرتی ھیں ، مثلاً بھت سی علمی ایجادات اور اختراعات ، انسان کی انفرادی اور اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لئے وجود میں آئی ھیں ، قرآن مجید اس حقیقت کی تاکید کرتا ھے کھ ھر سختی اور ھر مصیبت میں آرام و آسائش مضمر ھوتی ھے ۔ [2]
اس کے علاوه قرآن مجید کی نظر میں ، سنت الھی میں سے ایک سنت ، انسان کی زندگی کے مختلف میدانوں میں مصیبت وا متحان،[3] پوشیده استعداد کو تقویت بخشنے کے لئے ھے ، امام علی علیھ السلام بھی انسان کی پوشیده استعداد کو کشادگی بخشنےمیں سختیون کے اثرات کو انتھائی زیبا تشبیھات کی صورت میںیون بیان فرماتے ھیں:
" جان لیجئے کھ صحرائی درختوں کی لکڑی مضبوط تر ھوتی ھے ، لیکن سرسبز اور ھمیشھ پانی کے کنارے اگنے والے درختوں کا چھلکا نازک تر(ناپائیدار) ھوتا ھے۔[4]
۲ ۔ بیداری
بلاؤں کا سب سے اھم ما حصل یھ ھے کھ انسان کو ، دنیوی نعمتوں میں غرق ھونے کی وجھ سے طاری خواب غفلت سے بیدار کرکے اسے اس کی اھم ذمھ داریوں کی طرف توجھ دلاتی ھیں اور اس طرح اس کے تکبر کو فروتنی اور خضوع و خشوع میں تبدیل کراتی ھیں۔ قرآن مجید اس مطلب کی طرف اشاره کرتے ھوئے بیان کرتا ھے : "انبیاء کے رشتھ دار ھمیشھ مختلف قسم کی سختیوں سے دوچار ھوا کرتے تھے ، تا کھ نافرمانی سے اجتناب کرکے ، حق کے سانے هتھیار ڈال دیں"۔
" ھم نے جب کبھی کسی قریھ میں کونی نبی بھیجا تو اھل قریھ کو نافرمانی پر سختی اورپریشانی میں ضرور مبتلا کیا کھ شائد وه لوگ ھماری بارگاه میں تضرع وزاری کریں" [5]
۳۔ خداکی نعمتوں کی قدر دانی :
ناپسند طبیعی حوادث کے دوسرے فوائد یھ ھیں کھ انسان خداوند متعال کی نعمتوں کی قدر دانی کرے ، کیونکھ " خیر و عافیت کی قدر وه جانتا ھے جو مصیبت سے دوچار ھوتا ھے " ۔
ایک حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام فرماتے ھیں:"اگرچھ مصیبتیں نیک و بد دونوں افراد ، تک پھنچتی ھیں، لیکن خداوند متعال مصیبتوں کو دونوں گروھوں کے لئے اصلاح کا سبب قرار دیتا ھے ، لیکن جو مصیبتیں اور بلائیں نیک انسانوں تک پھنچتی ھیں ، یھ ان کےلئے خدا کی طرف سے عطا کی گئی نعمتوں کی یاددھانی کا سبب بنتی ھیں اور یھ امر ان کےلئے شکر اور صبر و شکیبائی کی طرف رھنمائی کرتا ھے" ۔ [6]
ج ) بیشک مجھولات کے بارے میں انسان کے معلومات کی نسبت ،ایک سمندر سے ایک قطره کی نسبت کے مانند ھے نھ صرف بیرونی دنیا کے قلمرو میں بلکھ خود انسان کے وجود میںبھی ایسے نامعلوم اسرارپوشیده ھیں کھ انسان نے ابھی ان تک رسائی حاصل نھیں کی ھے ، انسان کے علم کی محدودیت کے پیش نظر ، یھ دعویٰ نھیں کیا جاسکتا ھے کھ جن مظاھر کو ھم شر جانتے ھیں ، ان کے تمام اسرار و رموز سے واقف ھیں ، ممکن ھے ان امور میں فرواوان مصلحتیں مضمر ھوں ، جن سے ھم بے خبر ھیں اور ظاھر ھے کھ کسی چیز کو نھ پانا اس کے نھ ھونے کی قطعی دلیل نھیں ھے ، اس طرح عقلمندی کا تقاضا ھے کھ ھم اپنے محاکمھ اور فیصلھ کو بیشتر دور اندیشی اور احتیاط کے طورپر انجام دیں ، کیونکھ ممکن ھے جو چیز حقیقت میںخیر ھو، ھم اسے شر تصور کریں ۔ قرآن مجید اس حقیقت سے کس خوبی کے ساتھه پرده اٹھاتا ھے ارشاد ھوتا ھے : "اور یھ ممکن ھے کھ جسے تم برا سمجھتے ھو وه تمھارے حق میں بھتر ھو۔۔۔۔" [7]
آنکھ پر نقش زد این دایره مینائی کس ندانست کھ در گردش پرگار چھ کرد
د) ایک اور اھم نکتھ ، جس سے غفلت نھیں کی جانی چاھئے ، کھ بعض برائیوں کے ظھور میں انسان کے اعمال کا اثر ھے ، انسان ایک با اختیار مخلوق ھے اور علیت کے عام قانون کے مطابق ، اس کے بعض اختیار اعمال کے غیر صحیح انتخاب کے نتیجھ میں بعض بلائیں اور مصیبتیں واقع ھوتی ھیں۔ [8]
قرآن مجید میں ارشاد ھوا ھے: " اور اگر اھل قریھ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ھم ان کے لئے زمین اور آسمان میں برکتوں کے دروازے کھول دیتے، لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ھم نے ان کو اں کے اعمال کی گرفت میں لے لیا " [9] ۔
حضرت علی ابن ابیطالب علیھ السلام اس سلسلھ میں یوں فرماتے ھیں : " خداوند متعال اپنے بندوں کو ناپسند طرز عمل کی سزا کے طورپر درختوں کے میوؤں میں کمی واقع کرکے ، بارش میں تاخیر کرکے اور نیکی کے دروازوں کو بند کرکے مصائب سے دوچار کرتا ھے ، تا کھ توبھ کرنے والا توبھ کرے اور گناھگار گناه سے ھاتھه کھینچ لے ، اور عبرت حاصل کرنے والا، نصیحت کو قبول کرے " [10]
اس بات کو جانچنے کےلئے کھ اخلاقی صفات اور ناپسند کردار فطری بلاؤں اور مصیبتوں میں کس طرح اثر انداز ھوتے ھیں اور ان کے درمیان کس قسم کا رابطھ قائم ھے ، بذات خود ایک تفصیلی مقالھ کی ضرورت ھے ، امید ھے انشاء اللھ اس پر آئنده بھث کریں گے۔
لیکن یھ کھ ترقی یافتھ ممالک ، علم کا استفاده کرکے ، طبیعی حوادث کے تخریبی آثار کو روکنے میں کامیاب ھوئے ھیں ، اس سلسلھ میں قابل ذکر بات یھ ھے کھ ناشائستھ اعمال کےلئے عذاب سے بھاگنا ممکن نھیں ھے اور فیصلھ کرنے میں ایک مختصر زمانھ کا لحاظ نھیں رکھنا چاھئے ۔ مثلا ، ھم د یکھتے ھیں کھ یھی ممالک دوسری عالمگیر جنگ میں ایسے نقصانات سے دوچار ھوئے جو طبیعی بلاؤں سے کئی گنا زیاده تھے اور ان جنگوں اور طبیعی بلاؤن کا سرچشمھ اخلاقی اور نفسانی بلائیں تھیں جو ان ممالک کے حکمراں طبقھ میں پائی جاتی تھیں ، اس کے علاوه وه اس وقت بھی روحانی اور نفسیاتی امن و امان کے فقدان اور گوناگوں بیماریوں اور اجتماعی مفاسد سے دوچار ھیں اور معنوی عذاب برداشت کررھے ھیں اس کی تفصیلات آئییں گی۔
بند پنھان لیک از آھن بتر۔ بند آھن را کند پاره تبر
بند آھن را توان کردن جدا بند غیبی را نداند کس دوا۔
اس سے زیاده اھم بات یھ ھے کھ خداوند متعال نے ان ناپسند طبیعی حوادث میں مختلف افراد اور اقوام کے لئے ، مختلف مقاصد رکھے ھیں ، یھ حوادث مومن انسانوں کے لئے رحمت ھیں ، کیونکھ یھ گناھوں کے کفاره یا اخروی عذاب میں تخفیف کا سبب بنتے ھیں ، بلکھ بعض روایتوں میں ان کے لئے راه خدا میں شھادت کا ثواب لکھا جاتا ھے۔ [11] یا وه خواب غفلت سے بیدار ھونے اور خدا کی نعمتوں کی یاددھانی کا سبب ھوں گے ، جبکھ غیر مومن اس قسم کے فضل و کرم کی قابلیت نھیں رکھتا ھے اور ممکن ھے وه دنیا میں نعمت اور لذتوں میں غرق ھو، لیکن وه آخرت میں ایسے درد ناک عذاب سے دوچار ھوگا جس کا دنیوی عذاب سے موازنھ ممکن ھی نھیں ھے۔
حضرت علی ابن ابیطالب علیھ السلام فرماتے ھیں: " ظالم انسان کے لئے مصیبت و بلا تادیب کرنے کا وسیلھ ھے اور مومن کےلئے امتحان کا ذریعھ ھے اور انبیاء کےلئے درجات بلند ھونے اور اولیائے الھی کےلئے کرامت کا سبب ھے" [12]
ھ) اس نکتھ سے غفلت نھیں برتنی چاھئے کھ مصائب اس وقت نعمت ھوتے ھیں جب انسان ان سے فائده اٹھائے اور صبر و ثابت قدمی کے ذریعھ مصائب پیدا کرنے والی مشکلات سے مقابلھ کرکے اپنی روح کو کمال بخشے ، لیکن اگر انسان سختیون اور مصائب سے راه فرار اختیار کرے اور شکوه و نالھ وزاری کرے تو اس صورت میں بلا ، حقیقی معنوں میں اس کے لئے بلا ھے ، حقیقت یھ ھے کھ دنیا کی نعمتیں بھی مصائب و آلام کے مانند ، ممکن ھے بھلائی اور سعادت کا سبب بنیں اور ممکن ھے بدبختی اور مصیبت کا باعث قرار پائیں۔
اس لئے کسی چیز کے نعمت ھونے کا دارو مدار اس نعمت کے مقابل میں انسان کے رد عمل پر ھے کھ وه شکر بجالاتا ھے یا کفران نعمت کرتا ھے ؟ اسی طرح ایک حادثھ کا بلا اور عذاب ھونے کا دار و مدار بھی اس بلا کے مقابل میں انسان کے رد عمل پر ھے کھ وه صبر و شکیبائی کا مظاھره کرتا ھے یا سستی و بے توجھی کا شکار ھوتا ھے۔
و ) ایک ایسی چیز کو بلا و مصیبت کھنا چاھئے ، جو خداکی طرف سے معنوی عذاب ھو ، یعنی انسان کے برے اعمال کے آثار ، اس لحاظ سے حقیقی بلائیں اور مصیبتیں اس صورت میں قرارپاتی ھیں کھ اولا : یھ انسان کے اپنے اختیاری ارادے کے نتائج ھوں ، ثانیا : یھ کسی خیر وکمال کا مقدمھ نھ ھوں ، مثلا انسان کے لئے سنگدلی بلا ھے ،کیونکھ روایت میں آیا ھے : " خداوند متعال نے اپنے کسی بندے کو کسی ایسے عذاب سے دوچار نھیں کیا ھے جو سنگدلی سے بالاتر ھو " [13] کیونکھ سنگدلی کا عذاب محسوس نھیں کیا جاتاھے تا کھ تنبیھ و بیدار کا سبب بنے اور خدا کی رحمت و مھربانی کا مقدمھ شمار ھو، لھذا ، چونکھ یھ عمل کا جزو ھے اس لئے سو فیصدی عذاب ھے ۔[14]
ی ) آخری نکتھ یھ کھ طبیعی مظٓاھر ، علتوں کے ایک مجموعھ کا نتیجھ ھوتے ھیں جن میں سے بعض ایک دوسرے کی بھ نسبت عرض اور صفت میں قرار پاتے ھیں اور بعض طول اور لمبائی میں قرار پاتے ھیں ، یعنی خود علتیں ، ایک دوسرے کی بھ نسبت ایک دوسرے کے معلول ھوتی ھیں۔ بھر حال مادی اور غیر مادی عوامل یا ایک مجموعھ ( بعض مواقع پر انسانوں کے اعمال بھی حوادث کے واقع ھونے میں موثر ھوتے ھیں ) طبیعی حوادث کے مکمل علت ھونے کو تشکیل دیتا ھے اور سب عالم کے کلی نظام میں شامل ھیں ، جو مشیت الھی کی بنیاد پر مانا گیا ھے۔ پس طبیعی حوادث کا واقع ھونا یا ان کو روکنا دونوں ھی تدبیر الھی کے نظام کی بنیاد پر ھیں اور اس سے باھر نھیں ھیں اور اگر خداوند متعال کسی قوم پر عذاب کرنے کا اراده کرے ، تو بھت سے مواقع پر انھی طبیعی علل و عوامل ( جو اس کی مخلوق ھیں ) کے ذریعھ عذاب کرتا ھے ، اور یھ کھ طبیعی حوادث کا واقع ھونا یا ان کو روکنا ، دونوں تدبیر الھی کے نظام کی بنیاد پر ھیں اس سے باھر نھیں ھیں ، کا مقولھ وسیلھ کے ذریعھ عذاب واقع ھونے سے تضاد نھیں رکھتا ھے۔
مربوط عنوان
امتحان ، و عذاب الھی و راه ھای تمییز بین آنھا ، سوال 2428، ( سائت: 2562)
[1] شھید مطھری ، عدل الھی، ص ۱۳۰ ، تا ۱۳۴، با تلخیص۔
[2] " فان مع العسر یراً ان مع العسر یسرا ً" سوره انشراح ، ۵ و ۶۔
[3] سوره انبیاء ۳۵۔ ، سوره بقره، ۱۵۵۔
[4] نھج البلاغھ، ، خط ، ۴۵۔
[5] سوره اعراف / ۹۴
[6] بحار الانوار ، ج ۳، ص ۱۳۹۔
[7] " و عسی ان تکرھوا شیئاً و ھو خیر لکم " ، سوره بقره /۲۱۶۔
[8] معارف اسلامی ، ج ۱ ص ۸۱۔ ۔۸۵ با تلخیص۔
[9] " ولو اں اھل القری ءامنو و اتقوا لفتحنا علیھم برکت من السماء و الارض و لکن کذبوا فأخذنٰھم بما کانو یکسبوں " سوره اعراف ۹۶۔ مزید وضاحت کےلئے ملاحظھ ھو : تفسیر نمونھ ، ج ۶ ص ۲۶۵ ، ۲۷۴، و ج ۱ ص ۵۳ ، ذیل آیھ ۷ سوره بقره۔
[10] نھج البلاغه ، خطبھ نمبر، ۱۴۳۔
[11] اصول کافی ج ۱ ۔ ص ۳۵۳۔
[12] مستدرک الوسائل ج ۳۔ س ۴۳۸۔
[13] " ما ضرب اللھ عبدا بعقوبۃ اشد من قسوۃ القلب " ، مستدرک الوسائل ج ۱۳ ، ص ۹۳۔
[14] عدل الھی ، ص ۱۶۴ ، ۱۶۵۔