جنات، ایک ایسی مخلوق ہے، جس کی خلقت کے بارے میں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے :" اور جن کو ہم نے اس {خلقت آدم} سے پہلے گرم اور دہکتی آگ سے پیدا کیا ہے- " اس بنا پر جنات حقیقی مخلوقات ہیں، جن کی ہدایت کے لئے کچھ ا نبیاء {ع} کو بھیجا گیا ہے اور وہ انسان کے ما نند ، خدا کی عبادت کرنے کے لئے مامور ہیں اور خدا کی اطاعت یا نافرمانی کی وجہ سے مسلمانوں اور کافروں میں تقسیم ھوتے ہیں- ابلیس بھی جنات میں سے تھا، جس نے خلقت کی داستان میں حضرت آدم {ع} کو سجدہ نہیں کیا-
خدا کے اذن سے نقصان پہنچانا :
خدا کی اجازت سے نقصان پہنچانا اس معنی میں ہے کہ، اس دنیا میں تمام طاقتوں کا سرچشمہ پروردگار کی طاقت ہے ، حتی کہ آگ کا جلنا اور تلوار کا کاٹنا اس کی اجازت اور حکم کے بغیرممکن نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ساحر خدا کے ارادہ کے خلاف خلقت میں مداخلت کرسکے اور ایسا نہیں ہے کہ خدا کو اپنی حکومت کے قلمرو میں محدود کرکے رکھ دے، بلکہ یہ خصوصیات اور نتائج ہیں جو، پروردگار نے مخلوقات میں قرار دئے ہیں، ان میں سے بعض کا جائز استفادہ اور بعض کا نا جائز استفادہ کیا جاتا ہے-
" دیو" ایک حقیقت ہے یا خیال؟
فارسی لغت میں ، دیو ایک متوہم مخلوق کو کہا جاتا ہے، جو ظاہری خصوصیات کے لحاظ سے ، بے مثال ہے اور شیطان کی نسل سے ہے – لیکن اگر اس سے مراد" اسم خاص" ھو ، تو پھر مراد ابلیس ہے-[1] جس چیزکو آپ کے سوال میں "دیو" کے نام سے یاد کیا گیا ہے وہ قرآن مجید کی لغت میں "جن" ہے- لفظ جن کے معنی، اصل میں، وہ چیز ہے جو آنکھوں سے اوجھل ھو-[2]جن ایک ایسی مخلوق ہے ، کہ قرآن مجید ، اس کی خلقت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے-" اور جن کو ہم نے اس {خلقت آدم} سے پہلے گرم اور دھکتی آگ سے پیدا کیا ہے-"[3] اس بنا پر "جن" حقیقی مخلوقات میں سے ہیں اور ان کی ہدایت کے لئے کئی انبیاء بھیجے گئے ہیں[4] اور انسانوں کے مانند خدا کی عبادت کرنے پر مامور ہیں[5] اور حکم خدا کی اطاعت یا نا فرمانی کے نتیجہ میں کافر اور مسلمان میں تقسیم ھوتے ہیں-[6] ابلیس بھی جنات میں سے ہے جس نے خلقت کی داستان میں حضرت آدم {ع} کو سجدہ نہیں کیا تھا-[7]
البتہ بعض اوقات عام اصطلاح میں خیالی مخلوقات، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، کا نام رکھنے کے لئے لفظ "دیو" سے استفادہ کیا جاتا ہے ، لیکن جو کچھ اس آیت اوراس کے مشابہ آیات اور آئمہ معصومین{ع} کی روایات میں "جن" کے بارے میں آیا ہے، وہ سب ایک حقیقی مخلوق سے متعلق ہے-
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۲کے مطابق یہود، سحر و جادو کی پیروی کرتے تھے اوراسے دو منابع سے حاصل کرتے تھے :۱
۱ - ا ن شیاطین سے جو حضرت سلیمان {ع} کے زمانہ میں تھے اور برے کام انجام دینے کےلئے لوگوں کو سحر سکھاتے تھے-
۲-دوفرشتوں کی تعلیمات سے جو زمین پر آئے تھے اور لوگوں کو بطلان سحر سکھاتے تھے-[8]
اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال ، دو فرشتوں،[9] {جو جنات اور بقول آپ کے"دیو" میں سے نہیں تھے اور "ہاروت" اور "ماروت" کے نام سے تھے} کا نام لیتا ہے، جو لوگوں کو کچھ مصلحتوں کے پیش نظر سحر سکھاتے تھے، لیکن وہ لوگ ان دونوں فرشتوں سے ایسے مطالب سیکھتے تھے جن کے ذریعہ لوگوں میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرسکیں-
پس، اولا: آپ کے سوال کے برعکس، لوگوں نے دیو {جنات} سے ایسی تعلیم حاصل نہیں کی ہے، بلکہ دو فرشتے ، لوگوں کو تعلیم دینے پر ما مور تھے- ثانیا: قرآن مجید یہ نہیں فرماتا ہے کہ یہ دوفرشتے لوگوں کو میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کا طریقہ سکھاتے تھے، بلکہ فرماتا ہے:" لوگ ان سے میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی روش سیکھتے تھے-"[10]
جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ان دو مطالب کے درمیان کافی فرق ہے- کبھی ایک معلم اپنے شاگرد کو بعض ا یسے مطالب سکھاتا ہے، جن سے استفادہ کرکے ترقی کرسکے یا علمی و عملی مشکلات کو حل کرسکے- لیکن طالب علم اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کیمخالفت کی راہ پر قدم رکھتا ہے- یا کبھی معلم ایسے مطالب سکھاتا ہے، کہ جن میں اچھے اور برے کاموں کے لئے استفادہ کرنے کی گنجائش ھوتی ہے ، لیکن طالب علم ان سے صرف نا جائز فائدہ اٹھا لیتا ہے – بم اور انسانوں کو قتل عام کرنے والے اسلحہ کا علم بھی ابتداء میں ایسا ہی تھا، انسان نے سائنس کی ترقی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انسان کو نابود کرنے والی ٹیکنا لوجی پر دست رس حاصل کی ہے-
اتفاق سے، اس آیہ شریفہ کی شان نزول سے استفادہ کرکے ، اس مطلب کو واضح طور پر حاصل کیا جاسکتا ہے – ان دو آیات کی شان نزول کے بارے میں آیا ہے کہ: یہ دو فرشتے ساحروں کے سحر کو باطل کرنے کے لئے لو گوں کو سحر کا علم اور اس کو باطل کرنے کا طریقہ سکھاتے تھے اور لوگوں سے عہد و پیمان لیتے تھے کہ ہم آپ کے امتحان کے وسائل ہیں، پس آپ لوگ کافر نہ ھوجائیں{ اور اس علم سے جائز استفادہ کریں}-[11]
" ہاروت" اور "ماروت" کی داستان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال : ۴۶۹۰ {سائٹ: ۵۲۰۱} کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
" خدا کی اجازت سے نقصان پہنچانے" کے اعتراض کا جواب:
اگرمذکورہ آیت کے معنی پر اچھی طرح سے غور کیا جائے، تو معلوم ھوگا کہ آیہ شریفہ ممکنہ اعتراض کا جواب دینا چاہتی ہے – جب اس کے بعد ارشاد ھوتا ہےکہ : لوگ ان دو فرشتوں سے، میاں بیوی کے درمیان تفرقہ پھیلانے کا طریقہ سیکھتے تھے،تو اس سے یہ تصور پیدا ھوتا ہے کہ سحر و جادو سے خلقت اور دنیا کی زندگی کے قوانین میں مدا خلت کی جاسکتی ہے اور خداوند متعال کے تکوینی ارادہ کے بغیر، مسائل کو اپنی من پسند صورت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے- خداوند متعال اس اعتراض کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے :" اگرچہ سحر کے ذریعہ وہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، پھر بھی خداوند متعال کے ارا دہ سے خارج نہیں ھوئے ہیں-"[12]
مزید و ضاحت:
آیہ شریفہ کا یہ حصہ توحید کے ایک بنیادی اصول کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کائنات کی تمام طاقتوں کا سرچشمہ خدا وند متعال کی طاقت ہے، حتی کہ آگ کا جلانا اور تلوار کا کاٹنا اس کی اجازت کے بغیر انجام نہیں پاتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ساحر، خدا کے ارادہ کے خلاف عالم خلقت میں مداخلت کرے اور ایسا نہیں ہے کہ وہ خدا کو اپنی حکومت کے قلمرو میں محدود کرے، بلکہ یہ خصوصیات اور اثرات ہیں جو مختلف مخلوقات میں پائے جاتے ہیں ، بعض ان سے جائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ جو انسان کو خداوند متعال نے آزادی و اختیار دیا ہے، وہ بھی حقیقت میں اس کے امتحان اور کمال حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ہے- [13]
اب جبکہ تمام چیزوں کی خاصیت خداوند متعال کے ہاتھ میں ہےتو، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خداوند متعال ان سے کام لے کرلوگوں کو نقصا ن پہنچانے پر راضی ھو- بلکہ یہ صرف اس معنی میں ہے کہ سحر اور اس سے استفادہ کرنا، ایک قسم کا قوانین ہستی سے استفادہ کرنا ہے کہ دوسرے قوانین کے مانند، خالق کائنات ان کا پیدا کرنے والا ہے- اس کے مانند کہ چاقو میں کاٹنے کی خاصیت اور نرم اجسام کو کاٹنے میں اس کا اثر قوانین ہستی میں سے ہے اور اس قانون سے استفادہ کرکے، اس سے کافی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں، اگر کچھ حالات میں ایک مظلوم انسان چاقو سے قتل کیا جاتا ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کے عام اذن و اجازت سے، قوانین ہبستی یعنی چاقو کے کاٹنے کی خاصیت سے یہ مظلوم انسان قتل ھوا ہے لیکن اس کے ہر گز یہ معنی نہیں ہیں کہ خداوند متعال نے ظالم کو کوئی خاص "اجازت" دی ھےکہ وہ ایک مظلوم انسان کو قتل کر ڈالے، بلکہ خدا وند متعال نے قرآن مجید کی مختلف آیات میں ظلم کرنے، مظلوم انسان کو قتل کرنے اور لوگوں کے حقوق کو پامال کرنے کے بارے میں منع کیا ہے اور ایسا ظالمانہ کام انجام دینے والوں کےلئے درد ناک عذاب کا وعدہ کیا ہے-[14]
اسی موضوع سے متعلق دوسرے عناوین:
۱-سوال : ۴۹۶۰{ سا ئٹ: ۵۲۴۷} " ہاروت " و "ما روت"
۲-سوال: ۲۹۹۲{سائٹ: ۳۲۳۷} " برائیوں کو خدا سے نسبت دینے کی کیفیت "
[1] معین، محمد، فرهنگ معین، ص 457، نشر بهزاد، تهران، 1386.
[2] راغب اصفهانی، الفردات فی غریب القرآن، ج1، ص 203.
حجر، ۲۷ [3]
[4]- نعام، 130: { قیامت کے دن خدا کی طرف سے خطاب ہو تا ہے:} اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے جوہماری آیتوں کو بیان کرتے اور تمہیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے – وہ کہیں گے کہ ہم خود اپنے خلاف گواہ ہیں اور ان کوزندگانی دنیا نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور انھوں نے خود اپنے خلاف گواہی دی کہ وہ کافر تھَے-
[5]- الذاریات، ۵۶
[6]- احقاق، ۲۹ اس آیت میں بعض جنات کے مسلمان ھونے کی طرف اشارہ ہے ، متعدد آیات میں کافر جنات کا نام لیا گیا ہے- ملاحظہ ھو: فصلت، ۲۹؛ اعراف، ۳۸؛ کافی، ج۱،ص ۳۹۵-
[7] کہف، ۵۰؛ " اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا کہ ابلیس جنات میں سے تھا، پھرتو اس نے حکم خدا سے سرتابی کی-
[8] سحر کو سیکھنے کا جائز ھونا ، سحر کو باطل کرنے کے لئے اور ساحروں سے مقابلہ کرنے کے لئے ہے: ملاحظہ ھو: جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، ج۱ ، ص ۳۰۸- سحر کو سیکھنے کا جائز ھونا ، سحر کو باطل کرنے کے لئے اور ساحروں سے مقابلہ کرنے کے لئے ہے: ملاحظہ ھو: جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، ج۱ ، ص ۳۰۸
[9] - عن الرضا(ع):وَ أَمَّا هَارُوتُ وَ مَارُوتُ فَكَانَا مَلَكَيْنِ عَلَّمَا النَّاسَ السِّحْرَ لِيَحْتَرِزُوا بِهِ سِحْرَ السَّحَرَةِ وَ يُبْطِلُوا بِهِ كَيْدَهُم. نک: وسائلالشيعة، ج 17 ،ص 147، باب تحريم تعلم السحر و أجره .
[10] آیت کے معنی پرغور فرمائیے:" اور ان باتوں کا اتباع شروع کردیا جو شیاطین سلیمان کی سلطنت میں جپا کرتے تھے حالانکہ سلیمان کافر نہیں تھے، کافر یہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے اور جو کچھ دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابل میں نازل ھوا ہے، وہ اس کی بھی تعلیم اس وقت تک نہیں دیتے تھے جب تک یہ کہہ نہیں دیتے کہ ہم ذریعہ امتحان ہیں ، خبردار تم کافر نہ ھو جانا- لیکن وہ لوگ ان سے وہ باتیں سیکھتے تھے جس سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کرا دیں حالانکہ اذن خدا کے بغیر وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے- یہ ان سے وہ سب کچھ سیکھتے تھے جو ان کے لئے مضرتھا اور اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا- یہ خوب جانتے تھےکہ جو بھی ان چیزوں کو خریدے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ھوگا- انھوں نے اپنے نفس کا بہت برا سودا کیا ہے اگر یہ کچھ جانتے اور سمجھتے ھوں-
[11]- بقرہ، ۱۰۲
[12] - تفسیر المیزان ج ۱، ص ۳۵۵
[13] - مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج ۱ ص ۳۷۷
[13] خدا وند متعال ارشاد فرماتا ہے: اور کسی نفس کو جس کو خدا نے محترم بنا یا ہے نا حق قتل بھی نہ کرنا کہ جو مظلوم قتل ھوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دیتے ہیں ، لیکن اسے بھی چاہئیے قتل میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے کہ اس کی بہرحال مدد کی جائے گی-" اسراء/ ۳۳