اس سوال کو پیش کرنے کا سبب، اس آیہ شریفہ کے بعض غلط ترجمے ہیں – اس بنا پر اگر اس آیہ شریفہ کے صحیح معنی کئے جائیں، تو اس کا شبہہ دور ھوگا – اس سلسلہ میں کہنا چاہئے کہ قرآن مجید کی مختلف آیات پر غور کرنے سے معلوم ھوگا کہ اگر چہ لفظ " توفی" قرآن مجید کی بعض آیات میں موت کے معنی میں بھی آیا ہے، لیکن دوسرے مواقع پر اس لفظ کے دوسرے معنی بھی کئے گئے ہیں- اس لئے اس آیہ شریفہ کو حضرت عیسی{ع} کی موت کی قطعی دلیل نہیں جانا جاسکتا ہے اور اس کے خلاف روایتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے- اس آیت کے صحیح معنی یہ ھو سکتے ہیں: " اس وقت کو یاد کرو جب خداوند متعال نے عیسی سے فرمایا: میں تجھے اٹھا لیتا ھوں اور اپنی طرف اوپر لے جاتا ھوں-"
" توفی" کے یہ معنی، جن کی معصومین {ع} کی روایتوں کے ذریعہ بھی تائید کی گئ ہے، حضرت عیسی{ع} کے زندہ ھونے کے ساتھ کسی قسم کی منافات نہیں رکھتے ہیں-
اس سوال کو پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے مترجمین کی ایک معدود تعداد نے اس آیہ شریفہ کے لفظ " متوفیک" کے معنی " مرنا" کئے ہیں، اس کے علاوہ اکثر مترجمین نے اس کا ایسا ترجمہ کیا ہے کہ حضرت عیسی{ع} کے زندہ ھونے سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتے ہیں، من جملہ یہ ترجمہ:"{ اس وقت کو یاد کرو} جب خدا وند متعال نے فرمایا : اے عیسی؛ میں تجھے { زمین اور لوگوں سے} اٹھا لیتا ھوں اور اپنی طرف اوپر لے جاتا ھوں اور کافروں کے آلودہ اجتماع میں رہنے سے پاک کرتا ھوں-"[1]
جاننا چاہئے کہ " توفی" مادہ" وفی" سے ہے اور اس کا متعدد معنی میں استفادہ کیا جاتا ہے، من جملہ " مرنے"، " لینے" اور " مکمل کرنے" - - - وغیرہ-[2] اس سلسلہ میں عہد و پیمان پر عمل کرنے کو بھی "وفا" کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی مکمل کرنے اور انجام دینے کے ہیں- اس لحاظ سے اگر کوئی کسی سے اپنا قرضہ مکمل طور پر واپس لے لے توعربی زبان میں " توفی دینہ" کہتے ہیں-
" مجمع البحرین" لغت کی ایک اہم کتاب ہے، اس میں اس آیہ شریفہ کی یوں وضاحت کی گئی ہے: أي مستوف أجلك، و معناه إني عاصمك من أن تصلبك الكفار و مؤخرك إلى أجل أكتبه لك و مميتك حتف أنفك لا قتلا بأيديهم و رافعك إلى سمائي". یعنی {اے عیسی} تیری اجل سے استفادہ کرتا ھوں، اس کے معنی یہ ہیں کہ تجھے کافروں کے گزند سے محفوظ رکھتا ھوں تاکہ وہ تجھے سولی پر نہ چڑھا سکیں اور میں تیری فطری موت، جو تیرے لئے لکھی گئی ہے ، کو تاخیر میں ڈالتا ھوں[3]
اس بناپر لفظ " توفی" اگر چہ موت کے معنی میں بھی استعمال ھوسکتا ہے، کیونکہ بعض آیات میں اسی معنی میں استعمال ھوا ہے،[4] لیکن ضروری نہیں ہے کہ صرف اسی معنی میں استعمال ھو جائے، بلکہ ایسی آیات بھی پائی جاتی ہیں جو اس لفظ کے دوسرے معنی پیش کرتی ہیں، من جملہ یہ آیہ شریفہ: وَ هُوَ الَّذي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَ يَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فيهِ لِيُقْضى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون"؛[5]" اور وہی خدا ہے جو تمھیں رات میں گویا کہ ایک طرح کی موت دے دیتا ہے اور دن میں تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور پھر دن میں تمھیں اٹھا دیتا ہے تاکہ مقررہ مدت حیات پوری کی جاسکے- اس کے بعد تم سب کی بازگشت اس کی بارگاہ میں ہے اور پھر وہ تمھیں تمھارے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا-"
بیشک اس آیہ شریفہ میں " یتوفیکم" کے معنی موت نہیں ہیں بلکہ رات کی نیند ہے جس کی ہر شب و روز تکرار ھوتی ہے اور قبض روح کو ایک طرح سے نیند میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور اسی بنا پر، سوال میں اشارہ کی گئی آیت حضرت عیسی {ع} کی موت کی قطعی دلیل نہیں ھوسکتی ہے- لیکن یہ کہ حضرت عیسی{ع} کا انجام کیا ھوا، اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات قابل مطالعہ ہیں:
۱- عیسائیوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت عیسی {ع} کو سولی پر چڑھا یا گیا اور دشمنوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے، لیکن قرآن مجید واضح طور پر ان کی اس قسم کی موت کا انکار کرتے ھوئے ارشاد فرما تا ہے: " وَ ما قَتَلُوهُ وَ ما صَلَبُوهُ وَ لكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ....وَ ما قَتَلُوهُ يَقينا".[6]
۲- اگر چہ قرآن مجید نے حضرت عیسی [ع] کے قتل ھونے سے انکار کیا ہے، لیکن ہم کوئی ایسی آیت نہیں پاتے ہیں جس میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ھو کہ انھوں نے کسی دوسری صورت میں وفات نہ پائی ھو اور اس وقت زندہ ہیں-
۳- { سوال میں اشارہ شدہ} سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۵۵ کے علاوہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۱۷ کے مطابق اگر چہ حضرت عیسی{ع} کی موت کا قطعی طور پر استنباط نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن ان آیات سے اس قدر معلوم ھوتا ہے کہ ان کا مادی دنیا سے اس وقت رابطہ، ان کی زندگی میں اپنے پیروں کے ساتھ بلا واسطہ رابطہ سے متفاوت ہے-
۴- شیعوں اور اہل سنت کی کتابوں میں ایسی بکثرت روایتیں ملتی ہیں، جن میں حضرت عیسی{ع} کا زندہ ھونا اعلان کیا گیا ہے- اگر ہم قرآن مجید میں حضرت عیسی{ع} کے زندہ ھونے کے بارے میں کوئی واضح آیت بھی پیش نہ کرسکیں، تو ان روایات سے استفادہ کرکے ان کی حیات کے بارے میں علم حاصل کرسکتے ہیں- ذیل میں ہم اس قسم کی دو روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۴-۱ . قال رسول الله (ص) لليهود: "أن عيسى لم يمت و أنه راجع إليكم قبل يوم القيامة"؛[7]. قال رسول الله (ص) لليهود: "أن عيسى لم يمت و أنه راجع إليكم قبل يوم القيامة"؛[8] پیغمبر اسلام{ص} نے یہودیوں سے مخاطب ھوکر فرمایا: کہ عیسی نہیں مرے ہیں اور قیامت سے پہلے آپ کے درمیان لوٹ کر آئیں گے-
۴-۲ قال رسول الله (ص): "... و من ذريتي المهدي إذا خرج نزل عيسى ابن مريم لنصرته فقدمه و صلى خلفه"؛[9] پیغمبر اسلام{ص} نے فرمایا: اور مھدی میرے اہل بیت میں سے ہیں ، جب وہ ظہور کریں گے، تو حضرت عیسی بن مریم {ع} ان کی مدد کے لئے آئیں گے اور ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے-
۵- حتی کہ اگر ہم موجودہ روایات کے بر خلاف اور " توفی" کے دوسرے معنی سے چشم پوشی کرکے اس کے قائل ھو جائیں کہ اشارہ شدہ آیات کے مطابق حضرت عیسی {ع} کی موت حتمی واقع ھوئی ہے، پھر بھی یہ موضوع ان کے اس وقت زندہ ھونے کے منافی نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید کی آیات کے مطابق ایک ایسا شخص موجود تھا جو مرنے کے سو سال بعد زندہ ھو چکا ہے-[10] اس بنا پر ممکن ہے کہ یہ اتفاق حضرت عیسی{ع} کے لئے بھی پیش آیا ھو-
[1] آل عمران، 54،
[2] ابن منظور، لسان العرب، ج 15،ص 398 و 399، طبع اول، نشر ادب، حوزه، قم، 1405.ھ
[3] مجمع البحرين، ج1، ص 444،اده "وفی"، کتابفروشی مرتضوی، تهران، 1375 -
[4] نساء، 97؛ محمد، 27؛ یونس، 46؛ سجده، 11.
[5] انعام، 60.
[6] نساء، 157.
a
[8] ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ج 4، ص 1110، ح 6232، مکتبة نزار الصطفی الباز، عربستان سعودی، 1419 هـ .
[9] شیخ صدوق، الامالی، ج 1، ص 218، انتشارات کتابخانۀ اسلامیه، تهران، 1362 هـ .
[10] بقره، 259؛ " فَأَماتَهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَه".اللَّهُ