Please Wait
9663
جواب کی وضاحت کے لئے مندرجه ذیل نکات کو بیان کر نا ضروری هے:
١) انبیا واوصیائے الهی عالم هستی میں روحانی وتکوینی لحاظ سے بلند مقام کے حامل هیں- وه انوار غیبیه الهی اور جلال و جمال خدا وندی کے مکمل مظاهر اور در خشان آیات الهی هیں –ان کے ابدان کی فطرت اور ارواح کی خلقت جمال و جلال الهی کی قدرت سے انجام پائی هے اور انهوں نے عالم غیب میں اسما و صفات کے حقائق حاصل کئے هیں- وه همیشه اپنے آپ کو حق تعالی کی ولایت کے سائے میں اورخدا وند متعال کے حضور میں پاتے هیں – انبیا اور اوصیا کا یه مقام ان کے لئے عصمت مطلقه کے حامل هو نے اور گناه صادر هو نے میں رکاوٹ کا سبب بنتا هے ، اگر چه ان سے گناه کے امکان و قدرت کا اختیار سلب نهیں کیا گیا هے-
٢) انبیا کی عصمت کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے هیں- جیسے که وه گناه کبیره کے مرتکب نهیں هو تے هیں ، لیکن گناه صغیره کا مرتکب هو نا ان کے لئے جائز هے یا گناه کبیره و گناه صغیره دونوں ان کے لئے جائز هیں، یا گناه کبیره و گناه صغیره ان کے لئے جائز هیں ، لیکن سهواً نه کھ عمداً - لیکن شیعوں کا قول، جو قول حق هے ، انبیاء کے لئے متعدد دلائل کی بناپر گناه کا صادر هو نا شیعه مطلقاً جائزنهیں جانتے هیں ، من جمله اس کے که پیغمبر کے بارے میں گناه اور خطا کا ارتکاب مقصد کی خلاف ورزی کا سبب بن جاتا هے ، کیونکه ان سے گناه سر زد هو نے کی صورت میں لوگ ان پر اعتماد نهیں کریں گے اوران کی اطاعت سے اجتناب کریں گے اوراس طرح مقصد کی خلاف ورزی هو گی جب که مقصد کی خلاف ورزی خدا وند متعال کے لئے قبیح هے-
٣)انبیاء (اور ائمه علیهم السلام ) کی عصمت کا سر چشمه وهی اطاعت، گناه حلال، حرام ، برے ، بھلے، پاک اور ناپاک کے بارے میں علم وشهود (عقل نظری) هے، جو ان کو گناه سے روکتا هے (عقل عملی)-
٤) دوسرا نکته حضرت آدم علیه السلام کے ھبوط اور نزول سے پهلے محل سکونت کے بارے میں هے که کئی دلائل کی بناپر وه بهشت موعود وآخرت نهیں تھی ، کیو نکه بهشت موعود سے نکل جانا ممکن نهیں هے یا شیطان کا بهشت میں پهنچنا یا بهشت میں میوه کھانے سے منع کیا جانا ممکن نهیں هے-
٥)آخری نکته حضرت آدم علیه السلام کی خطا اور لغزش کی نوعیت کے بارے میں هے که من جمله توجیهات ترک اولی هو نا هے ، کیو نکه اولاً : انبیا کے لئے گناه جائز نهیں هے اور ثانیاً : انبیا کے مقام و منزلت کے پیش نظر ترک اولی پر مٶاخذه کر نا کوئی حرج نهیں هے ، جیسے "حسنات الابرار سیئات المقر بین –" اور ثالثاً : بعض انبیا میں ترک اولی پایا جاتا تھا، جیسے حضرت یونس علیه السلام کا ترک اولی-
لیکن اس سوال کے جواب میں که حضرت آدم و حوا علیهما السلام کے زمین پر آنے کے بعد انهیں اس درخت سے کھانے کوکیوں منع نهیں کیا گیا ؟ اس سلسله میں بهت سے احتمالات پائے جاتے هیں که جن میں درخت کی مراد بیان کی جاتی هے – خلاصه کے طور پر کها جاسکتا هے که : منع کیا گیا شجره یا ظاهری درخت ، ایک قسم کی گھاس تھا جس کے کھانے کے اثر سے بهشت سے نکل کر زمین پر زندگی کر نا تھا ، اس لئے یه بے معنی هے که زمیں پر بھی اس کا کھانا ممنوع هو- اس کے علاوه زمان و مکان اور افراد کے حالات کے مطابق احکام جدا جدا هو تے هیں – یا یه معنوی درخت تھا ، اس صورت میں یا درخت سے مراد علم هے جو قطعی اور متعدد آیات و روایات کے منافی هے،کیو نکه نه صرف حضرت آدم (ع) کے لئے علم کے بارے میں نفی نهیں کی گئی هے ، بلکه انھیں اسما کی تعلیم بھی دی گئی هے اور حتی وه ملائکه کے معلم بن گئے اور یا درخت سے مراد ، حسد هے ، که حضرت آدم علیه السلام کے بارے میں نبی هو نے کی وجه سے ان سے غبطه کے معنی کا اراده کیا جاتا هے که اس کاغطبه ، پیغمبر (ص) ،علی(ع) ، فاطمه (ع) ، حسن(ع) اور حسین(ع) کے مقام کے بارے میں تھا اور دنیوی زندگی میں جیسے زمین پر آنے سے پهلے بھی حسد کے بارے میں نفی کی گئی هے-
مذکوره سوال کے جواب کے سلسله میں تین مطالب کی تحقیق کی جانی چاهئے – لیکن ان کے بیان سے پهلے اس مطلب کی طرف توجه کر نا ضروری هے که:
معصومین (ع) ( انبیا(ع) وائمه(ع) کی عصمت ،عالم هستی میں ان کے بلند و ممتاز نورانی ، روحانی اور تکوینی مقام کا نتیجه هے- وه انوار غیبیه الهی اور جلال و جمال خداوندی کے مکمل مظاهر اور درخشان آیات الهی هیں- ان کے ابدان کی فطرت اور ارواح کی خلقت جمال و جلال الهی کی قدرت سے انجام پائی هے اور انهوں نے عالم غیب میں اسما و صفات کے حقائق حاصل کئے هیں – وه همیشه اپنے آپ کو حق و خدائے تعالی کی ولایت کے سائے میں اور خداوند متعال کے حضور میں پاتے هیں انبیا اور اوصیا کا یه مقام ان کے لئے عصمت مطلقه کے حامل هو نے اور گناه صادر هو نے میں رکاوٹ کا سبب بنتا هے- اگر چه ان سے گناه کے امکان وقدرت کا اختیار سلب نهیں کیاگیا هے-[1]
پهلا مطلب: عصمت انبیا کے بارے میں هے که: اس مسئله کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے در میان گونا گون اقوال پائے جاتے هیں ، ان میں سے مجموعاً پانچ اقوال کی طرف اشاره کیا جاسکتا هے:
١-انبیاء علیهم السلام گناه کبیره سے معصوم (محفوظ) هیں ، لیکن گناه صغیره ان کے لئے جائز هے اور بلوغ کے وقت سے معصوم هو تے هیں ،یه قول اکثر معتزله کا هے-
٢- انبیاء سے نه گناه کبیره اور نه گناه صغیره صادر هو تا هے ، البته عمداً ، سهواً کو ئی حرج نهیں هے – یه قول ابو علی جبائی سے متعلق اور منسوب هے – وه قائل هے که انبیا نبوت پر مبعوث هو نے کے زمانه سے معصوم هیں – لیکن اس سے قبل ان سے گناه سر زد هو نا جائز هے-
٣-انبیا سے گناه سرزد نهیں هوتا هے ،مگر سهواً اور خطا کے طورپر اور ان کی اس خطا پر بھی باز پرس هو تی هے ، اگر چه عام لو گ سهو ونسیان کی وجه سے گناه کے مرتکب هو نے پر سزاکے مستحق نهیں هو تے هیں اور یه فرق انبیاء کی معرفت اور ان کا درجه بلند هو نے کی وجه سے هے- یه قول نظامی اور اس کے پیرٶں کا هے-
٤- انبیا سے گناه صادر هو نا مطلقاً گناه جائز هے خواه کبیره هو یا صغیره ، خواه عمداً یا سهواً – یه قول حشویه اور بهت سے اهل حدیث لوگوں کا هے-[2]
٥- انبیا علیهم السلام کے لئے مطلقاً جائز نهیں هے اور گناه ان سے کسی صورت میں سرزد نهیں هوتا هے ، خواه کبیره هو یاصغیره خواه عمداً هو یا سهوو نسیان کی وجه سے هو- یه مکتب امامیه کاقول هے اور انبیا نبوت پر مبعوث هو نے سے پهلے بھی معصوم هو تے هیں اور اس کے بعد بھی – ان پر جو چیز جائز هے ، وه ترک مستحب و ترک اولٰی هے – امامیه اپنے دعوی پر متعدد دلائل پیش کرتے هیں که ، عدم گنجائش کی وجه سے هم یهاں پر ان میں سے صرف تین دلائل کی طرف اشاره کر نے پر اکتفا کرتے هیں :
پهلی دلیل : اگر انبیا علیهم السلام خطا و گناه سے دو چار هو جائیں ، تو عام لوگوں سے پست تر هو جاتے هیں ، کیو نکه انبیا علیهم السلام اپنے خالق کے بارے میں جو معرفت رکھتے هیں دوسرے لوگ نهیں رکھتے هیں- اس لئے اگر انبیا اپنے خالق اور حقیقت گناه اور مولا کی
مخا لفت کے بارے میں اس قدر معرفت ، شناخت اور آگاهی رکھنے کے باوجود گناه کے مرتکب هو جائیں تو قاعدتاً دوسرے گناهگاروں سے پست تر هیں-
دوسری دلیل: اگر انبیاء علیهم السلام مرتکب گناه هو جائیں ، تو ایک طرف نبی هو نے کے ناطے ان کی اطاعت و پیروی ضروری هے اور دوسری جانب خطا و گناه کے مرتکب هو نے کی وجه سے ، گناه کے بارے میں ان کی اطاعت کر نا حرام هے ، اس لئے ایک عمل کے بارے میں وجوب وحرام هو نا لازم آتا هے اور اس طرح اجتماع ضدین کا مسئله پیش آتا هے جو لوگوں کے لئے حیرت و پریشانی کا سبب بن جاتا هے-
تیسری دلیل: انبیا علیهم السلام کا مقصد ، لو گوں کی طرف سے ان کی اطاعت کر نا، معاشره کی تر بیت کر نا اور لوگوں کو گناهوں سے بچانا هے- پس اگر خود انبیا علیهم السلام پر گناه جائز هو تو لوگ ان پر اطمینان پیدا نهیں کریں گے اور نتیجه کے طور پر مقصد کی خلاف ورزی هو گی اور مقصد کی خلاف ورزی مولائے حکیم کے لئے قبیح اور ناجائز هے-[3]
لیکن انبیاء اور ائمه اطهار علیهم السلام کی عصمت ، ان کی عقل نظری سے متعلق مکمل علم وشهود کی وجه سے هے ، جو انھیں گناه سے بچاتا هے اور گناه سے ان کا یه اجتناب عقل عملی هے- اس لئے حلال وحرام ، پاک و ناپاک اور برائی اور بھلائی کی معرفت ان کی عملی عصمت کا سبب بناهے [4] (جو ایک اختیاری امر هے)-
دوسرا مطلب:حضرت آدم علیه السلام کے زمین پر آنے سے پهلے ان کے محل سکونت کے بارے میں هے که کیا وه جگه بهشت موعود وآخرت تھی یا بهشت دنیوی تھی؟
کچھـ لوگ قائل هیں که بهشت موعود تھی، چونکه بهشت موعود تکلیف کی جگه نهیں هے اس لئے حضرت آدم علیه السلام کا وهاں سے نکل جانا کوئی مشکل نهیں هے ، کیو نکه بهشت موعوداور همیشگی، سے عدم خروج اس وقت هے جب ثواب کے لئے وهاں پر مستقر هو-[5]
اس نظریه پر کئے جانے والے اعتراضات حسب ذیل هیں :
اول یه که، اگر بهشت محل تکلیف نه تھی تو قرآن مجید کیوں فر ماتا هے: " حضرت آدم (ع) نے عصیاں اور خلاف ورزی کی هے-" ؟ اور شیطان کو بھی خلاف ورزی کا مرتکب نهیں هو نا چاهئے تھا- دوسرا یه که، اگر بهشت موعود هو تی ، تو شیطان وهاں تک نهیں پهنچ سکتا تھا – تیسرا یه که بهشت موعود میں تمام چیزوں کا کھانا جائز هے ار خدا وند متعال انسان کو کسی بھی نعمت سے منع نهیں کر تا هے، جبکه حضرت آدم علیه السلام کو شجره(درخت) کے کھانے سے منع کیاگیا هے-[6]
اس بناپر،یه قول صحیح لگتا هے که حضرت آدم علیه السلام کا محل سکو نت دنیوی بهشت تھی – اس کے علاوه روایتیں اس مطلب کو واضح طور پر بیان کر تی هیں که حضرت آدم علیه السلام کا محل سکونت دنیا کے باغوں میں سے ایک باغ تھا که اس میں سورج اور چاند طلوع کر تے تھے – لیکن بعض روایات میں اس بهشت کی جگه کو آسمان پر بیان کیا گیاهے اور چونکه لفظ هبوط(نزول) آسمان سے زمین پر آنے کے معنی میں هے، اس لئے اس کو اس مطلب کی دلیل کے طور پر لایا گیا هے -[7]
تیسرامطلب: حضرت آدم و حوا علیهما السلام کے عمل کے بارے میں هے که کیا وه گناه کے مرتکب هوئے هیں یا نهیں ؟ اس سلسله میں کئی قول پائے جاتے هیں ان میں سے مندرجه ذیل دواقوال اهم هیں:
١- گناه کے مرتکب هوئے هیں ، لیکن اولاً : یه که گناه صغیره تھا، دوسرا یه که اس کا ارتکاب حضرت آدم علیه السلام کی نبوت سے پهلے تھا اور یه نبوت کے مقام کے منافی نهیں هے- اس نظریه کے بارے میں چنددلائل سے استدلال کیاگیا هے ، من جمله پهلی دلیل یه هے که یه آیت اور اس کے مانند آیات بظاهر عصیاں کی دلالت کر تی هیں ، دوسری یه که لفظ عصیاں قرآن مجید میں صرف گناه کے لئے استعمال هوا هے ، تیسری یه که نهی " لا تقربا" کے ارشادی هو نے کی کوئی دلیل موجود نهیں هے – چوتھی دلیل یه که نهی ارشادی کے مقابل میں انجام پائے کام پر توبه کر نا بے معنی هے-[8]
٢- دوسرا قول یه هے که اس عمل کے ارتکاب کے وقت حضرت آدم علیه السلام پیغمبرتھے – اس قول کا اس امر سے استدلال کیاگیا هے که جبرئیل امین علیه السلام ان پر نازل هوئے تهے اور جبرئیل کا نزول نبوت کی دلیل هے ، کیو نکه جبرئیل نبی کے علاوه کسی پر نازل نهیں هوتے هیں – اس کے علاوه خداوند متعال نے تمام اسماء کی حضرت آدم علیه السلام کو تعلیم دی تھی اور وه تنها فرد تھے که ان اسماء کے بارے میں آگاهی اور اطلاع رکھتے تھے اور حتی که ملائکه بھی اس قسم کا علم نهیں رکھتے تھے – حضرت آدم علیه السلام هی فرشتوں کے معلم بن گئے اور اسما کی ان کو تعلیم دیتے تھے اور یه اتفاقات ممنوعه درخت کھانے سے پهلے واقع هوئے تھے- [9]
پس نتیجه لیا جاسکتا هے که حضرت آدم علیه السلام ، اس ممنوعه درخت سے کھانے کے وقت نبی تھے اور شیعوں کے عقیده کے مطابق، نبی مطلقاً مرتکب گناه نهیں هو تے هیں ، حتی که صغیره کے بھی مر تکب نهیں هو تے هیں – اس لئے اس نهی کو قطعاً نهی ارشادی جاننا چاهئے اور جس چیز کے حضرت آدم علیه السلام مرتکب هوئے وه ترک اولی تھا جو پیغمبروں کے لئے جائز هے – البته ان کے خداوند متعال سے تقرب اور اپنے خالق کے بارے میں رکھنے والی معرفت کے پیش نظر اگر وه ترک اولی کے مرتکب هو جائیں تو مٶاخذه الهی سے دو چار هو تے هیں -[10] چنانچه بعض دوسرے انبیا کے ساتھـ بھی یه واقع پیش آیا هے ، مثال کے طور پر حضرت یونس علیه السلام اپنی قوم سے تنگ آکر ان کی هدایت سے ناامید هو ئے اور خدا کے حکم کے بغیر انھیں چھوڑ دیا تو خدا وند متعال نے انهیں مچھلی کے شکم میں محبوس کیا، اور " اگر استغفار و توبه نه کر تے تو قیامت تک مچھلی کے شکم میں رهتے – "[11] یا حضرت یوسف علیه السلام کا ترک اولی ، یعنی زندان سے آزاد هو نے کے لئے غیر خدا سے متوسل هوئے اور اسی طرح دوسرے واقعات-[12] جبکه عام لوگوں کے بارے میں یهی ترک اولی سزا اور مٶاخذه کا سبب نهیں بنتا هے ، جیسے " حسنات الابرار سیئات المقربین"- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے بارے میں بھی اس قسم کے واقعات هیں جیسے نماز شب آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم پر واجب تھی لیکن دوسرے لوگوں کے لئے مستحب هے یا عام انسانوں کی عبادت کے دوران غفلت اور ذهن کا غیر عبادتی مسائل سوچنےمیں مشغول هو نا، انبیا علیهم السلام کے لئے یه چیزخلاف ورزی اور خطا شمار هو تی هے-[13]
لیکن"عصیان" "امر مولا کی مخالفت" کے معنی میں هے اور پروردگار کا امر واجب بھی هوتا هے اور مستحب بھی ، اس لئے اولاً : مستحب کی خلاف ورزی میں عصیان کا جائز هو نا صحیح نهیں هے –ثانیاً : اگر مستحبی امر میں خلاف ورزی جائز هو تو ادله قطعیه سے مخالفت کی دلیل سے اس پر حمل کر نا چاهئے- [14] اور آیه شریفه میں [15] لفظ"غوی" ضررو نقصان کے معنی میں هے ، کیو نکه اگر حضرت آدم علیه السلام اس عمل کے مرتکب نه هو تے تو ایک عظیم ثواب کے مستحق تھے- [16]اور ان کی "توبه " بھی معصیت کے مرتکب هو نے کی وجه سے نهیں تھی ، چونکه ترک اولی پیغمبر کی شان کے مناسب نهیں هے اس لئے توبه کا اقدام کیا- اس کے علاوه کبھی تو به مقام انقطاع اور پسندیده ثواب تک پهنچنے کے لئے هو تی هے ، اگر چه مرتکب گناه بھی نه هوا هو-[17]
لیکن یه که حضرت آدم علیه السلام کو ھبوط کے بعد کیوں اس شجره(درخت) سے منع نهیں کیا گیا ؟ کیا اس کی ممنوعیت پهلی جگه سے مخصوص تھی یانهیں تھی ؟ اس سوال کے جواب سے پهلے دیکھنا چاهئے که درخت سے مراد کیا هے؟ یه دو حالتوں سے خالی نهیں هے ، یا یه ایک ظاهری درخت اور ایک قسم کی گھاس تھی (گندم، انجیر، درخت کافور اور ان کے مانند ) یا اس سے مراد معنوی پهلو تھا یادرخت علم تھا( لیکن یه قرآن مجید کی آیات کے منافی هے ، کیو نکه حضرت آدم نه صرف علم رکھتے تھے ، بلکه ملائکه کو بھی اسما کی تعلیم دیتے تھے) یا اس سے مراد حسد کا درخت هے که اس کے معنی "غبطه" هیں نه وه معنی جو اس سلسله میں عام لوگوں کے ذهن میں متعارف ھیں، کیونکه یه نبوت کے مقام کے منافی هےاور حضرت آدم علیه السلام کا حسد (غبطه) پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم ، علی(ع) ،فاطمه(ع) ،حسن(ع) اور حسین (علیهم السلام) کے مقام کا مشاهده کر نے اور اپنے مقام کو ان سے پست محسوس کر نے کی وجه سے تھا، اس لئے انهوں نے غبطه کیا-[18] اور اگر درخت سے مراد حسد کا درخت هو تو اس وقت بھی حسد ایک قابل مذمت نفسانی حالت هے اور خداوند متعال نے اس کی نفی فر مائی هے، چنانچه روایتوں میں آیا هے که حسد ایمان کو اسی طرح نابود کر تا هے جس طرح آگ روئی کو نابود کرتی هے-
اب اگر مراد، ظاهری درخت هو تو کهنا چاهئے که: کوئی حرج نهیں هے که ایک زمان و مکان میں ایک موضوع کے بارے میں ایک حکم هو اور اسی موضوع کے بارے میں دوسرے زمان ومکان میں دوسرا حکم هو- جس طرح صدر اسلام میں مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور اس کے بعد حکم بدل گیا اور کعبه کی طرف نماز پڑھنے لگے یا مردار کھانے کے بارے میں حکم کے مطابق عام حالت میں حرام هے،لیکن اضطراری حالت میں مباح هے بلکه کبھی واجب هو تا هے تاکه مضطر کو موت سے نجات ملے – حضرت آدم علیه السلام کی داستان کے بارے میں بھی ایسا هی هے اس خاص زمان و مکان میں ممنوعه درخت سے کھانا حرام تھا، لیکن دوسرے زمان و مکان میں جائز تھا – دوسرے یه که اگر حضرت آدم علیه السلام نے زمین پر نزول کیا هے ، تو یه اسی درخت کے وضعی اثر کی وجه سے تھا، لهذا اس مکان میں بھی اس کا ممنوع هو نا بے معنی هےچونکه اس درخت سے استفاده کر نا اس عالم کے منافی تھا نه کھ اس دنیا کی زندگی سے-
مزید آگاهی ک لئے مندرجھ ذیل موضوعات ملاحظه هوں:
"عصمت انبیاء " سوال نمبر 112
" انبیاکی عصمت وعدم عصمت سے مر بوط قرآن مجید کی آیات" سوال نمبر ١٢٩
[1] - ملاحظه هو: نبوت از دید گاه امام خمینی (ره) ،ص١٢٤-١٢٩-
[2] - مجلسی، بحارالانوار،ج١١،ب٤،ص٨٩ایران، سید مرتضی ، تنزیه الانبیا ،ص١٥- ١٧، طبرسی ، مجمع البیان ، ج١،آیه ٣٥، سیخ طوسی ، تحریر الاعتقاد، مقصد رابع،ص٣٧٦، ط بیروت-
[3] - مجلسی ، بحار الانوار ،ج١١،ب٤،ص ٩٠- ٩٩ و١٥٥- ٢٠٣، طبرسی ، مجمع البیان ،ج١،ص١٨٨،ط بیروت، ج٦،ص٣٣،ج٨،ص١٥١، سید مرتضی ، تنزیه الانبیا ص ١٧- ٧٦، طبرسی، جوامع الجامع ،ج١، ٩٣،ج٢،ص٤٤٠
[4] - جوادی آملی ، عبدالله ، تفسیر موضوعی قرآن کریم ،ج٩،ص١٥-
[5] - مجلسی ، بحار الانوار ،ج١١،ص١٤٣-
[6] - تفسیر نمو نه ،ج١،ص١٨٦-
[7] - مجلسی بحار الانوار، ج١١،ص١٤٤-١٤٣-
[8] -سید مرتضی ، تنزیه الانبیا ،ص٢٤، بحار الانوار ،ج١١،ص١٩٨، محسن قرائتی ، تفسیر نور،ج٧،ص٤٠٣-
[9] - سوره بقره ،٣٣-٣١-
[10] - مجلسی ، بحارالانوار، ج١١،ص١٩٨، طبرسی، مجمع البیان ، ج١،ص١٨٨، تفسیر نمونه،ج١،ص١٨٧-
[11] - انبیا ،٨٧، سید مرتضی، تنزیه الانبیا،ص١٤١-
[12] -سید مرتضی ، تنزیه الانبیا ،ص٨٧-
[13] - تفسیر نمونه،ج١،ص١٨٨-
[14] -مجلسی ، بحارالانوار ،ج١١،ص١٩٨، طبرسی ، مجمع البیان ،ج٦،ص١٥١-
[15] - سوره طه ،١٢١-
[16] - مجلسی ، بحار الانوار، ج١١،ص١٩٩و٢٠١-
[17] - ایضاً-
[18] - مجلسی، بحار الانوار، ج١١،ص١٦٥-و ١٧٣-