قرآن مجید سیرت، تاریخ یا معجم کی کتاب نهیں هے که اس مین انبیاء کی سوانح حیات اور ان کے ناموں کی فهرست درج کی جائے- بلکه یه هدایت، تعلیم وتر بیت، تزکیه اور تذکر کی کتاب هے – یه مقصد، انبیائے گزشته اور کامل انسانوں کے بارے میں اسی قدر نام و حالات درج کر نے سے پورا هو تا هے – اگر قرآن مجید میں اس سے زیاده افراد کے ذکر کر نے کی ضرورت هوتی ، تو ضرور ایساهی هو تا – دوسرے الفاظ میں ، قرآن مجید نے تعلیم وتر بیت کے مقام پر، تاریخ کے اقتباسات سے سنت الهی(فلسفه تاریخ) سے اور " نکات و حکمت" کے عنوان سے استفاده کیا هے تاکه اپنی الهی تعلیمات کو نفوس میں زیاده سے زیاده استحکام ا ور اثر ورسوخ بخشے اور اس کے اثر کو پائیدار بنائے – قرآن مجید کی مراد تاریخ نویسی نهیں تھی – مثال کے طور پر حضرت موسی علیه السلام کا نام قرآن مجید میں سوبار سے زیاده ذکر هوا هے اور ان کا قصه ٢٨ سوروں میں وسیع پیمانے پر بیان هوا هے ، لیکن جو حصے صرف تاریخ اور داستان سے متعلق هیں ، جیسے حضرت موسی کی تاریخ پیدائش اور وفات وغیره کا ذکر نهیں کیا هے بلکه صرف داستان کے حساس اور سبق آموز نکات کو بیان کیا هے-
سوره مبارکه نساء کی آیت نمبر ١٦٣ اور ١٦٤ اور سوره غافر کی آیت نمبر ٧٨ میں قرآن مجید واضح طور پر بعض انبیاء (٢٥افراد) کے واقعات بیان کر تا هے اور بهت سے انبیاء کے واقعات قرآن مجید میں ذکر نهیں هوئے هیں - قرآن مجید کا مطالعه کر نے سے یه امر واضح طور پرمعلوم هو تا هے که قرآن مجید میں تمام انبیاء کی تاریخ تفصیل سے ذکر نهیں هوئی هے- حضرت موسی علیه السلام ، حضرت عیسی علیه السلام اور حضرت ابراھیم علیه السلام کے بارے میں ان کی زندگی سے متعلق بعض اقتبا سات کی طرف اشاره هوا هے- جبکه بعض روایتوں میں انبیاء کی تعداد ایک لاکھـ چوبیس هزار(١٢٤٠٠٠)اور رسولوں کی تعداد ٣١٣ بتائی گئی هے- [1]
مثال کے طور پر حضرت موسی کلیم الله علیه السلام کا نام قرآن مجید میں سو بار سے زیاده آیا هے اور ان کا قصه قرآن مجید کے٢٨سوروں میں وسیع پیمانه پر بیان هوا هے- لیکن جوچیزیں محض تاریخ اور داستان سے متعلق هیں ، جیسے تاریخ پیدائش و وفات وغیره وه حضرت موسی علیه السلام کے بارے میں ذکر نهیں هوئی هیں بلکه صرف حساس اور سبق آموز نکات بیان کئے گئے هیں- [2] لهذا مناسب هے که هم اس فلسفه پر روشنی ڈالیں –
قرآن مجید کا نزول اور رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی بعثت انسان کو سعادت و کمال کی طرف هدایت کر نے کے لئے هے تاکه انسان اس راه کو طے کر کے انسانیت کی سعادت کے عروج پر پهنچ جائے اور خلیفته الله کے مقام پر فائز هو جائے- تاریخ کے اقتباسات کو بیان کرنا، توجه مبذول کرانے اور نفوس میں کلام کے دل نشین و موثر هو نے کا سبب بن جاتا هے اور اس طرح قرآن مجید کی تعلیمات کا فی مدت تک پائیدار ره سکتی هیں- اس لحاظ سے قرآن مجید میں انبیاء علیهم السلام کے قصوں کا بیان هو نا مندرجه ذیل بنیادوں پر استوار هے:
١) انبیاء کی دعوت اور شیوه " تبلیغ" کا بیان، اس کے ضمن میں انبیاء کا مقصد مشترک ھے یعنی خدا کی عبادت اور طاغوتوں کو ترک کر نے کا بیان -–
٢) انبیاء کی نسبت لوگوں کی پالیسی کا بیان اور ان کے علل و عوامل اور نتائج کی نشاندھی –
٣) انبیاء علیهم السلام کا خرافات ، تحریفات اور طاغوت سے مقابله-
٤) طاغوتوں اور دشمنوں سے مومنین کا برتاٶ-
٥) معاشروں اور امتوں پر حاکم، الهی سنتوں کے تمام ادوار میں جاری رهنے کا بیان-[3]
مذکوره محور مندرجه ذیل مقاصد کے لئے بیان هوئے هیں :
١لف) انبیاء کے وعظ و نصیحت سے تعلیم وتر بیت حاصل کر نا ،ضدی اور دشمن امتوں کے برے انجام سے عبرت حاصل کر نا، روش تعلیم سے استفاده کرنا اور مخاطبین قرآن کے لئے اس کی تربیت و تبلیغ-
ب) قرآنی معیاروں کے مطابق انسانوں کا موازنه و محاسبه کر نا یا خود جاری تاریخ کا حصه بننا اور اس کے سور ماٶں کا جانشین بننا -
ج)بعض انبیاء کی تاریخ کے بارے میں شبهات اور مشکلات کو دور کر نا اورانبیاء علیهم السلام کوافراط وتفریط پر مشتمل نامناسب اور ناروا نسبتوں سے منزه و پاک کر نا – چنانچه غلو کا یه عالم تھا که یهودیوں نے حضرت عزیر علیه السلام کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسی علیه السلام کو خدا کا بیٹا کها- [4] اور دوسری طرف سے حضرت موسی پر قتل کا الزام لگایا گیا-[5]
د) پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور مومنین کو ان کی راه و روش کے سلسله میں اطمینان بخشنا اور دشمنوں کے مقابل میں ان کے صبر واستقامت کو تقویت بخشنا اور ان کے دشمنوں کو مایوس کرنا اور انھیں ڈرانا اور دھمکانا-[6]
ایک طرف ، قرآن مجید میں داستانوں کو اسی قدر بیان کر نے سے مقاصد حاصل هو تے هیں اور اس سے زیاده انھیں طولانی بنانے کی ضرورت نهیں هے اور دوسری طرف ایک مشهور ضرب المثل هے که " مشتے از خروارے"، پس جب انبیاء اور امت میں سے یه گروه ایسے تھے ، تو دوسرو ں کا بھی ان سے موازنه کیا جاسکتا هے اور اسلاف کا ان کے ساتھـ اندازه کیا جاسکتا هے اور هوشیار رهنا چاهئے که همارا انجام بھی ماضی میںمصیبت سے دو چار هوئی امتوں کے مانند نه هو-
دوسری جانب انبیاء الهی علیهم السلام مختلف مراتب اور در جات کے مالک تھے-[7] ان میں سے بعض صرف کسی دوسرے پیغمبر کے دین کے مبلغ تھے که ممکن تھا وه پیغمبر ان کا هم عصر هوتا، جیسے: لوط کی تبلیغات اور حضرت ابراھیم علیه السلام کے دین کے لئے یعقوب ، اسحاق اور اسماعیل علیهم السلام کی تبلیغ اور حضرت موسی علیه السلام کے دین کے لئے انبیائے بنی اسرا ئیل علیهم السلام کی تبلیغ اور ممکن هے کچھـ انبیاء مخفی صورت میں تبلیغ کرتے ھوں اور یهود و نصاری میں بھی ان کا کوئی نام و نشان باقی نهیں رها هے - [8]
ایک اور نکته یه هے که ، چونکه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے اکثردشمن بنی اسرائیل (یهودی) تھے اور امت اسلام کے حوادث ، قوم یهود کے مشابه هیں، اس لئے قرآن مجید میں حضرت موسی علیه السلام کی داستان دوسروں کی نسبت زیاده تفصیل سے به تکرار بیان اور تکرار هوئی هے ، تاکه اسلام کے دشمن ، یهو دیوں پر حجت تمام هو جائے اور مو منین اس سے عبرت حاصل کریں –
آخر میں اس نکته کی طرف اشاره کر نا مفید اور مناسب هو گا که اگر چه قرآن مجید میں ایشیاء اور مشرق وسطی کے اسلاف، انبیاء اور امتوں کے آثار کو ان سے عبرت حاصل کر نے کے لئے بیان کیا گیا هے ، لیکن ممکن هے مغربی ممالک میں بھی کچھـ انبیاء مبعوث هوئے هوں ، جن کا نام اور ان کی داستانیں قرآن مجید میں ذکر نهیں هوئی هیں- اس کا فلسفه یه هے که ان انبیاء کی کتابوں ، تبلیغی آثار اور ان کو قبول کر نے یا انکار کر نے کے اچھے اور برے نتائج سے مشرقی زمین اور مشرق وسطی کے لوگ کسی صورت میں آگاه نهیں تھے – اس لئے حجاز اور مشرقی وسطی کے لوگوں سے نهیں کها جاسکتا هے که آپ ان کے آثار پر نظر ڈال کر عبرت حاصل کریں ! نتیجه کے طور پر تاریخی لحاظ سے اطلاع نه رکھنے اور جغرافیائی لحاظ سے دور هو نے اور رابطه کے وسائل کے فقدان کے بناء پربعض انبیاء کا نام قرآن مجید میں نه آنا اس امر کے علل و عوامل ھو سکتے هیں – [9]
لیکن قرآن مجید کے خطاب میں حالات( زمان و مکان وغیره) کے اثرات من جمله مباحث میں سے هیں جس پر الگ سے بحث کی جانی چاهئے – هم یهاں پر اس سلسله میں بحث کے طولانی هو نے سے بچنے کے لئے متعلقه منابع کی طرف اشاره کر نے پر اکتفا کرتے هیں :[10]
منابع و ماخذ:
١- جوادی آملی، عبدالله، تفسیر تسنیم، ج١، صص ٥٢- ٣٩-
٢- جوادی آملی ، عبدالله ، سیره پیامبران در قرآن ،ج٦و٧، اسراء ، طبع دوم، ١٣٧٩،قم،
٣- شیروانی ، علی، درسنامه عقاید ، مرکز جهانی علوم اسلام ، طبع اول ١٣٧٦، قم ، ص١٦٤-
٤- طباطبائی، محمد حسین، المیزان، جامعه مدرسین حوزه علمیه قم ، ج٦، ص١٤٦و ج ١٧،ص٣٥٤ –
٥- قرآن کریم-
٦- مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقاید ،ج١-٢، سازمان تبلیغات اسلامی ، طبع ششم ، ١٣٧٠، تهران ، درس ٢٩،ص٢٨١-
٧- مصباح یزدی ، محمد تقی ، معارف قرآن ، راه و راهنماشناسی ، مٶسسه آموزشی و پزوھشی امام خمینی رحمه الله ، طبع اول ، ١٣٧٦، قم، صص ١٧ و٢٢- ٢١ وصص ١٥٣- ٥٨
٨- هادوی تهرانی ، مهدی ، تاملات در علم اصول فقه ، کتاب اول دفتر چهارم،-
[1] - بضا ئر الدرجات ، ص١٢١- الخصال، ص٣٠٠ و ٦٤١(منقول از راه راهنما شناسی ، ، ص١٧) –بحار الانوار ، ج١١،ص٣٠ و ٣٢ و ٤١-
[2] - جوادی آملی ، عبدالله ، تفسیر تسنیم، ج١،ص ٤٨-
[3] - سوره آل عمران /١٤٠-
[4] - سوره توبه/٣٠ و...-
[5] - سوره احزاب/ ٦٩-
[6] - سوره یوسف/١٢٣- ١٢٠-
[7] - سوره سراء /٥٥، سوره انعام/ ٨٣ تا ٩٠، سوره بقره/٢٥٣-
[8] - ملا حظه هو: المیزان،ج٦،ص١٤٦ و ج٧، ص٣٤٥ و نیز علی شیروانی، در سنامه عقاید، ص١٦٤-
[9] - ملاحظه هو: جوادی آملی ، عبدالله، تفسیر تسنیم، ج١،صص ٥٢- ٣٩-
[10] - ملاحظه هو: ھادوی تهرانی، مهدی ، تاملات در علم اصول فقه، کتاب اول، دفتر چهارم،