آیات وروایات کے استناد کے مطابق ، دعا ، عبادات میں شمار هو تی هے اور اس کے خاص احکام ، شرائط اور آداب هیں – دعا کے احکام میں یه بھی هے انسان خدا وند متعال سے ایک ایسی چیز کی درخواست کرے جو حرام نه هو اور دوسروں کے نقصان میں نه هو ---
اس کے علاوه آیات و روایات میں جس دعا کی کافی سفارش اور تاکید کی گئی هے ، وه معنوی حاجتوں کے بارے میں درخواست اور دعا کر نا هے ، جیسے اوامر الهی کی اطاعت اور ترک معصیت کی تو فیق حاصل کر نے کی دعا اور اسلامی معاشره اور مومنین کے حق میں دعا---
اس لئے ، اگر دینی تعلیمات همیں کهیں که هم چهوٹے بڑے امور کے بارے میں دعا کریں اور دعا میں اصرار کی کوشش کریں ، لیکن دعا میں صلاح و مصلحت کی تشخیص کے سلسله میں اس نکته کی طرف توجه کرنا ضروری هے که دعا بھی قوانین کے مطابق ایک امر هے ، اس لئے دعا خداوند متعال کے تکو ینی و تشریعی قوانین کے مخالف نهیں هو نی چاهئے - اس کے علاوه نتیجه حاصل کر نے میں بھی جلدبازی نهیں کر نی چاهئے اور زمانه کے لحاظ سے دعا قبول هو نے کو خداوند متعال پر واگزار کر نا چاهئے تاکه وه مصلحت کے مطابق عمل کرے-
جیسا کی آپ جانتے هو، که دعا ایک عبادت هے که بهت سی آیات و روایات میں اس کی تاکید کی گئی هے – چنانچه خداوند متعال قآن مجید میں ارشاد فر ماتا هے " --- مجھـ سے دعا کرو میں قبول کروں گا – [1]"
مذکوره آیت میں اس کے علاوه که دعا مقصود اور حاجت تک پهنچنے میں مقدمه کے عنوان سے مورد توجه قرار پایا هے ( ادعو نی استجب لکم ) ذی المقد مه کے عنوان سے بھی قابل توجه قرار پایا هے – ( ان الذین یستکبرون عن عبادتی---)
یعنی دعا طلب بھی هے اور مطلوب بھی ( خواه مستجاب هو یا نه هو مطلوب هے) وسیله بھی هے اور مقصد بھی ، مقدمه بھی اور نتیجه و مقصد بھی – روایتوں کے اصرار اور تاکید کا راز بھی اسی میں مضمر هے-[2]
امام محمد باقر علیه السلام سے سوال کیاگیا که :کونسی عبادت بهتر هے ؟ آپ (ع ) نے فر مایا : " خداوند متعال کے نزدیک اس سے بهتر کوئی چیز نهیں هے که جوکچھـ اس کے پاس هے اس کے بارے میں اس سے درخواست کی جائے اور خدا کے نزدیک اس شخص سے مبغوض تر کوئی نهیں هے جو اس کی عبادت میں تکبر (نافر مانی) کرے اور اس سے اس چیز کی درخواست نه کرے جو اس کے پاس هے[3]-
"اس طرح روایتوں میں آیا هے که کسی بھی حقیر حاجت کو اس کے حقیر هو نے کی وجه سے نه چھوڑنا ، کیونکه جس کے هاتھـ میں چهوٹی حاجتیں هیں اسی کے هاتھـ میں بڑی حاجتیں بھی هیں – [4]"
امام صادق (ع) فر ماتے هیں : " خداوند متعال یه پسند نهیں کرتا هے که لوگ حاجت کو پورا کر نے کے سلسله میں ایک دوسرے سے اصرار کریں ، لیکن اپنے لئے اسے پسند کر تا هے- [5]"
اب جب که دعا عبادت هے ، حتماً دعا کر نے والے کے حق میں خداوند متعال مصلحت رکهتا هے ، امّا اس نکته کی طرف توجه کر نی چاهئے که دعا بھی دوسری عبادتوں کے مانند کچھـ احکام ، آداب اور شرائط رکھتا هے – جو دعا شرائط و آداب کے ساتھـ هو، تو یقیناً قبول هو گی اور اگر قبول نه هوئی تو واضح هے که اس میں قبول هو نے کے سلسله میں ، عدم خلوص نیت ، نفاق ، حرام غذا، صدقه نه دینا اور راه خدا میں انفاق نه کر نے جیسی رکا وٹیں هوں گی جن کی وجه سے دعا مستجاب نهیں هوئی هے[6]-
دوسرے الفاظ میں بار گاه الهی میں دعا اور درخواست ، اگر چه انسان کے لئے اس کی بعض خواهشات کو پورا کر نے کا سبب بن جاتی هے – لیکن اس کا یه معنی نهیں هے که اس کی هر خواهش ، دعا اور توسل سے پوری هو جائے ، بلکه دعا بھی ایک قانون مند امر هے اور اس کی کچھـ شرائط اور رکاوٹیں هیں – من جمله :
١- دعا، پورے اعتقاد اور اخلاص نیت کے ساتھـ کی جانی چاهئے ، کیو نکه خداوند متعال کی نعمتیں ، خالصانه نیت کے مطابق نازل هو تی هیں – حضرت علی علیه السلا فر ماتے هیں : " خداوند متعال کی بخشش ، نیت ( میں اخلاص) کے مطابق عطاهوتی هے-[7]"
٢- انسان کی حاجتیں اور مطالبات معقول و شرعی هو نے چاهئے ، یعنی شرعی لحاظ سے دعا کر نے والے کو خداوند متعال سے ایسی کوئی چیز نهیں مانگنی چاهئے جس کو انجام دینے میں حرام کا ارتکاب یاترک واجب پیش آئے- مثلاً ارحام سے دوری اور انھیں ترک کر نے کی دعا کرنا ، جبکه صله رحم واجب هے اور ---
٣-دعا، فطری اسباب وعوامل کے ضمن میں کی جانی چاهئے ، یعنی دعا کر نے والے کو خداوند متعال کے تکو ینی و تشریعی قوانین کا لحاظ رکھنا چاهئے ، کیونکه تکوینی وفطری لحاظ سے کبھی کسی کی دعا کا مستحباب هو نا نا ممکن یا سنن الهی کے حدود سے خارج هو تا هے ، اور دعا قبول هو نے کے لئے کچھـ مقد مات طے کر نا ضروری هے اور استحبابت دعا کے لئے مادی اور ما ورائے ما دی مقد مات کو فراهم کر نا چاهئے ، مثلاً ایک شخص گھر میں بیٹهے خدا سے دعا مانگتا هے که خداوندا! مجھے روزی دیدے ، خدا کی جانب سے اس کے لئے خطاب هوتا هے : کیا میں نے تجھے یه دستور نهیں دیا هے که رزق کے لئے تلاش و کوشش کرنا ؟
٤-ایمان اور عمل صالح دعا وتوسل کے لئے انتهائی اهم شرائط میں سے هے- قدرتی بات هے ، که جس نے خدا کے ساتھـ اپنے عهد وپیمان کو توڑ دیا هو اسے فوری طور پر اس کی هر درخواست و دعا کے قبول هو نے کی توقع نهیں کر نی چاهئے-
٥- کبھی دعا کر نے والے کا مطالبه اور حاجت پوری هو نے کے لئے مناسب وقت نهیں هوتا هے – ایسی حالت میں دعا قبول هو نے میں تاخیر پیش آنےکی وجه سے ، دعا مانگنے والے کے لئے بار گاه الهی میں ندامت اور تضرع کر نے کا موقع فراهم هو تا هے اور خداوند متعال کے ساتھـ اس کا معنوی رابطه طولانی هو جاتا هے اور اس کے نتیجه میں خداوند متعال کے ساتھـ اس کا رابطه مستحکم اور پائدار هو تا هے –
حقیقت میں ،، دعا وتوسل پر تو فیق حاصل کر نا ، عبودیت و بندگی کا کمال اور انسان کے حق میں حضرت حق تعالی کے لطف عنایت کی علامت هے جس کے ضمن مین خدا کی بڑی رحمتیں اور مهر بانیاں حاصل هو تی هیں –
٦- کبھی انسان کی حاجت پوری هو نا ، اس کی مصلحت اور فائده می نهیں هو تی هے بلکه مصلت اس دعا کے قبول نه هو نے میں هوتی هے ارشاد الهی هوتا هے : یه ممکن هے که جسے تم برا سمجھتے هو وه تمهارے حق میں بهتر هو اور جسے تم دوست رکھتے هو وه برا هو خدا سب کو جانتا هے اور تم نهیں جانتے هو[8]-
ایسی حالت میں بظاهر انسان کی حاجت پوری نهیں هوتی هے ، لیکن یه اس کی مصلحت اور فائده میں هوتا هے اور حقیقت میں اس کی دعاـ- جو اس کے لئے خیر ومصلحت کی درخواست هوتی هے – ایک صورت میں پوشیده و مخفی طورپر پوری هوتی هے –
بهر صورت خداوند متعال ، انسان کی دعا اور توسل کی وجه سے ، اسے اجر عظیم عطا کر تا هے اور وه اپنے خدا سے رابطه اور تقرب کی نعمت سے مستفید هو تا هے-
پس رحمت الهی کا دروازه کبھی کسی پر بند نهیں هو تا هے – خواه اس کی حاجت پوری هو جائے یا اس کے حق میں مصلحت کے پیش نظر ، بظاهر پوری نه هو جائے ، کیو نکه اس قسم کی دعائیں حقیقت میں مخفیانه طور پر پوری هو تی هیں [9]– ایک طرف سے خود انسان کی دعا وتوسل لبیک و اجابت الهی هو تی هے[10]
نتیجه یه که :
١- اگر چه آداب دعامیں تاکید کی گئی هے که اپنی حاجت پر اصرار کریں ، لیکن اس کا نتیجه حاصل کر نے میں جلد بازی نهیں کر نی چاهئے ، بلکه دعا قبول هو نے کے زمانه کوخداوند حکیم پر چھوڑ نا چاهئے اور اس کے کام پر راضی هو نا پاهئے – شاید دعا کا فوری طور پر قبول هو نا ، دعا کر نے والے کی مصلحت میں نه هو اور کلی طور پر ، جس چیز کی درخواست کی گئی هے دعا کر نے والے کی مصلحت میں نه هو ، اس صورت میں یا اس کی تلافی کی جائے گی اور یا قیامت کے دن اس سے بهتر چیز بنده کو دی جائے گی – لیکن دعا کی شرائط کی رعا یت کر نے کی صورت میں دعا کا قبول هو نا حتمی هے[11]-
٢- جس چیز کا هم سے مطالبه کیاگیا هے ، وه دعا کر نا هے اور فطری بات هے که انسان اپنی مصلحت کے پیش نظر دعا کرتا هے ، لیکن اس کی یه دعا مذکوره شرائط اور آداب کے منافی نهیں هونی چاهئے ، واضح هے که فاقد شرائط دعا ، مثلاً خداوند متعال کے تکوینی و تشریعی قوانین کے مخالف دعا خلاف مصلحت بھی هوتی هے ، لیکن ممکن هے که کوئی دعا مصلحت کے تحت هو اور عقل و شرع کے مخالف بھی نه هو لیکن اس کا قبول هو نا هماری مصلحت میں نه هو – پس اس بات کی حتمی تشخیص دینا که دعا قبول هو نا هماری مصلحت میں هے یا نه ، خدا کے ذمه هے نه بندے کے ، کیو نکه تمام مصلحتوں پر پورا پورا احاطه کر نے کے لئے لا محدود علم کی ضرورت هے جو انسان کے اختیار میں نهیں هے-
٣- مذ کوره بیانات کے پیش نظر واضح هو تا هے که اس مطلب که " کبھی خداوند متعال سے زبردستی کوئی حاجت طلب نه کیجئے - شائد آپ کی مصلحت میں نه هو" ، کے سلسله میں اصلاح اور وضاحت کی ضرورت هے ، کیونکه اگر آپ نے آداب و شرائط کی رعایت کر تے هوئے دعا کی هے اور آپ کی نظر میں یه دعا تکوینی اورتشریعی قوانین سے کوئی تضاد بھی نه رکھتی هو اور آپ کی دنیوی و اخروی مصلحت کے مطابق بھی هو ، تو آپ کو اس پر اصرار کر نا چاهئے ، اور صرف اس بناپر که اس کا قبول هو نا شائد میری مصلحت میں نه هو ، اصرار سے دست بردار نهیں هو نا چاهئے –لیکن اگر اس کے باوجود آپ کی دعا قبول نه هو جائے تو کهنا چاهئے که میرے پیش نظر مصلحت کے علاوه ضرور کوئی اور مصلحت هو اور اس صورت میں ادب کی رعایت کر نی چاهئے – بهر حال همارا فرض هے که هم اپنی عقل وشعور کے مطابق حکم کریں که خداوند متعال اپنی دانائی کے مطابق ، هماری مصلحت کو هم سے بهتر جانتا هے، یعنی اگر هم تشخیص دیں که دعا هماری مصلحت میں هے تو اصرار کریں اور یهی اصرار بذات خود هماری مصلحت میں هے اور خدا کے ساتھـ همارے رابطه کے مستحکم هو نے کا سبب بنتا هے – یعنی مقدمه کے لحاظ سے ممکن هے هماری مصلحت میں نه هو ، لیکن ذی المقدمه کے لحاظ سے بهرحال هماری مصلحت میں هو-
[1] - سوره غافر، ٦٠، " وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سید خلون جهنم داخرین " " اور تمهارے پروردگار کا ارشاد هے که مجھـ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے هیں وه عنقریب ذلت کے ساتھـ جهنم میںداخل هوں گے –"
[2] - مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو: مطهری ،مرتضی ،بیست گفتار ،ص٢٢٧-٢٣٧-
[3] - اصول کافی ،ج٤،ص٢١٠،ح٢-
[4] - اصول کافی ،ج٤،ص٢١٢،ح٦-
[5] - اصول کافی ،ج٤،ص٢٢٤،ح٢-
[6] - تفسیر نمو نه ،ج٢٠،ص١٥٢-
[7] - نهج البلاغه خط نمبر ٣١- البته ممکن هے حضرت علی علیه السلام کے اس جمله کا دوسری صورت میں بھی معنی کئے جائیں یعنی حضرت (ع) کا مراد یه هو، الهی بخشش خود نیت کے برابر هے، اگر آپ نے خدا سے چھوٹی چیزیں طلب کی هوں تو وهی تمهیں ملیں گی اور اگر قابل قدر اور اهم چیزیں طلب کروگے تو وهی ملیں گیں ، پس بهتر هے که انسان بلند همت کا مظاهره کرے-
[8] - سوره بقره، ٢١٦-
[9] -آیات وروایات میں دعا کی قطعی طور پر قبول هو نے کی تاکید کی گئی هے اور بیان کیا گیا هے که کوئی بنده بار گا ه الهی میں هاتھـ نهیں پهیلاتا هے، مگر خداوند متعال اسے خالی هاتھـ لوٹنے پر شرم کرتا هے اور اس پر اپنی رحمت برسا تا هے، ملاحظه هو : اصول کافی ،ج٣،ص٢١٨،ح٢-
[10] - ملاحظه هو: سید محمدکاظم ،" شفاعت وتوسل" ،ص٥١-٦٩-
[11] - روایت میں آیا هے که جب بنده کی دعا دنیا میں قبول نهیں هوتی هے ، تو اس کا ثواب واجر اسے آخرت میں دیاجاتا هے اور وه بے شمار پاداش پاتا هے اور آرزو کر تا هے که کاش اس کی کوئی دعا دنیا میں قبول نه هو تی – ملاحظه هو : اصول کافی ، ج٣،ص ٢٤٦، ح٩-