جہاں پر قرآن مجید میں متقین کی ہدایت کے لئے آیات موجود ہیں، وہاں اور بھی آیات پائی جاتی ہیں جن میں آسمانی کتابون اور قرآن مجید کو عام لوگوں کی ہدایت کے لئے بیان کیا گیا ہے اور صرف مومنین کے لئے مخصوص نہیں ہیں- عام ہدایت کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:" ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں-" اس قسم کی آیات سے مجموعی طور پریوں استفادہ ھوتا ہے کہ آسمانی کتابوں، خاص کر قرآن مجید کے ہدایت کنندہ ھونے کے بارے میں دو طرح ذکر کیا گیا ہے: اول: تمام دنیا والوں کی ہدایت اور بیداری، دوم : متقین کی ہدایت-
متقین کی ہدایت کے بارے میں بھی ایک ہدایت ابتدائی ہے ، اس ہدایت سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا ضروری ہے، بلکہ صرف ایک صحیح ،سالم اور پاک فطرت کا ھونا کافی ہے اور دوسری ہدایت خود قرآن مجید کے ذریعہ اور پہلی ہدایت کے ذیل میں ہے- اس طرح دور کی مشک حل ہوتی ہے-
قرآن مجید کی متعدد آیات میں، اس مقدس[1] کتاب کی ہدایت کو متقین سے مخصوص بیان کیا گیا ہے،[2] اس سے یہ شبہہ پیدا ھوتا ہے کہ اگر قرآن مجید کا کام ہدایت کرنا ہے، متقین تو ہدایت یافتہ ھوتے ہیں اور اس طرح ہدایت شدہ لوگوں کی ہدایت کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ قرآن مجید اس وقت ہدایت کی کتاب ہے کہ جب غیر متقین کی بھی ہدایت کرے-
اس شبہہ کے جواب کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل مقدمہ پر غور کرنا ضروری ہے:
الف: بعض ان آیات کا وجود جو قرآن مجید کے تمام لوگوں کے لئے ہدایت ھونا بیان کرتی ہیں-
اس قسم کی آیات کے مقابلے میں ، قرآن مجید میں کچھ دوسری قسم کی آیات بھی پائی جاتی ہیں، جو آسمانی کتابوں ، خاص کر قرآن مجید کے تمام لوگوں کے لئے ہدایت، ذکر اور ڈرانے والا بیان کرتی ہیں ، نہ صرف متقین کے لئے، خداوند متعال ان آیات میں ارشاد فرماتا ہے :" اس نے پہلے لوگوں کے لئے ہدایت بن کر اور حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب بھی نازل کی ہے ، بیشک جو لوگ آیات الہی کا انکار کرتے ہیں ان کے واسطے شدید عذاب ہے اور خدا سخت انتقام لینے والا ہے-"[3]
ایک دوسری آیہ شریفہ میں عام ہدایت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:"- - - ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں-"[4]
قرآن مجید کے "ذکر" ھونے کے بارے میں ارشاد ھوتا ہے:"
" یہ { قرآن} تمام دنیا والوں کے لئے ایک تذکر ہے-"[5] اور تمام لوگوں کے لئے قرآن کے نذیر { ڈرانے والا} ھونے کے بارے میں ارشاد ہے:" با برکت ہے وہ خدا جس نےاپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الہی سے ڈرانے والا بن جائے گا-"[6]
پس اس قسم کی آیات سے مجموعی طور پر یوں معلوم ھوتا ہے کہ آسمانی کتابوں، خاص کر قرآن مجید کے ہدایت کنندہ ھونے کے بارے میں دو طرح ذکر کیا گیا ہے:
اول: تمام دنیا والوں کے لئے ہدایت اور بیداری ، دوم: متقین کی ہدایت- یعنی قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو تمام لوگوں کے لئے ہدایت کرنے والی ہے اور جو بھی شخص کسی خود غرضی کے بغیراس کی طرف رجوع کرے اس کی ہدایت ھوگی-
اس مطلب کو بیان کرنے والی قرآن مجید کی ایسی آیات ہیں، جو اس آسمانی کتاب کو ہر اس فرد کے لئے راہ ہدایت جانتی ہے، جس نے راہ مستقیم پر گامزن ھونے کا ارادہ کیا ھو[7] اور یا یہ کہ قرآن مجید کی شان نزول یہ ہے کہ زندہ دل اور پاک فطرت والے انسان اس سے استفادہ کریں اور ظالموں کے لئے بھی اتمام حجت ہے-[8]
اس کے علاوہ، قرآن مجید کی ہدایت عام لوگوں تک ہی محدود و مخصوص نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ متقین اور مومنین اس سے استفادہ نہ کرسکیں بلکہ قرآن مجید ان کے لئے ایک برتر ہادی ہے-
ب-قرآن مجید میں متقین کے لئے دو قسم کی ہدایت:
جیسا کہ قرآن مجید کی آیات سے معلوم ھوتا ہے کہ، کفار اور منافقین دو قسم کی ضلالت و گمراہی رکھتے ہیں، اس کے مقابلے میں متقین اور مومنین کے لئے بھی دو قسم کی ہدایت ہے – قرآن مجید کی آیات میں منافقین کی جن دو قسم کی ضلالت و گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک پہلی ضلالت[ و اندھاپن ] ہے، جو کفر و نفاق کی وجہ سے ان میں اوصاف خبیثہ کے عنوان سے پیدا ھوتی ہے، دوسری ضلالت [و اندھاپن،] ان کی پہلی ضلالت و اندھے پن کو تقویت بخشتی ہے ، قرآن مجید میں منافقین کے بارے میں ارشاد ہے: " ان کے دلوں میں بیماری ہے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ہے-[9] پہلی بیماری کو منافقین سے نسبت دیتا ہے اور دوسری بیماری کو خود سے نسبت دیتا ہے-
ہدایت کے بارے میں بھی اسی طرح ہے کہ ایک ابتدائی ہدایت ہے کہ اس ہدایت سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے بلکہ اس قسم کی ہدایت کے لئے صرف ایک پاک فطرت کا ھونا کافی ہے، لیکن دوسری ہدایت قرآن مجید کی طرف سے پہلی ہدایت کے ذیل میں ھوتی ہے سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے:" یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے- یہ صاحبان تقوی اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے-"[10] اس کے بعد متقین کی صفات کو گنتے ھوئے تقوی کی صرف پانچ صفتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ غیب پر ایمان رکھنا، نماز قائم کرنا، راہ خدا میں انفاق کرنا، انبیاء[ع] پر جو کچھ نازل ھوا ہے اس پر ایمان رکھنا اور سر انجام آخرت پر یقین رکھنا ہے-
اس سلسلہ مین دور کی احتمالی مشکل کو حل کرنے کے بارے میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:" انسان تب تک متقی[اور مذکورہ پانچ صفتوں کا مالک]نہیں بن سکتا ہے ،مگر یہ کہ خدا وند متعال نے اس کی ہدائت کی ہو،اسوقت خداوند متعال اپنی کتاب کو یوں معرفی فرماتا ہے کہ:"ان ہی متقین کی ہدائت کرنے والی ہے[لاریب فیہ ھدی للمتقین]- پس معلوم ہوتا ہےکہ کتاب کی ہدایت، اس ہدایت کے علاوہ ہے جس کے باے مں مذکورہ اوصاف ذکر کئے گئے ہیں، اس کے علاوہ معلوم ھوتا ہے کہ متقین کے لئے بھی دو قسم کی ہدایت ہے ، ایک ابتدائی ہدایت، جس کی وجہ سے وہ متقی ھوئے ہیں اور ایک دوسری ہدایت، جو خداوند متعال نے انھیں ان کے تقوی اور پرہیزگاری کی وجہ سے عنایت کی ہے-[11]
بہ الفاظ دیگر:" ابتدائی ہدایت قرآن مجید سے پہلے تھی، یعنی اسی قدر کہ حق و حقیقت کے مقابلے میں انسان ہٹ دھرمی نہ کرے او منصفانہ طور پر اپنی ناتوانی کا اظہار کرے، اس قسم کا شخص سر انجام ایک ایسے غایب موجود کے بارے میں ایمان رکھ سکتا ہے، جسے وہ اپنی حس سے پیدا کرسکتا ہے، ایک ایسا موجود جس کی بنا پر اس کی ہستی اور پوری کائنات کی ہستی قائم ہے- ایک پاک فطرت انسان جب اس موجود غیب پر ایمان لاتا ہے، اعتراف کرتا ہے، تو سوچتا ہے کہ یہ مبداء، جو مخلوقات کے حوائج سے ایک دقیقیہ کے لئے بھی غافل نہیں رہتا ہے، ار ہر مخلوق کی ایسی سرپرستی کرتا ہے کہ گویا اس کے علاوہ اس کی کوئی اور مخلوق نہیں ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بندوں کی ہدایت سےغافل رہے اور مہلک اعمال و اخلاق کے بارے میں نجات کی راہ دکھانے میں ان کی راہنمائی نہ کرے؟
یہ جو انسان اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے اور دوسرے سوالات جو اس سے پیدا ھوتے ہیں، اسی کا نتیجہ توحید، نبوت اور معاد ھوتا ہے اور اس طرح وہ خود پر لازم جانتا ہے کہ اس مبداء یکتا کے سامنے خضوع و خشوع کا مظاہرہ کرے، کیونکہ وہی اس کا خالق اور رب اور تمام کائنات کا خالق و رب ہے اور وہ اپنے آپ پر لازم جانتا ہے کہ اس کی ہدایت کو حاصل کرنے کی تلاش و کوشش کرے اور جب اس کی ہدایت کو حاصل کرتا ہے تو وہ اپنا سب کچھ یعنی مال ، جاہ، علم اور فضیلت اس ہدایت کی حفاظت اور اس کی نشر و اشاعت میں صرف کرتا ہےاور یہ وہی اس کی نماز ھوتی ہے، لیکن یہ قرآن مجید کی نماز و زکوۃ نہیں ھوتی ہے، کیونکہ ہم پاک فطرت انسان کی بات کرتے ہیں، کہ ان چیزوں کو وہ اپنی فطرت میں پاتا ہے اور جب نماز و زکوۃ کی ذمہ داری اس پر ڈالی جاتی ہے، تو اسے بھی اپنی فطرت سے قبول کرتا ہے-"[12]
لہذا معلوم ھوا کہ یہ پانچ صفتیں، جنھیں خداوند متعال نے اپنی قرآنی ہدایت کی بنیاد قرار دیا ہے، ایسی صفتیں ہیں جو انسان میں پاک فطرت پیدا کرتی ہیں اور زیر بحث آیات میں اس قسم کی صفتیں رکھنے والوں کو وعدہ دیا جاتا ہے کہ عنقریب انھیں قرآن مجید کے ذریعہ ہدایت کی جائے گی، لیکن یہ ہدایت، ان کی فطری ہدایت کے علاوہ ہے، پس مذکورہ پانچ اعمال، دو ہدایتوں کے درمیان ہیں، ان اعمال سے پہلی ہدایت اور ان اعمال سے ملحق ہدایت، اور سچے اعتقادات اور اعمال صالح ان دو ہدایتوں کے درمیان واسطہ ہیں، اس طرح کہ اگر فطری ہدایت کے بعد وہ اعتقاد و اعمال نہ ھوں تو دوسری ہدایت حاصل نہیں ھوسکتی ہے- نتیجہ کے طور پر اس طرح دور کی مشکل پیدا نہیں ھوتی ہے-
[1] البتہ بعض دوسری ایات میں، انجیل کے مانند مقدس کتابوں کو بھی متقین کے لئے موعظہ و ہدایت شمار کیا گا ہے- خداوند متعال سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۴۶ میں ارشاد فر ماتا ہے: اور ہم نے انھیں انبیاء کے نقش قدم پر عیسی بن مریم کو چلا دیا جو اپنے سامنے کی توریت کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انھیں انجیل دیدی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ اپنے سامنے کی توریت کی تصدیق کرنے والی اور ہدایت تھی اور صاحبان تقوی کے لئے سامان نصیحت تھی-
[2] بقره،2؛ آل عمران، 138؛ نور، 34، نحل، 89؛ نحل، 102؛ فصلت 44؛یونس 57.
[3] آل عمران،3 و 4.
[4] بقره،185
[5] ص ،87؛ قلم، 52؛ تکویر، 27.
[6] فرقان، 1.
[7] تکویر، 28-27؛ "إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِلْعالَمينَ. لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقيم".
[8] یس، 70؛ "لِيُنْذِرَ مَنْ كانَ حَيًّا وَ يَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكافِرين".
[9] بقره،10.
[10] بقره،2.
[11] طباطبایی، محمد حسین، ترجمه تفسیر المیزان، ج 1، ص 70، دفتر انتشارات اسلامی، قم، 1374 ھ ش .
[12] ایضا، ج 1، ص 71.