خداوند متعال کی ناقابل تغیر سنتوں میں سے ایک بندوں کی آزمائش و امتحان ہے۔ یہ امتحان مختلف و متفاوت اسباب، وسائل اور حوادث کے ذریعہ انجام پاتا ہے ، بعض مواقع پر خداوند متعال ظالموں کو دوسرے افراد کے لئے امتحان کا وسیلہ قرار دیتا ہے، ظالم کا امتحان کے لیے وسیلہ قرار پانا اس کی برائی اور عذاب کے مستحق ہونے کو کم نہیں کرتا ہے ، کیوںکہ خداوند متعال نے اسے حکم نہیں کیا ہے کہ امتحان کا وسیلہ قرار پائے بلکہ تکوینی طور پر ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ اگر ظالم ، اپنے اختیار و ارادہ سے کسی ظلم کا مرتکب ہوجائے تو وہی اس کا ظلم جو پروردگار کی مخالفت ہے ، دوسروں کی آزمائش کا وسیلہ قرار پاتا ہے اس بنا پر ، یہ ظلم چونکہ اس شخص کا اختیاری فعل ہے اس لئے اس کے لئے عذاب ہے اور ظالم اس کا مرتکب ہونے کےسبب عذاب سے دوچار ہوتا ہے۔
اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال ، بنی اسرائیل کو عطا کی گئی بڑی نعمتوں میں سے ایک کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور وہ نعمت ظالموں کے پنجے سے آزاد ہونا ہے جو خداوند متعال کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے:
" اور جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے بچالیا جو تمھیں بد ترین دکھ دے رہے تھے تمھارے بچوں کو قتل کررہے تھے اور عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمھارے لئے بہت بڑا امتحان تھا،" چونکہ فعل مضارع عام طور پر استمرار و مسلسل کے معنی دیتا ہے اس لئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل فرعون والوں کی طرف سے مسلسل شکنجہ سے دوچار ہوتے رہے اور اپنی آنکھوں سے مشاھدہ کر رہے تھے کہ اس کے بے گناہ بیٹوں کا سر قلم کرتے تھے اور دوسری جانب، ان کی بیٹیوں کو کنیزوں کے عنوان سے لیتے تھے ، اس کے علاوہ خود ان پر بھی شکنجہ کستے تھے اور انھین قبطیوں اور فرعون والوں کا غلام بنایا جاتا تھا۔
اہم یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس قضیہ کو بنی اسرائیل کے لئے ایک سخت اور عظیم امتحان شمار کیا ہے ، ["بلاء" کے ایک معنی امتحان کے ہیں] اور حقیقت میں ان تمام مصیبتوں کو برداشت کرنا ایک سخت امتحان تھا۔[1] لیکن فرعون کا یہ کام اس امتحان الہی کے لئے وسیلہ ہونے کے باوجود کیوں اس پرعذاب کیا جائے گا؟
اس سوال کا جواب واضح ہونے کے لئے قابل غور ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے مختلف پہلو ہوتے ہیں ممکن ہے ایک حادثہ ایک شخص کے لئے عذاب ہو اور دوسرے فرد کے لئے امتحان ہو اور خدا کے ہاں تیسرے فرد کے لئے درجہ اور مقام کی بلندی ہو۔ امام علی [ع] نے فرمایا: " رونما ہونے والی بلائیں اور حوادث ظالموں کو ادب کرنے کا وسیلہ اور مومنوں کے لئے امتحان اور ان کا مقام بلند ہونے کا سبب اور اولیائے الھی کے لئے کرامت ہیں [2]
دوسری جانب، ناقابل تغیر الہی سنتوں میں سے ایک بندوں کا امتحان ہے ، قرآن مجید اس سنت الھی کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کھہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا، بیشک ہم نے ان کے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے ۔{ اور ان کا بھی ضرور امتحان لیں گے] [3] یہ امتحان مختلف اور متفاوت اسباب، وسائل اور حوادث کے ذریعہ لیا جاتا ہے ، بعض لوگوں کا فقر سے ، بعض کا مال و دولت سے، بعض کا بیماری سے ، بعض کا صحت و سلامتی سے ، بعض کا طاقت سے ، بعض کا ضعف و ناتوانی سے ، کسی قوم کا سیلاب اور زلزلہ سے ، بعض لوگوں کا آرام و آسایش سے ، بعض لوگوں کا خِیر و نیکی سے اور بعض لوگوں کا شر وغیرہ سے امتحان الھی لیا جاتا ہے، قرآن مجید مختلف قسم کے امتحانوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:" اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے اور تم سب پلٹا کر ہماری ہی بارگاہ میں لائے جاو گے" [4]
اس طرح ایک دوسری جگہ پر امتحان کی کیفیت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:"۔۔۔ اور اس طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمایا ہے۔۔۔۔" [5] یعنی ہم تم میں سے بعض کا بعض دوسروں کے ذریعہ امتحان لیتے ہیں۔
بعض مواقع پر خداوند متعال نے ظالموں کو دوسرے افراد کے لئے امتحان کا وسیلہ قرار دیا ہے ، جبکہ خود ظالم یہ نہیں جانتے ہیں کہ وہ امتحان الہی کا وسیلہ قرار پائے ہیں اور ظالم کے امتحان کا وسیلہ قرار پانا اسی کی برائی اور اس کے مستحق عذاب ہونے میں کسی قسم کی کمی کا سبب نہیں بنتا ہے ، کیونکہ خداوند متعال نے اسے امتحان کا وسیلہ بننے کا حکم نہیں کیا ہے بلکہ تکوینی طور پر ایسے حالات فراہم کئے ہیں کہ اگر کوئی ظالم اپنے اختیار و ارادہ سے کسی ظلم کا مرتکب ہوجائے تو، خداوند متعال اس کے اسی ظلم کے ذریعہ دوسرے افراد کا امتحان لیتا ہے، لیکن دوسری جانب، چونکہ یہ ظلم ظالم کا اختیاری فعل ہے اس لئے اس پرعذاب ہوگا اور ظالم پراس ظلم کے مرتکب ہونے کے لئے عذاب کیا جاتا ہے۔
اس طرح بہت سے مواقع پر خداوند متعال اپنے دین کی ظالموں کے ذریعہ تائید کراتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے ، پیغمبر اسلام [ص] نے فرمایا : :"خداوند متعال اس دین [ اسلام] کی ان افراد کے ذریعہ مدد کرتا ہے ، جو کسی قسم کی لیاقت نہیں رکھتے ہیں" [6]
اگر چہ بعض مواقع پر ان ظالم اور کافر افراد کا ظلم دین کی تقویت کا سبب بن جاتا ہے ، لیکن ان کو اس کا م کے لئے کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا ہے۔
اس وضاحت و تشریح کے بعد مذکورہ آیہ شریفہ کے معنی واضح ہوتے ہیں اور معین ہے کہ کسی ظالم کا کام اگر الہی امتحان کا وسیلہ بن جائے تو اس کا وہ کام اس کے برے اعمال کی برائی کو زائل کرنے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اور اس کے عذاب میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے، کیوںکہ خداوند متعال نے اسے یہ کام انجام دینے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اس کا ظالمانہ کام امتحان کا وسیلہ قرار پایا ہے۔
[1] مکارم شيرازى ناصر تفسير نمونه، ج1، ص: 248و 429(با اندکی تصرف)، نشر دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 ش
.[2] وری ،مستدركالوسائل ج 2 ص 438. 2400- 23- جَامِعُ الْأَخْبَارِ، قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع إِنَ الْبَلَاءَ لِلظَّالِمِ أَدَبٌ وَ لِلْمُؤْمِنِ امْتِحَانٌ وَ لِلْأَنْبِيَاءِ دَرَجَةٌ وَ لِلْأَوْلِيَاءِ كَرَامَةٌ ،انتشارات آل البیت ،قم 1408ه-ق
[3] .عنکبوت،2و3:" أَ حَسِبَ النَّاسُ أَن يُترَْكُواْ أَن يَقُولُواْ ءَامَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُونَ(2)وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم"
[4] انبیاء، 35:" وَ نَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَ الخَْيرِْ فِتْنَةً وَ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ "
[5] انعام،53:" :"وَ كَذَالِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ..."
[6] .کلینی ،محمد بن یعقوب، الكافي ج : 5 ص : 19:"... إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَنْصُرُ هَذَا الدِّينَ بِأَقْوَامٍ لَا خَلَاقَ لَهُمْ ..." نشر دار الكتب الإسلامية، تهران، 1365 ھ-ش.