تاریخی اور روائی منابع سے پته چلتا هے که انسان کی آج کی نسل نه هابیل سے اور نه هی قابیل سے بلکه جناب آدم کے شیث یا هبۃ الله نامی ایک بیٹے سے هے۔
البته جناب آدم کی اولاد کے سلسله میں اسلامی دانشوروں نے دو نظریه پیش کئے هیں اور دونوں طرح کے دانشوروں نے اپنے مدعی کے لئے قرآن اور روایات سے استدلال پیش کیا هے یهاں اختصار کے ساتھ ان نظریوں کو بیان کیا جاتا هے:
۱۔ بھائی نے بهن کے ساتھ شادی کی هے کیونکه اس وقت تک بھائی بهن کی شادی کے لئے الله کی طرف سے حرمت کا حکم نازل نهیں هوا تھا اور انسانی نسل کے باقی رهنے کے لئے اس کے علاوه کو ئی چاره بھی نه تھا لهذا اس میں کوئی حرج بھی نهیں هے۔
۲۔ کیونکه ایک دوسرے کے ساﺘﮭ جناب آدم کی اولاد کی شادی ممکن نهیں تھی اس لئے انھوں نے زمین پر موجود دوسری نسل کی دوشیزاؤں سے شادی کی پھر جب ان کی اولادیں آپس میں چچازاد هوگئیں تو ان کے درمیان شادی کا سلسله چل نکلا۔ اس نظریه کی بھی بعض روایتیں تائید کرتی هیں ؛ کیونکه جناب آدم کی نسل روئے زمین پر پهلی نسل نهیں تھی بلکه اس سے پهلے بھی زمین پر انسان ره چکے تھے۔ [i]
البته ظاهرا پهلا نظریه قرآن سے زیاده قریب هے۔
تاریخی اور روائی منابع بتاتے هیں که انسانی نسل حضرت آدم کے شیث یا هبۃ الله نامی تیسرے فرزند سے چلی؛ کیونکه جناب هابیل تو قابیل کے هاتھوں قتل هوچکے تھے اور قابیل گناهوں کے سبب (حضرت آدم کی) بے توجهی کا شکار تھا اور فسق و فجور میں مبتلا هوگیا تھا اور اس کی اولاد بھی اس کے اعمال و افکار کی پیروی کررهی تھی اور بالآخر اپنی نافرمانی اور سرکشی کے سبب طوفان نوح میں غرق هوگئی۔[1]
البته جناب آدم کی اولاد کی شادی کا مسئله ایک پیچیده مسئله هے جس کو لیکر هماری تاریخ اور روایات میں مختلف اور متعارض احادیث وارد هوئی هیں۔
کچھ لوگوں نے سوره نساء[2] کی پهلی آیت سے استفاده کرتے هوئے کها هے که نسل آدم صرف جناب آدم اور جناب حوا کے ذریعه پھیلی هے اور اس میں کسی نے ثالثی نهیں کی هے۔
اس بات کا لازمه یه هے که جناب آدم کی اولاد نے (بھائی بهن کی شکل میں) آپس میں شادی کی هے؛ کیونکه اگر انھوں نے کسی اور نسل میں شادی کی هو تو قرآن کا فرمان [منهما] صادق نهیں هوگا۔
یه بات متعدد احادیث میں وارد هوئی هے اور زیاده حیرت انگیز نهیں هے لهذا ائمه علیهم السلام کی بعض احادیث کے مطابق یه نکاح حلال تھا کیونکه اس وقت تک بھائی بهن کی شادی کے حرام هونے حکم نازل نهیں هوا تھا۔
ظاهر هے که کوئی کام اسی وقت حرام هوسکتا هے جب الله کی طرف سے اس کا حکم نازل هو۔ اس میں حرج هے که کسی ضرورت مصلحت کے تحت ایک زمانے میں کوئی کام حلال هو اور بعد میں حرام هوجائے؟
احتجاج میں آیا هے که امام سجاد علیه السلام نے قرشی شخص سے گفتگو کے درمیان فرمایا: هابیل نے قابیل کی همزاد بهن لوزا سے اور قابیل نے هابیل کی همزاد بهن اقلیما سے شادی کی۔ راوی کهتا هے: قرشی نے پوچھا کیا هابیل اور قابیل نے اپنی بهنوں کو حامله کیا؟ امام نے فرمایا: هاں۔ قرشی نے کها یه کام تو آج مجوسی انجام دیتے هیں آپ نے فرمایا اگر مجوسی یه کام کرتے هیں اور هم اس کو باطل سمجھتے هیں تو یه اس وجه سے هے که یه لوگ الله کی طرف سے حرمت کے حکم کے بعد ایسا کرتے هیں، پھر فرمایا: اس بات کا انکار نه کرو کیونکه اس وقت اس کا صحیح نه هونا اور آج اس کا صحیح هونا الله کے حکم کے سبب هے، کیا الله نے جناب آدم کی زوجه کو خود انھیں سے خلق نهیں فرمایا؟ اس کے باوجود همیں ملتا هے که اس نے جناب حوا کو جناب آدم کے لئے حلال قرار دیا لهذا یه حکم اولاد آدم کے لئے اس وقت کا حکم تھا اور انھیں سے مخصوص تھا اور بعد میں الله نے حرمت کے حکم کو نازل فرمایا۔[3]
لیکن اس نظریه کے مقابلے میں کچھ اور لوگ ایسی احادیث کو مد نظر رکھتے هیں جن میں یه تصریح کی گئی هے که اولاد آدم نے آپس میں هرگز شادی نهیں کی۔[4] ان لوگوں کا کهنا هے که اولاد آدم نے ان دوشیزاؤں سے شادی کی جو زمین هی پر ایک اور نسل سے تھیں۔[5] علمی تحقیقات بھی یه بات بیان کرتی هیں که انسان کئی ملین سالوں سے زمین پر ره رها هے جبکه حضرت آدم کی خلقت کو ابھی زیاده عرصه نهیں گزرا هے۔ لهذا یه بات ماننا هی پڑے گی که حضرت آدم سے پهلے بھی کچھ لوگ زمین پر ره رهے تھے جو آدم کی پیدائش کے وقت نابودی کے دهانے پر تھے، اگر اولاد آدم نے انھیں نسل کے کسی فرد کے ساتھ شادی کی هو تو اس میں کیا حرج هےَ
لیکن مذکوره آیت سے یه بات میل نهیں کھاتی، اور اصول فقه کے قواعد کی رو سے اگر احادیث آپس میں متعارض هوں تو ان آیات کو خٓذ کرنا چاهئے جو قرآن کے موافق هوں۔
لهذا نتیجه یه هوا که پهلا نظریه قرآن سے زیاده موافق هے، جیسا که کوعلامه طبابائی نے پهلے نظریه کی تصدیق کی هے اور اسی و قبول فرمایا هے۔[6] مزید معلومات کے لئے: تفیسر المیزان، ج۴، ص۲۴۵کے بعد، برهان، در المنثور اور انبیاء کے قصوں کی کتب۔[7]
[1] قال سالم ابن ابی الجعد لما قتل هابیل مکث آدم سنۃ حزینا لا یضحک ثم اتی فقال حیاک الله و بیاک ای اضحک قالوا و لما مضی من عمر آدم مئۃ و ثلاثون سنۃ و ذلک بعد قتل هابیل بخمس سنین ولدت له الحواء شیثا و تفسیره هبۃ الله یعنی انه خلف من هابیل و کان وصی آدم و ولی عهده و اما هابیل فقیل له اذهب طریدا شریدا فزعا مزعورا لایامن من یراه و ذهب الی عدن من الیمن فاتاه ابلیس فقال انما اکلت النار قربان هابیل لانه کان یعبدها فانصب انت ایضا نارا تکون لک لعقبک فبنی بیت نار و هو اول من نصب النار و عبدها و اتخذ اولاده آلات اللهو من الیراع و التنبور و الزامیر والعیدان و انهمکوا فی اللهو اشرب الخمر و عبادۃ النار والزنا والفواحش حتی غرقهم الله ایام نوح بالطوفان و بقی نسل شیث۔ بحار الانوار، ج۱۱، ص۲۲۰۔
[2] خَلَقَکمُ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَْا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنهُْمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَ نِسَاءً؛ تمهیں ایک ذات سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے؛ نساء/۱
[3] تفسیر المیزان، ترجمه، ج۴، ص۲۳۶
[4] علل الشرائع: ابن الولید عن احمد ابن ادریس و محمد عطار معا عن الاشعری عن احمد ابن احسن الفضال عن احمد ابن ابراهیم ابن عمار عن ابن نوبۃ عن زرارۃ قال سئل ابو عبد الله کیف بدا النسل من ذریۃ آدم ع فانا عندنا اناسا یقولون ان الله تبارک و تعالی اوحی الی آدم ع ان یزوج بناتی من بنیه و ان هذه الخلق کلهم اصله من الاخوۃ و الاخوات قال ابو عبد الله ع سبحان الله تعالی عن ذلک علوا کبیرا یقول من یقول هذا ان الله عز و جل جعل اصل صفوۃ خلقه و احبائه و انبیائه و رسله والمؤمنین والمؤمنات و المسلمین و المسلمات من حرام و لم یکن له من القدرۃ ما یخلقهم من الحلال و ۡد اخذ میثاقهم علی الحلال و الطهر الطیب و الله لقد تبینت۔
[5] توحید، ص۲۷۷، طبع طهران، ابن میثم، ج۱، س۱۷۳؛ خصال ج۲، ص۶۵۲، ح۵۴؛ ایضا ج۲، ص۶۳۹، ح۱۴؛ ایضا ج۲، ص۳۵۸، ح۴۵؛ مزید معلومات کے لئے: اشاریه، نوع بشر کی عمر قرآن اور کتاب مقدس کی روشنی میں، سوال ۵۱۶ (سائٹ )
[6] المیزان، ج۳، ص۲۴۴تا ۲۴۹، با اقتباس؛ المیزان، ج۴، ص۲۴۵تا ۲۵۳، بااقتباس، بنیاد علمی علامه طباطبائی۔
[7] دیکھئے: مرکز واحد پاسخ به سوالات دفتر تبلیغات اسلامی، سوال: آغاز خلقت میں هابیل قابیل کے هونے کے باوجود انسانی نسل کیسے پھیلی؟