Please Wait
12224
اس سوال کے جواب سے پهلے چند مطالب کا بیان کرنا ضروری هے :
1۔ چونکه یه سوال کا موضوع واضح هے لهذا عصمت کے معنی ، اقسام اور دلیلوں سے پرهیز کیا گیا هے ۔
2۔ انبیاء کی عصمت کے بارے میں موجود نظریاتی اختلاف کے سلسله میں بحث نهیں کی گئی هے ۔
3۔ انبیاء کی عصمت یا عدم عصمت کو ظاهر کرنے والی سبھی آیتوں کے ذکر سے اجتناب کیا گیا هے ۔
مذکوره مطالب پیش نظر انبیاء کی عصمت سے متعلق آیتوں کی دو طرح سے تحقیق هوگی ۔ پهلی قسم: آیات عصمت۔ دوسری قسم :وه آیتیں جو (مذکوره بالا دعوے کے مطابق) بظاهر عدم عصمت انبیاء پر دلالت کرتی هیں۔
پهلی قسم :آیات عصمت ؛ قرآن مجید میں انبیاء (علیهم السلام) اور ائمه (علیهم السلام) کی عصمت پر دلالت کرنے والی بهت سی آیتیں موجود هیں ، سوره بقره کی آیت نمبر 124 میں ارشاد هوتا هے [ عهد و امانت خداوند عالم (نبوت و امامت کا منصب) ظالم لوگوں کو نهیں ملے گا چاهے انھوں نے اپنی پوری عمر میں ایک پل کے لیئے هی ظلم (جس کا روشن وواضح مصداق شرک ، کفر،گناه یا غلطیاں یا ظلم کے نتائج هیں ) کیوں نه کیا هو]
اهل سنت کے مفسر فخر رازی اپنی تفسیر میں لکھتے هیں :(یه آیت دلالت کرتی هے که نبی (صل الله علیه و آله وسلم) اور امام(عیله السلام) گنهکار نهیں هوسکتے)[i]
لهذا مذکوره آیت انبیاء (علیهم السلام) میں عصمت کے لازم هونے پر دلالت کررهی هے خواه عصمت بعثت سے پهلے هو یا بعثت کے بعد[ii] ۔
سوره حشر آیت نمبر 7 میں ارشاد هوتا هے [ جو ﮐﭽﻬ تمھیں رسول (صل الله علیه و آله وسلم) عطاکریں اسے لے لو اور اس پر عمل کرو جس چیز سے تمھیں منع کریں اسے ترک کردو] بهت سے مفسرین نے تصریح کی هے که آیت کا مفهوم عام هے اور نبی (صل الله علیه و آله وسلم) کے هر طرح کے حکم کی اطاعت کو شامل هے [iii] ۔
اور یه اچھی طرح معلوم هے که اگر یه بزرگ شخصیتیں گناه اور هر طرح کی غلطیوں سے پاک و پاکیزه هوں گی تو ان کی اطاعت کے اچھے نتیجه کی ضمانت بھی نه هوگی [iv] ۔
دوسری قسم : کیا قرآن کی آیتیں نبیوں (علیهم السلام) سے گناه سرزد هونے یا ان سے غلطیاں هونے پر دلالت کرتی هیں ؟ بعض آیتوں کے ظواهر اس بات کی نشان دهی کرتے هیں که گویا بهت سے انبیاء اس حد تک غلطی اور گناه کے مرتکب هوئے هیں که یا انھوں نے خود هی مغفرت طلب کی هے یا الله کی جانب سے سزا پانے کے بعد مغفرت الٰهی ان کے شامل حال هوئی هے ۔ لیکن حق تو یه هے که جس طرح علمی نظریات و مطالب پر سطحی نظر ڈالنا شائشته نهیں هے اور ان کے غیر تحقیقی مطالعه مشکل ساز بن جاتا هے ۔
اسی طرح قرآن مجید کی آیتوں کی تحقیق و تفسیر میںبھی مناسب وسائل ،دقیق شرائط اور مخصوص روش کی ضرورت هے ۔
هر چند اس مختصر سے مقاله میں بھی آیتوں کی دقیق اور تفصیلی تحقیق کی گنجائش نهیں هے لیکن پھر بھی بعض کلی مطالب اور جوابات جو آیتوں کے ترجمه کرنے اور ان سے استفاده کرنے میں مفید هیں اس کی طرف اشاره کیا جاتا هے ۔اور امید هے که قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے والا ان مطالب کی رعایت کرتے هوئے ان مطالب کے اور جن آیتوں کا ترجمه یا تفسیر کرنا چاهتا هے ان کے درمیان رابطه برقرار کرے[v] ۔
ﮐﭽﻬ آیتوں میں ﮐﭽﻬ انبیاء (علیهم السلام) خصوصاً حضرت آدم (علیه السلام) کی نافرمانی اور گناه کی تذکره هوا هے ایسے موقع پر جواب میں یه کهنا چاهئے :
1- امر و نهی همیشه اپنے حقیقی معنی میں استعمال نهیں هوتے بلکه کسی کسی موقع پر مشق کی خاطر اور ذاتی فائده تک رسائی کے لیئے مشوره کے طور پر بھی استعمال هوتے هیں اور ایسی صورت میں کوئی واجب وظیفه در کار نهیں رهتا۔ نتیجۃً مذکوره اوامر کے احکام کی پوری طرح تعمیل نه کرنے سے کسی قسم کی نافرمانی نهیں هوتی اور نه هی واجب کی انجام دهی کی مخالفت اور گناه سر زد هوتا هے ۔
ذیل کی آیتوں سے اس مطالب کا استفاده کیا جا سکتا هے :
اعراف/27 ۔ طٰهٰ/115-117 سے 119 و121 تک ۔
2- بهت سے کام صرف انجام دینا اگر چه گناه محسوب نهیں هو لیکن انسان کی شخصیت ، معرفت اور مقام کے اعتبار سے ایک بیهوده اور نا مطلوب عمل شمار هوتا هے ۔ شاید وهی کام دوسرے شخص کی نسبت ایک عادی بلکه با فضیلت کام هو۔دوسرے لفظ میں معصیت کابھی وسیع مفهوم هے صرف واجب کو ترک کرنے یا حرام کو انجام دینے میں هی استعمال نهیں هوتا اس لیئے که اگر کوئی شخص مستحب کام کو بھی ترک کردے تو اس نے معصیت کی هے (ترک اولیٰ )[vi] ،اس حقیقت کو بیان کرنے والی مذکوره آیات کے علاوه یه آیتیں بھی هیں : سوره قصص/25، سوره شعراء/39-82 ، سوره فتح /2 ۔
3- لغت میں لفظ ضلالت کے معنی راه مستقیم کو چھوڑ دینا هے لیکن اس کا مفهوم بهت وسیع هے اس طرح کے دین حق سے گمراه هونے کے معنی میں منحصر نهیں هے بلکه تھڑے سا مشکل اور خطره راسته اپنانے کوبھی شامل هے ۔ اس مطلب کی :سوره شعراء/20 اور سوره ضحیٰ /6-8 میں تحقیق و تفسیر کی جا سکتی هے ۔
4- بسا اوقات انسان دوسرے سے گفتگو میں ( مخصوصاً استدلال یا دفاع اور مطمئن کرنے کے لیئے ) اپنی طرف ایسی نسبت دیتا هے جس کے حقیقی معنی ذهن میں نهیں لاتا ،بلکه صرف سامنے والے کی برابری کی فکر میں رهتا هے ۔ اس نظریه کے لیئے : سوره شعراء/20 ،سوره قصص/15 ، سوره انعام76 سے78 تک مطالعه کیا جا سکتا هے۔
5- دیگر بهت سی آیتیں جن میں بظاهر پیغمبروں (علیهم السلام) سے سخت لهجه میں خطاب هوا هے لیکن یه اس مشهور ضرب المثل کی طرح جس میں کهتے هیں( اشاره آپ کے طرف هے نشانه کوئی اور هے ) یا (در سے کهه رها هوں تا که دیوار سنے) در حقیقت خطاب عوام الناس سے هے ؛ جن آیتوں میں اس چیز کا لحاظ کیا گیا هے وه یه هیں : سوره انعام/68 ،سوره هود /17-37 ، سوره یونس/94 ، سوره بقره /147 ، آل عمران/60 ، سجده23 ۔
6- ایک شخص کی عزّت کرنے اور دوسرے کی تحقیر کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقه کنایه کا استعمال هے جیسا که سوره فتح آیت 2 میں اس طرح ملتا هے ( مشرکوں کی نظر میں رسول اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) سے زیاده گنهکار کوئی بھی نهیں تھا لیکن پیغمبر (صل الله علیه وآله وسلم) کی کامیابی اور فتح کے ذریعه ان گناهوں سے جنھیں مشرکین پیغمبر (صل الله علیه وآله وسلم) کی طرف نسبت دیتے تھے چشم پوشی کی گئی اور وه پیغمبر (صل الله علیه وآله وسلم) کو گنهکار کهنے سے باز آگئے ۔
7- بعض آیتوں میں جب پیغمبروں (علیهم السلام) نے خود یا دوسرون کی طرف کوئی نسبت دی هے تو اسے جمله شرطیه کی شکل میں (اگر) که همراه بیان کیا گیا هے اور اس طرح کے کلام اس خبر کے مضمون کے واقع هونے پر دلالت نهیں کرتے جیسے سوره انبیاء کی آیت نمبر 62 اور 63 ۔
8- حضرت موسی (علیه السلام) کے هاتھوں فرعون کے آدمی کا قتل قصاص کے طور پر تھا اور ان ننھے بچوں کے قتل کے بدلے میں تھا جو اس آدمی کے ذریعه قتل هوئے تھے ۔
9- امیر المؤمنین حضرت علی (علیه السلام) قرآن کریم میں پیغمبروں (علیهم السلام) کی خطا کے تذکره کا سبب یوں بیان کرتے هیں : (خداوند عالم نے پیغمبروں (علیهم السلام) کی ان خطاؤں کو اس لیئے شمار کیا هے تا که لوگوں کو یه علم هو جائے که انبیاء کرام (علیهم السلام) بطور مطلق الٰهی صفات کے حامل نهیں تھے اور کوئی شخص ان کی الوهیّت کے بارے میں نه سوچے۔
[i] فخر رازی ، تفسیر کبیر، ج 10 ، ص 193
[ii] تفسیر روح البیان ، ج 1 ، ص338
[iii] دیکھئے قرآن مجید کے ترجمه ، آیت الله مکارم شیرازی ، خرمشاهی ، اور تفسیر نمونه ،نور المیزان ، پیام قرآن۔
[iv] مزید معلومات کے لیئے عصمت کے سلسله میں موجود ذیل کی آیتیں ملاحظه هوں :سوره نساء /65 ۔ احزاب/21-33 ۔ انعام /90
[v] نجم /3-4 ۔ یٰس /62 ۔ سوره جن /26 سے28 تک ۔ زمر /37 ۔ان آیات کی تفسیر کے لیئے ذیل کی تفسیریں ملاحظه هوں : تفسیر المیزان ، نمونه، نور ، پیام۔
اشکال کی راه حل کے ذکر کے بعد آیتوں کے ﮐﭼﮭ نمونه جو راه حل میں شامل هیں بیان کیئے جایئن گے ، لهذا هر راه حل ایک کلی
قاعده کی طرح هے جو آیت کے بهت سے اعتراضات کو دور کرتی هے ۔
[vi] تفسیر نور الثقلین ، ج 3 ،ص404 ،ح 165 ۔ حدیث امام باقر(علیه السلام) ؛ مفردات راغب ماده ((عصی))
جواب دینے سے پهلے چند نکتوں کی طرف توجه دلانا ضروری هے :
1- مذکوره سوال چوں که انبیاء کی عصمت اور عدم عصمت سے متعلق آیات کے بارے میں هے لهذا عصمت کے معنی ،قسموں اور دلیلوں (دلیل عقلی و نقلی) و غیره کی بحث سے پرهیز کیا گیا هے اگر چه یه بخش آیات کے مطالب کی تحقیق اور استفاده میں مفید اور کار ساز هیں ۔
2- انبیاء کی عصمت سے متعلق نظریات اور اختلافات کو بیان نهیں کیا گیا هے ۔
3- انبیاء کی عصمت سے مخصوص سبھی آیتوں یا ان کے دعا کے مطابق عدم عصمت پر به ظاهر دلالت کرنے والی آیات سے اجتناب کیا گیا هے ۔
اس لحاظ سے مذکوره سوال کا جواب دو حصوں میں دیا جائے گا ۔ایک آیات عصمت ، دوسرے ان آیات کی تحقیق جو به ظاهر عدم عصمت پر دلالت کرتی هیں ۔
حصه اوّل: آیات عصمت ،ان لوگوں کے بر خلاف جو کهتے هیں که عصمت سے متعلق کوئی آیت موجود نهیں هیں ، قرآن مجید میں بهت سی آیتیں موجود هیں جو دلالت کرتی هیں که انبیاء کے لیئے عصمت واجب و لازم هے ذیل میں ان میں سے ﮐﭽﻬ کی طرف اشاره کیا جارها هے :
1-[ و اذ ابتلیٰ ابراهیم ربّهُ بکلماتٍ فأتمھنَّ قال انّی جاعلُکَ للنّاسِ اماماً قالَ و مِن ذریّتی قال لا ینالُ عھدی الظّالمین۔][1]
جب پروردگار نے ابراهیم کا چند کلمات کے ذریعه امتحان لیا اور انھوں نے پورا کر دیا تو خدا نے کها میں تم لوگوں کا امام بنا رها هوں ،انھوں نے عرض کی میری ذریّت ؟ ارشاد هوا میرا یه عهد(امانت) ظالمین تک نهیں جائے گا ۔
آیت میں تمام نکات سے چشم پوشی کرتے هوئے اس نکته کی طرف اشاره کرنا ضروری هے که خداوند عالم نے ان اهم امتحانات کے مقابله میں جنھیں جناب ابراهیم (علیهم السلام) نے بحسن و خوبی سر کیا انھیں زبر دست انعام (امامت کا منصب) عطا فرمایا اور آپ کے اس سوال کے جواب میں که یه منصب هماری ذریّت کو بھی عطا هوگا؟ خداوند عالم نے فرمایا: یه منصب ظالموں کو نصیب نهیں هوگا ،صاف ظاهر هے که زندگی کے کسی مرحله میں حال یا ماضی میں راه حق سے دور رهنے والا ظالم هونے کا مصداق هوگا، اسی لیئے فخر رازی نے مذکوره آیت کی تفسیر میں بیان کرتے هیں که هر نبی (صل الله علیه و آله وسلم) امام بھی هے اور جب امام فاسق اور گنهکار نهیں هو سکتا تو نبی (علیهم السلام) به درجه اولیٰ گنهکار نهیں هوسکتا چاهے آیت میں موجود لفظ (عهدی) سے مراد نبوت هو یا امامت هو دونوں صورتوں میں کوئی بھی ظلم نبوت و امامت کے درجه پر نهیں پهنچ سکتا جب که نبی (علیهم السلام) کا معصوم هونا لازمی اور ضروری هے[2] ۔
البته ان کی بات میں بھی کوتاهی نظر آتی هے اور هر نبی کو امام سمجھا هے جبکه امامت،نبوت سے کهیں زیاده بالا و برتر هے اور اس سلسله میں گفتگو کے لیئے میں ان کا صریح اور واضح اعتراف قابل توجه هے چاهے عصمت بعثت سے پهلے هو یا بعثت کے بعد هو[3]۔
2- (وَما آتاکُم الرّسول فخذوه و ما نھاکُم عنهُ فانتھوا و اتّقوا الله انّ الله شدید العقاب)[4] جو ﮐﭽﻬ رسول تم کو عطا کریں وه لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رهو اور خدا سے ڈرتے رهو۔ بے شک خدا سخت عذاب دینے والا هے ۔ اس آیت پر غور کرنے سے پتا چلتا هے که (ما آتا کم الرّسول) سے مراد پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کے تمام اوامر هیں اس لیئے که اس کے مقابله میں ان کی نهی هے (و ما نھاکم عنه فانتھوا) اسی لیئے بهت سے مفسروں نے تصریح کی هے که آیت کا مفهوم عام هے[5]۔ اس آیت کے مطابق پیغمبر اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) کے تمام اوامر و نواهی کے سامنے پوری طرح تسلیم هوجانا چاهیئے بغیر کسی شرط کے پیروی کرنا چاهیئے اور تسلیم هونا چاهیئے اور یه معصوم کے علاوه کسی اور کے سامنے ممکن نهیں هے اس لیئے که غلطی یا گناه کے ارتکاب کی صورت میں تسلیم هونا تو در کنار بلکه منع کرنا اور تذکر دینا بھی ضروری هے ۔
3- (مَن یطع الرّسول فقد اطاعَ الله ومَن تولی فما ارسناکَ علیهم حَفیظاً)[6] جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی تو تم ﮐﭽﻬ خیال مت کرو کیوں که هم نے تم کو پاسبان بنا کر بھیجا نهیں هے ۔
اس آیت کا مفهوم بھی گذشته آیت کے مفهوم کے مشابه هے اور قابل ذکر تو یه هے که فخر رازی نے اپنی تفسیر میں اس آٓیت کو پیغمبر اسلام (صل الله علیه و آله وسلم) کے امر و نهی ،تبلیغ اور آنحضرت (علیه اسلام) کے اعمال و کردار میں عصمت کی سب سے محکم دلیل قرار دیا هے ۔ ان کے علاوه دیگر آیتیں بھی هیں جو مختلف انداز میں انبیاء (علیهم السلام) اور ائمه (علیهم السلام)[7] کی عصمت کو بیان کرتے هیں جنھیں الگ الگ بیان نهیں کیا جارهاهے ۔
صرف ان سوروں اور آیتوں کی طرف اشاره کیا جا رهاهے ۔
4- سوره نساء/65-5 ۔5 - سوره احزاب/21-32 ۔6- سوره انعام/90 ۔ 7-سوره نجم /3-4
8-سوره زمر/37 ۔9- سوره یاسین/62 ۔10- سوره ص/45 سے47 تک
11-سوره جن /26 سے28 تک۔
نتیجه : انبیاء کی عصمت پر دلالت کرنے والی عقلی دلیلوں کے ذریعه (که جنھیں اس مقاله میں بیان نهیں کیا گیا هے ) نیز قرآن مجید کی آیتوں اور ائمه (علیهم السلام) کی حدیثوں کے مطابق انبیاء (علیهم السلام) عصمت کے اعلیٰ درجه پر فائز هیں ۔
دوسرا حصه:
وه آیتیں جو(ادعا کے مطابق) به ظاهر عدم عصمت انبیاء (علیهم السلام) پر دلالت کرتے هیں جیسا که پهلے حصه میں بیان کیا جا چکا هے که قرآن مجید کی آیتوں میں ﮐﭽﻬ ایسی تعبیریں بھی هیں جن سے یه گمان هوتا هے که یه آیتیں انبیائے الٰهی(علیهم السلام) کے گناه اور خطا کے مرتکب هونے پر دلالت کرتی هیں! بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ان آیتوں سے ﺴﻤﺠﻬ میں آنے والے بعض گناه اور خطایئں یه هے:( آدم کا عصیان)