Please Wait
7238
الله تعالی کی طرف سے لطف اور الله کے خلیفه اور اس کی حجت کا زمین پر موجود رهنا اور اس حجت کا حوادث زمانه سے محفوظ رهنے کو مهدویت کے لئے کلامی مبنا تلقی کیا جا سکتا هے.
علم کلام میں مهدویت کے مبانی کی تحلیل اور ان کی تحقیق کے لئے بهت تفصیلی بحث کی ضرورت هے جو هم کسی دوسرے وقت پر چھوڑ دیتے هیں، لیکن یهاں پر مختصر طور پر جو کچھ کها جا سکتا هے وه حسب ذیل هے:
علم کلام اور علم عقائد کے بزرگ علماء، مهدویت کے مسئله کو «قاعده لطف» جو علم کلام میں بهت جانا پهچانا هوا هے، اس سے مرتبط سمجھتے هیں اور امام کی ضرورت کو اس قاعده کےذریعه ثابت کیا هے. اس سلسلے میں اسلامی دنیا کے بهت عظیم متکلم، خواجه نصیر الدین طوسی (ره) یوں فرماتے هیں: «انحصار اللطف فیه معلوم للعقلاء و وجوده لطف و تصرفه آخر و عدمه منا»[1] یعنی عقلاء کے هاں یه چیز بهت واضح هے که (پیغمبر بھیجنے کے بعد) الله تعالی کے لطف کا انحصار امام کو متعین کرنے میں هی هے تا که لوگ رهبر، مربی اور معلم کے بنا نه ره جائیں اور کتاب اور سنت کے لئے کوئی شائسته اور مناسب شارح موجود هونا چاهئے اور اسی طرح فیض یابی کا واسطه نه ٹوٹے، امام کا وجود (خود بخود) ایک لطف هے، آپ کا مختلف امور میں تصرف اور معاشره میں حاضر رهنا، آپ کے توسط سے اسلامی حکومت کی تکمیل اور قرآنی تربیت کی ترویج کرنا، یه دوسرا لطف هو گا، اور آپ کی غیبت کی وجه هماری طرف سے هی هے.
«کفایة الموحدین» میں یوں ملتا هے: «کیونکه حضرت مهدی (عج) الله تعالی کے آخری خلیفه اور آخری حجت هیں، لهذا یه ضروری تھا که اپنے آپ کو حوادث کی زد سے اور ان لوگوں سے جو آپ کے در پے تھے تا که آپ کو ختم کر سکیں، ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے اور غیبت الهی کی صورت میں لوگوں کی نظروں سے پوشیده رهیں اور کیونکه امام کا مقام بھی وهی پیغمبر کا مقام هوتا هے، تو تبلیغ کے بعد (جو احکام بیان کیے جا چکے هیں) پوشیده رهنےسے، چاهے لوگ آپ کی دیدار سے محروم هی کیوں نه هوں، لیکن ان کو اپنے حال پر نهیں چھوڑا گیا هے، بلکه جو احکام موجود هیں ان پر عمل کرنا ضروری هے، هاں البته اگر کبھی دین کےتمام نوامیس کے ضائع هونے کا خدشه پیدا هو جائے تو اس وقت فوراً امام ظهور فرمائیں گے»[2]
مزید تفصیلات جاننے کے لئے مندرجه ذیل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا هے:
١ کشف المراد، ص 363
٢ شرح تجرید، ص 673
٣ کفایة الموحدین، ج3
٤ بیان العرفان، ج 5