خداوند متعال کا دنیا و آخرت میں ناقابل رویت ہونا شیعہ مذھب کے مسلمات اور ضروریات میں شمارہوتا ہے۔
خداوند متعال کے ( دنیا و آخرت میں( ناقابل رویت ہونے کے بارے میں کافی نقلی اور عقلی برہان موجود ہیں( ان سے آگاہ ہونے کےلیے اس سوال کا تفصیلی جواب ملاحظہ ہو)
خداوند متعال سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۵۵ کے آخر پر فرماتا ہے : "و انتم تنظرون" ۔ آپ کی غلطی کا سرچشمہ یہ ہے کہ آپ نے فعل " تنظرون" کے مفعول کو خدا جانا ہے جبکہ اس فعل کا مفعول بجلی ہے نہ کہ خداوند متعال۔
اس بنا پر آیہ شریفہ کا ترجمہ یوں ہے:''۔۔۔ ااور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب تم نے کہا: اے موسی! ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو علانیہ ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھ لیں، جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم (بجلی کو ) دیکھتے ہی رہ گئے''
اس بنا پر آپ کے اعتراضات معنی کو غلط سمجھنے پر مبنی ہیں، پس انکی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اگرچہ تمام مسلمان خدا کی رویت کے بارے مین متفق القول نہیں ہیں، لیکن شیعہ امامیہ اس سلسلہ میں کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے ہیں بلکہ خداوند متعال کا ناقابل رویت ہونا مکتب اھل بیت (ع) کے مسلمات اور ضروریات میں سے ہے۔
خداوند متعال کے (دنیا و آخرت میں ) نا قابل رویت ہونے کے بارے میں کافی نقلی و عقلی دلائل و برہان موجود ہیں ، من جملہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:' تو اس کے بعد جب موسی ہمارا وعدہ پورا کرنے کے لئے آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو انھوں نے کہا کہ پروردگار مجھے اپنا جلوہ دکھادے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ یہ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر مجھے دیکھ سکتے ہو اس کے بعد جب پہاڑ پر پروردگار کی تجلی ہوئی تو پہاڑ چور چور ہوگیا اور موسی بیہوش ہوکر گر پڑے ، پھر جب انھیں ہوش آیا تو کہنے لگے پروردگارا تو پاک و پاکیزہ ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں[1]۔ اس آیہ شریفہ میں "لن ترانی" کی عبارت قابل بحث ہے کہ عربی ادبیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ لفظ " لن " ابدی انکار کے معنی میں ہے، اس لحاظ سے ترجمہ:" تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو" اس کے لیے مناسب ہے جو یہ دلالت کرتا ہے کہ خداوند متعال ہر گز قابل رویت نہیں ہے نہ دنیا میں میں اور نہ آخرت میں۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کےلئے اسی سائٹ کا عنوان ' شیعہ و سنی و رویت خدا" سوال نمبر ۸۴۷۷ قابل ملاحظہ ہے ۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ کے سوال کا سرچشمہ آپ کی عربی زبان سے نا واقفیت ہے ، کیونکہ خداوند متعال سورہ بقرہ کی آیت ۵۵ میں ارشاد فرماتا ہے: ' و انتم تنظرون " یہاں پر آپ کی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے فعل " تنظروں " کا مفعول خدا لیا ہے جبکہ اگر آپ عربی زبان کے بارے میں معمولی سی واقفیت بھی رکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ اس فعل کا مفعول " بجلی" ہے نہ کہ خداوند متعال [2] یعنی موت کے اسباب کے طور پر آگ کو دیکھتے تھے۔ [3] اسی لحاظ سے ہم مشاھدہ کرتے ہیں کہ رویت خدا کے قائلین نے بھی آپ کی طرح اس آیت سے استناد نہیں کیا ہے۔
اس بناپر اس آیہ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے:" اور (وہ وقت بھی یادکرو) جب تم نے کہا : اے موسی ! ہم اس قت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو علانیہ ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم ) بجلی کو( دیکھتے ہی رہ گئے۔
اس بنا پر آپ کے اعتراضات معنی کو غلط سمجھنے پر مبنی ہیں پس ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
[1] اعراف / ۱۴۳۔
[2] الاقرب یمنع الابعد۔
[3] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۳ ص ۱۹۹، موسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ھ۔