مذکورہ سوال کے بارے میں مختلف جوابات اور نظریات پیش کئے گئے ہیں کہ ہم ان میں سے ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱-حضرت عیسی{ع} کے پیرووں سے مراد، امت محمد {ص} ہے اور اس مطلب کےلئے تین وجوہات بیان کی گئی ہیں:
الف- کیونکہ زمانہ کے لحاظ سے امت محمد {ص} حضرت عیسی{ع}کے بعد ہے-
ب- چونکہ ہمارے پیغمبر نے حضرت عیسی[ع] اور ان کی کتاب کی تصدیق کی ہے اور جو دوسرے کی تصدیق کرے کہا جاتا ہے کہ اس نے اس کی متابعت کی ہے-
ج- ہمارے پیغمبر {ص} کی شریعت ، توحید کے باب میں دوسرے انبیاء کے ساتھ متحد ہے کیونکہ یہ دین کی بنیاد ہے، اس بنا پر پیغمبر اکرم {ص} دوسرے انبیاء کے متبع ہیں-
۲-آیہ شریفہ میں " اتباع" سے مراد حق کی پیروی ہے، پیرو وہ ہیں جنھیں خداوند متعال کی رضامندی حاصل ہے، پس " جو تیری پیروی کرتے ہیں" کی عبارت، ظہور اسلام سے پہلے تک عیسائیوں اور ظہور اسلام کے بعد اسلام پر استقامت کرنے والے افراد پر مشتمل ہے-
۳-زیر بحث آیہ شریفہ سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال عیسائیوں کو یہودیوں پر برتری عطا کرے گا{ یہ تفسیر ظاہر آیت کےزیادہ مطابق ہے}
۴-اس { مجموعا} سے مراد عیسائی اور مسلمان ہے اور آیہ شریفہ یہ خبر دینا چاہتی ہے کہ یہود، قیامت تک ذلیل و خوار اور حضرت عیسی{ع} کی پیروی کو واجب جاننے والوں کے دباو میں رہیں گے-
لیکن یہ کہ مسلمان کیوں حضرت عیسی {ع} کی نسبت سے کفار میں شمار نہیں ھوتے ہیں وہ اس لئے ہے کہ یہاں پر کافر منکر کے معنی میں ہے اور یہ یہودی قوم ہے کہ جس نے حضرت عیسی{ع} کا انکار کیا، لیکن مسلمان نہ صرف حضرت عیسی{ع}کا انکار نہیں کرتے ہیں اور ان کی نسبت سے کافر نہیں ہیں بلکہ حضرت عیسی {ع} کے توسط سے پیغمبر اسلام کی بعثت کی بشارت دینے کے حقیقی پیرو ہیں-
مسلمان، حضرت عیسی {ع} کو بڑے پیغمبروں میں سے، تیسرے اولوالعزم پیغمبر، صاحب شریعت اور صاحب کتاب پیغمبر جانتے ہیں، اس بنا پر خداوند متعال جو فرماتا ہے کہ ہم تمھاری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک کفار پر برتری دیں گے، بیشک یہاں پر کفار سے مراد مسلمان نہیں ھوسکتے ہیں کیونکہ اس لفظ کا کسی صورت میں مسلمانوں پر اطلاق نہیں ھوتا ہے-
آپ کے سوال میں جو ترجمہ پیش کیا گیا ہے وہ اس آیہ شریفہ کے مطابق نہیں ہے ہم اس کا دقیق جواب دینے کے لئے پہلے اس آیہ شریفہ کا ترجمہ پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد مورد سوال آیت کی تفسیر سے استفادہ کرکے اس کا جواب دیں گے-
آیت کا ترجمہ:
اور ہم تمھاری {عیسی کی} پیروی کرنے والوں کو انکار کرنے والوں { کفار} پر قیامت تک کی برتری دینے والے ہیں، اس کے بعد تم سب کی بازگشت ہماری طرف ھوگی اور ہم تمھارے اختلافات کا صحیح فیصلہ کردیں گے"-[1]
واضح اور دقیق جواب تک پہنچنے کے لئے چند مسائل کی وضاحت کرنا ضروری ہے- اس لئے ہم مندرجہ ذیل مباحث اور آیہ شریفہ کے ضمن میں مطلوبہ جواب تک پہنچ جائیں گے-
سوال میں ذکر کی گئی آیہ شریفہ کے بارے میں، مختلف جوابات اور نظریات پیش کئے گئے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱-حضرت عیسی{ع} کے پیرووں سے مراد، امت محمد {ص} ہے اور اس مطلب کےلئے تین وجوہات بیان کی گئی ہیں:
الف- کیونکہ زمانہ کے لحاظ سے امت محمد {ص} حضرت عیسی{ع}کے بعد ہے-
ب- چونکہ ہمارے پیغمبر نے حضرت عیسی[ع] اور ان کی کتاب کی تصدیق کی ہے اور جو دوسرے کی تصدیق کرے کہا جاتا ہے کہ اس نے اس کی متابعت کی ہے-
ج- ہمارے پیغمبر {ص} کی شریعت ، توحید کے باب میں دوسرے انبیاء کے ساتھ متحد ہے کیونکہ یہ دین کی بنیاد ہے، اس بنا پر پیغمبر اکرم {ص} دوسرے انبیاء کے متبع ہیں-[2]
۲-آیہ شریفہ میں " اتباع" سے مراد حق کی پیروی ہے، پیرو وہ ہیں جنھیں خداوند متعال کی رضامندی حاصل ہے ، پس " جو تیری پیروی کرتے ہیں" کی عبارت ظہور اسلام سے پہلے اور دین عیسی{ع} کے منسوخ ھونے تک عیسائیت پر استوار افراد اور اس کے علاوہ ان مسلمانوں پر مشتمل ہے جنھوں نے ظہور اسلام کے بعد اسلام کی پیروی میں استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے پابند رہے ہیں ، چونکہ اسلام کی پیروی، حق کی پیروی ہے اور در نتیجہ حضرت مسیح {ع} کی پیروی ہے-[3]
اس نظریہ کو علامہ طبا طبائی نے بعض مفسرین سے نسبت دے کر اس کی تنقید کی ہے-[4]
۳-زیر بحث آیہ شریفہ سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال عیسائیوں [5] کو یہودیوں { یعنی جن کے اجداد حضرت عیسی کی نسبت سے کافر ھوئے اور ان کے خلاف سازش کی} پر برتری عطا کرے گا – اس سے مراد یہ ہے کہ قوم یہود پر عذاب الہی نازل ھوگا اور عذاب الہی ان پر شدت اختیار کرے گا-[6]
اسی تفسیر کی بنا پر، جو ظاہر آیت کے بھی مطابق ہے، یہ آیت ان معجزہ نما آیات میں سے ہے ،جن میں کہا گیا ہے کہ حضرت عیسی {ع} کے پیرو ہمیشہ یہودیوں سے برتر ھوں گے-
ہم آج کی دنیا میں اس حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یہود و صہیونیت، عیسائیوں سے وابستگی اور ان کی مدد کے بغیر اپنی سیاسی و اجتماعی زندگی کو ایک دن بھی جاری نہیں رکھ سکتے ہیں-[7]
اس نظریہ کے مطابق، حضرت عیسی{ع} کے پیرووں سے مراد عیسائی ہیں، اس لحاظ سے ہم ہر جگہ اور ہروقت یہودیوں کو عیسائیوں سے ذلیل تر دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے یہودیوں سے ملک و سلطنت چھین لی گئی ہے اور یہ عیسائیوں کے قبضہ میں ہے { یوروپ اور روم وغیرہ میں} اور عیسائی، یہودیوں سے عزیز تر ہیں اور قیامت تک ان پر برتر رہیں گے-[8]
۴-جملہ"الذین اتبعوا" { مجموعا سب} سے مراد عیسائی اور مسلمان ہیں اور آیہ شریفہ خبر دینا چاہتی ہے کہ یہود قیامت تک ذلیل و خوار اور حضرت عیسی{ع} کی پیروی کو واجب جاننے والوں کے زیر تسلط رہیں گے-[9]
کیا مسلمان، حضرت عیسی{ع} کی نسبت سے کافر ہیں؟ یہاں پر کافر سے مراد منکر ہے[10]، مسلمان نہ صرف حضرت عیسی{ع} کو جھٹلاتے نہیں ہیں اور ان کی نسبت سے کافر نہیں ہیں بلکہ وہ حضرت عیسی{ع} کو عظیم پیغمبروں میں سے ایک، تیسرے اولوالعزم پیغمبر اور صاحب شریعت و صاحب کتاب پیغمبر جانتے ہیں- قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے: " بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ھوں اور اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے"-[11] لیکن یہ یہودی تھے جنھوں نے حضرت عیسی {ع] کا انکار کیا اور انھیں قتل تک پہنچایا-
اس بنا پر خداوند متعال جو یہ فرماتا ہے کہ میں نے قیا مت تک تمھارے{عیسی کے} پیرووں کو کفار پر برتری عطا کی ہے، بیشک کفار سے مراد مسلمان نہیں ھوسکتے ہیں اور اس لفظ کا کسی صورت میں مسلمانوں پر اطلاق نہیں ھوتا ہے-
اس بنا پر، جملہ " الذین اتبعوا" کے پیش نطر، اس میں حضرت عیسی {ع} کے مجموعی پیروان شامل ہیں اور " الذین اتبعوا" کی عبارت کی تفسیر کے مطابق مسلمان بھی حضرت عیسی {ع} کے پیرو شمارھوتے ہیں، پس اس عبارت میں عیسائی اور مسلمان دونوں شامل ہیں اور اس طرح اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ھوتے ہیں:" اور ہم تمھاری { عیسی کی} پیروی کرنے والوں کا انکار کرنے والوں { کفار} پر قیامت تک برتری دینے والے ہیں، اس کے بعد تم سب کی باز گشت ہماری طرف ھوگی اور ہم تمھارے اختلافات کا صحیح فیصلہ کردیں گے"-
آخر پر، اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے کہ اگر ہم اس امر پر شک و شبہہ سے دو چار ھوں کہ راہ حق پر چل کر ظاہرا شکست سے دو چار ھو جائیں یا یہ کہ باطل راہ پر چل کر بظاہر کا میاب ھو جائیں، تو پہلا انتخاب مناسب تر انتخاب ھو گا، چانچہ امام حسین {ع} نے بھی اسی چیز کا انتخاب کیا ہے – اس بنا پر اگر اسلام کی حقانیت ہمارے لئے مشخص ھوئی اور ہم صرف ظاہری کامیابی کے لئے ، مسحیت کی طرف { آپ کے سوال کے استد لال کے مطابق} میلان پیدا کریں تو یہ فیصلہ منطقی نہیں ھوگا اور قرآن مجید کی دوسری آیات من جملہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۰ کے مطابق نہیں ھوگا-
اس موضوع کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے سلسلہ میں آپ ہماری اسی سائٹ کے عنوان " سرخاتمیت دین اسلام" سوال: ۳۵۰۳ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں-
[1] ترجمه ذیشان حیدر جوادی
[2] طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فى تفسير القرآن، مترجمان، ج 4، ص 94، ناشر: انتشارات فراهانى، تهران، طبع اول، 1360 ھ ش.
[3] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج 3، ص 326 و ج 3، ص 327، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم، طبع: پنجم، 1374 ھ ش.
[4] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج 3، ص 328 و 329.
[5] طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فى تفسير القرآن، مترجمان، ج 4، ص 94.
[6] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ، ج 3، ص 330.
[7] ، مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج 2، ص 570 ، ناشر: دار الكتب الإسلامية، طبع تهران، طبع طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فى تفسير القرآن، مترجمان، ج 4، ص 94. اول، 1374 ش.
[8] طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فى تفسير القرآن، مترجمان، ج 4، ص 94.
[9] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج 3، ص 330.
[10] فراهيدى خليل بن احمد، كتاب العين، ج 5، ص 356، طبع دوم، انتشارات هجرت، قم،1410 ھ.
[11] مریم، 30.