حکمت متعالیه کے مطابق، ذوات ابتداء میں غیر متعین وجود رکھتی هیں ، اس کے بعد مادی وجود کے ذریعه تشخیص پاتی هیں اور اس کے بعد انفرادی صورت میں باقی رهتی هیں-
انسان کی ذات، ابتداء میں مادی و معنوی هر دو پهلوٶں پر مشتمل هے که انسان کی پیدا ئش کے آغاز سے اس کے همراه هو تی هے – عام طور پر مادی پهلو سے اس کو طبیعت و طینت اور روحانی ومعنوی پهلو سے اس کو فطرت کے نام سے یاد کرتے هیں –
انسان کی ذات اس کے افکار یا محرمات کا سر چشمه هو سکتی هے ، لیکن انسان کے طرز عمل پر اس کا اثر اقتضا کی صورت میں هے نه سو فیصد علیت کی صورت میں که انسان سے اختیار کی نفی هو جائے-
ذات ایک ایسا کلمه هے که جس کو مختلف صورتوں میں استعمال کیا جاتا هے کبھی اسے فلسفه میں اصل ماهیت میں ذات اورما هیت کے اجزاء کے طور پر ذاتی تعبیر کیاگیا هے-
کهاگیا هے که : هرذاتی چیز کے وجودی ارکان اور تشخیص دهنده کو اس کے ذاتیات کهتے هیں [1]ذات وهی نفس هے جوزنده،ادراک کر نے والا ، سننے والا ، دیکھنے والا اور عاقل هے-[2]
نفس کی یوں تعریف کی گئی هے : " نفس ایک روحانی جوهر هے جو اپنی ذات پر زنده هے اور چونکه اجسام میں سے ایک جسم سے وابسته اور اس کا هم نشین بن چکا هے اس لئے اسے اپنے مانند بناتا هے ، آگ کے مانند که جو جلانے والا ایک جوهر هے ، اگر اسے اجسام میں سے ایک جسم سے ملحق کیا جائے ، تو اس جسم کو بھی اپنے مانند گرم کرتا هے-[3]
نفس ، حقیقت میں معنوی انوار الهی میں سے ایک نور هے جس کا چمکنا اور طلوع هو نا خدا وند متعال سے هے اور اس کے ڈوبنے اور اتر نے کی جگه انسان کا تاریک بدن هے-[4]
حکمت متعالیه کے مطابق ، ذوات، ابتداء میں اجتماعی صورت میں موجود تھیں اور اس کے بعد مادی وجود سے مشخص هو گئیں اور اس کے بعد انفرادی صورت میں باقی رهتی هیں –نفس " جسمانیۃ الحدوث و روحانیۃ البقا" هے-[5]
لیکن ایسا لگتا هے که لفظ "ذات" کا عرفی استعمال ، ایک خاص معنی میں هے اور اس کا مراد ان ذاتی و اکتسابی --- خصوصیات کا ایک مجموعه هے-انسان کی ذات دو پهلوٶں سے قابل تحقیق هے :
الف ; مادی اور طبیعی پهلو که اسے طینت کهتے هیں –
ب : انسان کا معنوی اور روحانی پهلو که ، اسے فطرت کهتے هیں-
طینت ، خمیر، سرشت اور مزاج کے معنی میں هے- "طین" انسان کی مادی زندگی کا سر چشمه هے ، لیکن انسان کی معنوی اور روحانی زندگی کا سر چشمه اس کی روح هے-
قابل ذکر بات هے که انسان کے طرز عمل کا سر چشمه جس کا نتیجه اس کی دنیوی واخروی سعادت و شقاوت هے، اس کے افکار اور محر کات هیں –میرے افکار اور میرا علم میری ضرورتوں اور جوش وجذبه کو وجود میں لاتے هیں اور میرا جوش وجذبه ، من جمله محبت ، ترس، غم و غضب وغیره میرے طرز عمل کی هدایت کرتے هیں –
جوچیز میرے افکار و علم ، میرے جذبات اور احساسات اور ان کے نتیجه میں میرے اعمال وکردار کو نظم وانتظام بخشتی هے وه مندرجه ذیل چار علتوں میں تقسیم هو تی هے :
١- انسان کی طبیعت اور جنٹیک
٢- فطرت
٣- بیرونی ماحول
٤- انسان کا اراده
چونکه ایک لحاظ سے دینی ادله و استدلال کے مطابق تمام انسان فطرت میں مشترک هیں ، " کل مولود یولد علی الفطرۃ " اور فطرت بھی انسان کو خاص مقولات کی طرف دعوت دیتی هے، مثلاً وجود خد ا کا ادراک ، لا محدود حیات کا وجود اور اسی طرح بعض زیبائیوں سے تعلق، اخلاقی رجحانات ، قداست اور طبیعی کمال کی طرف رجحان- دوسری جانب سے طنیت یا مادی مقد مات انسانوں کا سر مایه یکساں نهیں هے- ان میں بعض ان کے آبا واجداد کے تدیّن وعدم تدین، حلال زاده یا حرام زاده هو نے، ماں کے دودھـ ، باپ کی طرف سے خرچ کئےگئے پیسے، دوسروں کی دعاٶں ، ماده اور دنیا پرستی، کے سبب فطرت اور روح کی آواز کو سننے کی زیاده استعداد رکھتے هیں اور بعض کم تر، اور ان کے افکار ومال زیاده تر مادی، جسمانی اور دنیوی مسائل میں صرف هو تے هیں –شائد اس معروف حدیث :" السعید سعید فی بطن امه والشقی شقی فی بطن امه" [6]کا اشاره اسی معنی کی طرف هو-
لیکن جو چیز اهم هے وه یه هے که انسان میں ذاتیات کا کام اقتضا کے مطابق انجام پاتا هے نه علیّت تامه اور سو فیصد کے مطابق که یه ایک طرح سے جبرو اختیار کو سلب کر نے کا سبب بنے- چونکه دوسری مخلوقات کی به نسبت انسان کی اصلی خصوصیات اور اس کا بنیادی امتیاز صاحب اراده و اختیار هو تا هے –یه انسان هے جو اپنے اراده و اختیار سے فطری رجحانات کا انتخاب کر تا هے یا شهوانی و مادی رجحانات کا، ان دو میں سے جس کسی کی پیروی کر کے زیاده تر اسی راه میں قرار پاتا هے ، اسی راه کو زیبا پاتا هے اور رفته رفته اسی راه پر زیاده تر میل و رغبت سے گامزن هو تا هے، خواه اس کا انتخاب فطرت کی راه هو یا شهوت کی- لهذا یه خود انسان هے جو اس اقتضا کو لبیک کهه سکتا هے اس کی دعوت کو قبول یا مسترد کر سکتا هے-[7]
[1] - سجادی ، سید جعفر ، فرھنگ علوم فلسفی وکلامی ، ص٢٦٧: کرجی ، علی، اصطلاحات فلسفی و تفاوت آنھا با یکدیگر، ص١٢٧-
[2] - ملاصدراء ،اسفار اربعه،ج٢، ترجمه، محمد خواجوی ، ج٢/٤، سفر چهارم ،ص٥٢-
[3] - ملاصدراء ، مفاتیح الغیب ، ترجمه محمد خواجوی،ص٨٥٣-
[4] - ایضاً ص ٨٥٣-
[5] - اسفار ،ج ٨،ص ٣٤٧-
[6] - بحار الانوار ،ج٥، ص١٥٣،ج٧٤،ص١١٧-
[7] - بر گرفته از تفسیر المیزان،ج٨ ،ص١٣٧،ذیل آیه ٣٠سوره اعراف-