Please Wait
کا
10948
10948
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2010/11/08
سوال کا خلاصہ
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
سوال
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟ جب ہم نذر کرتے ہیں، تو کیا ہماری آنے والی تقدیر بدل جاتی ہے؟
ایک مختصر
قضا ئے الہی دوقسم کی ھوتی ہے، ایک حتمی تقدریر الہی ہے، جو لوح محفوظ سے متعلق ہے اور دوسری لوح محو و اثبات سے متعلق ہے۔ لوح محو و اثبات والی تقدیر الہی قابل تغییر ہے، یعنی اس پر لکھی گئی قضاء و قدر تبدیل ھونے کی قابلیت رکھتی ہے۔
تقدیر الہی کو بدلنے میں کچھ عوامل موثر ہیں کہ ان میں سے من جملہ: حسن اخلاق، صلہ رحم، دعا، صدقہ دینا اور یا خاص گناہ جیسے اچھے اور برے اعمال ہیں، جو انسان کی قسمت کو بدل دیتے ہیں اور رزق کی فراوانی یا تنگی اور عمرمیں کم و زیادہ ھونے کا سبب بن جاتے ہیں۔
امرالمؤمنین حضرت علی ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ سے آیہ شریفہ:“ یمحوااللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب”۔ کے بارے میں سوال کیا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ میں اس کی تفسیر سے تمھاری آنکھوں کو منور کردوں گا اور اپنی امت کی آنکھوں کو بھی اس کی تفسیر سے منور کردوں گا ، صدقہ دینا، ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور نیک کام انجام دینا، جیسے اعمال،شقاوت کو سعادت میں بدلنے کا سبب بن جاتے ہیں اور عمر کو طولانی کرتے ہیں اور انسان کو برے حوادث سے محفوظ رکھتے ہیں”۔ رسول خدا ﴿ص﴾ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ لا یرد القضاء الا الدعا” “ قضا و قدر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز ٹال نہیں سکتی ہے”۔
کیا نذر بلاؤں کے ٹالنے اور تقدیر الہی کو بدل دینے کے عوامل میں شمار ھوتی ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں کہنا چاہئیےکہ: نذر وہ ہے، جسے انسان کو اس عبارت اور صیغہ کی صورت میں کہنا چاہئیے کہ“ میں نے نذر کی ہے کہ مثال کے طور پر اگر میرا بیمار صحت یاب ھوجائے تو خدا کے لئے مجھ پر ہے کہ میں سو روپیہ کسی فقیر کو دیدوں گا”۔ اس قسم کی نذر، بذات خود ایک نیک کام ھونے کے علاوہ انسان کی تقدیر میں تبدیلی پیدا کرنے میں مؤثر ھوسکتی ہے، اور یہ ایک قسم کی دعا و توسل شمار ھوتی ہے اور اس لحاظ سے بھی نذر تقدیر الہی کو بدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ نذر میں آیا ہے اگر وہ تقدیر الہی کو تبدیل کرنے کے مصادیق میں سے ھو تو صدقہ اور صلہ رحم کے مانند قضاء و قدر کو ٹالنے میں بھی مؤثر ھوسکتا ہے۔
تقدیر الہی کو بدلنے میں کچھ عوامل موثر ہیں کہ ان میں سے من جملہ: حسن اخلاق، صلہ رحم، دعا، صدقہ دینا اور یا خاص گناہ جیسے اچھے اور برے اعمال ہیں، جو انسان کی قسمت کو بدل دیتے ہیں اور رزق کی فراوانی یا تنگی اور عمرمیں کم و زیادہ ھونے کا سبب بن جاتے ہیں۔
امرالمؤمنین حضرت علی ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ سے آیہ شریفہ:“ یمحوااللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب”۔ کے بارے میں سوال کیا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ میں اس کی تفسیر سے تمھاری آنکھوں کو منور کردوں گا اور اپنی امت کی آنکھوں کو بھی اس کی تفسیر سے منور کردوں گا ، صدقہ دینا، ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور نیک کام انجام دینا، جیسے اعمال،شقاوت کو سعادت میں بدلنے کا سبب بن جاتے ہیں اور عمر کو طولانی کرتے ہیں اور انسان کو برے حوادث سے محفوظ رکھتے ہیں”۔ رسول خدا ﴿ص﴾ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ لا یرد القضاء الا الدعا” “ قضا و قدر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز ٹال نہیں سکتی ہے”۔
کیا نذر بلاؤں کے ٹالنے اور تقدیر الہی کو بدل دینے کے عوامل میں شمار ھوتی ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں کہنا چاہئیےکہ: نذر وہ ہے، جسے انسان کو اس عبارت اور صیغہ کی صورت میں کہنا چاہئیے کہ“ میں نے نذر کی ہے کہ مثال کے طور پر اگر میرا بیمار صحت یاب ھوجائے تو خدا کے لئے مجھ پر ہے کہ میں سو روپیہ کسی فقیر کو دیدوں گا”۔ اس قسم کی نذر، بذات خود ایک نیک کام ھونے کے علاوہ انسان کی تقدیر میں تبدیلی پیدا کرنے میں مؤثر ھوسکتی ہے، اور یہ ایک قسم کی دعا و توسل شمار ھوتی ہے اور اس لحاظ سے بھی نذر تقدیر الہی کو بدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ نذر میں آیا ہے اگر وہ تقدیر الہی کو تبدیل کرنے کے مصادیق میں سے ھو تو صدقہ اور صلہ رحم کے مانند قضاء و قدر کو ٹالنے میں بھی مؤثر ھوسکتا ہے۔
تفصیلی جوابات
اس سوال کا جواب، چند نکات کو بیان کرنے کے دائرے میں ممکن ہے:
١۔ تقدیر اور قضاء و قدر الہی کے کیا معنی ہیں؟
“ قضاء” یعنی ایک حادثہ کا حتمی واقع ھونا، جو اس کے علل و اسبباب کی وجہ سے ھوتا ہے، اور “قدر” یعنی اس حادثہ کے حدود اور خصوصیات، اور یہ بھی اس حادثہ کے علل و اسباب کی وجہ سے ھوتے ہیں۔ حقیقت میں قضاء و قدر کی تعریف یہ ہے کہ، تمام علل و اسباب کا سرچشمہ حق تعالی کا ارادہ، اس کی مشیت اور علم ہے۔ جو بذات خود علت العلل ہے، یعنی دنیا میں جو بھی عامل رونما ھوتا ہے، حقیقت میں وہ علم و ارادہ حق تعالی کی تجلی، مرضی الہی کا مظہر اور قضاء و قدر کو عملی جامہ پہنانے کا آلہ ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ قضاء وقدر حتمی نہ ھو، یعنی وہی عامل جو خود قضاء و قدرالہی کے مظہر میں سے ہے۔ اور علیت کے حلقوں میں سے ایک حلقہ ہے، کسی تقدیر کو بدل دینے کا عامل بن جائے، پھر بھی یہ قضاء و قدر کا اقتضا ھوگا۔
مثال کے طور پر کوئی شخص کسی خاص بیماری میں مبتلا ھوتا ہے، اس کی تقدیر وہی ہے اور یہ بیماری بھی کسی خاص علت کی وجہ سے ھوتی یے، لیکن اگر یہ بیمار دوا کھائے تو اس دوا کی ایک اور علت ھوتی ہے اور یہ علت اپنے ساتھ ایک نئ تقدیر لاتی ہے اور بیماری کے ختم ھونے کا سبب بن جاتی ہے، یعنی بیمار کی پہلی والی تقدیر کو بدل دیتی ہے اور یہ بھی قضاء و قدر الہی کی وجہ سے ہے اور اگر یہ بیمار دوا نہ لےلے اور شدید تر بیمار ھو جائے یا کوئی نقصاندہ دوا لےلے اور مر جائے، پھر بھی یہ قضاء و قدر الہی کے مطابق ہے، اسی طرح اگر وہ اپنے آپ کو بیماری سے بچائے اور محفوظ رہے، سر انجام جو بھی کرے، وہ اس کے لئے ایک قسم کی قضاء و قدر ہے اور وہ قضاء و قدر کے دائرے سے خارج نہیں ھوسکتا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ قضاء و قدر دنیا کے دوسرے عوامل کے موازی کوئی عامل نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام عوامل کا مبداء، منشاء اور سر چشمہ ہے، جو بھی حرکت میں آئے اور اپنا اثر دکھائے، وہ علیت کے عام قانون کے مظاہر میں سے ایک مظہر ھوتا ہے اور ہر حادثہ کے بارے میں، جس قدر مختلف علل و اسباب اور رودادیں ھوں اسی قدر مختلف قضاء و قدر بھی قابل تصور ہیں اور جو روداد ٹل جاتی ہے، وہ بھی قضاء و قدر الہی ہے۔
۲۔ لوح محفوظ اور لوح محو و اثبات کیا ہے؟
جو بھی چیز کائنات میں تخلیقات کے عنوان سے وجود میں آتی ہے، وہ سب خداوند متعال کے بے انتہا مظاہر ہیں اور یہ سب مظاہر خداوند متعال کے ارادہ و مشیت کے تحت اور ایسے پروگراموں کے مطابق ہیں جو پہلے سے معین ھوئے ہیں اور خداوند متعال کی تکوینی کتاب میں لکھے گئے ہیں۔
اسلامی متون میں، عالم خلقت اور عالم تکوین سے متعلق کئی کتابوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ انسان اور کائنات کی تقدیر ان میں درج ہے اور انسانوں کی پیدائش سے مرنے تک، تمدنوں کی پیدائش سے زوال تک، انسانوں کی سعادت سے شقاوت تک اور ان کی رزق و روزی، سر انجام ہر انسان کے لئے واقع ھونے والے ہر حادثہ کے بارے میں ان کتابوں میں تقدیر کے قلم سے تحریر کیا گیا ہے اور ان کتابوں کے مقابلے میں قرآن مجد کو قرار دیا گیا ہے، جو خداوند متعال کی تشریعی کتاب ہے۔
موجودہ آیات و روایات کے مطابق، ھستی کے تمام چھوٹے بڑے مظاہر، دو کتابوں یا لوح تکوینی میں لکھے جاتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی خاص خصوصیتیں ہیں اور یہ دو لوح حسب ذیل ہیں:
الف﴾ “ لوح محفوظ” کہ کبھی اسے “ام الکتاب”،“ کتاب مسطور”،“ رق منشور”، “کتاب مکنون” اور “ کتاب حفیظ” کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے اور جو کچھ اس کتاب میں درج کیا گیا ہے، وہ قابل تغییر نہیں ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
ب﴾ “ لوح محو و اثبات”، اس میں ایسے حوادث و اتفاقات درج ہیں، جن پر عملی جامہ پہنایا جائے گا، اور اس کے نام سے ہی معلوم ھوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ تغییر و تبدیل ہونےکے قابل ہے۔ مندرجہ ذیل ایہ شریفہ میں ان دونوں کتابوں کا اشارہ کیا گیا ہے:
“ یمحوا اللہ مایشاء و یثبت وعندہ ام الکتاب“[1]
“ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا بر قرار رکھتا ہے، کہ ام الکتاب﴿ لوح محفوظ﴾ اسی کے پاس ہے”۔
اس آیہ شریفہ کے مطابق، عالم تکوین میں خداوند متعال کے پاس دو کتابیں ہیں: ایک کتاب ایسی ہے کہ اس میں درج کی گئی چیز کو اگر چاہے تو اسے مٹاتا ہے اور یا جو چیز اس میں درج نہیں ہے، اگر چاہے تو اسے درج کرتا ہے، یعنی یہ کتاب ان تبدیلیوں سے متعلق ہے، جو قضائے الہی کے تحت حاصل ھوتی ہیں اور دوسری وہ کتاب ہے، جو کائنات کے تمام مظاہر کا سرچشمہ ہے اور اس میں لکھی گئی چیزیں نا قابل تغییر ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، لوح محو و اثبات خداوند متعال کی مطلقہ قدرت کا مظہر ہے اور جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے اس کے معلق اور مشروط ھونے کی صورت ہے اور اس صورت میں ہے کہ اگر یوں ھو جائے تو ایسا ھوگا اور اگر یوں نہ ھو جائے تو ایسا نہیں ھوگا۔ اس سلسلہ میں علامہ مجلسی یہ مثال بیان کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر زید کے لئے پچاس سال کی عمر لکھی گئی ہے، لیکن اس صورت میں کہ اگر وہ صلہ رحم پر عمل کرے تو اس کی عمر ساتھ سال ھوگی اور اگر قطع رحم کرے تو چالیس سال ھوگی، پس اگر اس نے صلہ رحم پر عمل کیا، تو اس کتاب میں پچاس سال کو مٹاکر ساٹھ سال لکھے جائیں گے۔[2]
۳۔ غیر حتمی قضاء و قدر، لوح محو و اثبات سے متعلق ہے:
وضاحت: خداوند متعال کے پاس دو قسم کی قضاء یا تقدیر ہے، ان میں سے ایک قضاء حتمی اور دوسری تعلیقی﴿ قابل تغییر﴾ قضاء ہے۔ مذکورہ مثال میں زید کی موت حتمی اور نا قابل تغییر ہے، اور کبھی اس کو اجل مسمی اور اجل معلق کی تعبیر سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ لوح محو و اثبات سے متعلق آیہ شریفہ میں اس عبارت:“ یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت” سے واضح طور پر دلالت ملتی ہے کہ قضائے الہی قابل تغییر ہے اور ایسا نہیں ہے کہ قضائے الہی خدا کی قدرت کو محدود کرے۔ اور وہ اس قضائے الہی کے خلاف کوئی کام انجام نہ دے سکے۔ خدا وند متعال ہمیشہ نئے کام انجام دینے کی حالت میں ہے اور یہودیوں کے عقیدہ[3] اور بعض فلاسفہ کے مطابق کہ خداوند متعال کو ایک معزول حاکم کے مانند جانتے ہیں جو اپنے ہی بنائے گئے قوانین کا اسیر ھوچکا ہے، کے برعکس خداوند متعال جب چاہے اسی لمحہ میں درج شدہ قضاء و قدر کو تغییر دے سکتا ہے اور لوح محو و اثبات ان ہی تبدیلیوں کی جگہ ہے۔
قرآن مجید میں یہ حقیقت دوسری صورتوں میں بھی بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات میں بعض اشخاص و معاشروں کی تقدیر کو بدلنے کی خبر دی گئی ہےاور اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ قضائے الہی کبھی کسی چیز سے متعلق ھوتی ہے لیکن خاص عوامل کے نتیجہ میں اس قضاء و قدر کو تبدیل کیا گیا ہے۔
۴۔ بداء کا مسئلہ:
قرآن مجید کی یہ حقیقت کہ خداوند متعال جس چیز کو چاہے، تغییر دے سکتا ہے، وہی“ بداء” کا مسئلہ ہے کہ شیعہ اس کا اعتقاد رکھتے ہیں اور اہل سنت اس سے انکار کرتے ہیں۔ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق“ بداء“ وہی کام ہے، جسے خداوند متعال لوح محو و اثبات میں درج کرتا ہے، اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ “ بداء” کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا کے لئے جو چیز معلوم نہیں تھی، آشکار ھوتی ہے، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ خداوند متعال نے پوشیدہ چیز کو اپنے بندوں پر آشکار کیا ہے۔[4]
۵۔ قضائے الہی کو تغییر دینے والے عوامل:
قضائے الہی میں تبدیلی پیدا ھونے والے قضایا میں حضرت یونس ﴿ع﴾ کی روداد ہے کہ خداوند متعال نے ان کی شخصیت اور ان کی قوم کے بارے میں اس قسم کی تعبیر بیان کی ہے۔[5]
اس کے علاوہ قرآن مجید کی کئی آیات میں کلی طور پر نیک اور برے کاموں کی وجہ سے قضائے الہی اور لوگوں کی تقدیر بدلنے کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے۔[6] اس کے علاوہ بہت سی روایتوں میں، حسن اخلاق، صلہ رحم، دعا، صدقہ[7] یا خاص گناھوں جیسے نیک و بد کاموں کے اثرات کے نتیجہ میں انسانوں کی تقدیر بدلنے، رزق کے کم و زیادہ ھونے اور عمر کے کم و زیادہ ھونے کے بارے میں واضح مطالب کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ جیسا کہ بیان کیا گیا ، قضائے الہی میں تغییرات رونما ھونے کی جگہ وہی لوح محو و اثبات ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ سے آیہ شریفہ:“ یمحوااللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب”۔ کے بارے میں سوال کیا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ میں اس کی تفسیر سے تمھاری آنکھوں کو منور کردوں گا اور اپنی امت کی آنکھوں کو بھی اس کی تفسیر سے منور کردوں گا ، صدقہ دینا، ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور نیک کام انجام دینا، شقاوت کو سعادت میں بدلنے کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کی عمر طولانی ہوتی ہے اور انسان برے حوادث سے محفوظ رہتے ہیں”۔[8]
روایتوں میں آیا ہے کہ: دعا قضاء و قدر کو نا گزیر ھونے کے بعد ٹالتی ہے، پس زیادہ دعا کرنی چاہیئے، دعا ہر رحمت اور ہر حاجت تک پہچنے کی کلید ہے اور خداوند متعال کے پاس جو چیز ہے اس تک دعا کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا ہے اور دروازہ پر کافی دستک دینے والے کے لئے بالآخر دروازہ کھلتا ہے۔”[9]
بحار الانوار میں بھی رسول خدا ﴿ص﴾ سے ایک اور روایت نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت﴿ص﴾ نے فرمایا:“ لا یرد القضاء الا الدعا“ “ قضائے الہی کو دعا کے علاوہ کوئی چیز ٹال نہیں سکتی ہے”۔[10]
٦۔ نذر، بلاؤں کو ٹالنے اور قضائے الہی کو تبدیل کرنے والی ہے۔
نذر وہ ہے کہ انسان کو اس عبارت اور صیغہ کی صورت میں کہنا چاہئیے کہ“ میں نے نذر کی ہے کہ مثال کے طور پر اگر میرا بیمار صحت یاب ھوجائے تو خدا کے لئے مجھ پر ہے کہ میں سو روپیہ کسی فقیر کو دیدوں گا”[11]۔ اس قسم کی نذر، بذات خود ایک نیک کام ھونے کے علاوہ انسان کی تقدیر میں تبدیلی پیدا کرنے میں مؤثر ھوسکتی ہے، اور یہ ایک قسم کی دعا و توسل شمار ھوتی ہے اور اس لحاظ سے بھی نذر تقدیر الہی کو بدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ نذر میں آیا ہے اگر وہ تقدیر الہی کو تبدیل کرنے کے مصادیق میں سے ھو تو صدقہ اور صلہ رحم کے مانند قضاء و قدر کو ٹالنے میں بھی مؤثر ھوسکتا ہے۔
١۔ تقدیر اور قضاء و قدر الہی کے کیا معنی ہیں؟
“ قضاء” یعنی ایک حادثہ کا حتمی واقع ھونا، جو اس کے علل و اسبباب کی وجہ سے ھوتا ہے، اور “قدر” یعنی اس حادثہ کے حدود اور خصوصیات، اور یہ بھی اس حادثہ کے علل و اسباب کی وجہ سے ھوتے ہیں۔ حقیقت میں قضاء و قدر کی تعریف یہ ہے کہ، تمام علل و اسباب کا سرچشمہ حق تعالی کا ارادہ، اس کی مشیت اور علم ہے۔ جو بذات خود علت العلل ہے، یعنی دنیا میں جو بھی عامل رونما ھوتا ہے، حقیقت میں وہ علم و ارادہ حق تعالی کی تجلی، مرضی الہی کا مظہر اور قضاء و قدر کو عملی جامہ پہنانے کا آلہ ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ قضاء وقدر حتمی نہ ھو، یعنی وہی عامل جو خود قضاء و قدرالہی کے مظہر میں سے ہے۔ اور علیت کے حلقوں میں سے ایک حلقہ ہے، کسی تقدیر کو بدل دینے کا عامل بن جائے، پھر بھی یہ قضاء و قدر کا اقتضا ھوگا۔
مثال کے طور پر کوئی شخص کسی خاص بیماری میں مبتلا ھوتا ہے، اس کی تقدیر وہی ہے اور یہ بیماری بھی کسی خاص علت کی وجہ سے ھوتی یے، لیکن اگر یہ بیمار دوا کھائے تو اس دوا کی ایک اور علت ھوتی ہے اور یہ علت اپنے ساتھ ایک نئ تقدیر لاتی ہے اور بیماری کے ختم ھونے کا سبب بن جاتی ہے، یعنی بیمار کی پہلی والی تقدیر کو بدل دیتی ہے اور یہ بھی قضاء و قدر الہی کی وجہ سے ہے اور اگر یہ بیمار دوا نہ لےلے اور شدید تر بیمار ھو جائے یا کوئی نقصاندہ دوا لےلے اور مر جائے، پھر بھی یہ قضاء و قدر الہی کے مطابق ہے، اسی طرح اگر وہ اپنے آپ کو بیماری سے بچائے اور محفوظ رہے، سر انجام جو بھی کرے، وہ اس کے لئے ایک قسم کی قضاء و قدر ہے اور وہ قضاء و قدر کے دائرے سے خارج نہیں ھوسکتا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ قضاء و قدر دنیا کے دوسرے عوامل کے موازی کوئی عامل نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام عوامل کا مبداء، منشاء اور سر چشمہ ہے، جو بھی حرکت میں آئے اور اپنا اثر دکھائے، وہ علیت کے عام قانون کے مظاہر میں سے ایک مظہر ھوتا ہے اور ہر حادثہ کے بارے میں، جس قدر مختلف علل و اسباب اور رودادیں ھوں اسی قدر مختلف قضاء و قدر بھی قابل تصور ہیں اور جو روداد ٹل جاتی ہے، وہ بھی قضاء و قدر الہی ہے۔
۲۔ لوح محفوظ اور لوح محو و اثبات کیا ہے؟
جو بھی چیز کائنات میں تخلیقات کے عنوان سے وجود میں آتی ہے، وہ سب خداوند متعال کے بے انتہا مظاہر ہیں اور یہ سب مظاہر خداوند متعال کے ارادہ و مشیت کے تحت اور ایسے پروگراموں کے مطابق ہیں جو پہلے سے معین ھوئے ہیں اور خداوند متعال کی تکوینی کتاب میں لکھے گئے ہیں۔
اسلامی متون میں، عالم خلقت اور عالم تکوین سے متعلق کئی کتابوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ انسان اور کائنات کی تقدیر ان میں درج ہے اور انسانوں کی پیدائش سے مرنے تک، تمدنوں کی پیدائش سے زوال تک، انسانوں کی سعادت سے شقاوت تک اور ان کی رزق و روزی، سر انجام ہر انسان کے لئے واقع ھونے والے ہر حادثہ کے بارے میں ان کتابوں میں تقدیر کے قلم سے تحریر کیا گیا ہے اور ان کتابوں کے مقابلے میں قرآن مجد کو قرار دیا گیا ہے، جو خداوند متعال کی تشریعی کتاب ہے۔
موجودہ آیات و روایات کے مطابق، ھستی کے تمام چھوٹے بڑے مظاہر، دو کتابوں یا لوح تکوینی میں لکھے جاتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی خاص خصوصیتیں ہیں اور یہ دو لوح حسب ذیل ہیں:
الف﴾ “ لوح محفوظ” کہ کبھی اسے “ام الکتاب”،“ کتاب مسطور”،“ رق منشور”، “کتاب مکنون” اور “ کتاب حفیظ” کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے اور جو کچھ اس کتاب میں درج کیا گیا ہے، وہ قابل تغییر نہیں ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
ب﴾ “ لوح محو و اثبات”، اس میں ایسے حوادث و اتفاقات درج ہیں، جن پر عملی جامہ پہنایا جائے گا، اور اس کے نام سے ہی معلوم ھوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ تغییر و تبدیل ہونےکے قابل ہے۔ مندرجہ ذیل ایہ شریفہ میں ان دونوں کتابوں کا اشارہ کیا گیا ہے:
“ یمحوا اللہ مایشاء و یثبت وعندہ ام الکتاب“[1]
“ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا بر قرار رکھتا ہے، کہ ام الکتاب﴿ لوح محفوظ﴾ اسی کے پاس ہے”۔
اس آیہ شریفہ کے مطابق، عالم تکوین میں خداوند متعال کے پاس دو کتابیں ہیں: ایک کتاب ایسی ہے کہ اس میں درج کی گئی چیز کو اگر چاہے تو اسے مٹاتا ہے اور یا جو چیز اس میں درج نہیں ہے، اگر چاہے تو اسے درج کرتا ہے، یعنی یہ کتاب ان تبدیلیوں سے متعلق ہے، جو قضائے الہی کے تحت حاصل ھوتی ہیں اور دوسری وہ کتاب ہے، جو کائنات کے تمام مظاہر کا سرچشمہ ہے اور اس میں لکھی گئی چیزیں نا قابل تغییر ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، لوح محو و اثبات خداوند متعال کی مطلقہ قدرت کا مظہر ہے اور جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے اس کے معلق اور مشروط ھونے کی صورت ہے اور اس صورت میں ہے کہ اگر یوں ھو جائے تو ایسا ھوگا اور اگر یوں نہ ھو جائے تو ایسا نہیں ھوگا۔ اس سلسلہ میں علامہ مجلسی یہ مثال بیان کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر زید کے لئے پچاس سال کی عمر لکھی گئی ہے، لیکن اس صورت میں کہ اگر وہ صلہ رحم پر عمل کرے تو اس کی عمر ساتھ سال ھوگی اور اگر قطع رحم کرے تو چالیس سال ھوگی، پس اگر اس نے صلہ رحم پر عمل کیا، تو اس کتاب میں پچاس سال کو مٹاکر ساٹھ سال لکھے جائیں گے۔[2]
۳۔ غیر حتمی قضاء و قدر، لوح محو و اثبات سے متعلق ہے:
وضاحت: خداوند متعال کے پاس دو قسم کی قضاء یا تقدیر ہے، ان میں سے ایک قضاء حتمی اور دوسری تعلیقی﴿ قابل تغییر﴾ قضاء ہے۔ مذکورہ مثال میں زید کی موت حتمی اور نا قابل تغییر ہے، اور کبھی اس کو اجل مسمی اور اجل معلق کی تعبیر سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ لوح محو و اثبات سے متعلق آیہ شریفہ میں اس عبارت:“ یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت” سے واضح طور پر دلالت ملتی ہے کہ قضائے الہی قابل تغییر ہے اور ایسا نہیں ہے کہ قضائے الہی خدا کی قدرت کو محدود کرے۔ اور وہ اس قضائے الہی کے خلاف کوئی کام انجام نہ دے سکے۔ خدا وند متعال ہمیشہ نئے کام انجام دینے کی حالت میں ہے اور یہودیوں کے عقیدہ[3] اور بعض فلاسفہ کے مطابق کہ خداوند متعال کو ایک معزول حاکم کے مانند جانتے ہیں جو اپنے ہی بنائے گئے قوانین کا اسیر ھوچکا ہے، کے برعکس خداوند متعال جب چاہے اسی لمحہ میں درج شدہ قضاء و قدر کو تغییر دے سکتا ہے اور لوح محو و اثبات ان ہی تبدیلیوں کی جگہ ہے۔
قرآن مجید میں یہ حقیقت دوسری صورتوں میں بھی بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات میں بعض اشخاص و معاشروں کی تقدیر کو بدلنے کی خبر دی گئی ہےاور اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ قضائے الہی کبھی کسی چیز سے متعلق ھوتی ہے لیکن خاص عوامل کے نتیجہ میں اس قضاء و قدر کو تبدیل کیا گیا ہے۔
۴۔ بداء کا مسئلہ:
قرآن مجید کی یہ حقیقت کہ خداوند متعال جس چیز کو چاہے، تغییر دے سکتا ہے، وہی“ بداء” کا مسئلہ ہے کہ شیعہ اس کا اعتقاد رکھتے ہیں اور اہل سنت اس سے انکار کرتے ہیں۔ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق“ بداء“ وہی کام ہے، جسے خداوند متعال لوح محو و اثبات میں درج کرتا ہے، اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ “ بداء” کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا کے لئے جو چیز معلوم نہیں تھی، آشکار ھوتی ہے، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ خداوند متعال نے پوشیدہ چیز کو اپنے بندوں پر آشکار کیا ہے۔[4]
۵۔ قضائے الہی کو تغییر دینے والے عوامل:
قضائے الہی میں تبدیلی پیدا ھونے والے قضایا میں حضرت یونس ﴿ع﴾ کی روداد ہے کہ خداوند متعال نے ان کی شخصیت اور ان کی قوم کے بارے میں اس قسم کی تعبیر بیان کی ہے۔[5]
اس کے علاوہ قرآن مجید کی کئی آیات میں کلی طور پر نیک اور برے کاموں کی وجہ سے قضائے الہی اور لوگوں کی تقدیر بدلنے کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے۔[6] اس کے علاوہ بہت سی روایتوں میں، حسن اخلاق، صلہ رحم، دعا، صدقہ[7] یا خاص گناھوں جیسے نیک و بد کاموں کے اثرات کے نتیجہ میں انسانوں کی تقدیر بدلنے، رزق کے کم و زیادہ ھونے اور عمر کے کم و زیادہ ھونے کے بارے میں واضح مطالب کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ جیسا کہ بیان کیا گیا ، قضائے الہی میں تغییرات رونما ھونے کی جگہ وہی لوح محو و اثبات ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ سے آیہ شریفہ:“ یمحوااللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب”۔ کے بارے میں سوال کیا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ میں اس کی تفسیر سے تمھاری آنکھوں کو منور کردوں گا اور اپنی امت کی آنکھوں کو بھی اس کی تفسیر سے منور کردوں گا ، صدقہ دینا، ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور نیک کام انجام دینا، شقاوت کو سعادت میں بدلنے کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کی عمر طولانی ہوتی ہے اور انسان برے حوادث سے محفوظ رہتے ہیں”۔[8]
روایتوں میں آیا ہے کہ: دعا قضاء و قدر کو نا گزیر ھونے کے بعد ٹالتی ہے، پس زیادہ دعا کرنی چاہیئے، دعا ہر رحمت اور ہر حاجت تک پہچنے کی کلید ہے اور خداوند متعال کے پاس جو چیز ہے اس تک دعا کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا ہے اور دروازہ پر کافی دستک دینے والے کے لئے بالآخر دروازہ کھلتا ہے۔”[9]
بحار الانوار میں بھی رسول خدا ﴿ص﴾ سے ایک اور روایت نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت﴿ص﴾ نے فرمایا:“ لا یرد القضاء الا الدعا“ “ قضائے الہی کو دعا کے علاوہ کوئی چیز ٹال نہیں سکتی ہے”۔[10]
٦۔ نذر، بلاؤں کو ٹالنے اور قضائے الہی کو تبدیل کرنے والی ہے۔
نذر وہ ہے کہ انسان کو اس عبارت اور صیغہ کی صورت میں کہنا چاہئیے کہ“ میں نے نذر کی ہے کہ مثال کے طور پر اگر میرا بیمار صحت یاب ھوجائے تو خدا کے لئے مجھ پر ہے کہ میں سو روپیہ کسی فقیر کو دیدوں گا”[11]۔ اس قسم کی نذر، بذات خود ایک نیک کام ھونے کے علاوہ انسان کی تقدیر میں تبدیلی پیدا کرنے میں مؤثر ھوسکتی ہے، اور یہ ایک قسم کی دعا و توسل شمار ھوتی ہے اور اس لحاظ سے بھی نذر تقدیر الہی کو بدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ نذر میں آیا ہے اگر وہ تقدیر الہی کو تبدیل کرنے کے مصادیق میں سے ھو تو صدقہ اور صلہ رحم کے مانند قضاء و قدر کو ٹالنے میں بھی مؤثر ھوسکتا ہے۔
[1] ۔ . رعد، 39.
[2] ۔ بحارالانوار، ج 4، ص 130.
[3] ۔ قرآن مجید میں یہودیوں اور بعض یونانی فلاسفہ کے اس باطل عقیدہ کا جواب دیا گیا ہے اور کئی آیا ت میں خداوند متعال کی طاقت کے لا محدود ھونے کی تاکید کی گئی ہے۔ ان آیات کے مطابق خدا کے ہاتھ کھلے ہیں اور جو چاہتا ہے اسے انجام دیتا ہے اور وہ ہر روز نیا کام انجام دیتا ہے: «وَ قالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْديهِمْ وَ لُعِنُوا بِما قالُوا بَلْ يَداهُ مَبْسُوطَتانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشاءُ وَ لَيَزيدَنَّ كَثيرًا مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيانًا وَ كُفْرًا وَ أَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَ الْبَغْضاءَ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ كُلَّما أَوْقَدُوا نارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ وَ يَسْعَوْنَ فِي اْلأَرْضِ فَسادًا وَ اللّهُ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدينَ»؛ ﴿مائدہ: ٦۴۹﴾ “ اور ہہودی کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ھوئے ہیں جبکہ اصل میں انھیں کے ہاتھ بندھے ھوئے ہیں اور یہ اپنے قول کی بنا پر ملعون ہیں اور خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ھوئے ہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ پھی پر پروردگار کی طرف سے نازل ھوا ہے اس کا انکار ان میں سے بہت سوں کے کفر اور ان کی سرکشی کو اور بڑھا دے گا اور ہم نے ان کے درمیان قہامت تک کے لئے عاداوت اور بغض پیدا کر دیا ہے کہ جب بھی جنگ کی آگ بھڑ کانا چاہیں گے خدا بجھا دے گا اور یہ زمین میں فساد کی کوشش کر رہے ہیں اور خدا مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا۔۔
[4] ۔ مزید آگاہی کے لئے ملاحطہ ھو: ترخان، قاسم، نگرشی عرفانی، فلسفی و کلامی به شخصیت و قیام امام حسین (ع)، ص 255-278، چاپ اول، انتشارات چلچراغ، 1388 ه ش؛ جعفری، یعقوب، كوثر، ج5، ص556-571، نرم افزار جامع التفاسیر.
[5] ۔ « فَلَوْ لا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحينَ لَلَبِثَ في بَطْنِهِ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ» ﴿ صافات،١۴۳۔۔ ١۴۴﴾ “ پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ھوتے، تو روز قیامت تک اسی کے شکم میں رہ جاتے۔” «فَلَوْ لا كانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَها إيمانُها إِلاّ قَوْمَ يُونُسَ لَمّا آمَنُوا كَشَفْنا عَنْهُمْ عَذابَ الْخِزْيِ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ مَتَّعْناهُمْ إِلى حينٍ»۔﴿ یونس: ۹۸﴾ “ پس کوئی بستی ایسی کیوں نہیں ہے جو ایمان لے آئے اور اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے ، علاوہ قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لے ائے تو ہم نے ان سے زندگانی دنیا میں رسوائی کا عذاب دفع کردیا اور انھیں ایک مدت تک چین سے رہنے دیا”
پہلی آیہ شریفہ میں اظہار کیا گیا ہے کہ طے پایا تھا کہ حضرت یونس ﴿ع﴾ قیامت تک ماہی کے شکم میں رہیں لیکن انھوں نے ماہی کے شکم میں تسبیح خدا انجام دی اور خداوند متعال نے اس قضاء و قدر کو بدل دیا اور حضرت یونس﴿ع﴾ کو ماہی کے شکم سے باہر نکالا۔ دوسری آیت سے معلوم ھوتا کہ قوم یونس﴿ع﴾ پر بلا نازل ھونے والی تھی لیکن اس قوم نے بلا کے آثار کا مشاہدہ کیا اور ایمان لایا ، اس لئے وہ بلا ان سے دور کی گئی اور مدتوں تک آرام و آسائش میں رہے۔
پہلی آیہ شریفہ میں اظہار کیا گیا ہے کہ طے پایا تھا کہ حضرت یونس ﴿ع﴾ قیامت تک ماہی کے شکم میں رہیں لیکن انھوں نے ماہی کے شکم میں تسبیح خدا انجام دی اور خداوند متعال نے اس قضاء و قدر کو بدل دیا اور حضرت یونس﴿ع﴾ کو ماہی کے شکم سے باہر نکالا۔ دوسری آیت سے معلوم ھوتا کہ قوم یونس﴿ع﴾ پر بلا نازل ھونے والی تھی لیکن اس قوم نے بلا کے آثار کا مشاہدہ کیا اور ایمان لایا ، اس لئے وہ بلا ان سے دور کی گئی اور مدتوں تک آرام و آسائش میں رہے۔
[6] ۔ «لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ وَ إِذا أَرادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ وَ ما لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ والٍ»؛ ﴿رعد:١١﴾ “ اس کے لئے سامنے اور پیچھے سے محافظ طاقتیں ہیں جو حکم خدا سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی کسی کا والی و سرپرست ہے” «وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ اْلأَرْضِ وَ لكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْناهُمْ بِما كانُوا يَكْسِبُونَ»؛ ﴿ اعراف: ۹٦﴾ “ اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا ”
[7] ۔ «الصَّدَقَةُ تَرُدُّ الْقَضَاءَ الَّذِي قَدْ أُبْرِمَ إِبْرَاماً» منلايحضرهالفقيه، ج4، ص368.
[8] ۔ «لاقرن عينيك بتفسيرها و لاقرن عين امتي بعدى بتفسيرها: الصدقة على وجهها و بر الوالدين و اصطناع المعروف يحول الشقاء سعاة و يزيد فى العمر و يقى مصارع السوء» الدر المنثور، ج 4، ص 66.
[9] ۔ امام صادق (ع) فرمود: «الدعاء يردّ القضاء بعد ما ابرم ابراما فاكثر من الدعاء فانّه مفتاح كل رحمة و نجاح كل حاجة و لا ينال ما عند اللَّه عز و جل الا بالدعاء و انّه ليس باب يكثر قرعه الا يوشك ان يفتح لصاحبه» الكافي، ج2، ص470.
[10]۔ بحار الانوار میں امام ابا الحسن موسی ﴿ع﴾ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے فرمایا :“ آپ کو دعا کرنی چاہئیے ، کہ خداوند متعال سے دعا اور درخواست بلاؤں کو ٹالتی ہے ، اگر چہ وہ بلا مقدر ھوچکی ھو اور اس پر عملی جامہ پہنانے میں کوئی فاصلہ باقی نہ رہا ھو ، اگر اسی حالت میں بھی خداوند متعال سے درخواست کی جائے تو خداوند متعال اس بلا کو جس طرح خود چاہتا ہے ، ٹال دیتا ہے” امام صادق ﴿ع﴾ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے فرمایا: “ دعا ، ناگزیر اور حتمی قضاء و قدر کو بدل دیتی ہے ۔، پس دعا زیادہ کرنی چاہئیے کہ تمام رحمتوں اور نجات کی کلید ہے اور ہر حاجت روائی کی کنجی ہے اور لوگ خدا کے پاس موجود چیزوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ہیں ، مگر دعا سے ، کیونکہ کوئی ایسا دروازہ نہیں ہے کہ اگر کافی کٹکٹیایا جائے تو اس کے لئے وہ دروازہ کھول نہ جائے۔ “ ملاحطہ ھو : بحار الانوار، ج ۹۳، ص ۲۹۵و ۲۹٦۔ ترجمہ المیزان، ج۲ ، ص ۵۹۔
[11] : مزید آگاہی کے لئے ملاحظہ ھو، عنوان: : بهترین نذر، سؤال 4173 (سایت: 1023).۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے