اسلامی تعلیمات کے مطابق ، عورتیں ایک اھم مقام کی حامل ھیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور ائمھ اطھار علیھم السلام کی روایات میں ان کی تعریف اور تمجید کی گئی ھے، ھماری روایات میں صالح عورتیں خیر اور برکت کے سرچشمے اور کسی بھی دنیاوی گوھر سے زیاده قیمتی جانی جاتی ھیں۔ اس طرح اسلام نے عورتوں کی تنبیھ سے منع کیا ھے ، اور جو مرد اس کا مرتکب ھوتا ھے وه سب سے برا آدمی جانا گیا ھے۔
صرف ایک جگھ استثناء ھے جو عورتیں اپنے شوھروں کے حقوق کی طرف توجھ نھیں کرتی ھیں انکی ھدایت کیلئے دوسرے اقدامات اثر نھ کریں تو ان کو مارنے کی اجازت ھے۔ سوره نساء کی آیھ شریفھ ۳۴ میں ان ھی عورتوں کی جانب اشاره ھے۔
اس آیھ شریفھ کی ابتدا میں صالح و مطیع عورتوں کی صفات بیان کی گئی ھیں اس کے بعد خداوند متعال ان عورتوں ( جو ممکن ھے ناشزه اور غیر مطیع ھو ) کے شوھروں کیلئے ، احکام اور فرائض بیان فرماتا ھے ، پھلے مرحلے میں ان عورتوں کو نصیحت کرنا ھے دوسرے مرحلے میں ان کص خواب گاه سے الگ کرنا اغ جو پھلے کی بھ نسبت زیاده شدید ھے پھر تیسرے مرحلے میں انھیں مارپیٹ کی اجازت دی گئی ھے اس سلسلے میں کچھه نکات کی جانب اشاره کرنا ضروری ھے:
۱۔ یھ مرحلھ سب سے آخری مرحلھ ھے اور یھ واضح بات ھے کھ جب پھلے والے مرحلغ نتیجھ دیں گے تو اس مرحلے تک نوبت نھیں آئے گی۔
۲۔ بدنی تنبیھ (مارپیٹ ) کتب فقھی کے مطابق ، ملایم اور بھت کم ھونی چاھئے اور یھ ھڈی کے ٹوٹنے ، بدن کے زخمی ھونے اور بدن میں نیلا داغ ھونے کا سبب نھ بنے۔
۳۔ بدنی تنبیھ کے بھی مختلف درجے ھیں حتی کھ روایات میں مسواک کی لکڑی کی طرف اشاره ھوا ھے پس جس صورت میں پھلا والا درجھ مؤثر ھے دوسرے درجے کی نوبت نھیں آتی ھے۔
۴۔ یھ مسئلھ عورتوں کیلئے مخصوص نھیں ھے اور مردوں کے ناسازگار برتاؤ کے سلسلے میں حاکم شرع کی ذمھ داری ھے کھ مختلف طریقوں سے یا تنبیھ بدنی کے ذریعے مردوں کو بھی اپنے فرائض سے آشنا کرسکتا ھے۔
اس سے پھلے کھ آیھ نشوز میں مفسرین کرام کے نظریات کو کلمھ " و اضربوھن" ( عورتوں کی مار پیٹ کرو) کے بارے میں بیان کریں۔ ضروری ھے کھ اسلام میں عورت کی اھمیت کی طرف اشاره کیا جائے ۔ بلند اسلامی تعلیمات ، عورتوں اور بیویوں کیلئے کافی اھمیت کی قائل ھیں اور اسلامی روایات میں بھی ان کی تعریف کی گئی ھے۔ حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام فرماتے ھیں: سب سے خیر اور برکت عورتوں کے وجود میں رکھی گئی ھے۔ [1] عالَمِ شیعھ کے چھٹے امام نے عورتوں کو دو حصوں نیک اور برے میں تقسیم کیا ھے ، اور نیک عورتوں کے بارے میں فرمایا ھے اس قسم کی عورتوں کی قیمت سونا ، چاندی اور جواھرات سے بھی زیاده ھے اورکوئی بھی گوھر ان کے برابر اھمیت نھیں رکھتا ھے ۔ [2]
رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے بھی فرمایا ھے : یھ دنیا ایک مال کے مانند ھے اور اس دنیا کا بھتریں مال نیک سیرت عورتیں ھیں" [3]
معصومین علیھم السلام کے یھ قیمتی فرمودات ، عورتوں کی اھمیت کے بارے میں اشاره کرتے ھیں کھ ان کا وجود خیر اور برکت کا سرچشمھ ھے اور ان کی معنوی اور وجودی اھمیت دنیا کی سب سے قیمتی چیز ھے۔
عورت کو سزا دینا منع ھے۔
اس سلسلے میں اسلامی قوانین ھمیں لطیف نکات کی طرف متوجھ کرتے ھیں کیوں کھ عورتوں کی بدنی سزا اور روحانی آزار کو گھریلو جرم جانا گیا ھے بلکھ عورتیں بھی مردوں کے مانند عزیز اور شریف مخلوقات ھیں ۔ پس انھیں مارنا انسان کیلئے قابل برداشت نھیں ھے ، اور یھ دھڑکتے اورجذباتی د ل شریف اور صنف نازک کے ھیں ، ان کا بدن حیوانوں کے مانند نھیں ھے۔ جو مارپیٹ اور آزار کا تحمل کر سکے۔ اسی لئے اسلامی قوانین میں ان کو تکلیف دینا ممنوع قرار دیا گیا ھے۔ اس سلسلے میں حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و اآلھ وسلم فرماتے ھیں " اے لوگو ! اپنی بیویوں کا خیال رکھو کیوں کھ وه الھی عھد کے ذریعے تمھارے اختیار میں قرار دی گئیں ھیں اور آپ تم خدا کے مخصوص الفاظ کے ذریعے انھیں اپنے لئے حلال قرار دیا ھے کیا اس صورت میں اس خدائی امانت کی مارپیٹ یا انھیں زخمی کرنا صحیح ھے ؟ اور ان کے دلوں کو جو عشق اور محبت کا مرکز ھے رنجیده مت کرو۔ [4]
نیز فرماتے ھیں: برے مردوں کی علامتوں میں، ایک علامت یھ ھے کھ وه اپنی بیوی اور بندے کی مارپیٹ کرتے ھیں اور ان پر مھربانی اور رحم نھیں کرتے ھیں۔[5]
لیکن بعض عورتیں اپنے شوھروں کے حقوق کی طرف توجھ نھیں کرتی ھیں ان کی جنسی ضروریات کو پورا نھیں کرتی ھیں اور اپنے شوھر کی اجازت کے بغیر گھر سے باھر آتی ھیں ۔ اپنے برے اخلاق سے گھر کی محبت آمیز فضا کو آگ میں تبدیل کردیتی ھیں ۔ اور شوھر کی خصوصی زندگی میں ٹانگ اڑا کر اسے خراب کرتی ھیں۔ اسلامی نظریھ کے مطابق اس طرح کی عورتیں انسانی اھمیت کا فقداں رکھتی ھیں اور اسلام نے ان کی شدید مذمت کی ھے رسول اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم فرماتے ھیں : عالم خلقت میں سب سے بُری چیز (غیر موافق ) بری عورتیں ھیں۔ [6]
قرآن اور احادیث میں ، اسلامی فقھ کی نظر سے اس طرح کی عورتوں کو " ناشزه " عورتیں کھتے ھیں ، جس کی جڑ ان کا غرور اور خود پسندی ھے جس کا نتیجھ یھ ھوتا ھے کھ یھ خاص عورتیں شوھر کی پیروی نھیں کرتی ھیں اور اپنے خاوند کی زندگی کو کڑوا اور ناگوار بناتی ھیں ، دین اسلام نے اس طرح کی عورتوں کی اصلاح کیلئے ایک عاقلانھ راه نکالی ھے ۔ قرآن مجید نے اس آیھ شریفھ میں آیھ نشوز ، کھ جو سوره نساء میں ھے لطیف اور دلچسپ نکات کو زناشوئی اور گھریلو مسائل کے بارے میں بیان کیا ھے اور خوش قسمتی سے جدید علوم نے ان روابط کے بعض اسرار کا انکشاف کرکے بیان کیا ھے ۔ حقیقت میں یھ آیھ شریفھ قرآن کریم کے علمی ( سائنسی ) معجزات میں سے ایک ھے اگر چھ پورا قرآن مختلف لحاظ سے معجزه ھے۔
یھ بات روز روشن کی طرح واضح ھے کھ گھریلو مسائل خصوصا میاں بیوی کے مسائل بھت لطیف اور ظریف ھیں کبھی کبھی محبت اور عشق کو غصھ کے ذریعے، اور کبھی غصھ کو محبت کے ذریعے دکھانا چاھئے ۔ محبت اور غصھ کے حدود کو سمجھنا اور انکی رعایت کرنا ، محبت ظاھر کرنے اور غصھ ظاھر کرنے کے مواقع کو پھچاننا آسان نھیں ھے۔
فلاسفھ اور ماھرین سماجیات ، تربیت اور نفسانیات کے عالموں نے گزشتھ زمانوں سے ان نکات کو سمجھنے کی کافی کوشش کی ھے اور اس سلسلے میں مختلف کتابیں تحریر کی ھیں، لیکن قرآنی آیات اور پیغمبر اور ائمھ معصومین علیھم السلام کا طره امتیاز یھ رھا ھے کھ انسانی ضروریا ت کے اھم اور ضروری نکات کے اصول اور قواعد کو ساده مختصر، خوبصورت اور عام فھم زبان میں بیان کیا ھے جو ھر ایک کیلئے قابل عمل ھے۔
سوره نساء کی آیھ شریفھ ۳۴ کے بارے میں بھت سے مطالب موجود ھیں۔ لیکن اختصار کے طور پر بعض کی جانب اشاره کیا جاتا ھے۔ یھ آیھ شریفھ گھر کی سرپرستی اور معیشت کی ذمھ داری مردوں کے شانوں پر رکھتی ھے اور عورتوں کو گھریلو کام کی ذمھ داریوں کے سلسلھ میں دو حصوں میں تقسیم کیا ھے۔
۱۔ پھلا گروه صالح اور ھدایت یافتھ عورتوں کا ھے ، جو گھریلو نظام کے بارے میں مخلص اور کار بند ھیں وه نھ صرف شوھر کی موجودگی میں بلکھ اسکی عدم موجودگی میں بھی گھریلو نظام کو چلاتی ھیں۔ البتھ مردوں کو اس طرح کی عورتوں کا نھایت ھی احترام اور احسان مند ھونا چاھئے۔
۲۔ دوسرا گروه ان عورتوں پر مشتمل ھے جو اپنے فرائض سے سرکشی کرتی ھیں اور مخالفت کے آثار ان میں نمایاں ھوتے ھیں ، قرآن مجید نے مردوں کےلئے اس طرح کی عورتوں کے بارے میں خاص ذمھ داریاں بیان کی ھیں جو درجھ بھ درجھ انجام پانی چاھئیں اور ھر صورت میں ھوشیار رھنا چاھئے کھ عدل و انصاف کے حدود سے باھر نھ نکل جائیں یھ آیھ شریفھ ان فرائض کو اس طرح بیان کرتی ھے:
پھلا درجھ : "جن عورتوں کی نافرمانی کا خطره ھے انھیں موعظھ کرو " اس ترتیب سے جو عورتیں اپنی گھریلو حدود سے پاؤں زیاده پھیلاتی ھیں ۔ سب سے پھلے انھیں نصیحت کرنی چاھئے اور انھیں اپنےکاموں کے برے نتائج سے آگاه کرنا چاھئے اور اپنی ذمھ داری کی طرف توجھ دلانی چاھئے ، تا کھ وه اس برے کام سے باز آجائیں۔
دوسرا مرحلھ : جب تمھاری نصیحتوں کا کوئی اثر نھ تو ان کی خواب گاه کو الگ کردو، یھ رد عمل اور ان کی طرف توجھ نھ کرنا اور روٹھنا ، اس بات کی دلیل ھے کھ مرد اپنی زوجھ کے کردار سے راضی نھیں اور شاید مرد کا یھی رد عمل عورت کی روح میں اثر کرے۔
تیسرا مرحلھ : " و اضربوھن" انھیں مارو ، اگر عورت کی نافرمانی حد سے گذر جائے اور گھر کا قانون توڑنے میں وه اپنی ضد پر قائم رھے۔ نھ اس پر نصیحتیں اثر کریں اور نه بستر سے الگ ھونا اس میں تبدیلی لائے تو پھر سختی کرنے کے علاوه کوئی چاره نھیں، یھان پر اجازت دی گئی ھے کھ "مارپیٹ" کے ذریعے انھیں اپنے فرائض کے انجام دینے پر مجبور کرو۔
ممکن ھے کھ یھ سوال اٹھے کھ اسلام کس طرح مردوں کو یھ اجازت دیتا ھے کھ عورتوں کے بارے میں شدت عمل اور مار پیٹ کریں؟
اس کا جواب ان قرآنی آیات اور اسلامی روایات کے معنی سے روشن ھوتا ھے جو اس سلسلے میں وارد ھوئی ھیں اور جس کی وضاحت فقھی کتابوں توضیحات سے ھوتی ھے اور جنھیں نفسیاتی عالموں نے آج کل کے دور مین بیان کیا ھے ، کیونکھ:
اولا : آیھ شریفھ سے بدنی تنبیھ کو ان عورتوں کے بارے میں بیان کیا ھے جو اپنے فرائض کو انجام نھیں دیتی ھیں اور دوسرا کوئی وسیلھ ان کیلئے مفید نھیں ھوا ھے اور یھ کوئی نئی بات نھیں ھے جو صرف اسلام میں بیان ھوئی ھے بلکھ دنیا کے سب قوانین میں ھے کھ صلح آمیز طریقے جب لوگوں کو اپنے فرائض انجام دینے میں مؤثر نھیں ھوتے تو زور زبردستی کا قدم اٹھایا جاتا ھے۔
ثانیا: جیسا کھ فقھی کتابوں میں آیا ھے " تنبھ بدنی " اس صورت میں بھی تنبیھ ملائم اور آھستھ ھونی چاھئے اس طرح کھ تنبیھ بدن کے زخمی ھونے ، نیلا ھونے اور ھڈیوں کے ٹوٹنے کا سبب نھ بن جائے۔
ثالثا : آج کل ماھرین نفسانیات کا یھ نظریھ ھے کھ بعض عورتوں میں ایک خاص حالت مازونیزم ( آزار طلبی) کے نام سے ھوتی ھے ، اگر ان کے اندر یھ حالت شدید ھوجائے اور ان کے سکون پانے کا طریقھ صرف بدنی تنبیھ ھو تو ممکن ھے کھ آیھ شریفھ کا یھ حصھ ان خاص عورتوں کیلئے ھی ھو۔ جن کے بارے میں مختصر بدنی تنبیھ آرام ھونے کا سبب بنے ، اور یھ ایک ذھنی علاج ھے اور اسلام نے چاھا ھو کھ نصیحت اور روٹھنے اور مختصر مارپیٹ کے ذریعے اس طرح کے بیماروں کا علاج کرے، نھ کھ جدائی کا حکم دے کر انکی بیماری کو شدید کرے، اور انھیں انکے فرزندوں کومحبت کی نعمت اور گھر کو خوشگوار ماحول (جو کھ سماج کی اصلی بنیاد ھے)، سے محروم کرے۔
یھ بات یقینی ھے کھ اگر ان مراحل میں ایک مرحلھ موثر واقع ھوجائے اور عورت اپنے فرض کو پورا کرے ، تو مرد کو کبھی یھ حق حاصل نھیں کھ وه مختلف بھانوں سے عورت کو ستائے اسی لئے آیت کے آخر میں یھ جملھ بیان ھوتا ھے که اگر انھوں نے اطاعت کی تو انھیں مت ستاؤ
مرکز توجھ یھ نکتھ یھ ھے کھ تنبیھ بدنی کی آخر حد ، زخمی اور بدن کا نیلا نھ ھونا نیز ھڈیوں کا نھ ٹوٹنا قرار دیا گیا ھے لیکن چونکھ مارپیٹ کا مقصد عورت کو اطاعت شعار بنانا اور روگردانی کی حالت کو ختم کرنا ھے ، اس لئے بدنی تنبیھ کے سلسلے میں مراتب کی رعایت کرنا ضروری ھے ، اور اگر مقصد خفیف مرتبے ھی سے حاصل ھوتا ھے توشدت اور سختی کے مرحلے تک پھنچنا جایز نھیں ، اور شاید ان روایات سے مراد جن میں " مارپیٹ" سے مراد، "مسواک کی لکڑی سے مارنا بیان ھوا ھے" [7] انھیں مراتب کا خیال کرنے کی جانب اشاره ھو اور جب مقصد اسی سے حاصل ھوتا ھے تو اوپر والے مرحلے تک پھنچنا صحیح نھیں ھے۔
ممکن ھے یھ کھا جائے کھ اس طرح نافرمانی کبھی مردوں میں بھی پیدا ھوتی ھے تو کیا مردوں کو بھی یھی سز ملنی چاھئے۔
جواب میں یھ کھنا ضروری ھے کھ ھاں بالکل ، مردوں کو بھی عورتوں کے مانند اپنے فرائض سے روگردانی کی صورت مین سزا ملنی چاھئے ، لیکن اس بات کی جانب توجھ رکھنی چاھئے کھ بعض مردوں میں آزار دینے ( سائیزم ) کی حالت موجود ھوتی ھے اگر یھ بیماری شدید ھوئی تو اس کا علاج عورت کے ذریعے تنبیھ بدنی نھیں ھے کیونکھ :
اولا: اس بیماری کا علاج مارپیٹ سے نھیں کیا جاتا ۔
ثانیا : اکثر عورتوں میں مارپیٹ کی طاقت نھیں۔
ثالثا: حاکم شرع کی ذمھ داری ھے کھ مختلف مردوں کو مختلف طریقوں سے سزا دے کر انھیں سمجھائیں
خداوند آیھ شریفھ کے آخر میں دوباره مردوں کو متنبه کرتا ھے کھ گھر میں اپنی سرپرستی کے مقام کا غلط استعمال نھ کرے اور خدا کی قدرت جو سب قدرتوں سے بلند ھے کے بارے میں سوچیں کیوں کھ خداوند بلند مرتبھ اور سب سے بڑا ھے۔[8]
[1] اکثر الخیر فی النساء ، " من لا یحضره الفقیھ ، ج ۳ ، ص ۳۸۵۔
[2] "الکافی" ، ج ۵ ص ۳۳۲۔
[3] "مستدرک الوسائل" ، ج ۱۴، ص ۱۵۰۔
[4] "مستدرک الوسائل" ، ج ۱۴، ص ۲۵۲
[5] "تھذیب الاحکام ، ج ۷ ص ۴۰۰۔
[6] " مستدرک الوسائل " ج ۱۴، ص ۱۶۵۔
[7] تفسیر برھان ، ج ۱ ص ۳۶۷۔( بھ نقل از تفسیر افضل ، ج ۱ ص ۵۳۲)
[8] بر گرفته از تفسیر نمونھ ، ج ۳ ص ۴۱۱، ۴۱۶۔