Please Wait
16592
هم تاریخی مستندات کے پیش نظر، جنگ جمل کے اسباب و علل کو ، اس جنگ میں متصادم دونوں پارٹیوں کے نقطه نظر کی تحقیق کرنے کے بعد اپنا فیصله سناتے هیں :
الف) اصحاب جمل کی نظر میں جنگ کے اسباب:
١ ـ عائشه اور طلحه کے خطبوں میں، جنگ جمل کا سب سے اهم سبب عثمان کے خون کا انتقام بیان هوا هے ، اور وه اس کے ضمن میں حضرت علی(ع) کو عثمان کے قتل کا ذمه دار ٹھهراتے تھے ـ
٢ ـ بعض علمائے معتزله اعتقاد رکھتے هیں که عائشه اور ان کے ساتھی ، امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا قصد رکھتے تھے ـ
٣ ـ طلحه، مذکوره اسباب کے ضمن میں ایک اور سبب کا ذکر کر تا هے ، اور وه امت رسول (ص) کی اصلاح اور اطاعت الهی کو رائج کر نا هے ـ
٤ـ حضرت علی (ع) کی خلافت و رهبری سابقه خلفا کی سیرت کے مطابق نهیں تھی ، اس لئے اس کو مشروعیت حاصل نهیں تھی –
٥ – علی (ع) اپنے فیصلوں اور کام میں طلحه اور زبیر سے صلاح و مشوره نهیں کر تے تھے ـ
ب) علی (ع) اور آپ (ع) کے اصحاب کی نظر میں جنگ کے اسباب:
١ ـ طلحه و زبیر کی هوس اقتدار : امیر المومنین علی (ع) نهج البلاغه کے خطبه ١٤٨ میں فر ماتے هیں" طلحه و زبیر میں سے هر ایک حکو مت کو حاصل کر نے کی امید رکھتا هے"
٢ ـ عهد شکنی: حضرت علی (ع) نے جنگ کے لئے آماده رهنے کے اعلان کے ضمن میں ، ان دو افراد(طلحه و زبیر) پر عهد شکنی کا الزام لگایا ـ
٣ ـ دیرینه کینه و کدورت : یه امر ناقابل انکار هے که حضرت علی (ع) کے بارے میں بعض افراد کے دلوں میں بغض و کینه موجود تھا ـ امیرالمو منین (ع) اس کے عوامل یوں بیان فر ماتے هیں : الف) علی (ع) کے ساتھـ اخوت کی نسبت پیغمبر (ص) کا خاص توجه فر مانا ـ ب) ابو بکر پر علی (ع) کی فضیلت ـ ج) مسجد النبی (ص) کی طرف علی (ع) کے گھر کا دروازه بند نه هو نا ـ د) فتح خیبر کا پر چم علی (ع) کے هاتھـ میںدیا جانا – اسی طرح طله و زبیر امید رکھتے تھے که علی (ع) امور کے بارے میں ان سے صلاح و مشوره کر کے اپنی حکو مت میں انھیں شریک قرار دین گے ، لیکن ان کی آرزٶں میں سے کو ئی چیز پوری نهیں هو ئی اس لئے یهی امر ان کے لئے علی (ع) سے عناد کا سبب بنا ـ
٤ ـ نفاق: منافقت، ایک اور سبب هے که حضرت علی (ع) نے اس کی طرف اشاره کیا هے –
٥ ـاسلامی معاشره میں بد امنی پھیلانا : اس وجه کا واضح مصداق ، اصحاب جمل کا بصره میں بیت المال کے خزانه پر حمله کر کے کئی لوگوں کا قتل کر نا هے ـ
٦ ـ اپنے اعمال کی پرده پوشی کر نا : اس سلسله میں امیر المو منین نهج البلاغه کے خطبه ١٣٧ میں فر ماتے هیں : " وه اس خون کا انتقام لینا چاهتے هیں جسے خود انھوں نے بهایا هے ـ"
جنگ جمل کے واقع هو نے کے اسباب و علل پر تحقیق کر نے کے لئے ضروری هے که جنگ میں متصادم دونوں پارٹیوں کے استدلال پر پهلے ایک نظر ڈالی جائے اور پھر ان کا تاریخ کے حقائق سے موازنه کیا جائے اس کے بعد صحیح قول کا انتخاب کیا جائے ـ پهلے هم اس جنگ کے سلسله میں اصحاب جمل اور ان کے سر داروں کے استدلال پر نظر ڈالتے هیں :
الف) اصحاب جمل کی نظر میں جنگ جمل کے اسباب و علل:
١ -)لو گوں کی طرف سے علی (ع) کی بیعت کئے جانے کے بعد عائشه مکه کے باشندوں کے ایک اجتماع میں حاضر هو ئیں اور یوں کها : " اے مسلمانو! بیشک عثمان مظلوم قتل کئے گئے ـ"[1] عائشه کا یه کلام بظاهر، علی (ع) سے ان کی مخالفت کی بنیاد بن گئی اور غالبا یهی وجه عائشه اور اس کے حامیوں کے لئے امیرالمو منین علی علیه السلام کے خلاف خروج کر نے کا بهانه بنی چونکه وه عثمان کے قتل کا اصلی سبب علی کو جانتے تھے ، اس لئے ان کے خلاف بغاوت کی ـ
٢) بعض علمائے معتزله اعتقاد رکھتے هیں که عائشه اور ان کے ساتھی امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کا قصد رکھتے تھے -[2]
٣)طلحه نے بصره کے لوگوں میں کی گئی اپنی تقریر میں یوں اظهار کیا که اس نے خلافت وملو کیت کے لئے شورش نهیں کی هے ، بلکه وه اراده رکھتا هے که بصره کے لوگوں سے مدد حاصل کر کے اجتماعی طور پر سب لوگ امت پیغمبر (ص) میں اصلاح کر نے کی کوشش کریں اور خدا کی اطاعت کو رواج بخشیں ـ[3]
جیسا که بیان هوا ، عام طور پر جو خطبے عائشه اور طلحه سے نقل هوئے هیں ، ان میں عهد شکنی کے عنوان سے سب سے اهم سبب عثمان کا قتل اور اس کا انتقام ذکر هوا هے ـ لیکن بعض دوسرے علل و عوامل کی طرف بھی اشاره کیا جاسکتا هے ـ من جمله یه که طلحه ، علی (ع) بن ابیطالب کی حکو مت کو سابقه خلفاء کی سیرت کے مطابق نهیں جانتا تھا اور اس بات پر معترض تھا که علی(ع) اپنے کام میں اس سے صلاح و مشوره نهیں کرتے هیں ـ[4]
ب)علی بن ابیطالب اور ان کے اصحاب کی نظر میں جنگ جمل کے اسباب وعلل:
حضرت علی (ع) کے نقطه نظر سے جنگ جمل کے آغاز کے اسباب و علل بیان کر نے سے پهلے همیں (ایک اهم نکته ، یعنی ) جنگ کے اصلی کارندوں کو پهچاننے کی کوشش کر نی چاهئے ـ امیرا لمومنین نهج البلاغه کے خطبه ١٧٢ میں فر ماتے هیں : " طلحه وزبیر رسول خدا (ص) کی بیوی کو اپنے ساتھـ اس طرح لے جاتے تھے ، جیسے ایک کنیز کو غلام فروشی کے بازار کی طرف لے جایا جاتا هے ـ " مولاعلی (ع) کے اس کلام سے واضح هو تا هے که جنگ جمل کے اصلی کارندے طلحه و زبیر تھے اور اس درمیان میں عائشه کو بیشتر استعمال کیا گیا هے ـ
علی (ع) کی زبانی جنگ کے علل و اسباب :
١ ـ طلحه وزبیر کی هوس اقتدار: حضرت علی (ع) نے نهج البلاغه کے خطبه ١٤٨ میں یوں وضاحت فر مائی هے : " طلحه و زبیر میں سے هر ایک حکومت حاصل کر نے کی امید رکھتا هے اور اسی پرامید باندھے هوئے ھے اور اپنے دوست کا لحاظ نهیں رکھتا ـ "
٢ ـ عهد شکنی : آپ (ع) اپنے ایک خطبه میں لوگوں کو جنگ کے لئے آماده رهنے کے اعلان کے ضمن میں فر ماتے هیں : " بیشک طلحه و زبیر نے بیعت توڑ دی اور عهد شکنی کی هے ، عائشه کو اکسا کر گھر سے باهر لے آئے هیں تاکه فتنه و خون ریزی بر پا کریں" [5]
٣ ـ دیرینه کینه و کدورت: یه امر ناقابل انکار هے که حضرت علی (ع) کے بارے میں بعض لوگوں کے دلوں میں بغض وکینه موجود تھا ـ اس لئے امیرالمومنین (ع) نے بعض مواقع پر اس امر کی طرف اشاره کیا هے ، من جمله یه که : الف: چونکه پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے عائشه کے باپ پر فضیلت بخشی تھی ب: چونکه پیغمبر (ص) نے مجھے اپنے ساتھـ اخوت میں اختصاص بخشاتھا ـ[6] ج: چونکه خداوند متعال نے حکم دیا تھا که مسجد کی طرف تمام دروازے بند کئے جائیں ، حتی کھ عائشه کے باپ کا دروازه بھی ، لیکن میرے گھر کا دروازه[7] بند نه کیا جائے ـ د: چونکه خیبر کے دن رسول اکرم (ص) نے پر چم کو دوسروں کے هاتھـ میں دینے کے بعد مجھے عطا کیا اور میں فتحیاب هوا اور میری کا میابی ان لوگوں کے لئے غمگین هو نے کا سبب بنی و...[8]
اس کے علاوه ، طلحه و زبیر امید رکھتے تھے که علی(ع) حکو متی امور کے بارے میں ان سے صلاح و مشوره کریں گے کیونکه یه دونوں اپنے کو علی (ع) کے برابر ، حتی که ان سے برتر جانتے تھے، انھیں امید تھی که عثمان کی وفات کے بعد حکو مت کے ایک حصه کو حاصل کر سکیں گے ، لیکن ان کی آرزٶں میں سے ایک بھی پوری نه هو سکی اور یه امر سبب بن گیا که علی(ع) کے بارے میں ان کی دیرینه دشمنی آشکار هو جائے ـ
٤ـ نفاق: حضرت علی (ع) نهج البلاغه کے خطبه نمبر ١٣ میں ان لوگوں کی دینداری کو منافقت سمجھتے هیں –
٥ – اسلامی معاشره میں بد امنی پھیلانا: اصحاب جمل نے بصره پر قبضه کر نے کے بعد ، بصره کے خزانه و بیت المال پر حمله کیا اور اسے لوٹ لیا اور اسی طرح لوگوں پر حمله کیا اور کچھـ لوگوں کو جسمانی اذیتیں پهنچا ئیں اور کچھـ افراد کو قتل کیا ـ[9]
٦ – اپنے اعمال کی پرده پوشی کر نا : جب امیرالمومنین کو خبر ملی که طلحه و زبیر نے عثمان کے قتل کا انتقام لینے کے لئے شورش برپا کی هے تو، آپ(ع) نے هنس کر فر مایا : " عثمان کو ان کے علاوه کسی اور نے قتل نهیں کیا هے ـ" اور اسی مضمون کی عبارت کو حضرت علی(ع) نے نهج البلاغه کے خطبه نمبر ١٣٧ میں یوں بیان کیا هے : " وه اس خون کا انتقام لینا چاهتے هیں ، جسے انهوں نے خود بهایا هےـ" امیرالمومنین اچھی طرح جانتے تھے که طلحه نے عثمان کے قتل میں کیسارول اداکیا تھا ، کیونکه اس نے اپنے چهرے پر پٹی باندھی تھی تاکه پهچانا نه جائے اور عثمان کے گھر کے دروازے بند کئے جانے کے بعد ، یه طلحه تھا جس نے عثمان کے ایک همسایه کے گھر سے حمله آوروں کی رهنمائی کی اور اسی نے عثمان کے گھر پر تیر پھینکا ـ [10]
ان حقائق کے پیش نظر حضرت (ع) فر ماتے هیں: " طلحه نے خود جنگ کا آغاز کیا تاکه عثمان کے قتل کے بارے میں ملزم نه ٹھرایا جائے ـ [11]"مذکوره جملوں پر غور کر نے سے معلوم هوتا هے که:
اولا، امیرالمومنین کی طرف سے اصحاب جمل کے خلاف اکثر طعنوں اور وسر زنشوں میں آپ(ع) طلحه وزبیر سے مخاطب هیں ـ یعنی حضرت (ع) جنگ کے اصلی ذمه داران هی دو کو ٹھراتے هیں اور دوسرے الفاظ میں عائشه نے اس حادثه میں فرعی رول اداکیا هے اور ان کی طرف سے استعمال هوئی هیں ـ
ثانیا ، معلوم هوتا هے که اصحاب جمل کی طرف سے جنگ کے اسباب کے طور پر پیش کئے گئے دلائل میں سے ایک بھی دلیل معقول نهیں هے ـ خاص کر جب هم جانتے هیں که عثمان کے قتل کا انتقام ایک بهانه سے زیاده کچھـ نهیں تھا، کیونکه عائشه کے بھی عثمان کے ساتھـ اچھے تعلقات نهیں تھے ـ نقل کیاگیا هے که عائشه رسول الله (ص) کے پیراهن کو لے کر عثمان کے پاس جاتی تھیں اور ان سے کهتی تھیں : " رسول خدا(ص) کا کفن ابھی خشک نهیں هوا هے که تم ان کے احکام کی اس طرح تحریف کر رهے هو ! "
پس معلوم هوتا هے که اصحاب جمل نے بظاهر ایک زیبا اور حق نما عنوان کے تحت اپنے اولی الامر کے خلاف بغاوت کی هے اور اپنے عهد و پیمان و بیعت کو توڑ دیا هے جبکه یه عنوان ایک بهانه کے سوا کچھـ نهیں تھا ـ
[1] شیخ مفید، الجمل، ص ٢٢٨، به نقل از تاریخ طبری، ج٤، ص٤٥٠ ـ ٤٤٨، الشافی ، ج٤ ، ص ٣٥٨- ٣٥٧-
[2] شیخ مفید، الجمل، ص٦٤، به نقل از مسائل الامامه، ص٥٥: فضل الاعتزال،ص٧٢
[3] شیخ مفید، الجمل، ص٣٠٤، به نقل از انساب الاشراف، ص٢٢٦ و٢٢٩
[4] شیخ مفید، الجمل، ص ٣٠٦ ،به نقل انساب الاشراف، ص٢٢٦
[5] شیخ مفید، الجمل ،ص٢٤٠، به نقل از تاریخ طبری ، ج٤،ص٤٥٥ و ٤٨٠ ، انساب الاشراق ،
٢٣٣ـ
[6] شیخ مفید، الجمل، ص٤٠٩ به نقل از سیره ابن ھشام ، ج٢، ١٥٠، سنن ترمذی ، ج٥ ،ص ٥٩٥-
[7] شیخ مفید، الجمل، ص ٤١٠ به نقل از مسند احمد ج٤، ص٣٦٩ـ
[8] شیخ مفید، الجمل ، ص٤١٠ به نقل از مسند احمد ، ج١، ص٩٩، صحیح بخاری ، ج٥، ص٧٦-
[9] سید رضی ، نهج البلاغه ، خطبه ٢١٨-
[10] سید رضی ، نهج البلاغه ، ص٢٥٥، به نقل از تاریخ طبری-
[11] سید رضی ، نهج البلاغه ، خطبه ١٧٤