کائنات کی مخلوقات کے بارے میں انسان کی معلومات انتہائی محدود ہیں- مخلوقات خداوند متعال کی تسبیح کیسے کرتے ہیں؟ یہ ان مسائل میں سے ہے کہ انسان ابھی تک اس کی کیفیت کو معلوم نہیں کرسکا ہے-
متعدد آیات و روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ ہستی کے تمام اجزاء، پروردگار کی تسبیح پڑھنے والے ہیں- ہستی کے اجزاء کی تسبیح کی کیفیت کے بارے میں مفسرین کے درمیان دو نطریے پائے جاتے ہیں:
۱- مخلوقات کی " زبان حال" سے تسبیح، کہ اپنے پورے وجود سے کہتی ہیں کہ:" اگر مجھ میں کوئی عیب ہے تو وہ میری ذات کا لازمہ ہے اور خداوند متعال اس عیب سے منزہ و پاک ہے-"
۲- مخلوقات کی " زبان قال" سے تسبیح، البتہ موجودات کا قیل و قال اور ان کی گفتگو، انسانوں اور حیوانوں کے درمیان رائج صورت میں نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی خاص نوعیت ہے کہ ابھی تک انسان کا علم اس کی کیفیت معلوم نہیں کرسکا ہے-
کائنات کی مخلوقات کے بارے میں انسان کی معلومات انتہائی محدود اور اس کی لاعلمی کی نسبت سے ناچیز ہیں- ہم چیونٹیوں ، کیڑوں اور حشرات کے علاوہ بہت سی دوسری مخلوقات کی باہمی گفتگو کرنے کی کیفیت اور باہمی روابط کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے ہیں، حتی کہ ہم میں ان کی آوازیں سننے کی طاقت بھی نہیں ہے، کیونکہ ہماری سننے کی طاقت صرف ان آوازوں کو سن سکتی ہے، جن کی فری کوینسی {frequency} ایک خاص حد میں ھو اور اس سے زیادہ یا کم والی فری کوینسی کی آوازیں سننے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، جبکہ یہ مخلوقات قطعا آپس میں تعلقات رکھتی ہیں-
مخلوقات خداوند متعال کی تسبیح کیسے کرتی ہیں؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ انسان کو ابھی تک اس کا علم حاصل نہیں ھوسکا ہے، اس بنا پر ہم اس کی کیفیت کا تصور نہیں کرسکتے ہیں- متعدد آیات و روایات میں عالم ہستی کی تمام مخلوقات کی تسبیح کی صراحت کی گئی ہے-[1]
" تسبیح" یعنی خداوند متعال کو مخلوقات میں پائی جانے والی ہر قسم کی نا توانیوں اور عیب و نقص سے منزہ اور پاک جاننا-
امام صادق {ع} سے " سبحان اللہ" کے بارے میں سوال کیا گیا- امام {ع} نے جواب میں فرمایا:" یعنی بندگی کے لحاظ سے خداوند متعال کے، ہر قسم کی برائی سے پاک و منزہ ھونے کا اظہار کرنا"-[2]
مخلوقات { جمادات و نباتات} کی تسبیح کی کیفیت کے بارے میں مفسرین نے دو نظریے پیش کئے ہیں:
۱- " زبان حال" سے تسبیح اور ۲-" زبان قال" سے تسبیح
۱- "زبان حال" سے تسبیح:
بعض مفسرین نے مخلوقات کی تسبیح کو " زبان حال" کی تسبیح سے تعبیر کیا ہے اور اس کی " تمام ہستی اور مخلوقات کی ذات باری تعالی اور اس کے صفات کمالیہ کی دلالت" سے تفسیر کی ہے، اور مخلوقات درحقیقت اپنے خالق کی زبان حال میں توصیف کرتی ہیں {رنگ رخسار خبری می دہد از سر ضمیر} اور کہتی ہیں:" اگر مجھ میں کوئی عیب ہے تو وہ میری ذات کا لازمہ ہے اور خداوند متعال اس عیب سے منزہ و پاک ہے-"
ابو نصر فارابی ، طبرسی، فخر رازی اور آلوسی، مخلوقات کی تسبیح کو "زبان حال " سے جانتے ہیں- تفسیر نمونہ میں بھی یہی نظریہ پیش کیا گیا ہے- فارابی، مخلوقات کی تسبیح اور نماز کے بارے میں تفسیر کرتے ھوئے کہتے ہیں:" «صلّت السمـــــــاء بدورانها و الأرض برجحانها و المطر بهطلانه» { آسمان اپنی گردش سے بارگاہ الہی میں نماز بجالاتا ہے، زمین ہلنے سے نماز ادا کرتی ہے اور پانی برسنا، بارش کی نماز ہے[3]} اس نظریہ کے مطابق مخلوقات اور کائنات کے ذرات کی تسبیح کا تصور اور اس کی تصدیق کافی حد تک قابل ادراک ہے، کیونکہ کائنات کا ہر ذرہ جو بھی کام انجام دیتا ہے، وہی اس کی تسبیح ہے-
۲- " زبان قال" سے تسبیح:
اس قسم کی تسبیح اور ستائش سے مراد یہ ہے کہ تمام مخلوقات عاقل ہیں اور صاحب شعور ہیں اور اس کے علاوہ کہ زبان حال سے پروردگار عالم کی تسبیح اور حمد و ثنا بجالاتی ہیں، " زبان قال" سے بھی خدا کی ستائش میں مشغول ہیں- لیکن ہم اجمالی طور پر جانتے ہیں کہ اس قسم کی تسبیح اس پر مبنی ہے کہ تمام حیوانات اور جمادات اپنی شان کے تناسب سے ادراک اور نفوس ناطقہ رکھتے ہیں اور ہر مخلوق اپنے نفس ناطقہ سے اپنے پروردگار کی تسبیح کرتی ہے اور کائنات کے ذرے ذرے میں مخلوقات کی تسبیح کا ایک شور غوغا برپا ہے- لیکن اس کو سننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے اور صرف اہل دل اور وہی افراد کائنات میں ھونے والی تسبیح کی آواز سن سکتے ہیں جنھوں نے مادیات کے پردے چاک کئے ھوں-
اس سلسلہ میں مولانا رومی نے کیا خوب فرمایا ہے:
گر تورا از غیب چشم باز شد
باتو ذرات جہان ہمراز شد
نطق آب و نطق خاک و نطق گل
ہست محسوس حواس اہل دل
معاصر علماء میں سے جو اس نظریہ کے قائل ہیں، ان میں سے علامہ طبا طبائی اور شہید مرتضی مطہری کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے-
علامہ طبا طبائی {رح} فرماتے ہیں : تمام مخلوقات کی تسبیح حقیقی اور " تسبیح زبان قال" ہے اور "قال" کے لئے ضروری نہیں ہے کہ بالکل الفاظ کو سنا جائے اورطے شدہ ھو-"[4]
اس بنا پر نباتات اور جمادات کی تسبیح بھی حقیقی تسبیح اور " تسبیح زبان قال " ہے اور یہ کہ ہم ملائکہ اور مومنین کی تسبیح کو " زبان قال" کی تسبیح کہیں اور دوسری مخلوقات کی تسبیح کو " زبان حال" کی تسبیح کہیں صحیح نہیں ہے- انسان کو اہل دل ، اہل معنی اوراہل حقیقت بننا چاہیے تاکہ ماورائے طبیعت کو بھی ادراک کرسکے-جب ہم یہ ادراک حاصل کریں گے تو ہمیں معلوم ھوگا کہ تمام مخلوقات کیسے درک کرنے والے ، باہوش ، عالم اور اپنے پروردگار کی حمد و ثنا اور تسبیح کرنے والی ہیں-
قرآن مجید حضرت داود {ع} کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
" آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داود کو یاد کریں جو صاحب طاقت بھی تھے اور بیحد رجوع کرنے والے بھی تھے ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ صبح و شام تسبیح پروردگار کریں اور پرندوں کو ان کے گرد جمع کردیا تھا سب ان کے فرمانبردار تھے"[5]
مذکورہ آیات میں دونکتے ایسے ہیں جو مخلوقات کی زبان قال میں تسبیح کرنے کی تائید کرتے ہیں: ان میں سے ایک اپنے پروردگار کی تسبیح کرنے میں پہاڑوں اور پرندوں کا حضرت داود کا ساتھ دینا: "معہ یسبحن" اگر مخلوقات کی تسبیح سے یہاں پر مراد زبان حال سے تسبیح ھوتی تو ان کا داود کا ساتھ دینا بے معنی ھوتا – آیات کا سیاق، ایک ہی سیاق ہے- اس بنا پر اس کے معنی نہیں ہیں کہ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کو ہم زبان حال کی تسبیح سے نسبت دے دیں، اور حضرت داود کی تسبیح کو زبان قال کی، تسبیح سے نسبت دیں، کیونکہ زبان حال کی تسبیح ہمیشہ اور داود کے بغیر بھی موجود ہے- دوسرا نکتہ یہ کہ آیہ شریفہ میں فرمایا گیا ہے کہ: صبح و شام کے وقت پہاڑ اور پرندے تسبیح پروردگار کرنے میں حضرت داود کا ساتھ دیتے تھے- ممکن ہے ہم یہ کہیں کہ صبح و شام ، شب و روز کی طرف کنایہ ہے اور در نتیجہ تسبیح دائمی ہے- لیکن پہلے والے نکتہ [داود کا ساتھ دینے} کے پیش نظر قابل بیان ہے کہ پہاڑ اور پرندے حضرت داود کے ساتھ ہمزمان اور ہم صدا تسبیح میں شرکت کرتے تھے- یعنی جب داود{ع} تسبیح شروع کرتے تھے تو، پرندے اور پہاڑ بھی اس کے ہم نوا ھوتے تھے- پس " عشی" اور " ابکار" سے مراد طلوع وغروب کے حقیقی معنی ہیں ، اور اس صورت میں تسبیح کے معنی پہاڑوں اور پرندوں کا وجود خدا کے وجود کی دلیل اور زبان حال کی تسبیح کی تفسیر نہیں ھوسکتی ہے اور جس طرح ہم نے بیان کیا ، اس قسم کی تسبیح ہمیشہ اور ہر زمانہ میں موجود ہے اور اس کی کوئی وجہ نہیں ھوسکتی ہے کہ صبح و شام اور حضرت داود{ع} کے وجود سے مخصوص ھو- حضرت داود{ع} سن رہے تھے کہ پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں، ایک اور کان تھا جس سے وہ اشیاء کے باطن اور ملکوت تک پہنچ چکے تھے اور ان کی ملکوتی آواز سنتے تھے-" اگر ہمارے باطنی کان کھل جائیں تو ہم بھی سنیں گے-"[6]
پیغمبر اسلام {ص} کی ہتھیلی پر کنکریوں کی گفتگو کی داستان [7] کے بارے میں شہید مطہری{رح} فرماتے ہیں:" یہاں پر پیغمبر اکرم {ص} کا معجزہ یہ نہیں تھا کہ کنکریوں کو تسبیح پڑھائی، بلکہ آنحضرت {ص} کا معجزہ یہ تھا کہ لوگوں کے کانوں کو کھول دیا اور انھوں نے کنکریوں کی آواز سنی- وہ کنکریاں تو ہمیشہ تسبیح پڑھتی تھیں اور پیغمبر اکرم {ص} کا معجزہ اس آواز کو ان کانوں کو سنانا تھا نہ کہ کنکریوں کو بات کرانا-"[8]
اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ مخلوقات کی قولی و کلامی تسبیح کو ممکن ہے کہ پاک دل اور خود ساختہ انسان ادراک کرسکیں-
[1] اسرا،44:"تُسَبِّحُ لَهُ السَّماواتُ السَّبْعُ وَ الْأَرْضُ وَ مَنْ فِيهِنَّ وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَ لكِنلا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ" " ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہیں کرتی ھو، یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ھو-"
[2] الكافي ج 1 ص، 118حدیث 10 :... هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ سُبْحَانَ اللَّهِ فَقَالَ أَنَفَةٌ لِلَّهِ
[4] ترجمه الميزان، ج13، ص: 152
[5] ص، 19-17: " وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْأَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ(17)إِنَّا سَخَّرْنَا الجِْبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشىِِّ وَ الْاشْرَاقِ(18)وَ الطَّيرَْ محَْشُورَةً كلٌُّ لَّهُ أَوَّابٌ(19) ".
[6]ملا حظہ ھو. الميزان في تفسير القرآن، ج13، ص: 121-120
[7] بحارالأنوار ج 57 ص 169
[8] مطهري، مرتضي؛ آشنايي با قرآن، ج 4، ص 174.