قرآن مجید کی متعدد آیات میں بندوں کی عزت ، ذلت، رزق، بخشش، سزا و جزا کا سبب مشیت الہی بیان کیا گیا ہے، اور دوسری آیات میں ہدایت، عزت اور رزق کو تقوی و اخلاص کے ساتھ کارو کوشش سے منحصر جانا گیا ہے- ان دو قسموں کی آیات کے درمیان کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی جاتا ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں، کیونکہ خداوند متعال کی مشیت اور ارادہ نا قابل تغیر حکمتوں اور عادلانہ قوانین کی بنیاد پر ہیں- پس مشیت الہی، یعنی اس کے اختیار اور حکیمانہ و نا قابل تغییر سنتوں کے مطابق حرکت ہے- اس معنی میں ارادہ نہ صرف خداوند متعال کی عدالت سے کسی قسم کی منافات نہیں رکھتی ہے بلکہ عین عدالت ہے-
قرآن مجید کی متعدد آیات میں انسان کی عزت، ذلت، رزق، بخشش سزا وجزا وغیرہ کے سلسلہ میں مشیت الہی کے رول کا ذکر کیا گیا ہے، من جملہ ان آیات میں سے آپ کی اشارہ شدہ آیہ شریفہ بھی ہے – اور یہ اس حالت میں ہے کہ خداوند متعال دوسری آیات میں ہدایت، عزت، سعادت، رزق و روزی کو حاصل کرنے کے لئے تقوی اور اخلاص کے ساتھ کام اور کوشش کو اصلی سبب قرار دیتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ قانون خلقت اور عقل کے حکم سے اور انبیائے الہی کی دعوت کے نتیجہ میں ہر شخص سعادت اور خوشبختی، عزت، ذلت کو حاصل کرنے کے لئے تلاش و کوشش کرنے میں مختار اورآزاد ہے- بہ الفاظ دیگر، بہشت قیمت ادا کرنے پر ملتی ہے نہ کہ کسی بہانہ سے، پس مذکورہ آیہ شریفہ میں ان سب چیزوں کو کیسے خداوند متعال سے نسبت دی گئی ہے؟
لیکن خداوند متعال کی مشیت اور اس کا ارادہ حکمتوں اور ناقابل تغیر عادلانہ قوانین پر مبنی ہے، کیونکہ خدوند متعال نے اس دنیا میں ترقی اور کامیابی کے لئے کچھ اسباب و عوامل کو پیدا کیا ہے، اور ان اسباب کے آثار سے استفادہ کرنا ہی مشیت الہی ہے- پس مشیت الہی، یعنی خدا کے حکیمانہ اور ناقابل تغیر قوانین کے مطابق قدم بڑھانا ہے-
اس مقدمہ کے پیش نظر ظاہر ھوتا ہے کہ بعض افراد کو جزا دینے میں مشیت الہی، امتیازی سلوک کے معنی میں نہیں ہے اور اس کی عدالت کے ساتھ اس کی مشیت کی کوئی منافات نہیں ہے، بلکہ اس کی مشیت عین عدالت ہے، کیونکہ، خداوند متعال کی طرف سے افراد کی عزت، ذلت، ہدایت و گمراہی، فقر، دولت اور رزق وغیرہ کو اپنی مشیت سے نسبت دینے کا سبب یہ ہے کہ عالم خلقت اور تمام نعمتوں اور انسان کی قدرت کا اصلی سر چشمہ خداوند متعال ہے- وہی، عزت اور خوشبختی حاصل کرنے کے لئے امکانات کو انسان کے اختیار میں دیتا ہے اور اسی نے اس عالم میں قوانین وضع کئے ہیں کہ اگر ان کی رعایت نہ کی جائے تو اس کا نتیجہ ذلت ھوگا اور اسی وجہ سے ان سب چیزوں کو اسی سے نسبت دی جاسکتی ہے، لیکن یہ نسبت انسان کی آزادی اور اختیار سے منافات نہیں رکھتی ہے، کیونکہ یہ انسان ہے جو آزادی و اختیار سے ان قوانین اور نعمتوں اور طاقت سے جائز یا نا جائز استفادہ کرتا ہے-[1] مندرجہ بالا توضیحات کے پیش نظر ہم ایک بار پھر مذکورہ آیہ شریفہ کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں- خداوند متعال اس آیہ شریفہ میں ارشاد فرماتا ہے:" اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی کل کائنات ہے- {اس لحاظ سے} تم اپنے دل کی باتوں کا اظہار کرو یا ان پر پردہ ڈالو وہ سب کا محاسبہ کرے گا- وہ جس کو چاہے گا یعنی جس میں شائستگی ہو اسے بخش دے گا اور جس پر چاہے گا { یعنی جو مستحق ھو گا} عذاب کرے گا وہ ہر شے پر قدرت و اختیار رکھنے والا ہے-"[2]
اس آیت میں یا دوسری آیات میں بیان ھوئے جملہ " من یشاء" { جس کو چاہے گا} سے مراد، وہی حکمت کے ساتھ مشیت الہی ہے، یعنی جس کو بھی شائستہ اور مستحق جانے اسے اپنی مغفرت اور رحمت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے اور جس کو عذاب کے لئے شائستہ و مستحق سمجھے اس پر عذاب کرے گا، کیونکہ خداوند متعال کا ارادہ حساب و کتاب کے بغیر نہیں ہے بلکہ قابلیتوں اور استحقاق کے ہم آہنگ ہے اور حکیم کسی دلیل کے بغیر کوئی ارادہ نہیں کرتا ہے اور حساب کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتا ہے-[3]
اس بنا پر، رحمت و عذاب الہی کا سبب، مشیت الہی جاننے والی آیات اور تقوی و اخلاص کے ساتھ تلاش و کوشش کے رحمت الہی تک پہنچنے کو سبب جاننے والی آیات کے درمیان کسی قسم کی منافات نہیں ہے بلکہ یہ آیات ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں، کیونکہ ارادہ الہی، یعنی الہی سنتوں اور قوانین کے مطابق حرکت کرنا اور خدا کی طرف سے اسباب و عوامل میں رکھے گئے نتائج تک پہنچنا ہے –
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے ملاحظہ ھو:
18799(سایٹ: ur18332)، عنوان: خداوند مهربان و هدایت مردم.
7849 (سایٹ: 7905)، عنوان: هدایت متقین در قرآن.
[1] مكارم شيرازى ناصر، تفسير نمونه، ج2، ص: 498، با اندکی تصرف، تفسير نمونه، نشر دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 ش، طبع اول
[2] بقره، 284،:"لِّلَّهِ مَا فىِ السَّمَاوَاتِ وَ مَا فىِ الْأَرْضِ وَ إِن تُبْدُواْ مَا فىِ أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَ اللَّهُ عَلىَ كُلِّ شىَْءٍ قَدِيرٌ."
[3] تفسیر نمونه، ج22، ص: 92، با اندکی تصرف