اس کے باوجود کہ مختلف اشیاء اور افراد میں بعض خصوصیات پائی جاتی ہیں، لیکن بعض دلائل اس امر کا سبب بن جاتے ہیں کہ یہ خصوصیات کسی خاص فرد یا شے میں برجستہ اور نمایاں صورت میں اعلان کی جائے، مثال کے طور پر ، تمام آسمانوں اور زمین میں سے ، جو سب خدا سے متعلق ہیں، صرف کعبہ کو "بیت اللہ" کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ اسی طرح، اس کے باوجود کہ تمام انبیاء{ع} اور باایمان افراد ، خدا کی روح سے منسوب ہیں، لیکن یہ نسبت حضرت عیسی{ع} اور حضرت آدم{ع} میں ان کی غیر معمولی تخلیق کی وجہ سے برجستہ صورت میں نمودار ہوئی ہے اور اسی بنا پر حضرت عیسی{ع} روح اللہ کے عنوان سے مشہور ہوئے ہیں اور یہ عنوان ان کی عبودیت اور بندگی میں کوئی خلل پیدا نہیں کرتا ہے اور نہ انہیں الوہیت کے مقام پر پہنچاتا ہے۔
قرآن مجید کی ایک آیت اس پیغمبرالہٰی کا یوں تعارف کراتی ہے : "إِنَّمَا الْمَسیحُ عیسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ کَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى مَرْیَمَ وَ رُوحٌ مِنْه"[1] یعنی مسیح عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے مریم کی طرف القاء کیا گیا ہے اور وہ اس کی طرف سے ایک روح ہیں۔"
اسی آیہ شریفہ کے استناد پر اسلامی کتابوں میں حضرت عیسی{ع} کے ایک نام کے طور پر لفظ "روح اللہ" استعمال کیا گیا ہے۔
ہمیں جاننا چاہئیے کہ "روح" ان موضوعات میں سے ہے کہ قرآن مجید کی صراحت کے مطابق، انسان کے محدود علم کے پیش نظر اس کے تمام جوانب کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے[2]۔ لیکن اس کے باوجود، قرآن مجید میں بہت سی آیات پائی جاتی ہیں جن کے مطابق لفظ "روح" کے متعدد معنی پیش کیے گیے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کے درمیان کوئی مشترک وجہ ہو۔ قرآن مجید میں " روح" کے معانی کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ پروردگار کا وہ مقرب فرشتہ جو خدا کے پیغام کو انبیاء تک پہنچاتا تھا[3]۔
۲۔ آسمانی کتاب[4]۔
۳۔ خداوندمتعال کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے غیبی امداد[5]۔
۴۔ عیسی{ع} پیغمبر کی ایک خصوصیت
آخری مورد کے بارے میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قرآن مجید میں ایک بار حضرت عیسی{ع} کو خدا کی طرف سے ایک روح کہا گیا ہے[6] اور دوسری بار کہا گیا ہے کہ ان کی "روح القدس" کے ساتھ حمایت اور پشت بانی کی گئی ہے[7]۔ یہ اختلاف، تعبیر کے عنوان سے بھی "روح" کے مختلف پہلووں پر ناظر ہو سکتا ہے، جس کی حقیقت ہمارے لیے پورے طور پر واضح و روشن نہیں ہے۔
شاید، جو کچھ بیان کیا گیا صرف وہی ابہام و سوال پیدا کرنے کا سبب نہ بن سکے ، لیکن عیسائیوں کے خاص اعتقادات، خاص کر تثلیث پرستی[8] اس کا سبب بنا ہے تاکہ وہ ان آیات سے استفادہ کر کے مسلمانوں کو یہ باور کرائیں کہ قرآن مجید بھی حضرت عیسی{ع} کے بارے میں ایسی خصوصیات کا قائل ہے کہ سرانجام حضرت عیسی{ع} کے بارے میں عیسائیوں کے اعتقادات کو تقویت ملتی ہے کہ وہ اسے قدیم جان کر خدا کی مخلوق نہیں مانتے ہیں، بلکہ اسے خدا کا بیٹا جانتے ہیں۔
ہمیں جاننا چاہئیے کہ یہ موضوع قدیم زمانہ سے پایا جاتا ہے اور ہمارے ائمہ معصومین{ع} بھی اس قسم کے ابہامات کا جواب ارشاد فرما کر اپنے پیرووں کی تشفی کراتے تھے۔ اس سلسلہ مِں مندرجہ ذیل مثالیں قابل توجہ ہیں:
۱۔ امام صادق{ع} سے، آیہ شریفہ "وَ رُوحٌ مِنْه" کے بارے مِں حمران سوال کرتے ہیں۔ امام {ع} جواب میں فرماتے ہیں: " اس روح سے مراد وہ مخلوق ہے جسے خداوندمتعال نے حضرت آدم{ع} و حضرت عیسی{ع} میں قرار دیا ہے۔[9]"
اس ترتیب سے امام{ع} نے اس شبہہ کو دور کیا کہ اگر خدا کی روح کسی شخص میں ہو تو، قطعاً وہ بھی خدا کے مانند ازلی و ابدی ہوگا۔
۲۔ امام صادق{ع} محمد بن مسلم کے اس سلسلہ میں کیے گیے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: " جس طرح خداوندمتعال نے گھروں میں سے ایک گھر{کعبہ} کو منتخب کر کے فرمایا ہے کہ وہاں پر میرا گھر ہے، اور انبیاء{ع} میںسے ایک پیغمبر{ابراھیم{ع}} کو منتخب کر کے اعلان کیا ہے کہ وہ میرا دوست اور خلیل ہے۔ اسی طرح حضرت عیسی{ع} کو اپنی روح کے عنوان سے اعلان کیا ہے کہ ان کو دوسری ارواح سے منتخب کیا ہے اور اس سے حضرت عیسی{ع} کے مخلوق ہونے میں کوئی خدشہ نہیں ہوتا ہے اور وہ {دوسرے انبیاء کے مانند} خدا کی مخلوق ہیں اور خدا کی تدابیر سے اپنا کام ادا کرتے ہیں۔[10]"
یہاں پر امام{ع} ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ کبھی خداوندمتعال سبھوں میں پائی جانے والی کسی خصوصیت کو کچھ دلائل کی بنا پر ایک شے یا ایک فرد کے بارے میں ظاہر اور نمایاں کرتا ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ خصوصیت دوسروں کے بارے میں نہ ہو، مثال کے طور پر:
۱۔ باوجودیکہ پوری کائنات پروردگار عالم سے متعلق ہے[11]، خداوندمتعال نے شہر مکہ میں ایک محدود جگہ کو ظاہر اور نمایاں کر کے "بیتی[12]" کی تعبیر کے ذریعے اپنے گھر کے عنوان سے اعلان فرمایا ہے۔
۲۔ قرآن مجید کی صراحت کے مطابق تمام انبیاء{ع} پروردگار عالم کے منتخب ہیں[13]، لیکن اس کے باوجود اس مقدس کتاب کے ایک دوسرے حصہ میں انیباء {ع} میں سے چند ایک کو منتخب کر کے نمایاں صورت میں اعلان کیا ہے[14]۔
۳۔ سرانجام، اس کے باوجود کہ تمام انبیاء حتی کہ تمام باایمان افراد میں روح الہٰی پھونکی گئی ہے اور ان سب کی خداوندمتعال کی روح کی طرف سے حمایت ہو رہی ہے[15]، لیکن نمایاں اور برجستہ طور پر یہ خصوصیت حضرت عیسی مسیح{ع} اور ان سے پہلے حضرت آدم{ع}[16] کے بارے میں اعلان کی گئی ہے۔
اس بنا پر حضرت عیسی مسیح کے "روح اللہ" ہونے کو ایک خصوصیت کے طور پر مدنظر نہیں رکھنا چاہئیے جس سے ہم ان کے لیے خدا کے مانند حالات تصور کریں ، اور سمجھیں کہ خدا کے ایک حصہ نے ان میں تجسم کیا ہے[17]۔
حضرت عیسی{ع} کا گہوارہ میں پہلا کلام یہ تھا کہ: " میں خدا کا بندہ ہوں[18]" اور اپنی رسالت کے آخر میں بھی خداوندمتعال کے حضور عرض کی کہ: "میں نے اپنے پیرووں سے کہا ہے کہ اس خدا کی عبادت کریں جو میرا اور آپ کا پرودرگار ہے۔[19]" " تو میرے باطن کی خبر رکھتا ہے اور میں تیرے علم تک نہیں پہنچ سکتا ہوں۔[20]"۔ ۔ اس طرح انہوں نے پھر سے اپنی عبودیت کے مراتب کا اعلان کیا۔
یہ پیغمبرالہٰی {عیسی} باپ کے بغیر پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ حضرت آدم{ع} ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے ہیں۔ اس بنا پر، باوجودیکہ ہر انسان کی پیدائش خدا کی طرف سے ایک معجزہ ہے، لیکن یہ معجزہ ان دو پیغمبروں کے بارے میں اظہر اور نمایاں تر تھا اور اسی بنا پر خداوندمتعال نے مشخص کر کے انبیاء{ع} میں سے ان دو پیغمبروں کو نمایاں کیا ہے اور اپنی روح سے نسبت دی ہے، اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ خداوندمتعال اپنی روح کا ہر اس بندہ میں القاء کرتا ہے، جسے وہ چاہے[21]۔
آپ کے سوال کے دوسرے حصہ کا جواب ، ہماری اسی سائٹ کے سوال: 14384{سائٹ: 14187} میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
[1]نساء، 171.
[2]اسراء، 85، " وَ یَسْئَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَ ما أُوتیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلیلا".
[3]نحل، 102؛ مریم، 17؛ شعراء، 193و ...
[4]شوری، 52.
[5]مجادله، 22؛ بقره، 87.
[6]نساء، 171، "وَ رُوحٌ مِنْه".
[7]بقره، 87 و 253، "وَ آتَیْنا عیسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّناتِ وَ أَیَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُس".
[8]البته بعض عیسائی متکلم اپنے آپ کو تثلیث پرست نہیں جانتے ہیں اور کچھ توجیہات اور تاویلات سے اپنے آپ کو موحد و یکتا پرست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور جاننا چاہئیے کہ حقیقی عیسائی خدا پرست تھے اور یہ حقیقت سورہ آل عمارن کی آیت ۶۴ میں بیان کئی گئی ہے.
[9]کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 1، ص 133، ح 2، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 ه ش.
[10]ایضاً، ح 3.
[11]آل عمران، 189، "وَ لِلَّهِ مُلْکُ السَّماواتِ وَ الْأَرْض" اور اس کے مانند دسیوں آیات.
[12]بقره، 125، "َ أَنْ طَهِّرا بَیْتِی"؛ حج، 26"طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفینَ وَ الْقائِمینَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُود".
[13]حج، 75، "اللَّهُ یَصْطَفی مِنَ الْمَلائِکَةِ رُسُلاً وَ مِنَ النَّاس".
[14]آل عمران، 33، "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمین"؛ بقره، 130"مَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهیمَ إِلاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْناهُ فِی الدُّنْیا...".
[15]مجادله، 22، "أُولئِکَ کَتَبَ فی قُلُوبِهِمُ الْإیمانَ وَ أَیَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ".
[16]حجر، 29؛ ص، 72، "فَإِذا سَوَّیْتُهُ وَ نَفَخْتُ فیهِ مِنْ رُوحی فَقَعُوا لَهُ ساجِدین".
[17]اس سلسلہ مِں ہماری اسی یسائٹ کے سوال4671 کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔.
[18]مریم، 30، "قالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّه".
[19]مائده، 117، "ما قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ ما أَمَرْتَنی بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّی وَ رَبَّکُم".
[20]مائده، 116، "تَعْلَمُ ما فی نَفْسی وَ لا أَعْلَمُ ما فی نَفْسِک".
[21]غافر، 15، " ِ یُلْقِی الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلى مَنْ یَشاءُ مِنْ عِبادِهِ ".