سائٹ کے کوڈ
fa6475
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
49261
سوال کا خلاصہ
تصوف کیا ہے؟ کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک صوفی تھے ؟
سوال
تصوف کیا ہے؟ کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک صوفی تھے ؟
ایک مختصر
“تصوف” درحقیقت“ صوف” سے ہے اور “صوف” کے معنی پشم﴿ اون ﴾ ہیں۔ یہ ایک ایسا مکتب ہے جس کی بنیاد صوفیوں یا پشمینہ پوشوں نے ڈالی ہے، جو معنوی خود سازی اور ظواہر دنیوی سے دوری کا دعوی کرتے ہیں اور پوری تاریخ میں اس طرز تفکر کے گونا گوں فرقے پیدا ھوئے ہیں۔ “ تصوف” کی تعلیمات کو نہ کلی طور پر قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ سو فیصدی مسترد کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی تعلیمات “ صحیح دینی تعلیمات” اور“ غلط سلیقوں کی بدعتوں” پر مشتمل ایک ترکیب ہے۔ یہ ترکیب غلط ہے، افسوس کہ اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ خود سازی کے مراحل سے گزر کر قرآن مجید کے مطابق صحیح دینی تعلیمات پر عمل کرنے والوں پر، بعض سطحی فکر رکھنے والوں اور ظاہر بینوں کی طرف سے درویش مآبانہ تصوف کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن امام خمینی ﴿رہ﴾ کے بیانات اور اس نظریہ کے بارے میں ان کے موقوف کی تحقیق کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ، جس قدر امام خمینی ﴿رہ﴾ معنوی خودسازی پر تاکید فرماتے ہیں اسی قدر موصوف صوفی نما افراد اور ان کی بدعت پر مشتمل تفکرات کی شدید تنقید کرتے ہیں۔ اس بنا پر، اگر چہ امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک برجستہ عارف شمار ھوتے ہیں، لیکن کسی صورت میں انھیں عام طور پر مشہور نام نہاد صوفی ہونے کا الزام نہیں لگایا جانا جاسکتا ہے۔
تفصیلی جوابات
جواب کی ابتداء میں ہمیں جاننا چاہئیے کہ دین اسلام، ایک ایسا مکتب ہے، جو انسانوں کے لئے دنیا و آخرت میں سعادت و خوش قسمتی کا متمنی ہے اور انسان، اسلامی تعلیمات سے استفادہ کرکے اپنی مادی و معنوی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے آسانی کے ساتھ معلوم ھوسکتی ہے کہ خداوند متعال نے، اپنے بندوں کو دنیا پرستی سے اختناب کرنے اور معنویات اور عالم آخرت کی طرف توجہ کرنے کی دعوت[1] دینے کے ضمن میں اس نکتہ کی طرف بھی نشاندہی کی ہے کہ آخرت کی طرف توجہ کرنا دنیا سے متعلق تمام سرگرمیوں کو تعطیل کرکے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بہانہ کا سبب نہیں بننا چاہئیے، بلکہ دنیوی برکتوں اور نعمتوں سے بھی استفادہ کرنا چاہئیے اور شرعی معیاروں کے تحت روز مرہ فعالیتوں کو عام صورت میں جاری رکھنا چاہئیے اور اسی حالت میں خداوند متعال کو بھی یاد کرنا چاہئیے۔[2]
اس بنا پر، حقیقی مسلمان وہ ہے کہ جو دنیا پرست نہ ھو، لیکن دنیا میں پروردگار عالم کی نعمتوں سے استفادہ کرے اور انھیں آخرت کے لئے اپنا زاد راہ قرار دے اور خداوند متعال سے اپنے لئے دنیا و آخرت کی خیر و فلاح طلب کرے۔[3]
اس وادی میں، ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ جنھوں نے افراط و تفریط کی راہ طے کی ہے اور دین کے صرف ایک پہلو پر توجہ کی ہے اور اس کی دوسری تعلیمات کے بارے میں غفلت سے کام لیا ہے۔
ایسے گروہ میں سے بعض افراد نے دین کے صرف دنیوی پہلو، جیسے: عام نظم و انتظام بر قرار کرنے، حکومت تشکیل دینے، کشاورزی کی فعالیتوں، تجارتی سرگرمیوں اور علم و دانش میں ترقی کرنے کے بارے میں غور کیا ہے، اور لاشعوری طور پر اس حقیقت سے غافل رہے ہیں کہ یہ تمام چیزیں لافانی زندگی بلکہ اس سے برتر یعنی رضائے الہی حاصل کرنے کا پیش خیمہ ہیں اور ان کی بذات خود کوئی قدر و منزلت نہیں ہے۔
ایک دوسرے گروہ کے افراد نے دین اسلام کو صرف معنوی پہلوؤں اور ترک دنیا تک محدود سمجھا ہے اور اجتماعی زندگی کی ضروری اور لازم و ملزوم سرگرمیوں کو ترک کرکے اپنے آپ کو دوسروں کے لئے بوجھ بناتے ہیں اور تعجب کی بات ہے کہ ایسے افراد میں سے بعض لوگ ترک دنیا کے بہانہ سے اپنی دنیا پرستی کی خواہشات کو پورا کرنے کے ہیچھے پڑے ہیں۔
مذکورہ بیان کے پیش نظر ہم آپ کے سوال کی طرف پلٹ کر اس کے جواب کے طور پر مندرجہ ذیل دو محوروں پر تحقیق و بحث کرتے ہیں:
١۔ چونکہ صدر اسلام کی ابتدائی صدیوں کے دوران اونی لباس ارزان ترین لباس شمار ھوتا تھا، اس لئے عام طور پر غریب اور کم درآمد والے افراد اس قسم کے لباس سے استفادہ کرتے تھے۔ اس قسم کا لباس زیب تن کرنا اگر اپنی نفسانی خواہشات سے مقا بلہ اور مبارزہ کرنے اور دنیا کو حقیقی معنوں میں حقیر سمجھنے کے لئے ھوتا، تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوذر غفاری﴿رض﴾ جیسی عظیم شخصیت اور زاہد زمان فرماتے تھے:“ دوپہر اور شام کے لئے روٹی کے دو لقمے اور لباس زیب تن کرنے کے لئے اونی کپڑے کے دوٹکڑے، ایک لونگی کے طور پر اور دوسرے کو شانوں پر رکھنے کے لئے، میرے پاس ھوں، تو مجھے دنیا سے کیا واسطہ ہے؟!”[4]
حضرت ابوذر غفاری﴿۰رض﴾، اپنے اس کلام سے لوگوں کو سنانا چاہتے تھے کہ، ضرورت کی صورت میں انسان کم از کم پر اکتفا کرسکتا ہے، لیکن اپنےدین کو دنیا کے عوض سودا نہیں کرتا اور اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ خداوند متعال کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت ابوذر غفاری﴿رض﴾، حتی جلا وطنی کے دوران بھی اگر چہ مختصر سرمایہ کے مالک تھے، لیکن وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو خود پورا کرتے تھے۔[5]
اس کے بعد مسلمانوں کے ایک گروہ کے افراد، زہد و تقوی اور ترک دنیا کے موضوع کے بارے میں افراط سے کام لے کر اس قدر آگے بڑھے کہ اونی کپڑا زیب تن کرنے کو مسلمانی کا مظہر سمجھ کر، حتی ائمہ اور بزرگان دین کو بھی اس کی رعایت نہ کرنے پر تنقید کا شکار بنانے لگے۔[6] بہ الفاظ دیگر، ایسے افراد نے اسلام کی طرف سے سفارش کئے گئے حقیقی زھد و تقوی کو زھد فروشی اور مرید بازی کی دکان میں تبدیل کیا اور شعوری یا لاشعوری طور پر دنیا کے ایسے پھندے میں پھنس گئے کہ بظاہر اس سے اجتناب کرتے تھے۔!
چونکہ “ تصوف” ایک ایسا لفط ہے، جس کی اصل “ صوف ” اور اس کے معنی اون ہیں اس گروہ کے پشمینہ﴿اون﴾ پوش، رفتہ رفتہ “ صوفیہ” یا“ متصوفہ” کے نام سے پہچاننے لگے اور ان کا مکتب “ تصوف” کے نام سے مشہور ھوا۔ حالیہ صدیوں کے دوران درویش اور “خراباتی” وغیرہ جیسے نام بھی ان افراد کو پہچاننے کے لئے استعمال ھوتے ہیں اور “خانقاہ”، ”می”، “پیر” اور “قلندر” جیسی اصطلاحات بھی ان کے مکتب میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں۔
دوسری جانب، ہمیں جاننا چاہئی کہ “ تصوف” کی تعلیمات میں صرف پشمینہ ﴿اون﴾ پوشی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس مکتب کے مشایخ کی طرف سے ان کے مریدوں کے لئے رفتار و کردار کے دوسرے معیار بھی اعلان کئے گئے ہیں، کہ ان میں سے بعض شرعی اور دینی استناد سے عاری ہیں، لیکن بعض ایسے اعمال بھی پائے جاتے ہیں، جو قرآن مجید اور شرعی قواعد کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سلسلہ میں، بعض اوقات شرعی اصولوں پر مبنی اعمال بھی، دخل و تصرف کے نتیجہ میں ایک بدعت میں تبدیل ھوتے ہیں!
مثال کے طور پر چالیس دن تک اخلاص عمل کا مظاہرہ کرنا، جو روایتوں میں بیان کیا گیا ہے۔[7] اور اس کے نمایاں نتائج نکلتے ہیں، لیکن نام نہاد صوفیوں نے اسے “ چلہ بیٹھنے” میں تبدیل کیا ہے اور اس کے ساتھ کچھ خاص آداب کا اضافہ کیا ہے کہ ان میں سے بعض آداب شرع مقدس کے مطابق نہیں ہیں۔ نتیجہ کے طور پر “ تصوف”، “ صحیح شرعی رفتار” اور“ سلیقہ پر مبنی غلط بدعت” کے ایک مرکب میں تبدیل ھوا ہے۔[8] اس امر کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جو مسلمان خودسازی اور خداوند متعال اور معصومین﴿ع﴾ کی سفارش کئے گئے احکام و دستورات پر عمل کرتے ہیں، کے خلاف بھی بعض ظاہر بین اور کج فہم افراد کی طرف سے “ صوفی گرائی” اور“ درویش مآبی” کا الزام لگایا جاتا ہے۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر، ایک جانب، اگر چہ تصوف کی بعض تعلیمات، جیسے: ظاہر شکل و شمائل قابل اعتماد دینی استناد پر مبنی نہیں ہیں، لیکن “ تصوف” کی تمام تعلیمات کو یکسر مسترد یا تائید نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے ہر حصہ پر الگ سے تحقیق کرنی چاہئیے اور دوسری جانب، یہ مناسب نہیں ہے کہ ہر اس مسلمان پر صوفی گری کا الزام لگایا جائے، جو معنوی پہلو اور خودسازی کے طریقوں پر زیادہ توجہ کرتا ھو۔
۲۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے ابتدائی جوانی سے معنوی خودسازی کی راہ پر قدم رکھا تھا اور انھوں نے اس طریقہ کار کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ رکھا۔ اس لحاظ سے ان کے کلام اور اشعار میں بعض اوقات صوفیوں جیسے مطالب اور اصطلاحیں پائی جاتی ہیں کہ پہلی اور سرسری نگاہ میں ان کا تمائل “ تصوف” کی طرف لگتا ہے، مثال کے طور پر موصوف کے مندرجہ ذیل اشعار:
کشکول فقر شد سبب افتخار ما
ای یار دلفریب بیفزای افتخار
ما ریزه خوار صحبت رند قلندریم
با غمزه ای نواز دل پیر جیره خوار[9]
اور یا:
ای پیر مرا به خانقاهی برسان
یاران همه رفتند براهی برسان[10]
صوفى! ز ره عشق صفا بايد كرد
عهدى كه نمودهاى وفا بايد كرد[11]
اگر چہ ذکورہ اشعار اور ان میں استعمال کی گئ اصطلاحوں سے لگتا ہے کہ موصوف کا تمائل “ تصوف” کی طرف تھا، لیکن جلد بازی میں یکطرفہ فیصلہ نہیں لینا چاہئیے، بلکہ اس امر کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ان اشعار میں استعمال کی گئی اصطلاحات،کچھ ایسے حقائق کی طرف اشارہ ہے، کہ شائد انھیں کھلم کھلا بیان نہیں کیا جاسکتا تھا، ورنہ ہم جانتے ہیں کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ نے اپنی پوری زندگی میں نہ کوئی کشکول اپنے شانوں پر اٹھایا ہے اور نہ کسی خانقاہ میں جاتے تھے اور دوسری جانب موصوف کے دوسرے کلام پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آخری نتیجہ حاصل کیا جاسکے۔ اس سلسلہ میں موصوف کے کچھ اور اشعار پائے جاتے ہیں، جن میں نام نہاد صوفی گرائی کی مخالفت کی گئی ہے، مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحضہ ھوں:
صوفی از وصل دوست بی خبر است
صوفی بی صفا نمی خواهم[12]
اوریا:
عشقت از مدرسۀ و حلقۀ صوفی راندم
بندۀ حلقه بگوش در خمارم کرد[13]
اس کے علاوہ:
با صوفی و با عارف و درویش بجنگیم
پرخاشگر فلسفۀ و علم کلامیم[14]
مذکورہ بظاہر متضاد اشعار کے بارے میں کیا کرنا چاہئیے؟! اور سر انجام، کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ “ تصوف” کو قبول کرتے تھے یا اس سے اجتناب کرتے تھے؟
اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ: چنانچہ پہلے حصہ میں بھی بیان کیا گیا کہ “ تصوف” کی وہ تعلیمات جو شرع مقدس کے مطابق ہیں اور ایک حقیقی مسلمان کو معنوی خودسازی کے لئے ان سے استفادہ کرنا چاہئیے، کی امام خمینی ﴿رہ﴾ تائید فرماتے تھے اور موصوف سفارش کرتے تھے کہ: “ ہمیں اس کا ایمان رکھنا چاہئیے کہ مومن کے ساتھ خدا کے مناجات کیا ہیں۔ مناجات کا ایمان رکھیں، ان کا انکار نہ کریں، یہ نہ کہیں کہ یہ درویشوں کا کلام ہے۔ یہ تمام مسائل قرآن مجید میں ہیں اور ظرافت کے ساتھ ہماری دعاؤں کی کتابوں میں ائمہ اطہار ﴿ع﴾ سے نقل کئے گئے ہیں، یہ تمام مسائل موجود ہیں، قرآن مجید کی جیسی لطافت میں نہیں، پھر بھی اچھی صورت میں ہیں ۔ ۔ ۔جن لوگوں نے بعد میں ان اصطلاحات سے استفادہ کیا ہے، شعوری یا لاشعوری طور پر انھوں نے انھیں قرآن مجید اور احادیث سے لیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ ان کی اصل سند کو بھی نہ جانتے ھوں۔”[15]
اس بنا پر، امام خمینی ﴿رہ﴾ کے نظریہ میں “ صوفی” اور “ درویش” کی نشانیوں کی موجودگی کی وجہ سے ڈر کر معنوی خودسازی کو نہیں چھوڑنا چاہئیے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ صوفیوں کے تمام رفتار و کردار کی تائید کرتے ہیں۔
امام خمینی ﴿رہ﴾ نے انقلاب سے دسیوں سال پہلے اپنی جوانی کے زمانہ ﴿١۹۳۸ء﴾ میں تحریر کئے گئے اپنے ایک خط میں یوں سفارش کی ہے:
﴿نام نہاد﴾ “ ارباب تصوف و عرفان کی دلفریب باتوں پر خوشحال نہ ھونا، اور خرقہ پوشوں کے دعوی اور بیہودہ باتوں کے فریب میں نہ آنا۔[16] اور دسیوں سال بعد ١۹۸۴ء میں اپنے بیٹے حجتہ السلام والمسلمین سید احمد خمینی کو خودسازی کے بارے میں تاکید کے ساتھ سفارش کرتے ہیں، لیکن اس کے ضمن میں سفارش فرماتے ہیں:“ جو کچھ میں نے کہا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاشرہ کی خدمت انجام دینے سے کنارہ کشی کروگے اور گوشہ نشینی کرکے لوگوں کے لئے بوجھ بن جاؤ گے، یہ جاہلوں یا دکاندار درویشوں کی صفات ہیں۔[17]
امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک دوسری سفارش میں اپنی بہو﴿ سید احمد خمینی کی شریک حیات﴾ سے یوں خطاب فرماتے ہیں :“ میں مدعیوں کی صفائی پیش کرنا نہیں چاہتا ھوں کہ: ممکن ہے ان کا خرقہ آگ کا مستحق ھو، میں چاہتا ھوں کہ تم اصل معنی اور معنویت کا انکار نہ کروگی، وہی معنویت کہ جس کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے اور اس کے مخالفوں نے ان سے چشم پوشی کی ہے یا جاہلانہ توجیہ کی ہے۔”[18]
امام خمینی ﴿رہ﴾ نے افراط و تفریط پر مبنی نظریات کی تنقید کی ہے اور اعمال کے قبول ھونے کے معیار کو افراد کی نیتیں اور معنوی محرکات جانتے ہیں، نہ ان کی خاص رفتار اور ظاہری شکل و شمائل، اس تعبیر کے ساتھ فرماتے ہیں:“ میرے بیٹے! صوفیانہ گوشہ نشینی، حق سے ملحق ھونے کی دلیل نہیں ہے، اور نہ معاشرہ اور حکومت تشکیل دینے کے لئے قدم بڑھانا، اس کی دلیل ہے۔ حق سے دور ھونا، ان کے اعمال و محرکات میں مضمر ہے، ممکن ہے عابد و زاھد بھی ابلیس کے پھندے میں پھنس جائیں۔”[19]
اس لئے اگر ہم امام خمینی ﴿رہ﴾ کا کوئی ایسا کلام دیکھیں جس سے ظاہری “ تصوف” اور “ درویش مآبی” کی مہک آتی ھو، تو ہمیں اسے نام نہاد صوفیوں اور درویش مآبوں کی تائید نہیں سمجھنا چاہئیے بلکہ ہمیں اس کی قرآن و سنت کے مطابق جانچ کرنی چاہئیے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے آسانی کے ساتھ معلوم ھوسکتی ہے کہ خداوند متعال نے، اپنے بندوں کو دنیا پرستی سے اختناب کرنے اور معنویات اور عالم آخرت کی طرف توجہ کرنے کی دعوت[1] دینے کے ضمن میں اس نکتہ کی طرف بھی نشاندہی کی ہے کہ آخرت کی طرف توجہ کرنا دنیا سے متعلق تمام سرگرمیوں کو تعطیل کرکے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بہانہ کا سبب نہیں بننا چاہئیے، بلکہ دنیوی برکتوں اور نعمتوں سے بھی استفادہ کرنا چاہئیے اور شرعی معیاروں کے تحت روز مرہ فعالیتوں کو عام صورت میں جاری رکھنا چاہئیے اور اسی حالت میں خداوند متعال کو بھی یاد کرنا چاہئیے۔[2]
اس بنا پر، حقیقی مسلمان وہ ہے کہ جو دنیا پرست نہ ھو، لیکن دنیا میں پروردگار عالم کی نعمتوں سے استفادہ کرے اور انھیں آخرت کے لئے اپنا زاد راہ قرار دے اور خداوند متعال سے اپنے لئے دنیا و آخرت کی خیر و فلاح طلب کرے۔[3]
اس وادی میں، ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ جنھوں نے افراط و تفریط کی راہ طے کی ہے اور دین کے صرف ایک پہلو پر توجہ کی ہے اور اس کی دوسری تعلیمات کے بارے میں غفلت سے کام لیا ہے۔
ایسے گروہ میں سے بعض افراد نے دین کے صرف دنیوی پہلو، جیسے: عام نظم و انتظام بر قرار کرنے، حکومت تشکیل دینے، کشاورزی کی فعالیتوں، تجارتی سرگرمیوں اور علم و دانش میں ترقی کرنے کے بارے میں غور کیا ہے، اور لاشعوری طور پر اس حقیقت سے غافل رہے ہیں کہ یہ تمام چیزیں لافانی زندگی بلکہ اس سے برتر یعنی رضائے الہی حاصل کرنے کا پیش خیمہ ہیں اور ان کی بذات خود کوئی قدر و منزلت نہیں ہے۔
ایک دوسرے گروہ کے افراد نے دین اسلام کو صرف معنوی پہلوؤں اور ترک دنیا تک محدود سمجھا ہے اور اجتماعی زندگی کی ضروری اور لازم و ملزوم سرگرمیوں کو ترک کرکے اپنے آپ کو دوسروں کے لئے بوجھ بناتے ہیں اور تعجب کی بات ہے کہ ایسے افراد میں سے بعض لوگ ترک دنیا کے بہانہ سے اپنی دنیا پرستی کی خواہشات کو پورا کرنے کے ہیچھے پڑے ہیں۔
مذکورہ بیان کے پیش نظر ہم آپ کے سوال کی طرف پلٹ کر اس کے جواب کے طور پر مندرجہ ذیل دو محوروں پر تحقیق و بحث کرتے ہیں:
١۔ چونکہ صدر اسلام کی ابتدائی صدیوں کے دوران اونی لباس ارزان ترین لباس شمار ھوتا تھا، اس لئے عام طور پر غریب اور کم درآمد والے افراد اس قسم کے لباس سے استفادہ کرتے تھے۔ اس قسم کا لباس زیب تن کرنا اگر اپنی نفسانی خواہشات سے مقا بلہ اور مبارزہ کرنے اور دنیا کو حقیقی معنوں میں حقیر سمجھنے کے لئے ھوتا، تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوذر غفاری﴿رض﴾ جیسی عظیم شخصیت اور زاہد زمان فرماتے تھے:“ دوپہر اور شام کے لئے روٹی کے دو لقمے اور لباس زیب تن کرنے کے لئے اونی کپڑے کے دوٹکڑے، ایک لونگی کے طور پر اور دوسرے کو شانوں پر رکھنے کے لئے، میرے پاس ھوں، تو مجھے دنیا سے کیا واسطہ ہے؟!”[4]
حضرت ابوذر غفاری﴿۰رض﴾، اپنے اس کلام سے لوگوں کو سنانا چاہتے تھے کہ، ضرورت کی صورت میں انسان کم از کم پر اکتفا کرسکتا ہے، لیکن اپنےدین کو دنیا کے عوض سودا نہیں کرتا اور اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ خداوند متعال کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت ابوذر غفاری﴿رض﴾، حتی جلا وطنی کے دوران بھی اگر چہ مختصر سرمایہ کے مالک تھے، لیکن وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو خود پورا کرتے تھے۔[5]
اس کے بعد مسلمانوں کے ایک گروہ کے افراد، زہد و تقوی اور ترک دنیا کے موضوع کے بارے میں افراط سے کام لے کر اس قدر آگے بڑھے کہ اونی کپڑا زیب تن کرنے کو مسلمانی کا مظہر سمجھ کر، حتی ائمہ اور بزرگان دین کو بھی اس کی رعایت نہ کرنے پر تنقید کا شکار بنانے لگے۔[6] بہ الفاظ دیگر، ایسے افراد نے اسلام کی طرف سے سفارش کئے گئے حقیقی زھد و تقوی کو زھد فروشی اور مرید بازی کی دکان میں تبدیل کیا اور شعوری یا لاشعوری طور پر دنیا کے ایسے پھندے میں پھنس گئے کہ بظاہر اس سے اجتناب کرتے تھے۔!
چونکہ “ تصوف” ایک ایسا لفط ہے، جس کی اصل “ صوف ” اور اس کے معنی اون ہیں اس گروہ کے پشمینہ﴿اون﴾ پوش، رفتہ رفتہ “ صوفیہ” یا“ متصوفہ” کے نام سے پہچاننے لگے اور ان کا مکتب “ تصوف” کے نام سے مشہور ھوا۔ حالیہ صدیوں کے دوران درویش اور “خراباتی” وغیرہ جیسے نام بھی ان افراد کو پہچاننے کے لئے استعمال ھوتے ہیں اور “خانقاہ”، ”می”، “پیر” اور “قلندر” جیسی اصطلاحات بھی ان کے مکتب میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں۔
دوسری جانب، ہمیں جاننا چاہئی کہ “ تصوف” کی تعلیمات میں صرف پشمینہ ﴿اون﴾ پوشی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس مکتب کے مشایخ کی طرف سے ان کے مریدوں کے لئے رفتار و کردار کے دوسرے معیار بھی اعلان کئے گئے ہیں، کہ ان میں سے بعض شرعی اور دینی استناد سے عاری ہیں، لیکن بعض ایسے اعمال بھی پائے جاتے ہیں، جو قرآن مجید اور شرعی قواعد کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سلسلہ میں، بعض اوقات شرعی اصولوں پر مبنی اعمال بھی، دخل و تصرف کے نتیجہ میں ایک بدعت میں تبدیل ھوتے ہیں!
مثال کے طور پر چالیس دن تک اخلاص عمل کا مظاہرہ کرنا، جو روایتوں میں بیان کیا گیا ہے۔[7] اور اس کے نمایاں نتائج نکلتے ہیں، لیکن نام نہاد صوفیوں نے اسے “ چلہ بیٹھنے” میں تبدیل کیا ہے اور اس کے ساتھ کچھ خاص آداب کا اضافہ کیا ہے کہ ان میں سے بعض آداب شرع مقدس کے مطابق نہیں ہیں۔ نتیجہ کے طور پر “ تصوف”، “ صحیح شرعی رفتار” اور“ سلیقہ پر مبنی غلط بدعت” کے ایک مرکب میں تبدیل ھوا ہے۔[8] اس امر کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جو مسلمان خودسازی اور خداوند متعال اور معصومین﴿ع﴾ کی سفارش کئے گئے احکام و دستورات پر عمل کرتے ہیں، کے خلاف بھی بعض ظاہر بین اور کج فہم افراد کی طرف سے “ صوفی گرائی” اور“ درویش مآبی” کا الزام لگایا جاتا ہے۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر، ایک جانب، اگر چہ تصوف کی بعض تعلیمات، جیسے: ظاہر شکل و شمائل قابل اعتماد دینی استناد پر مبنی نہیں ہیں، لیکن “ تصوف” کی تمام تعلیمات کو یکسر مسترد یا تائید نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے ہر حصہ پر الگ سے تحقیق کرنی چاہئیے اور دوسری جانب، یہ مناسب نہیں ہے کہ ہر اس مسلمان پر صوفی گری کا الزام لگایا جائے، جو معنوی پہلو اور خودسازی کے طریقوں پر زیادہ توجہ کرتا ھو۔
۲۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے ابتدائی جوانی سے معنوی خودسازی کی راہ پر قدم رکھا تھا اور انھوں نے اس طریقہ کار کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ رکھا۔ اس لحاظ سے ان کے کلام اور اشعار میں بعض اوقات صوفیوں جیسے مطالب اور اصطلاحیں پائی جاتی ہیں کہ پہلی اور سرسری نگاہ میں ان کا تمائل “ تصوف” کی طرف لگتا ہے، مثال کے طور پر موصوف کے مندرجہ ذیل اشعار:
کشکول فقر شد سبب افتخار ما
ای یار دلفریب بیفزای افتخار
ما ریزه خوار صحبت رند قلندریم
با غمزه ای نواز دل پیر جیره خوار[9]
اور یا:
ای پیر مرا به خانقاهی برسان
یاران همه رفتند براهی برسان[10]
صوفى! ز ره عشق صفا بايد كرد
عهدى كه نمودهاى وفا بايد كرد[11]
اگر چہ ذکورہ اشعار اور ان میں استعمال کی گئ اصطلاحوں سے لگتا ہے کہ موصوف کا تمائل “ تصوف” کی طرف تھا، لیکن جلد بازی میں یکطرفہ فیصلہ نہیں لینا چاہئیے، بلکہ اس امر کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ان اشعار میں استعمال کی گئی اصطلاحات،کچھ ایسے حقائق کی طرف اشارہ ہے، کہ شائد انھیں کھلم کھلا بیان نہیں کیا جاسکتا تھا، ورنہ ہم جانتے ہیں کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ نے اپنی پوری زندگی میں نہ کوئی کشکول اپنے شانوں پر اٹھایا ہے اور نہ کسی خانقاہ میں جاتے تھے اور دوسری جانب موصوف کے دوسرے کلام پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آخری نتیجہ حاصل کیا جاسکے۔ اس سلسلہ میں موصوف کے کچھ اور اشعار پائے جاتے ہیں، جن میں نام نہاد صوفی گرائی کی مخالفت کی گئی ہے، مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحضہ ھوں:
صوفی از وصل دوست بی خبر است
صوفی بی صفا نمی خواهم[12]
اوریا:
عشقت از مدرسۀ و حلقۀ صوفی راندم
بندۀ حلقه بگوش در خمارم کرد[13]
اس کے علاوہ:
با صوفی و با عارف و درویش بجنگیم
پرخاشگر فلسفۀ و علم کلامیم[14]
مذکورہ بظاہر متضاد اشعار کے بارے میں کیا کرنا چاہئیے؟! اور سر انجام، کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ “ تصوف” کو قبول کرتے تھے یا اس سے اجتناب کرتے تھے؟
اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ: چنانچہ پہلے حصہ میں بھی بیان کیا گیا کہ “ تصوف” کی وہ تعلیمات جو شرع مقدس کے مطابق ہیں اور ایک حقیقی مسلمان کو معنوی خودسازی کے لئے ان سے استفادہ کرنا چاہئیے، کی امام خمینی ﴿رہ﴾ تائید فرماتے تھے اور موصوف سفارش کرتے تھے کہ: “ ہمیں اس کا ایمان رکھنا چاہئیے کہ مومن کے ساتھ خدا کے مناجات کیا ہیں۔ مناجات کا ایمان رکھیں، ان کا انکار نہ کریں، یہ نہ کہیں کہ یہ درویشوں کا کلام ہے۔ یہ تمام مسائل قرآن مجید میں ہیں اور ظرافت کے ساتھ ہماری دعاؤں کی کتابوں میں ائمہ اطہار ﴿ع﴾ سے نقل کئے گئے ہیں، یہ تمام مسائل موجود ہیں، قرآن مجید کی جیسی لطافت میں نہیں، پھر بھی اچھی صورت میں ہیں ۔ ۔ ۔جن لوگوں نے بعد میں ان اصطلاحات سے استفادہ کیا ہے، شعوری یا لاشعوری طور پر انھوں نے انھیں قرآن مجید اور احادیث سے لیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ ان کی اصل سند کو بھی نہ جانتے ھوں۔”[15]
اس بنا پر، امام خمینی ﴿رہ﴾ کے نظریہ میں “ صوفی” اور “ درویش” کی نشانیوں کی موجودگی کی وجہ سے ڈر کر معنوی خودسازی کو نہیں چھوڑنا چاہئیے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ صوفیوں کے تمام رفتار و کردار کی تائید کرتے ہیں۔
امام خمینی ﴿رہ﴾ نے انقلاب سے دسیوں سال پہلے اپنی جوانی کے زمانہ ﴿١۹۳۸ء﴾ میں تحریر کئے گئے اپنے ایک خط میں یوں سفارش کی ہے:
﴿نام نہاد﴾ “ ارباب تصوف و عرفان کی دلفریب باتوں پر خوشحال نہ ھونا، اور خرقہ پوشوں کے دعوی اور بیہودہ باتوں کے فریب میں نہ آنا۔[16] اور دسیوں سال بعد ١۹۸۴ء میں اپنے بیٹے حجتہ السلام والمسلمین سید احمد خمینی کو خودسازی کے بارے میں تاکید کے ساتھ سفارش کرتے ہیں، لیکن اس کے ضمن میں سفارش فرماتے ہیں:“ جو کچھ میں نے کہا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاشرہ کی خدمت انجام دینے سے کنارہ کشی کروگے اور گوشہ نشینی کرکے لوگوں کے لئے بوجھ بن جاؤ گے، یہ جاہلوں یا دکاندار درویشوں کی صفات ہیں۔[17]
امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک دوسری سفارش میں اپنی بہو﴿ سید احمد خمینی کی شریک حیات﴾ سے یوں خطاب فرماتے ہیں :“ میں مدعیوں کی صفائی پیش کرنا نہیں چاہتا ھوں کہ: ممکن ہے ان کا خرقہ آگ کا مستحق ھو، میں چاہتا ھوں کہ تم اصل معنی اور معنویت کا انکار نہ کروگی، وہی معنویت کہ جس کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے اور اس کے مخالفوں نے ان سے چشم پوشی کی ہے یا جاہلانہ توجیہ کی ہے۔”[18]
امام خمینی ﴿رہ﴾ نے افراط و تفریط پر مبنی نظریات کی تنقید کی ہے اور اعمال کے قبول ھونے کے معیار کو افراد کی نیتیں اور معنوی محرکات جانتے ہیں، نہ ان کی خاص رفتار اور ظاہری شکل و شمائل، اس تعبیر کے ساتھ فرماتے ہیں:“ میرے بیٹے! صوفیانہ گوشہ نشینی، حق سے ملحق ھونے کی دلیل نہیں ہے، اور نہ معاشرہ اور حکومت تشکیل دینے کے لئے قدم بڑھانا، اس کی دلیل ہے۔ حق سے دور ھونا، ان کے اعمال و محرکات میں مضمر ہے، ممکن ہے عابد و زاھد بھی ابلیس کے پھندے میں پھنس جائیں۔”[19]
اس لئے اگر ہم امام خمینی ﴿رہ﴾ کا کوئی ایسا کلام دیکھیں جس سے ظاہری “ تصوف” اور “ درویش مآبی” کی مہک آتی ھو، تو ہمیں اسے نام نہاد صوفیوں اور درویش مآبوں کی تائید نہیں سمجھنا چاہئیے بلکہ ہمیں اس کی قرآن و سنت کے مطابق جانچ کرنی چاہئیے۔
[1] انعام، 32؛ یونس، 24؛ عنکبوت، 64؛ محمد، 36؛ حدید، 20 و صدها آیه دیگر.
[2] عراف، 32؛ بقره، 168و 172؛ مائده، 88؛ انعام، 141؛ ملک، 15 و ...
[3] بقره، 201، "ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة و قنا عذاب النار".
[4] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 2، ص 134، ح 17، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ش.
[5] مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 22، ص 429، ح 37، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ق.
[6] کافی، ج 5، ص 65، ح 1.
[7] ایضا، ج 2، ص 16، ح 6.
[8] تصوف کی پیدائش اور اسکے پھیلاؤ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ڈاکٹر عبدالحسین زرین کی تالیف شدہ کتاب :“ جستجودرتصوف ایران ” کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
[9] بادۀ عشق، ص 40، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، 1368 ش.
[10] ایضا، ص 77.
[11] صحیفه امام، ج 18، ص 444، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، 1386 ش، چاپ چهارم.
[12] بادۀ عشق، ص 29.
[13] ایضا، ص 33.
[14] ایضا، ص 55.
[15]صحیفه امام، ج 17، ص 458.
[16]صحیفه امام، ج 1، ص 18.
[17] صحیفه امام، ج 18، ص 511."کل بر خلق خدا" به معنای سربار جامعه و "جاهلان متنسک" به معنای افرادی هستند که بدون دانش کافی،
[18] صحیفه امام، ج 18، ص 453.
[19] صحیفه امام، ج 18، ص 512.