لفظ "دعا" مانگنے، طلب حاجت اور مدد مانگنے کےمعنی میں هے اور کبھی اس کے معنی مطلق مانگنے کے لئے مراد ھوتے ھیں – اصطلاح میں دعا،"خدا سے حاجت طلب کرنا" هے- لفظ دعا اور اس کے مشتقات قرآن مجید میں تقریباً ١٣ معنی میں استعمال هوئے هیں-
چونکه دعا بھی ایک عبادت هے ، اس لئے دوسری عبادتوں کے مانند اس کے بھی کچھـ منفی ومثبت شرائط هیں، جن کی رعایت کر نے سے تقرب حاصل هو تا ھے اور دعا مستجاب هوتی هے-"استجاب دعا" کے معنی یه هیں که دعا فوراً قبول هو کر اس کے آثار ظاهر هو جائیں- لهذا کبھی اجابت کا اثر چالیس سال کے بعد ظاهر هو تا هے یا یه که خدا وند متعال اس دعا کا بدله آخرت مییں کئی گنا عطا کرتا هے اور اس طرح که دعا کر نے والا اس کا مشاهده کر کے آرزو کر تا هے که اے کاش میری کو ئی دعا دنیا میں مستجاب نه هوئی هوتی!
اسلامی دانشوروں اور علما نے قرآن مجید اور معصومین علیهم السلام کی روایتوں سے استفاده کر کے دعا کے لئے کچھـ آداب وشرائط بیان کئے هیں که اگر ان کی رعایت کی جائے تو دعا قطعاً مستجاب هو گی – ان شرائط کے بارے میں مرحوم فیض کاشانی نے ذکر کیا هے که، اس کے دس شرائط هیں اور کتاب "عده الداعی "سے بھی مزید دس شرائط نقل کئے هیں – کتاب "دعا و تهلیلات قرآن" کے مصنف نے ستره شرائط ذکر کئے هیں-
مختلف روایتوں میں استعمال شده تعبیرات کے پیش نظر ، دعا کے قطعی طور پرمستجاب هو نے میں موثر شرائط کا نام لیا جاسکتا هے، جیسے:
دعا، کائنات کے احسن نظام اور قطعی قضائے الهی کے خلاف نهیں هونی چاهئے ورنه قبول نهیں هوتی هے- دعا کی ابتدا اور انتها پر پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم و آل محمد(ص) پر درود بھیجنا چاهئے – دعا کر نے والے کو خدا وند متعال کی تئیں مکمل قلبی معرفت و شناخت رکھنا چاهئے- دعا کر نے والے کی امید صرف خدا وند متعال پر هو نی چاهئے اور اس کے علاوه کسی پر بھروسا نهیں کر نا چاهئے،دعا،اخلاص و اضطرار کی حالت میں هو ، اس کی زبان اور دل آپس میں هم آهنگ هوں ، واجبات بجالاکر اور محر مات کو ترک کر کے اپنے گناهوں کے بارے میں استغفار کرے، دعا کو دهرائے اور اصرار کرے اور یقین کے ساتھـ خداوند متعال سے مانگے اور مایوس نه هو جائے اور کهے :خداوندا!جس طرح تو مصلحت سمجھتا هے اور میرے حق میں بهتر هو وهی میرے لئےقبول فر ما – اگر ان حالات میں دعا مانگی جائے تو یقین رکھنا چاهئے که خدا وند متعال ضرور اس دعا کو مستجاب فر مائے گا، اگر چه اس کے اثرات بعد میں هی ظاهر هوں -
سوال کی وضاحت سے پهلے ، قرآن مجید کی روشنی میںدعا کے معنی اور اس کی ضرورت کے بارے میں ایک سرسری اشاره کر نا مناسب هے- دعا کی ضرورت اور اس کے انجام کا مسئله نه صرف دین اسلام میں ایک قطعی و مسلم امر هے ، بلکه گزشته انبیا کے ادیان میں بھی دعا کا مسئله ایک قطعی امر تھا اور انبیا و اولیا ئے الهی اس مطلب کے بارے میں کھا اور سکھایا هے، اس کے علاوه انهوں نےخود بھی متعدد مواقع پر دعا کی هے- مثال کے طور پر حضرت ابراهیم علیه السلام کی دعا اور اس کا قبول هونا، جو سوره ابراهیم کی آیت نمبر ٣٧میں درج هے-[1] اسی طرح حضرت موسی علیه السلام [2] اور دوسرے انبیا علیهم السلام کی دعائیں قابل ذکرهیں - خداوند متعال نے قرآن مجید کی متعددآیات میں اپنے بندوں کو دعا کر نے کی دعوت دی هے ، من جمله سوره بقره کی آیت ١٨٦ اور سوره غافر کی آیت ٦٠-قابل غور هیں-
"دعا" کے لغوی اور اصطلاحی معنی: دعا، مانگنے، طلب حاجت اور مدد چاهنے کے معنی میں هے اور کبھی مراد مطلق مانگنے کے معنی میں هوتی هے - [3]
اصطلاح میں دعا،خدا وند متعال سے حاجت طلب کر نے کے معنی میں هے – لفظ "دعا" اور اس کے مختلف مشتقات ،قرآن مجید میں تقریباً ١٣ معانی میں استعمال هوئے هیں،من جمله : مانگنا، دعاکر نا، خداسے چاهنا، ندا کر نا، آواز بلند کر نا، کسی چیز کی یا کسی کی طرف دعوت کرنا، استغاثه و مدد طلب کرنا، عبادت کر نا وغیره- [4]
بعض آیات و روایات سے معلوم هو تا هے که دعا ایک صورت میں خداوند متعال کی عبادت و پرستش هے- اس کے علاوه بعض روایتوں میں آیا هے که: الدعا مخ العباده اس لحاظ سے دعا بھی دوسری عبادتوں کے مانند بعض مثبت و منفی شرائط کی حامل هوتی هے. دوسرے الفاظ میں، دعا کو صحیح اور مکمل طور پر انجام پانے اور مورد تقرب و استجابت قرار پانے کے لئےدعا کرنے والے کے لئے کچھـ شرائط اور اداب کی رعایت کرنا ، رکاوٹوں اور موانع سے اجتناب کرنا ضروری هے. اس مسئله پر توجه کرنے سے هی بعض دعاٶں کے قبول نه هونے کی علت معلوم هوتی هے، کیونکه خداوند متعال حکیم وعلیم هے اور اس کے تمام کام حکمت و مصلحت کے مطابق هوتے هیں اوردعا کا قبول هونا بھی مصلحت سے وابسته ھے اور قبولیت کے وعده کے لئے بھی مصلحت شرط هے. اگر کوئی کریم اور مهربان شخص یه اعلان کرے که جو بھی مجھـ سے کوئی چیز مانگے میں اسے عطا کروں گا اور کوئی شخص ایک ایسی چیز مانگے جو اس کے لئے مضرهو بلکه وه چیز اس کے لئے مهلک هو، لیکن وه خیال کرتا هو که وه چیز اس کے لئے نفع بخش هے، تو اس صورت میں اس کریم اور مهربان شخص کے لئے وه چیز عطا نه کرنا هی مناسب تر هے. بلکه اسے عطا کرنا ظلم هے. بندوں کی اکثر خواهشات ان کے لئے نقصان اور ضرر کا سبب هوتی هیں جبکه وه خود اس سے واقف نهیں هوتے هیں.[5]
رفت طغیان آب از چشمش گشاد آب چشمش زرع دین را آب داد
ای بسا مخلص که نالد در دعا تا رود دود خلوصش بر سما
تا رود بالای این سقف برین بوی مجمر از انین المذنبین
پس ملایک با خدا نالند زار کای مجیب هر دعا وی مستجار
بنده مومن تضرع می کند او نمی داند بجز تو مستند
تو عطا بیگانگان را می دهی از تو دارد آرزو هر منتهی
حق بفرماید که نز خواری اوست عین تاخیر عطا یاری اوست[6]
حدیث قدسی میں آیا هے:" میرے بعض بندوی کی اصلاح نهیں هوتی هے اور وه اپنے ایمان کی حفاظت نهیں کرتے هیں مگر یه که بے نیازی اور ثروتمندی سے، اگر ان کے لئے کوئی دوسری حالت پیدا هوجائے تو وه نابود هوکر ره جائ یں گے اور بعض دوسروں کی مصحلت فقر و تنگدستی میں هوتی هے اور اگر ان کے لئے اس کے علاوه کوئی چیز مقدر هوجائے تو وه ان کی هلاکت کا سبب بن جائے گی[7]" یهاں پر ممکن هے که کسی کےذهن میں یه شبهه پیدا هوجائے که خداوند متعال هماری مصلحت کو بهتر جانتا هے اور جو کچھـ چاهے همارے حق میں مقدر فرماتاهے اور قطعا وهی واقع هوگا، اس لئے ضرورت هی نهیں که هم دعا کریں اور خدا سے مانگیں! اس کے جواب میں یه کهنا کافی هے که: بنده کی بعض الهی تقدیروں کے محقق هونے کے لئے دعا کی شرط هے، اس معنی میں که اگر بنده دعا کرے اور الله سے کوئی چیز مانگے، تو خدا کی مصلحت اس چیز کے واقع هونے میں هوتی هے اور اگر وه دعا نه کرے تو خدا کی مصلحت شامل حال نهیں هوتی هے اور اس کے لئے وه چیز مقدر نهیں هوتی هے[8].
اس لئے خداوند متعال اس دعا کو مسترد کرتا هے اور اسے قبول نهیں کرتا هے ، جو کائنات کے احسن نظام اور قضائے قطعی کے خلاف هو. مثلا اگر کوئی شخص خداوند متعال سے یه مانگےکه وه همیشه زنده رهے اور کبھی نه مرے ، تو یه دعا ، سوره آل عمران کی آیت ١٨٥ میں ذکر کی گئی قضائے الهی (کل نفس ذائقه الموت) کے منافی هے. اور یا یه که خدا سے مانگے که اسے اس کی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نه بنائے، تو یه دعا کبھی مستجاب نهیں هوگی. روایت میں آیا هے که ، حضرت علی علیه السلام نے، یوں سنا که ایک شخص اپنے دوست کے لئے دعا کرتا هے اور کهتا هے: خداوند متعال سے دعا کرتا هوں که تیرے لئے ناخوشگوار حالات اور مکروهات پیش نه آئیں. علی علیه السلام نے فرمایا: تم نے خداوند متعال سے اپنے دوست کے لئے موت مانگی هے![9] یعنی حقیقت میں جب تک انسان زنده هے، فطرت اور عالم خلقت کے نظام کے تحت ناخوشگوار حالات اور بلاٶں کا خطره اس پر لاحق هوتا هے، مگر یه که دنیا میں نه هو.
دعا قبول نه هونے کے سلسله میں، علامه مجلسی رحمۃ الله علیه نے ایک روایت کی توجیه و تفسیر میں شرائط کے عنوان سے :چند وجوهات بیان کی هیں:
پهلی وجه: دعا کو قبول کرنے کے سلسله میں وعده الهی کے لئے مشیت اور اراده الهی کی شرط هے، یعنی اگر وه چاهے اور اس کی مشیت کے مطابق هو تو اسے قبول کرتا هے اورجیسا که خداوند متعال کا قول هے که " فیکشف ماتدعون الیه ان شاء[10]" اور اگر وه چاهے تو آپ سے رنج و بلا کو دور کرتا هے...
دوسری وجه:روایت میں اجابت سے مراد، اس کا لازمه هے اور دعا کو سننا اوراس پر عنایت کیا جانا هے، کیونکه خداوند متعال مومن کی دعا کو فوری طور پر قبول کرتا هے لیکن اس کے اثر کو ظاهر کرنے میں تاخیر کرتا هے تاکه بنده دعا کو جاری رکھے اور خداوند متعال اس کی محبوب آواز کو سنتا رهے.
آن یکی الله می گفتی شبی تا که شیرین می شد از ذکرش لبی
گفت شیطان آخر ای بسیار گو این همه الله را لبیک گو
گفت لبیکم نمی آید جواب ز آن همی ترسم که باشم رد باب
گفت آن الله تو لبیک ماست وآن نیاز و درد وسوزت پیک ماست
حیله ها وچاره جوییهای تو جذب ما بود و گشاد این پای تو
ترس و عشق تو کمند لطف ماست زیر هر یارب تو لبیک هاست[11]
تیسری وجه: خداوند متعال نے دعا کو قبول کرنے کے لئے یه شرط مقرر فرمائی هے که مستجاب هونے والی چیز بنده اور دعا کرنے والے کی مصلحت اور خیر میں هو، کیونکه خداوند متعال حکیم هے اور جو کچھـ اس کے بندوں کی مصلحت و سعادت کا سبب هو اس کو غیر مفید مطالبات کی وجه سے ترک نهیں کرتا هے، پس واضح هوا که اس طرح کے وعدوں کو حکیم و دانا خدا کی طرف سے شروط ومصلحت کے مطابق جان لیں[12].
کتاب اصول کافی میں دعا کی اجابت کے لئے چار معانی بیان هوئے هیں جوعبارت هیں:
١. خداوند متعال دعا کرنے والے کی حاجت فورا پوری کرتاهے.
٢. خداوند متعال دعا کرنے والے کی درخواست کو منظور کرتا هے، لیکن چونکه اس کی آواز کو سننا پسند کرتا هے، اس لئے نتیجه کو ظاهر کرکے میں تاخیر فرماتا هے.
٣. اس کی دعا کو قبول کرکے مستجاب کرتا هے لیکن اس کے اثر کو اس کے گناهوں کو پاک کرنے کے لئے قرار دیتا هے.
٤. اس کی دعا کو قبول کرتا هے، اور اسے اس کی آخرت کے لئے ذخیره و زاد راه قرار دیتا هے[13].
مذکوره مطالب سے معلوم هوتاهے که دعا قبول هونے کے معنی یه نهیں هیں که دعا فورا مستجاب هونے کے بعد اس کے اثرات بھی فوری طور پر ظاهر هوجائیں اور دعا کرنے والا اپنے مقصود تک پهنچ جائے، کیونکه سوره یونس کی آیت ٨٩ میںبیان هوا هے که خداوند متعال نے حضرت موسی علیه السلام کی دعا کو مستجاب فرمایا، لیکن کچھـ مصلحتوں کی بنا پر اس کے اثر، یعنی فرعون کی نابودی کو چالیس سال کے بعد ظاهر کیا.
اور کبھی دعا کی اجابت کا اثر یوں ظاهر هوتاهے که خداوند متعال دعا کرنے والے، جو خود اپنی مصلحت کو نهیں جانتا هے، کے مطالبه کو کئی گنا بڑھا کرآخرت میں اسے عطا کرتا هےاور جب وه آخرت میں اپنے دعا کے اثر کا مشاهده کرتاهے، تو آرزو کرتا هے که کاش ! میری کوئی حاجت دینا میں مستجاب نه هوئی هوتی! ( اس سے تصدیق هوتی هے که اس کی دعا مکمل طور پر مستجاب هوئی هے)[14].
یهاں تک هم نےدعا کے معنی اس کی اهمیت اور شرائط کی طرف اشاره کیا اور کها که کیوں بعض دعائیں مستجاب نهیں هوتی هیں اور دعا کی اجابت سے مراد کیا هے اب مذکوره سوال یعنی کن حالات میں دعا قبول هوتی هے؟ کے جواب کا موقع فراهم هوا هے. اسلامی دانشور اور مفسرین نے قرآن مجید کی آیات اور معصومین علیهم السلام کی روایات سے استفاده کرکے دعا اور دعا کرنے والے کے لئے بعض شرائط اور آداب بیان کئے هیں، اگر ان کی رعایت کی جائے تو دعا موثر هوکر مستجاب هوگی. " دعاها وتهلیلات قرآن " نامی کتاب میں آداب دعا کے ستره شرائط کی طرف اشاره کیا گیا هے، جیسے: خدا کی معرفت، دعا کرنے والے کے دل اور زبان کے درمیان هم آهنگی، واجبات کو بجالانا اور محرمات کو ترک کرنا، گناهوں سے توبه کرنا اور محمد و آل محمد صلی الله وعلیه وآله وسلم پر درود وسلام بھیجنا وغیره [15]. مرحوم فیض کاشانی نے اپنی کتاب" محجه البیضا" میں آداب دعا کے دس شرائط لکھے هیں. اس کے علاوه علامه حلی رحمۃ الله کی کتاب " عده الدعی" سے بھی دس شرائط نقل کئے هیں. ان میں سے بعض شرائط عبارت هیں:" دعا میں اراده، دعا میں اجتماع، دل سے خدا کی رسائی حاصل کرنا، اپنی حاجات کے سلسله میں غیر خدا پر بھروسا نه کرنا و غیره...[16].
قطعی طور پر استجابت دعا سے متعلق روایات کے بارے میں چند تعبیریں استعمال هوئی ههیں جو یهاں پر قابل ذکر هیں. امام صادق علیه السلام فرماتے هیں:" دعا همیشه پرده کے پیچھے هوتی هے، یعنی اگر دعا پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم پر درود وسلام پر مشتمل نه هوتو[17]، بارگاه الهی میں براه راست نهیں پهنچ سکتی هے."
ایک روایت میں حضرت امام صادق علیه السلام سے نقل کیا گیا هے که آپ علیه السلام نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی دعا کرنا چاهے تو اسے پهلے پیغمبر اکرم صلی پر درود بهیجنا چاهئے کیونکه پیغمبر پر دورد مقبول الهی هوتاهے اور خداوند متعال ایسا نهیں هے که دعا کے ایک حصه کو قبول کرے اور دوسرے حصه کو مسترد کرے[18]. اور ایک دوسری روایت میں فرمایا هے که:" ابتدا میں درود بھیجنے کے علاوه دعا کے اختتام پر بھی محمد(ص) هے وآل محمد صلی الله علیه وآله پر درود بھیجنا چاهئے[19].
امام مجتبی علیه السلام فرماتے هیں: " اگر کوئی شخص اپنے دل کے بارے میں محتاط و هوشیار هوتا که خدا کو ناپسند وسوسے اور برے خیالات اس کے دل میں پیدا نه هوجائیں، تو میں اس شخص کی دعا قبول هونے کی ضمانت دیتاهوں[20]."
امام صادق علیه السلام نے فرمایا هے:" غیر خدا سے امید کا رابطه توڑ دیجئے ، تا که آپ کا دل خدا کے علاوه کسی طاقت پر بھروسا نه کرے، پھر دعا کیجئے، یقینا وه دعا قبول هوگی[21]."
اس کے علاوه روایت هے که:" جس مظلوم کا خدا کے سوا کوئی سهارانه هو، اس کی دعا یقینا مستجاب هوتی هے[22].
اس بنا پر اگر دعا زبان پر موثر واقع هوئی، تو سائل کو مسترد نهیں کیا جاتا هے اور اس کی دعا قبول هوگی. کیونکه فاعل اور دعا کو قبول کرنے والا، تمام اور فوق تمام هے اور اس کا فیض، کامل اور فوق کامل هے اور اگر فیض، ظاهر نه ھو اور اثر نه کرے تو قابلیت میں عیب هے. پس اگر دعا کرنےوالے میں فیض کو قبول کرنے کی قابلیت موجود هوتو اسے خداوند متعال کے فیوض کے لامتناهی خزانوں سے فیض حاصل هوتا هے جن میںنه کبھی کمی واقع هوتی هے اور نه یه خزانے خالی هوتے هیں[23]. اس لئے کها گیا هے که امور تین قسم کے هیں: اول یه که دعا کے بغیر ان کے عطا هونے میں مصلحت هوتی هے، اس صورت میں انسان دعا کرے یا نه کر ے خداوند متعال اپنی نعمتیں عطا کرتا هے. دوسرے یه که دعا کے باوجود عطا هونے میں مصلحت نهیں هوتی هے اس صورت میں اگر دعا بھی کی جائے تو عطا نهیں هوتی هے. تیسرا یه که دعا کرنے کی صورت میں عطا هونا مصحلت هوتی هے اور بدون دعا عطا هونا مصلحت نهیں هوتی هے، اس صورت میں عطا هونے کے لئے دعا کی شرط هے. چونکه انسان عام امور کی مصلحت وخلاف مصلحت کی تشخیص کرنے سے عاجز هے، اس لئے اسے دعا کرنے میں کوتاهی نهیں کرنی چاهئے اور اگر دعا مستجاب نهیں هوئی تو اسےمایوس نهیں هو نا چاهئے اور جاننا چاهئے که اس کے قبول هو نے میں مصلحت نهیں تھی ,اس کے علاوه ، جیسا کھ پهلے اشاره هوا که دعا عبادت هے بلکه بهترین عبادتوں میں سے ایک عبادت هے جو پروردگار عالم کا تقرب حاصل هو نے کا سبب بنتی هے ، اور تقرب بذات خود هر عبادت کا ثمر شمار هو تا هے-[24] جب انسان دعاکے لئےاپنے هاتھـ بلند کرتا هے، روایات اور معصومین علیهم السلام کی سنت کے مطابق مستحب هے که اپنے هاتھوں کو اپنے سر اور چهرے پر کھینچ لے، کیونکه خدا وند متعال کی مهر بانی ان هاتھوں میں عطا هوئی هے، جو هاتھـ بار گاهی الهی میں بلند هوتا هے وه کبھی خالی نهیں لوٹتااور جو هاتھـ عطائے الهی حاصل کر چکا هے وه محترم هے لهذا بهتر هے که اسے اپنے سر یا چھرے پر کھینچ لیا جائے-[25]
اے یکدله ی صددله،دل یک دله کن مهردگران راز دل خودیله کن
یک روز به اخلاص بیا بردرما گرکام توبرنیامد آنگه گله کن[26]
مزید تفصیلات کے لئے ملاحظه هو: عنوان: "دعا میں مصلحت کی تشخیص کا طریقه کار"، سوال نمبر ٧21-
[1] - فلسفی، محمد تقی، شرح دعای مکارم اخلاق، ج١،ص٢-
[2] - سوره طه، ٢٥- ٢٨-
[3] - قرشی ، سید علی اکبر، قاموس قرآن ، وازی دعا ی-
[4] - دانشنا مه ی قرآن و قرآن پزوهی به کوشش بها و الدین خرمشاھی، ج١،ص١٠٥٤-
[5] - سید محمد باقر شهیدی وهبه الدین شهرستانی رحمهم الله، دعاها و تهلیلات قرآن،ص٤٣.
[6] - مثنوی معنوی، دفتر ششم، ابیات٤٢٢٢، ٤٢١٦.
[7] - ملاهادی سبزواری، شرح اسما الحسنی چاپ مکتب بصیرتی قم،ص٣٢
[8] - برگرفته از محمد باقر شهیدی، دعاها و تحلیلات قران ص٤٣.
[9] - فلسفی، محمد تقی ، شرح دعای مکارم الاخلاق،ج١،ص٧
[10] - انعام٤١
[11] - مولوی ، مثنوی معنوی، دفتر سوم، ابیات ١٩٠ـ ١٨٩و ١٩٧ـ ١٩٤.
[12] - محمد باقر مجلسی، مراه العقول،ج١٢، صص٢٠. ١٩، حاشیه
[13] - کلینی، الکافی، والروضه،ج١،ص٣٣٠، پاورقی
[14] - مجلسی، محمد باقر، مرآه العقول، ج١٢، صص٥-١.
[15] - شهیدی وشهر ستانی ،دعا وتهلیلات قرآن،ص١٥-
[16] - فیض کاشانی ، محجه البیضا،ج١،ص٣٨٠-٣٠١-
[17] - کافی،ج٢،ص٤٩١-
[18] -امالی شیخ طوسی ،ج١،ص١٥٧-
[19] - فلسفی، محمد تقی، ،شرح دعای مکارم اخلاق،ج١،ص٩-
[20] - کافی، ج٢، ص٦٧،ح١١-
[21] - بحار، ج٧٢،ص١٠٧،ح٧-
[22] - جوادی آملی، عبدالله، حکمت عبادات،ص٢٢٠ الی ٢٣٤-
[23] - امام خنینی رحمهم الله ،شرح دعای سحر ،ترجمه سید احمد فهری ،ص٣٨-
[24] - محمد باقر شهیدی،رهبه الدینشهرستانی ،دعاها وتهلیلات قرآن ،ص٤٥-
[25] - جوادی آملی ، عبدالله، حکمت عبادات،ص٢١٥-
[26] - روان جاوید،ج١،ص٢٩٦-